Article -128 [ Regarding HSCP order of dated 17th May 2017]

Article -128
[Amended]

نہ نو من تیل ھو گا نہ رادھا ناچے گی ؟؟؟؟؟؟؟؟

عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو
اسلام و علیکم 

 ھمارے اکثر پی ٹی سی ایل پنشنرز یہ سمجھتے ھیں کے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے کے خلاف  پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کی  کی رویو پٹیشن جسٹس گلزار صاحب نے منظور تھی  جو بلکل غلط بات ھے ۔ ان ایسے سبکو چاھئیے 17 مئی 2017 کا آڑڈڑ کو غور سے دوبارہ پڑھیں ( نیچے پیسٹ کردیا ھے )  ۔  رویو اپیل تو ڈسپوزڈ آف کی گئی تھی یعنی  ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے تین رکنی بینچ کا جو حکم تھا۔ اس میں کسی بھی قسم کی ترمیم یا اس فیصلے کو تبدیل نھیں کیا گیا تھا اور اسطرح انکی یہ رویو پٹیشن خارج ھوگئی تھی۔ صرف گلزار صاحب نے ایک یہ غلط آڑڈڑ پاس کردیا تھا کے   “ پی ٹی سی ایل کے وکیل خالد انور صاحب اگر یہ سمجھتے کے جو پی ٹی سی ایل ملازمین  نے وی ایس ایس  آپٹ کرکے ریٹائئیرڈ ھوئیے تھے انکے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشن تبدیل ھو گئیے تھے  اور وہ کمپنی کے ملازم بن گئیے  اور انکو ھائی کوڑٹوں سے  رجوع کرنے کا اختیار ختم ھو گیا تھا اور انھوں نے ھائی کوڑٹوں سے  رجوع کرکے فراڈلی طور پر  فائیدے اٹھائیے ھیں وہ انکے خلاف انھی ھائی کوڑٹوں سے س پی سی ۱۲(۲) کے تحت کیسس دائیر کریں [ یاد رھے یہ اختیار صرف سول سرونٹ کو ھی حاصل ھوتا ھے وہ ھائ کوڑٹوں سے آئین کے آڑٹیکل ۱۹۹ کے تحت اپنے grievances دور کرانے  کے لئیے رجوع کرسکتے ھیں ۔  جو  پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے ٹی اینڈ ٹی اور کارپوریشن   کے تمام ملازمین جو یکم جنوری کو 1996 ٹرانسفڑڈ ھوکر کارپوریشن سے کمپنی میں آئیے تھے ، انپر ۱۱ اکتوبر ۲۰۱۱ کو تین رکنی  سپریم کوڑٹ بینچ  کے مسعود بھٹی کیس کے فیصلے ۲۰۱۲ ایس سی ایم آر ۱۵۲  کے تحت ان پر گورمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں انکے  سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں سیکشن ۳ سے سیکشن ۲۲ تک دئیے گئیے ھیں قوانین کے مطابق بنائیے ھوئیے  سرکاری قوانین (statuary rules ) کا ھی اطلاق ھوتا ھے اور انپر کسی اور قوانین یا کمپنی کے ماسٹر اینڈ سرونٹ رولز کا اطلاق نھیں ھو سکتا ۔ سپریم کوڑٹ کے اس فیصلے میں کہا گیا ھے کے ایسے تمام ٹرانسفڑڈ پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے ملازمین  پر گورمنٹ آف پاکستان کے وھی سرکاری قوانین لاگو ھوں جو اور انکی  پی ٹی سی ایل کی طرف سے خلاف ورزی  پر ایسے متاثرہ ملازمین کو یہ اختیار ھو گا کے وہ آئین کے آڑٹیکل ۱۹۹ کے تحت ھائی کوڑٹوں سے رجوع کریں ۔اور انکی ان سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشن میں کسی قسم کی بھی منفی تبدیلی کا  اختیار پی ٹی سی ایل کو نھیں ھو گا جن سے انکو فائیدہ نہ ھو اور گورمنٹ کو بھی ایسا کرنے کی ممانعت ھے  گورمنٹ کو اختیار  نھیں ھے جن سے انکو نقصان ھو ۔ اس تین رکنی بینچ کے اس احکامات کو پانچ رکنی بینچ نے  ری کنفرم کیا انکی رویو پٹیشن 19 فروری 2016 کو خارج کرکے]۔
حقیقت یہ  محترم جناب جسٹس گلزار صاحب کا یہ رویو پٹیشن کو دسپوزڈ آف کرتے ھوئیے اس قسم کا آڑڈڑ پاس کرنا، بادئی انظر میں ایک بہت ھی غلط قسم کا فعل  تھا جو انھوں  پی ٹی ای ٹی کے ، وکیل جناب  ایڈوکیٹ خالد انور کے کہنے پر دیا [ یہ بات سب کو معلوم ھونی چاھئیے جناب خالد انور ایڈوکیٹ صاحب ایک پرانے منجھے ھوئیے وکیل سابق وزیر قانون پاکستان اورایک سابق وزیر اعظم پاکستان چودھری محمد علی کے فرزند ھیں ۔ اور عدلیہ کے معزز ججز حضرات انکا بیحد احترام کرتے ھیں ۔ انکی بات کو ٹالنا ان  محترم سپریم کوڑٹ کے ججوں کے بس میں ، بادئیانظر میں نظر نھیں آتا] اور پی ٹی ای ای ٹی کو ایک طرح کا ریلیف دے دیا کے وہ ایسے وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھونے والوں کو گورمنٹ پنشن انکریزز نہ دیں اور یہ معاملہ کھٹائی میں پڑ جائیے ۔ اسوقت پی ٹی سی ایل پنشنروں کے وکیل نے بھی اسکے خلاف بولنے کی کوشش کی مگر محترم جسٹس گلزار صاحب  نے انھیں بولنے نہیں دیا - محترم جسٹس گلزار صاحب شائید اسوقت یہ شائید بھول گئیے تھے کے مسعود بھٹی کیس میں جو مین اپیلنٹ مسعود بھٹی صاحب تھے ، وہ  بزات خود ھی وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے انکو تو  سپریم کوڑٹ   نے اپنے اس  کیس کے فیصلے میں (جو اوپر بیان کیا گیا ھے ) سندھ ھائی کوڑ ٹ سے رجوع کرنے کا حکم دیا تھا کے وہ “ یہ تصور کریں کے انکی یعنی ، مسعود بھٹی کی پٹیشن جو انھوں نے سندھ ھائی کوڑٹ میں داخل کی تھی ، “وہ پٹیشن ابھی سندھ ھائی کوڑٹ میں ھی پینڈنگ پڑی ھے اور ھائی کوڑٹ نے ھمارے اس فیصلے کی روشنی میں اسکا فیصلہ کرنا ھے”۔ 
تو بقول خالد انور ایڈوکیٹ اگر انکی وی ایس ایس لینے کی وجہ سے  مسعود بھٹی کے سروس ٹرمز بھی تبدیل ھو جاتے ھیں اور وہ کمپنی کے ملازم بن جاتے تو کیوں تین رکنی سپریم کوڑٹ کے بینچ نے انکی ایپل کیوں نہیں مسترد کردیں  اور یہ فیصلہ نھیں دیا کے وہ وی ایس لینے کی وجہ سے کمپنی کے ملازم بن گئیے اور وہ ھائی کوڑٹ سے رجوع نھیں کرسکتے تھے ۔ چونکے ایسی بات ھرگز ھر گز نھیں تھی تو تب ھی تو سپریم کوڑ ٹ نے یہ انکو دوبارہ ھائی کوڑٹ سے رجوع کرنے کا حکم  دیا ۔ یاد رھے سپریم کوڑٹ کے  اس تین رکنی بینچ کے اس ۱۱ اکتوبر ۲۰۱۱ کے فیصلے کو پانچ رکنی بینچ نے ، انکی رویو پٹیشن 19 فروری 2016 کو خارج کرکے اس پر مہر ثبت لگادی ۔ تو بحیثیت تین رکنی بینچ کے سربراہ ، محترم جسٹس گلزار صاحب کو یہ بھی اختیار حاصل نہیں تھا کے وہ ۸ معزز سپریمُ کوڑٹ کے ججوں کے اس فیصلے 
کسی قسم کی زرا سے ترمیم بھی کرتے ۔

