Article -103[ regarding dismissal of PTET And PTCL appeal under CPC 12(2) by PHC ]
Pasted as received.Good news for vss optees retired.
AoA.
PTCL/PTET ki jaanib se dai'r ki gaye CPC 12 (2) ki applications aaj Peshawar High Court ne "Dismiss" kar di hain.
Alhamdulillah.
Regards,
Muhammad Tauqeer/Tanvir Toor /zulfiqar Ali Lahore cantt
(05-09-2019)
نوٹ :- مجھے کمنٹس میں بہت سے پی ٹی سی ایل دوست یہ معلوم کررھے یہ
جو پشاور ھائی کوڑٹ نے پی ٹی سی ایل کی س پی سی(۲)۱۲ کے تحت دائیر کی ھوئی درخواست خارج کردی ھے اسکا مطلب کیا ھوا ھے اسکی بابت مطلع کریں ایسے تمام دوستوں کے علم میں لانے کے لئے یہ مندجہ زیل نوٹ لکھ رھا ھوں ۔
جیسا آپ سب جانتے ھیں کے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کو سپریم کوڑٹ نے پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل مختلف ھائی کوڑٹوں میں انکے خلاف آئیے ھوئیے فیصلوں کے خلاف دائیر کردہ تمام اپیلیں خارج کردیں تھیں اور یہ حکم دیا کےپی ٹی ای ٹی ان ایسے تمام ٹی اینڈ ٹی سے کارپوریشن اور کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھونے والے ریٹائیر ملازمین کو گورنمنٹ آف پاکستان کی اعلان کردہ پنشن انکریز دینے کی سختی سے پابند ھے ۔ یہ فیصلہ تین رکنی ینچ کے ممبرز جس کے سربراہ سابق چیف جسٹس ناصرالملک , نے دیا تھا جو ممبر محترم جناب جسٹس گلزار صاحب نے لکھا تھا ۔ یاد رکھیں انکے اس فیصلے کی بنیاد مسعود بھٹی کیس 2012SMR152 میں آیا ایسے پی ٹی سی ایل میں آئیے ھوئیے ٹرانسفڑڈ ملازمین کے حق میں آنے والا فیصلہ تھا جس میں کہا گیا تھا کے ایسے تمام پی ٹی سی ایل کے وہ ملازمین جو یکم جنوری 1996 کو کارپوریشن سے ٹرانسفڑڈ ھوکر پی ٹی سی ایل کا حصہ بن گئیے تھے ان پر پی ٹی سی ایل میں گورنمنٹ کے ان سرکاری قوانین کا اطلاق ھوگا جو جو حکومت نے سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں دی گئی ھوئیں سول سرونٹ کی سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کے مطابق بنائی گئیں تھیں اور ان میں کسی بھی منفی تبدیلی کرنے کا بلکل بھی اختیار نھیں , جس سے ان ٹرانسفڑڈ ملازمین کو فائیدہ نہ ھو اور حکومت بھی ایسا نہیں کرسکتی ۔ اس کیس کے دوران بحث جب پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کے وکیل انور شاھد باجوہ صاحب نے وی ایس ایس لینے والوں ایسے ملازمین کے بارے میں کچھ کہنا چاھا وہ عدالت نے سننے سے انکار کردیا ۔
17 مئی 2017 کو پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کی اس ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے خلاف انکی رویو پٹیشن سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ ، جسکے سربراہ محترم جناب جسٹس گلزار صاحب تھے جب خارج کی ، تو پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کے بڈھے کھوسٹ وکیل خالد انور کے بیحد اصرار پر انکی درخواست پر انکو اجازت دی کے وہ سی پی سی کی سیکشن (2 )12 کے تحت ھآئی کوڑٹ سے رجوع کرسکتے