Article -136 [ Regarding further new steps by PTCL Pensioners]

نوٹ : اس آڑٹیکل ۔136 کا آغاز میں نے 16 فروری 2021 کو کیا تھا ، مگر طبیعت کی خرابی کی وجہ سے جلد مکمل نہ کر سکا اور آج 6 مارچ کو مکمل کررھا ھوں ۔ میرا یہ آڑٹیکل بیحد اھم ھے آپ سب لوگوں سے درخواست کے اسے ضرور پڑھیں اور اپنی رائیے سے کمنٹس میں آگاہ کریں۔ شکریہ
طارق

‏Article-136

اور کہانی ختم ھوگئی . . . . . قائیمہ کمیٹی برائیے  انفارمیشن ، ٹیکنولوجی اینڈ ٹیلیکام  نے پی ٹی سی ایل پنشنروں کو پی ٹی ای ٹی کی طرف پیمنٹ کرنے کا معاملہ بند کردیا اور رپوڑٹ ھاؤس آف سینیٹ کو بھیج دی ۔۔ ۔ ۔ ۔ اب پی ٹی سی ایل پنشنرز  کا آئیندہ کا لائیحہ عمل کیا ھونا چاھئیے۔

میرے عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو 
اسلام وعلیکم 

۱۵ فروری ۲۰۲۱ کو ھونےوالے سینیٹ کی قائیمہ کمیٹی برائیے انفارمیشن اینڈ ٹیکنولوجی کے اجلاس کے بارے  16 فروری 2021 کے اخباری نیوز کلپ اور اس کے بارے ، جو پی ٹی سی ایل پنشنرس کے نمائندے ، اس میٹنگ میں موجود تھے ، انکی رپوڑٹ میں نے نیچے پیسٹ کردی ھیں ۔ جسکے مطابق سینیٹ کی قائیمہ کمیٹی برائیے انفارمیشن اینڈ ٹیکنولوجی نے 15 فروری 2021  کو ھونے والے اپنے آخری اجلاس میں , پی ٹی سی ایل  پنشنروں کے پنشن اضافہ جات کا معاملہ حل نہ ھونے پر پی ٹی ای ٹی پر شدید برھمی کا اظہار کیا اور معاملہ ختم کرتے ھوئیے اسکی رپوڑٹ  ایوان بالا سینیٹ میں  پیش کرنےکا عندیہ دیا۔ کمیٹی کی اس دن کی سربراہ سینٹر رخسانہ زبیری  پی ٹی ای ٹی حکام کی سخت سرزنش کی جنھوں نے ، بقول انکے انکو پچھلے تین سالوں سےدائیروں میں گھما کر رکھا ھواھے اور کمیٹی کی ھدایات پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رھے ھیں جس سے ایوان کا استحاق مجروح ھوا ۔ مزید برآں انھوں نے کہا کے یہ معاملہ اب کمیٹی ختم کرتی ھے اور اسکی رپوڑٹ ایوان بالا یعنی سینیٹ میں پیش کی جائیگی . اب سینیٹ ، پی ٹی ای ٹی کے ان حکام سے سینیٹ کے ان ممبران کے استحقاق مجروح کرنے پر، انکے خلاف کیا کاروائی کرتی ھے  . اور کیسے اور کب  پی ٹی سی ایل پنشنروں کو اپنی قرار داد کے مطابق انکا حق دلاتی ھے یہ تو آنے والا وقت ھی بتائیے گا اور یہ  کب آئیگا ؟ خدا ھی جانے. . .  ع  
کون جیتا ھے تیرے زلف کے سر ھونے تک؟؟؟؟