اس غلط پاس کئیے ھوئیے آڑڈڑ کا فائیدہ پی ٹی ای ٹی یہ اٹھایا کے انھوں نے وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھونے والے پٹیشنروں کو گورمنٹ کا اعلان کردہ انکریزز نھیں دئیے ۔ انھوں پہلے ، اس 17 مئی 2017 کے آڈڑ کے تحت اسلام آباد ھائی کوڑٹ اور پشاور ھائی کوڑٹوں میں ان پٹیشنروں کے خلاف ، سی پی سی ۱۲(۲) کے تحت کیسس کردئیے ۔ جو ڈسمس ھوگئیے اور پھر اس ڈسمس کیسس کے خلاف سپریم کوڑٹ میں اپیلیں داخل کردیں . جہاں جو پینڈنگ ھیں ۔ کیسس جب بھی لگے وہ ھمیشہ چیف جسٹس گلزار صاحب کی سربراہی والی بینچ میں لگے اور ھمیشہ بغیر سنے adjourned ھو جاتے ھیں۔ 
جب  پچھلے سال 26  اپریل 2019 کو  ھونے والی ایک ھئیرنگ کے دوران  جب صادق علی اور دیگران کے انگیج کئیے ھوئیے بڑے وکیل سید افتخار حسین   گیلانی  [ انکو صادق علی  نے اپنے خلاف انکی اپیل نمبر سی پی 1018 اور دیگر تین نے اپنے خلاف اپیل نمبر 1026  کے لئیے وکیل کیا ھے] نے یہ محترم جسٹس گلزار صاحب سے یہ ھی اعتراض اٹھایا کے انھوں نے غلط سی پی سی ۱۲(۲)  کے تحت کیسس دائیر کرنے آڑڈڑ پاس کیا ۔ تو اس پر محترم جسٹس گلزار صاحب  نے کہا ٹھیک ھے “ اسکے لئیے ایک بڑا بینچ تشکیل دے دیتے ھیں وہ اسکا فیصلہ کریگا” ۔ مگر نھوں نے اس روز کی آڑڈڑ شیٹ پر ایسا کوئی حکم جاری نھیں کیا ۔ وہ آڑڈڑ شیٹ کی کاپی بھی میں نے نیچے پیسٹ کردی ھے آپ لوگوں کی آگاھی کے لئیے ۔ 