ھیں ان وی ایس ایس لے ریٹائر ھونے والوں کے خلاف جنھوں نے ھائی کوڑٹوں سے رجوع کیا تھا اور مراعات حاصل کیں جبکے وہ اسکے مجاز نھیں تھے . انکے وکیل خالد انور صاحب نہ یہ الزام صرف اسلئے لگایا تھا کے ان وی ایس ایس لینے والے ملازمین کے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس انکے وی ایس ایس قبول کرنے کی وجہ سے تبدیل ھو چکے ھیں اور وہ کمپنی کے ملازم بن گئی ھیں اسلئے انکو یہ اختیار نہیں کے وہ ھائی کوڑٹوں میں اپنے مسائیل کے لئیے آئنی پٹیشن داخل کریں اور انپر حکومت پاکستان کے سرکاری ملازمین والے قوانین کا اطلاق نھیں ھوسکتا اسلئے انکی پنشن میں گورنمنٹ والا انکرییز نھیں لگ سکتا۔یہ انکی دلیل بلکل غلط تھی مسعود بھٹی کیس کی روشنی میں ۔ دراصل دوران بحث جب انھوں نے معزز عدالت کے ججوں کے ریمارکس سے یہ اندازہ لگایا تھا کے عدالت انکے ان دلائل سے مطمئن نظر نھیں آرھی اور فیصلہ انکے حق میں نھیں آسکتا اور انکی رویو اپیل مسترد ھوجائیگی تو 17 مئی 2017 کو جب کیس کا آغاز ھوا تو انھوں نے اپنی نامکمل بحث کا آغازکرتے ھی عدالت کو یہ باور کرایا ان میں سے ( یعنی Respondents میں سے ) جنھوں نے نے وی ایس ایس پیکج قبول کیا اوراسکا فائدہ اٹھایا ، اور اپنے اور ھائی کوڑٹوں سے رجوع کیا اور مزید مراعات ھائی کوڑٹوں سے حاصل کیں جسکے وہ مجاز نہ تھے کیونکے وی ایس ایس لینے ے بعد وہ کمپنی کے ملازم بن گئے تھے اسلئے ان پر گورنمنٹ کے قوانین کا اطلاق نھیں ھوتا تھا لہازا وہ آئین پاکستان کے آڑٹیکل ۱۹۹ کے تحت ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرنے کا اختیار نہیں رکھتے تھے یعنی They can not invoke the jurisdiction of high court under Article -199 of Constitution of Islamic republic of Pakistan اور نہ ھي ھائی کوڑٹ انکی کسی قسم کی اپیلیں سننے کی مجاز تھیں کیونکے یہ اسکے دائرہ اختیار jurisdiction سے باھر تھیں . اور ایسی بہت سی انکی طرف سےآئنی پٹیشنیں ابھی تک ھائی کوڑٹوں میں زیر سماعت ھیں [ میں سمجھتا ھوں کے انکا لازمی اشارہ ان وی ایس ایس والوں کے ان توھین عدالت کی دائر کردہ آئین کے آڑٹیکل 204 کی طرف تھا جو ان وی ایس ایس لینے والے اسلام آباد ھائی کوڑٹ او پشاور ھائی کوڑٹ میں داخل کر رکھی تھیں جو پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے سپریم کوڑٹ کے 12 جون 2015 فیصلے پر عمل در آمد نہ کرنے کی وجہ سے ان لوگوں نے داخل کی ھیں اور خالد انور صاحب کو یہ اعتراض کے انھوں نے یہ کیوں داخل کیں کیونکے یہ اسکے مجاز نھیں تھے او ھا ئی کوڑٹوں نے کیوں entertain کیں کیونکے یہ انکے دائرہ اختیار jurisdiction سے باھر تھیں] . اسلئے خالد انور صاحب نے عدالت عالیہ سے ان ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرنے کے لئے سی پی سی کی سیکشن (۲)۱۲ کے تحت رجوع کرنے کی اجازت مانگی اور عدالت نے انکو یہ اجازت دیتے ھوئے انکی کی رویو پٹیشن نمٹادی اور 12 جون 2015 کا سپریم کوڑٹ کا دیا ھوا فیصلہ فائنل شکل اختیار کرگیا اور ایک قانون بن گیا.