اس کمیٹی کے اجلاس میں ، سیکریٹری ایم او آئی ٹی ٹی  جناب شعیب صدیقی اور اور پی ٹی سی ایل کی ممبر زاھدہ اعوان صاحبہ جو ای وی پی لیگل پی ٹی سی ایل بھیجیں اور بوڑڈ آف ٹرسٹیز میں پی ٹی سی سی ایل  کی طرف سے ایک ممبر، ان دونوں کے انکشافات پڑھکر بہت حیران ھوئی ۔  سیکریٹری ایم او آئی ٹی ٹی  جناب شعیب صدیقی کا فرمانا تھا کے یہ معاملہ انکے محکمہ کا نہیں انکا پاکستان ٹیلیکمیونیکیشن ایپمپلائیز ٹرسٹ پر کوئی اختیار نہیں  ، تو سوال پیدا ھوتا ھے حضور والا جب کی قائیمہ کمیٹی برائیے انفارمیشن اینڈ ٹیکنولوجی  کی اس رپوڑٹ کو  جو 8 جنوری 2020 کو ھاؤس آف سینیٹ میں  پیش کی گئی تھی جسکو اسنے متفقہ طور پر 28 جنوری  2020 کو اڈوپٹ کیا تھا اور پی ٹی سی ایل پنشنروں گورمنٹ کے اضافے جات والی رقم  ادا کرنے کے لئیے 29 جنوری 2020 کو ، سیکٹری کمیٹی اعظم خان نے سیکریٹری منسٹری آف  انفارمیشن اینڈ ٹیکنولوجی  کو  ایک لیٹر( کاپی منسلک)  کے زریعے مطلع کیا کے  سینیٹ ھاؤس نے یہ ریزولیشن ، یعنی پی ٹی سی ایل پنشنرس کو پیمنٹ کرنے کا ،  سینیٹ کے بزنس  پروسیجر اینڈ کنڈکٹ کے رولز 2012 کے رول (3)196 کے تحت   اڈوپٹ کیا ھے  جو یہ کہتا ھے کے " ھاؤس آف سینیٹ سے رپوڑٹ کو اڈوپٹ ھونے کے بعد اسکو متعلقہ منسٹری کو اس پر عملدرآمد کرنے کے لئیے بھیجا جائیگا اور اگر منسٹری ، اس ھاؤس کے فیصلے پر  عملدرآمد کرنے سے قاصر ھوئی تو وہ اسکی بابت ، وجوھات کے ساتھ دو مہینے کے اندر اندر ھاؤس آف سینیٹ کو مطلع کریگی اور نہ مطلع کرنے کی صورت پر اس پر عمل کرنا اسکے لازمی جز  بن جائیگا ." تو سیکٹری  شعیب صدیقی  صاحب کا یہ یہ کہنا  کے پی ٹی ای ٹی کا معاملہ انکے یعنی منسٹری اختیار میں نہیں آتا تو یہ سب انھوں نے ایک سال پہلے مطلع کیوں نھیں کیا ۔ جو انکو قانون کے مطابق دو ماہ کے اندر اندر ھاؤس آف سینیٹ کو مطلع کرنا چاھئیے تھا  ۔ دو ماہ گزرنے کے بعد ان پر اس پر عمل درآمد کرانا انُپر لازم ھو گیا تھا، یہ کچھ نہ کرسکے اور اب یہ جواب دیا ۔ انھوں نے ایوان بالا سینیٹ کی سخت توھین کی ھے ۔ اسلئیے اب اسکےلئیے ضروری ھوگیا ھے کے انکے ھاؤس آف سینیٹ انکے خلاف  سخت تادیبی کاروئی کرے اور تمام ان ممبران بوڑڈ آف ٹرسٹیز کے خلاف بھی  جنھوں نے اس پر عملدرآمد کرنے کی منظوری نھیں دی۔سیکریٹری شعیب صدیقی صاحب چاھتے تو اس پر بڑی آسانی سے عملدرآمد کراسکتے تھے کیونکے انکی منسٹری کے تین ممبر اس بوڑڈ آف ٹرسٹیز کا گورمنٹ کی طرف سے ممبرز تھے ، اور وہ انکو آفیشیلی ڈائریکٹ کرکے کے وہ پی ٹی سی ایل پنشنران  کے حق میں ، بوڑڈ آف ٹرسٹیز کے اجلاس میں ووٹ دیں تاکے میجاڑٹی ووٹ کی بنیاد پر بوڑڈ آف ٹرسٹیز کا فیصلہ پی ٹی سی ایل پنشنرس کے حق میں آئیے . سیکریٹری  شعیب صدیقی  صاحب  کا یہ بیان کے  پی ٹی ای ٹی کا معاملہ انکے یعنی منسٹری اختیار میں نہیں آتا بلکل غلط ھے ۔ اسکی زندہ مثال اس منسٹری کی طرف سے پی ٹی ای ٹی کے کے لئیے اسکے پنشن رولز  ۲۰۱۲ بنانا ھے ۔ ان رولز کے پہلے صفحے کی کاپی میں نے آپ لوگو ں کی آگاھی کے لئے نیچے پیسٹ کردی ھے آپ لوگ خود ھی ملاحظہ فرمالیں کے جو منسٹری  انفارمیشن , ٹیکنولوجی اینڈ ٹیلیکام  کی طرف سے جاری ھوا  ۔[ آپ سب لوگوں کے لئیے اطلاعن عرض ھے کے پشاور ھائی کوڑٹ نے یوسف آفریدی بنام فیڈریشن آف پاکستان کی رٹ پٹیشن نمبر 2657/2012 پر ، اپنے3 جولائی 2014 کے فیصلے میں  یہ قرار دیا کے ان رولز کا اطلاق صرف ان پی ٹی سی ایل کے ان ملازمین پر ھی ھوگا  جنھوں نے یکم جنوری 1996 کے بعد کمپنی میں ملازمت اختیار کی ھوگی . پی ٹی ای ٹی نے اس فیصلے خلاف سپریم کوڑٹ میں  سول پٹیشنس نمبرز 1597,1602, 2064, آف 2014 داخل کیں جو سپریم کوڑٹ نے اپنے 12 جون 2015 کے فیصلے میں ڈسمس کردیں بعد میں اسکے خلاف انکی رویو پٹیشن بھی  ڈسمس ھوگئیں اور یوں یہ پشاور ھائیکوڑٹ کا یہ فیصلہ امر ھوگیا۔ اس پی ٹی ای ٹی نیو پنشن رولز 2012  کی کلاز (4)7 کے تحت بوڑڈ آف ٹرسٹیز کو یہ قطعی   اختیارات دئیے گئیے تھے کے صرف  وہ ھی پنشن میں اضافے کا وقتن فوقتن اضافہ کرسکتے ھیں ۔ اگر ان نیو پی ٹی ای ٹی پنشن رولز 2012 کو پشاور ھائی کوڑٹ پی ٹی سی ایل  میں کام کرنے ٹرانسفڑڈ ملازمین ، جن پر گورمنٹ کے سرکاری قوانین (statutory rules ) اطلاق ھوتا ھے ، انکے لئے کلعدم نہ قرار دیتی،  تو جو 12 جون 2015 کو سپریم کوڑٹ کا فیصلہ  ایسے پی ٹی سی ایل پنشنرز کے حق میں  آیا وہ کبھی نہ آتا]،  تو پھر سوال  یہ پیدا ھوتا ھے کے سیکریٹری صاحب نے ایسا بیان کیوں دیا، وہ جناب اسلئیے  کیونکے وہ تو پی ٹی سی ایل کے زر خرید غلام ھیں ۔ اور اسکے  چئیرمین آف بوڑڈ آف ڈائیریکٹرز جو ھیں ، پی ٹی سی ایل ھزاروں ڈالر کا مشاھرہ دیتی ، جو پندرہ ھزار ڈالر کے لگ بھگ ھے اور انکو دیگر مراعات بھی دے رکھیں ھیں ۔ تو وہ کیوں نہ پی ٹی سی ایل کے گن گائیں گے ۔ اسی طرح کے انکی منسٹری کے تین آفیسران جو پی ٹی ای ٹی بوڑڈ آف ٹرسٹیز کے گورمنٹ کی طرف سے ممبرز ھیں جن میں سے ھر ایک کو سات ھزار ڈالر ، فی بوڑڈ کی میٹنگ دیتی ھے اور دیگر مراعات کے علاوہ ، تو ایسے لوگ کیسے پی ٹی سی ایل پنشنرز کی حمایت کرسکتے ھیں سوچنے کی بات ھے ؟؟؟۔