سپریم کوڑٹ نے پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کی طرف سے اسلام آباد ھائی کوڑٹ اور پشاور ھائی کوڑٹ میں انکی دائیر  سی  پی سی ۱۲(۲) کی گئی ھوئی اپیلوں کو خارج کے خلاف اپیلوں کو ، ان کی کریمنل پٹیشنوں کے ساتھ کلب کردیاجو  صادق علی اور دیگران نے ، سپریم کوڑٹ کے ۱۲جون ۲۰۱۵ کے احکامات پر عمل نہ کرنے پر توھین عدالت کے کیسس کئیے تھے ۔ اور سپریم کوڑٹ ان توھین عدالت کے کیسوں پر بھی کوئی بھی کاروائی  نھیں کررھی تھی کیونکے ھمیشہ یہ تمام کلب کیسس کسی نہ کسی بہانے ملتوی ھو جاتے ھیں ۔ آخری مرتبہ پچھلے سال یہ شائید 7 اکتوبر 2019 کیس لگا تھا وہ بھی بغیر سنے ملتوی ھوگیا ۔ اور ابتک پینڈنگ ھے ۔ اور میرے علم میں بلکل نھیں اسکے بعد سے ابتک اس سال یہ کیسس 
لگے ھیں یا نھیں ۔ 

وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھونے والے پٹیشنرس پینشنرس سمجھتے ھیں کے شائید ھی چیف جسٹس گلزار صاحب کے ھوتے ھوئیے اسکا فیصلہ ھو ۔ انکا یہ خدشہ بلکل صحیح ھی ۔ لیکن انکو یہ بات ھمیشہ یاد رکھنی چاھئیے کے جب بھی فیصلہ ھو ، ھو گا انکے ھی حق میں ھی انشاللہ ھو گا۔  کیونکے 8 معزز ججوں کے فیصلے نے یہ مہر ثبت لگادی ھے کے انکے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشن میں کسی طرح کی بھی ترمیم نھیں ھوسکتی  اور نہ ھی یہ کمپنی کے ملازم بن سکتے ھیں  اسلئیے جو لوگ وی ایس ایس لے ریٹائیڑڈ  ھوئیے اور انھوں ہ اسلام آباد ھائی کوڑٹ سے رجوع کرکے گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن اور بینیفٹس حاصل کئی ، انھوں نے کوئی فراڈ نھیں کیا انھوں نے اپنا حق استعمال کرتے ھوئیے صحیح طور پر آئین کے آڑٹیکل -199 کے تحت ھائی کوڑٹوں سے رجوع کیا ۔ یہ بات پی ٹی ای ٹی والے بھی خوب جانتے ھیں  جبھی اپنی ڈالی ھوئی اپیلوں پر جلد از جلد فیصلے کے لئیے کوئی کوشش نھیں کرتے کیونکے وہ یہ سمجھتے ھیں جب تک یہ اپیل پینڈنگ پڑی رھے گی وہ کسی بھی وی ایس ایس آپٹیز  پی ٹی سی پنشنرز کو  گورنمنٹ کی اعلان کردہ  پنشن اضافے جات کی پیمنٹ نہیں کرسکتے یعنی نہ نو من تیل ھو گا نہ رادھا ناچے گی 
واسلام 
طارق
راولپنڈی
17-10-2020


نوٹ : 17 مئی 2017 کا سپریم کوڑٹ کا تفصیلی آڑڈڑ دیکھنے کے لئیے میرے اس فیس بک پیج کو کو کلک کریں

https://www.facebook.com/1218137701/posts/10225172503879195/

Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]