Article-137 Part -1 [ Regarding VSS non pensioners]
<“Attention ، PTCL VSS Non Pensioners”
اھم نوٹ:۔ وہ پی ٹی سی ایل کے تمام نان پنشرز جو مارچ 2008 میں یا اسکے بعد وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھوئیے ھوں ،ان سے التماس ھے کے وہ یہ میرا مندرجہ زیل آڑٹیکل -137 ( جسکے ۲ پاڑٹس ھیں ) ضرور غور اور سمجھ کر پڑھیں ۔ کیونکے جو انکے ساتھ زبردست نا انصافی ، زیادتی کی گئی ھے ، وہ بہت ھی افسوسناک ھے . تقریبن ایسے بیس ھزار سے زائید پنشن کا جائیز حق رکھنے والوں کو وی ایس ایس آپٹیز کو پنشن دئیے بغیر فارغ کردیا گیا جو ایک بہت بڑا ظلم ھے یہ پنشن تو آئین اور قانون کے مطابق ، انکا قانونی حق تھا ۔ آئین اور پنشن قوانین کہتے ھیں کے ھر سرکاری ملازم کو ریٹائیرمنٹ پر پنشن دی جائیگی بشرطیہ کے اسکی کولیفائیڈ سروس دس سال یا اس سے زیادہ ھو اگر کم ھوگی تو انکو صرف گریجویٹی ملے گی ۔ یاد رھے پنشن صرف اس صورت میں نہیں دی جاتی اگر کسی سرکاری ملازم کو نوکری سے ڈسمس کردیا جائیے چاھے اسکی کتنی ھی کوالیفائیڈ سروس کیوں نہ ھو ۔ تو سوال یہ پیدا ھوتا ھے کے کیا ان بیس ھزار یا اس سے زیادہ وی ایس ایس قبول کرکے ریٹائیڑڈ پی ٹی سی ایل ملازمین نے کیا کوئی جرم کیا تھا جسکی وجہ سے انکو نوکریوں سے برطرف کرکے پنشن کے قانونی حق سے محروم کردیا گیا؟
اب یہ پی ٹی سی ایل وی ایس ایس نان پنشنرز بیچارے کیا کریں ؟ وہ اسکے ازالے کے اور اپنا جائیز حق لینے کے لئیے کیا قانونی کاروائی کرسکتے ھیں ، اسی سلسلے میں نے یہ طویل آڑٹیکل اسی تناظر میں تحریر کیا ھے کے یہ وی ایس ایس پیکیج 2008 کسطرح متنازعہ تھا ، دوسرے یہ کے20 سال سے کم کوالیفئیڈ سروس پر پنشن نہ دینے کی کوئی شرط اس وی ایس ایس 2008 پیکیج کے ٹرمز اینڈ کنڈیشن میں تو موجود ھی نہیں تھی تو پھر کیوں ایسوں کو پنشن نہیں دی گئی ۔ اب کسطرح نہ دینے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ھے ۔ اب یہ ایک اچھا موقع آیا ھے سپریم کوڑٹ کے راجہ
ریا ض کے حق میں دئیے گئیے 6 جولائی 2015 فیصلے جس کے تحت اسکو گورمنٹ والی تنخواہ اور پنشن دی گئی ھے اسکو ریفرنس بناکر گورمنٹ والی پنشن اور تنخواہ کی ڈیمانڈ کرنی پڑے گی - اس سلسلے میں اس آڑٹیکل 137 کے دوسرے پاڑٹ میں پہلے ڈیپاڑٹمنٹل اپیل کرنے اور بعد میں ھائی کوڑٹ میں رٹ پٹیشن دائیر کرنے کے سیمپل ڈرافٹس گائیڈ لائینز کے ساتھ دئیے گئیے ہیں . جو رٹ پٹیشن کا جو ڈرافٹ بنایا ھے اس میں نہ صرف گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن کی ریسٹوریشن کی بحالی بلکے اس گورمنٹ کے نئےاسکیلز کے مطابق تنخواہ دینے کی بھی استدعا کی گئی ھے جو پی ٹی سی ایل نے دینی ھے پٹیشنر کی ریٹائیرمنٹ سے پہلے تک ۔ جو لوگ اس آڑٹیکل 137 پی ڈی ایف کاپیاں لینا چاھتے ھوں تو کمنٹس میں اپنا نام اور واٹس ایپس نمبر ضرور لکھ بھیجیں انکو ، انشاللہ واٹس ایپس پر پی ڈی ایف کاپیز بھیج دی جائیں گی . اور اگر اسکے متعلق ان کے زھین میں سوالات آرھے ھوں تو اسکو بھی کمنٹس میں لکھیں ، اسکا جواب دیا جائیے گا -ایک آخری بات جو کہنےُسے رہ گئی اس آڑٹیکل 137 کے دونوں پاڑٹوںُ کو ایسے پی ٹی سی ایل دوستوں اور بیواؤں ( جنکے مرحوم شوھروں کو بغیر پنشن کے وی ایس دے کر ریٹائیڑڈ کردیا گیا تھا ) کو جتنا شئیر کرسکتے ھیں ضرور کریں تاکے ھر ایک کو یہ پیغام پہنچ جائیے اور وہ بھی قانونی چارہ جوئی کرنے کی تیاریاں کرسکیں .