اس 15 فروری 2021 کی میٹنگ میں پی ٹی سی ایل کی ای وی پی لیگل محترمہ زاھدہ اعوان ، جو بوڑڈ آف ٹرسٹیز  کی ممبر بھی ھیں ، انکا یہ انکشاف کے پی ٹی سی ایل کے پاس فنڈ کی کمی ھے اسلئیے وہ یہ پنشن کا اضافہ جات نھیں دے سکتی ۔ اور پھر انکا یہ کہنا کے انھوں دوسال پہلے پہ منسٹری  انفارمیشن , ٹیکنولوجی اینڈ ٹیلیکام لے اس ٹرسٹ کو ھم سے واپس لے لیں ۔ یہ دونوں انکشافات بڑے حیران کن ھے۔    [جہاں تک پنشن دینے کا معاملہ ھے وہ تو پاکستان ٹیلیکمیونیکیشن ایمپلائیز ٹرسٹ کی ھی زمہ داری ھے  جسکی تشکیل حکومت نے  یکم جنوری  1996  سے پی ٹی ( ری آرگنئزیشن) ایکٹ 1996  کی شق 44 تشکیل کی گئی   اور پنشن فنڈ اس ایکٹ 1996 شق  45 کے تحت  تقویض کیا تھا جسکے زریعے یہ ٹرسٹ  ٹی اینڈ ٹی ،  پی ٹی سی اور پی ٹی سی ایل سے ریٹائیڑڈ ھونے والے سرکاری ملازمین کو پنشن ادا کرتا ھے ۔ یاد رھے یہ پنشن فنڈ حکومت پاکستان نے پی ٹی سی  ھیڈ کوارٹر اسلام آباد  میں قائیم کیا تھا اور 2 اپریل 1994 کو ایک ٹرسٹ ڈیڈ کے زریعے پی ٹی سی کے چھ بڑے سینئرآفیسران کو اسکا ٹرسٹیز بنایا گیا تھا جن میں چئیرمین پی ٹی سی بھی شامل تھے۔  اس ٹرسٹ ڈیڈ کی بنا پر یہ ٹرسٹیز اس کے پابند تھے  کے وہ  فیڈرل گورمنٹ کے مروجہ پنشن قوانین کے ھی مطابق وہ ٹی اینڈ ٹی اور پی ٹی سی سے ریٹائیڑڈ ھونے والے ملازمین کو پنشن ادا کریں ]۔   اب یہ کب سے اس پنشن دینے کا اختیار پی ٹی سی ایل  کو کس قانون اور ایکٹ کے زریعے تقویض کردیا گیا  جو پی ٹی سی ایلُ اپنے کھاتے سے ادا کررھا تھا اور کب   سے ? ۔ بات سمجھ میں نہیں آئی ۔ سپیشل سینیٹ کمٹی قائیمہ کمیٹی برائیے انفارمیشن اینڈ ٹیکنولوجی  اپنی جو اسپیشل رپوڑٹ  1/2019 کے سینیٹ کے  8 جنوری 2020 کے اجلاس میں پیش کی ، جسکو 28 جنوری 2020 کو اڈوپٹ  کیا گیا جسکے متعلق اوپر بیانُ کر چکا ھوں اسکے پیرا  میں E میں کمیٹی نے لکھا کے "یہ ٹرسٹ  پی ٹی سی ایل کے  دباؤ  کے اندر کام کرتا ھے . ٹرسٹ کا میجنگ ڈائیریکٹر  پی ٹی سی ایل کا ایمپلائی ھے  ( یاد رھے  اس ٹرسٹ کے بوڑڈ آف ٹرسٹیز کا اختیار ھے کے وہ صرف   باھر سے اپنے منیجر اور دوسرا سٹاف   Appoint کریں )۔ پی ٹی سی ایل  اپنے حصے کی پنشن فنڈ میں ادا کرنے والی  سالانہ کنٹریبیوشن کی رقم  ، جو بوڑڈ آف  ٹرسٹیز طے کرتے ھیں , 2008 سے ادا نہیں کررھا ھے اسلئیے اسکی وجہ  سے اپریل 2019 تک سات ارب روپے کا خصارا ھو چکا ھے ۔ 
قائیمہ کمیٹی برائیے  انفارمیشن ، ٹیکنولوجی اینڈ ٹیلیکام کے اس فیصلے کے اسنے ی ٹی سی ایل پنشنروں کو  پیمنٹ کرانے کرانے کا یہ معاملہ ، اب بند کررھی ھے اور اسکی رپوڑٹ ھاؤس آف سینیٹ کو بھجوائیے جائیگی ، پی ٹی سی ایل پنشنروں ، جو یہ آس لگائیے بیٹھے تھے  کے انکو ھاؤس آف سینیٹ کی متفقہ طور پر منظور کی ھوئیی قرارداد کے مطابق ضرور  پنشن کی پیمنٹ ھو جائیگی ، انکو کمیٹی کے اس فیصلے سخت دکھ سخت دکھ اور مایوسی ھوئی ھے ۔ لیکن یقین جانئیے نہ تو مجھے کوئی دکھ ھوا اور نہ ھی کوئی مایوسی کیونکے میں نے شروع سے اپنا یہ زھین بنا کر رکھا تھا،  کے جو لوگ سپریم کوڑٹ کا حکم نہیں مانتے  وہ اس سینیٹ کا کیا حکم مانیں گے اور جسطرح اس کمیٹی اپنا کام کررھی تھی اس میں نے بہت پہلے ھی ھی اندازہ لگا لیا تھا کے ان تلوں میں تیل نہیں ھیں ۔ کمیٹی اس قابل تو نھیں کے سینیٹ کے حکم عدولی پر انکے خلاف کوئی قانونی کاروائی کرتی یا انکو جیل بھیج دیتی وہ صرف انکی حکم عدولی کی رپوڑٹ ھی ھاؤس آف سینیٹ بھیجنے کی ھی مجاز تھی ۔  اب باقی کام سینٹ کا ھے وہ انکی اس رپوڑٹ پر کیا ایکشن ، انکے خلاف لیتی ھے ۔ یہ تو آنے والا اب وقت ھی بتائیے گا ۔ لیکن میں ایک بات اپنے تمام پی ٹی سی ایل پنشنرز بھائیوں کو بتا دینا چاھتا ھوں   کے ھم کو جو بھی ریلیف ملے گا صرف اور صرف عدالت سے ھی ملے گا نہ کسی اور سے ۔ یہ جو پی ٹی  سی ایل کی ای وی پی لیگل محترمہ زاھدہ اعوان   نے یہ کمیٹی میں بیان دیا کے وہ پنشن فنڈ کی کمی کی وجہ یہ پنشن کی ادئیگیاں نہیں کرسکتے  ۔ زرا یہ وہ یہ ھی بیان ان عدالت کے توھین عدالت کے کیسوں کی ھئیرنگ کے دوران دے کر تو دیکھیں ، جو پی ٹی سی ایل پنشنروں نے ادائیگی نہ کرنے کی وجہ انپر کر رکھے ھیں ، تو عدالت انکا کیا حشر کرتی ھے وہ اس کمپنی کو بھی قرق کرکے ان پنشن کی ادئیگیاں کا حکم بھی دے سکتی ھے،. یہ بات ھم سب کو یاد رکھنی چاھئیے کے جو تاریخی فیصلہ جو سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے مسعود بھٹی کیس میں 7 اکتوبر 2011 کو دیا تھا اور جسپر 19 فروری 2016  کو پانچ رکنی سپریم کوڑٹ نے مہر ثبت لگائی تھی اور پھر اسی فیصلے کی بنیاد پر ھی ھائی کوڑٹیں پی ٹی سی ایل پنشنرز اور ملازمین کے حق میں فیصلے دے رھے ھیں کیونکے نہ تو ھائیکوڑٹ کا یہ اختیار ھے وہ اب سپریم کوڑٹ کے ان فیصلوں کے خلاف پی ٹی سی ایل پنشنروں یا ملازمین کے خلاف کوئی فیصلہ کریں۔ سپریم کوڑٹ نے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کو [  جو 2012SCMR1472 میں درج ھے ] پی ٹی سی ایل پٹیشنرز پنشنرز کے حق میں  جو فیصلہ دیا تھا  اسکی بنیاد یہ ھی سپریم کوڑٹ کا مسعود بھٹی کیس  7 اکتوبر 2011 کا فیصلہ تھا [جو اب 2012SCMR152 میں درج ھے ] حالانکے اسوقت انکی رویو پٹیشن سپریم کوڑٹ میں زیر سماعت تھی اور  پھر اسی ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے کے تحت 343 ایسے پٹیشنروں کو  پی ٹی ای ٹی  نے گورمنٹ کی اعلان کردہ اضافہ جات کی پیمنٹ فروری ۲۰۱۸ میں کی ۔ اور جو سپریم کوڑٹ کا فیصلہ  راجہ ریاض کے حق  میں  فیصلہ [ جو 2015SCMR1783 میں درج ھے ] 