اب آپ لوگوں کے زھنوں میں یہ سوال ضرور اجاگر ھوگا کے یہ سی پی سی کی سیکشن (۲) ۱۲ کیا بلا ھے جسکے تحت سپریم کوڑٹ نے پی ٹی سی اور پی ٹی ای ٹی و ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرنے کے لئے کہا .پھلے میں یہ قانون کیا ھے وہ بتادوں جو میں نے حاصل کیا اور اسے بعد اسکی تشریح:-
"In simple words, Section 12(2) CPC, speaks of the principle that if a Decree, Order or Judgment is obtained by Fraud, misrepresentation, or where Question of jurisdiction has risen, such Order Decree or Judgment shall be challenged through an application in the same court and no other
separate Suit shall lie." یعنی اگر کوئی کسی عدالت سے فراڈ کے زریعے کوئی مراعات حصہ کرلے جبکے عدالت کے دائیرے اختیار میں وہ کیس آتا ھی نہ ھو تو اسکے اس عمل کو اسی عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ھے [تاکے عدالت اپنا حکم واپس لے اور اسکو سزا دے ]
تو پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی نے اسلام آباد ھائی کوڑٹ اور پشاور ھائی کوڑٹوں میں 12(2) CPC کے ریفرنس داخل کر دئیے [ مثلاً صادق علی ھو وی ایس ایس ریٹائیری ھیں انھوں نے پشاور ھائی کوڑٹ سے 3 جولائی 2014 کو اپنے لئیے گورنمنٹ والی پنشن کا آڑڈڑ کرایا تھا] اب پشاور ھائی کوڑٹ نے پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کی یہ 12(2) CPC کے تحت ڈالی ھوئی اپیل خارج کردی۔ اسلام آباد ھائی کوڑٹ بھی اسی طرح کی انکی اپیل پہلے خارج کر چکی ھے جسکے خلاف انھوں نے سپریم کوڑٹ میں داخل کر رکھی ھے جو زیر التوا ھے اسکے وکیل بھی یہ ھی بڈھے کھوسٹ وکیل ھیں ۔ اب یہ لوگ ظاھر ھے اس پشاور ھائی کوڑٹ کے فیصلے کے خلاف لازمن سپریم کو ڑٹ میں اپیل داخل کریں گی ۔ یہ لوگ صرف یہ چاھتے ھیں کے یہ معاملہ کوڑٹ میں رھے تاکے وہ پیمنٹ نہ کر سکیں کیو نکے وہ سمجھتے ھیں کے سپری کوڑٹ کے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے احکامات کو کسی طرح بھی اب ختم نھیں کراسکتے کسی بھی طرح قانونی طور پر ، بس اسکو جتنا بھی linger on کرائیے جاؤ وھی بہتر ھے ان کے پنشن فنڈ سے وکیل کرکے کیسس کئی جاؤ ۔ اب تک یہ لوگ اسی پنشن فنڈ سے سات کڑوڑ سے زیادہ رقم یہ لوگ ان وکلاء کو دے چکے ھیں [ یہ سینٹ کی قائیمہ نے بتایا ھے ] جبکے پی ٹی ای ٹی کو قانونی طور پر یہ کسی طرح بھی اختیار نھیں کے وہ اس پنشن فنڈ ماسوائیے پنشن کے کسی اور ند میں یہ رقم خرچ کریں ۔ حتی کے یہ اس پنشن فنڈ سے اپنی تنخواہ یا اور کسی بھی مقصد کے لئیے یہ رقم پنشن فند سے نہیں دے سکتے ۔ کوئی بھی انکو پوچھنے والا نہیں ۔
واسلام
طارق
6-9-2019
Comments