6 جولائی 2015 کو راجہ ریاض میں سپریم کوڑٹ کا فیصلہ آیا اسکی بنیاد یہ 12 جون  2015 والا یہ ھی سپریم کوڑٹ کا ھی فیصلہ تھا۔  اب تک جتنے بھی کیسس پی ٹی سی ایل ملازمین یا ریٹائیڑڈ ملازمین  کے حق میں ھائی کوڑٹوں نے دئیے ھیں ، ان سب کی بنیاد یہ ھی سپریم کوڑٹ کے انکے حق میں آنے والے فیصلے ھیں ۔ بس یہ ضرور ان فیصلوں پر عملدرآمد نھیں  کیا گیا اور جب عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ ھائی کوڑٹوں اور سپریم کوڑٹ میں پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل  کے خلاف جو توھین عدالت کے کیسس کئیے ھوئیے  وہ پینڈنگ ھی ھیں اور عرصہ دراز سے انُ پر کوئی کاروائی ھی نھیں کی جارھی یہ سب انکے وکیل شاھد انور باجواہ کی ملی بھگت سے ھی ھورھا ھے جو سابق جج سندھ ھائی کوڑٹ ھیں  ۔ یہ اس دو رکنی بینچ کا حصہ تھے جنھوں نے پی ٹی سی  ایل میں کام کرنے والے  سابقہ ٹی اینڈ اور پی ٹی سی کے ملازمین  کو کمپنی کا ملازمین قرار دیا تھا کے ان پر گورمنٹ کے قوانین  کا اطلاق نھیں ھوتا ۔ اور یہ فیصلہ انھی سابقہ جج جسٹس شاھد انور باجواہ نے لکھا تھا جس کی توثیق بینچ کے دوسرے جج ممبر جسٹس گلزار احمد نے کی تھی ، جو آجکل چیف جسٹس پاکستان ھیں ۔ [انکا یہ 6 جون 2010 فیصلہ سپریم کوڑٹ کے تینُ رکنی بینچ نے ، مسعود بھٹی کیس میں 7 اکتوبر 2011 کو خارج کردیا تھا ] ۔  شاھد انور باجواہ صاحب اپنی دوستی سے فائیدہ اٹھاتے سپریم کوڑٹ کوڑٹ میں پی ٹی سی ایل پنشنروں کی طرف سے دائیر کردہ توھین اور دیگر کیسس پر کاروائی ھونے نھیں دیتے اسی طرح جو کیسس ھائی کوڑٹوں میں لگے ھیں انکو بھی چلنے بھیں دیتے  کیونکے چیف جسٹس جو گلزار صاحب انکے دیرینہ دوست ھیں ۔ کتنے کیسس سپریم کوڑٹ میں پینڈنگ پڑے ھوئیے ھیں جو پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل نے ان  ھائی کوڑٹوں  کے فیصلوں کے خلاف  دائیر کئیے ھوئیے ھیں  جو ھائی کوڑٹوں نے ان پی ٹی سی ایل پنشنرز  کے حق میں کئیے ھیں . اسی طرح ان پی ٹی سی ایل پنشنروں کی طرف سے سپریم کوڑٹ میں توھین عدالت کے کریمنل کیسس پڑے ھوئیے ھیں آخر کب تک ، ایک نہ ایک دن تو ان  ان پینڈنگ اور توھین عدالت کے کیسوں پر تو ضرور کاروائی  ھوگی اور انکو عدالتی فیصلوں پر لازمن عمل کرنا ھوگا ۔  
عدالتوں  کی  طرف سے اس سرد روئیے  اور سرد مہری کی وجہ سے لوگ بیحد مایوس ھوچکے ھیں اور جن لوگوں نے مقدمات نھیں کئے وہ بلکل کرنا نھیں چاھتے ۔پھر سوال یہ پیدا ھوتا ھے کے آخر کیا کیا جائیے کس سے انصاف مانگا جائیے کس سے اپنے حقوق لئیے جائیں اگر عدالتوں کی سرد مہری کی وجہ سے خلاف مقدمات کرنا چھوڑدیں  تو کوئی فائیدہ نھیں ھو گا الٹا نقصان ھی ھوگا ۔ یقین جانئیے یہ ھی عدالتیں ھی آپکو ریلیف دیں گی اور کوئی  نھیں دے سکتا  ۔اسلئیے تمام پی  ٹی سی ایل پنشنروں پر لازم ھوگیا ھے کے ھر ایک  کو اپنا اپنا حق  حاصل کرنے کے لئے خود انھیں عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانا ھوگا . سب کو آپس میں اتحاد پیدا کرکے  گروپ کی صورت میں individually طور پر ھائی کوڑٹوں میں آئینیی پٹیشنیں ھائی کوڑٹوں میں داخل کرنیں پڑیں گی کے ان سے سپریم کوڑٹ کے بنائیے مروجہ اصولُ اورقانون کے مطابق جو اسنے حمید اختر نیازی کیس  یعنی  1996SCMR1185  میں دیا تھا . میں نے اپنے آڑٹیکل 135 ( جسکے دو پاڑٹ۔ تھے) اسطرح کیسس کرنے کے لئیے گائیڈ لائنز دی تھیں  ۔ اس میں پہلے ڈیپاڑٹمنٹل اپیل کرنے کا ڈرافٹ اور رٹ پٹیشن کا ڈرافٹ دیا تھا ۔ جس میں نے بہت سے اور ھائی کوڑٹوں میں ایسے کیسس کے ریفرنس بھی دئیے تھے جنھوں نے سپریم کوڑٹ کے اسی حمید اختر نیازی کیس کو فالو کرتے ھوئیے  نان پٹیشنروں کو ریلیف دئیے تھے ۔   میں گروپ میں  یہ مقدمات کرنے کے لئیے اسلئیے کہہ رھا ھوں تاکے ایک  اچھا سا اچھا  دبنگ وکیل کیا جاسکے  ۔ یقینن ایسے وکیلوں فیس بیحد زیادہ ھوتی ھے جو  ھر ایک خود  زاتی طور پر خود دے سکے ۔ آپ جب  اچھا او ایماندار  اور  سروس اور آئینی میٹرز میں نہایت تجربہ کار وکیل کریں گے جب ھی  فائیدہ اٹھا سکیں گے ۔ اس وقت  کا تقاضا  یہ ھی کے کوئی اچھا اور قابل بھروسہ ھی وکیل کرنا  چاھئیے ۔ کوئی چھوٹا موٹا وکیل صرف اسلئیے نہیں کرنا چاھئیے کے وہ فیس تو کم لیتا ھے  مگر ایسا وکیل بلکل بھی قابل بھروسہ نہیں ھوتا  وہ اندرون خانہ دوسری پاڑٹی سے مل جاتا ھے اور وھاں سے انکو بلیک میل کرکے فائیدہ اٹھاتا  ھے ۔  اسوقت میری نظروں میں دو اچھے وکیل  ھیں ۔ ایک  اسلام آباد سے حافظ عرفات چوھدری ایڈوکیٹ [5675800-0333] او دوسرے وکیل لاھور سے  ایڈوکیٹ عائیشہ حمید 
[0300-060698, 042-111-551-111]. جنھوں نے پنشن کے حق میں بہت کیسس جیتے ھیں اگرچہ انکی فیس دس لاکھ کے قریب شائید ھیں ۔  اگر زیادہ سے زیادہ لوگ گروپ میں شامل ھوکر انکو وکیل کریں گے تو انکے ھر  حصہ میں انکی فیس کم سے کم آئیگی ۔ بحر حال یہ میری آپ لوگوں پر ھی منحصر آپ اب کیا کرتے ھیں ۔ میرا تو یہ فرض بنتا ھے  کے جو صورت حال اب پیدا ھوگئی ھے ، اسکے مطابق آپ سبکو صحیح گائیڈ کروں
واسلام
محمد طارق اظہر
ریٹائیڑڈ جنرل منیجر ( آپس) پی ٹی سی ایل 
راولپنڈی 
Dated 6th  March 2021

 ڈیکومنٹس دیکھنے کے لئیے نیچے کلک کریں

Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]