بہت بہت شکریہ
(طارق)
آڑٹیکل -137 پاڑٹ 1
اندھیر نگری چوپٹ راج؟؟؟؟؟؟
موضوع :۔ پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کی ظلم ، زیادتی اور ناانصافی کی انتھا ، جو انھوں نے وی ایس 2008 میں بیس ھزار سے زیادہ ایسے پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین کو زبردستی وی ایس ایس دیکر ، نوکریوں سے بغیر پنشن کے نکال دیا جو دس سال یا اس سے زیادہ کوالیفائیڈ سروس ھونے کی بنا پر گورمنٹ کے پنشن قوانین کے مطابق پنشن لینے کے لازمن حقدار تھے ۔
عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو
اسلام و علیکم
شائید بہت ھی کم لوگ ھی جانتے ھوں گے کے پی ٹی سی ایل کا 2008-2007 میں کمپنی میں کام کرنے والے ان سرکاری ملازمین کو ، جو یکم جنوری 1996 کو کاپوریشن سے ٹرانسفڑڈ ھوکر اس میں آئیے تھے اور اسکے ملازم بن گئیے تھے، انکو نومبر 2007 میں وی ایس ایس پیکیج آفر کرنا غیر قانونی عمل تھا کیونکے ان پر گورمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت بنائیے ھوئیے ھی سرکاری قوانین ھی نافظ تھے، اور اس ایکٹ کی نئی کلاز 11A کے تحت ان سرکاری ملازمین کا سٹیٹس رکھنے والے پی ٹی سی ایل ملازمین کو وی ایس ایس یا کسی گولڈن شیک ھینڈ دے کر نوکری سے بلکل بھی نہیں نکالا جاسکتا تھا اور دوسرے یہ کے انھوں نے اپنی طرف سے بنائیے ھوئیے قانون کے مطابق صرف بیس سال سے یا اس زیادہ حامل کوالیفائیڈ سروس کو ھی پنشن دینے کا حق دینا ، بھی غیر قانونی تھا جسکا انکو قانونی اختیار ھی نہیں تھا اور پھر اپنے اسی قانون کو وی ایس ایس پیکیج 2008 کی ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں بھی شامل نہ کرنا بھی ایک سنگین خلاف ورزی تھی کے مبادہ اسکی وجہ سے لوگ وی ایس لینا ھی قبول نہ کریں ۔
تفصیل سے
1. جیسا کے آپ سب جانتے ھی ھیں کے جون 2007 پی ٹی سی ایل کی نجکاری میں , 26 % اسکے شئیرز خریدنے والی یو اے ای کی کمپنی ایتصلات کے اختیار میں پی ٹی سی ایل کی منیجمنٹ آگئی اور اسنے اسکا منیجمنٹ سنبھالتے ھی پہلا کام یہ کیا ، اسکے اسٹاف میں زیادہ سے زیادہ کمی کرنے کا فیصلہ کیا ۔ انھوں نے پہلے جو بھی سرپلس سٹاف تھا انکے پول گریڈ وائیز بنائیے اور تمام ایسے سرپلس سٹاف کو ان کو پولوں ٹرانسفڑڈ کردیا ۔ اور انسے کام لینا بند کردیا ۔ اس میں زیادہ تعداد گریڈ1 سے لے کر گریڈ 7 کا سٹاف تھا اور سب سے زیادہ تعداد ٹیلی فون آپریٹرز کی تھی ۔ اور پھر انھوں نے سٹاف کمی کرنے کے لئیے وی ایس ایس کے نومبر 2007 ایک والئینٹری سیپریشن سکیم ( وی ایس ایس ) کا اعلان کیا ۔ حقیقت یہ ھے کے انکا پی ٹی سی ایل میں کام کرنے ان ٹی اینڈ ٹی اور پی ٹی سی کے ریگولر سرکاری ملازمین کو ، جو یکم جنوری 1996 کو کارپوریشن سے ٹرانسفڑڈ ھوکر نئی بننے والی کمپنی پی ٹی سی ایل میں آئیے تھے انکو اسطرح کا پیکیج دینے کا اختیار ھی نھیں تھا کیونکے ان سب پر پی ٹی سی ایکٹ 1991 شق 9 اور پی ٹی [ ری آرگنائیزیشن ] ایکٹ 1996 کی شق 35 اور 36 تحت گورمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی پروٹیکشن حاصل تھی [یعنی پی ٹی سی ایل میں ان پر بھی یہ ھی گورمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے گورمنٹ قوانین کا ھی اطلاق ھوتا تھا جن کو statutory rules کہا جاتا ھے] جسکی کلاز “11A “ کے تحت ھی سرپلس سٹاف کو صرف ایڈ جسٹ ھی کیا جاسکتا تھا نہ کے انکو وی ایس ایس یا گولڈن شیک ھینڈ وغیرہ دے کر فارغ کیا جاسکتا ھے ۔ یہ “11A “ کلاز ایک نئی کلاز ھے جو سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں 14 اپریل 2001 کو آڑڈیننس نمبر XX/2001 زریعے شامل کی گئی تھی ۔ اس لحاظ سے جو وی ایس ایس 1997-1998 میں دیا گیا وہ غیر قانونی نھیں تھا ۔ جبکے اس کلاز “11A “ کی وجہ وی ایس ایس 2008 بلکل ھی غیر قانونی تھا اس میں کسی کو زرا سا بھی شک نہیں ھونا چاھئیے۔ اسوقت لوگوں کو اتنا ادراک ھی نھیں تھا ورنہ کوئی بھی ایسا ایک ھی پی ٹی سی ایل ملازم اگر اس بنیاد پر اس کو ھائی کوڑٹ میں آئین آڑٹیکل 199 ,تحت اگر چیلنج کردیتا اور تو یقینن ھائی کوڑٹ اسکا اطلاق پی ٹی سی ایل میں کا کرنے والے ایسے ٹرانسفڑڈ ملازمین پر روک دیتی اور اسکا اطلاق صرف ان کمپنی کے ملازمین پر کرنےکا حکم دیتی ، جو یکم جنوری 1996 کے بعد کمپنی میں شامل ھوئیے تھے ۔ عمومن گولڈن شیک ھینڈ یا وی ایس ایس دے کر اپنے ملازمین کو نوکری سے فارغ کرنا صرف کمپنی ، کارپوریشن یا اور کوئی پرائیویٹ کے ادارے ھی کرتے ھیں ۔ یعنی جہاں ماسٹر اینڈ سرونٹ والے قوانین نافظ ھوتے ھیں مگر پی ٹی سی ایل کی نئی جابر انتظامیہ نے VSS 2007-2008 پیکیج میں ، جو 15 نومبر 2007 میں اناؤنس کیاگیا تھا ، ھزاروں پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے ، سول سٹیٹس رکھنے والے سابقہ ٹی اینڈ ٹی اور کارپوریشن کے ملازمین کو جن کی کوالیفائیڈ سروس کردہ بیس سال کی کوالیفائیڈ سے کم تھی سے انکو زبردستی زور اور جبر سے VSS-2008 قبول کراکر بغیر پنشن کے فارغ کردیا ۔ یاد رھے فیڈرل گورمنٹ کے پنشن قوانین میں جو سول سرونٹ پر لاگو ھوتے ھیں اس میں دئیے گئیے سنٹرل سروس ریگولیشن رولز کی شق 474AA کے مطابق ایک سرکاری ملازمین ریٹائیرمنٹ پر دس سال یا اس سے زیادہ کولیفائیڈ سروس ھونے پر پنشن کا حقدار بن جاتا ھے اور اسی سنٹرل سروس ریگولیشن کی شق (1)423 کے تحت اگر ریٹائیرمنٹ پر یا انتقال کی صورت میں ، کسی سرکاری ملازم کی دس سال کی کولیفائیڈ سروس نو سال چھ ماہ یا اس سے زیادہ ھو مگر دس سال سے کم ھو تو وہ خود بخود معاف ( condoned) ھوجائیگی اور پنشن دینے کے لئے اسکی کولیفائیڈ سروس دس سال ھی تصور ھوگی ۔ اور اسی کے (2)423 کے مطابق اگر یہ کمی ایک سال تک کی ھو یا اس کم ھو تو مجاز اتھاڑٹی کو یہ اختیار ھوگا وہ اس کمی کو معاف ( condoned) کردیں بشرطیہ کے اگر متعلقہ سرکاری ملازم اس سیکشن یعنی (2)423 کی سب سیکشن ( a) یا (b) کی کوئی شرائیط پوری کرتا ھو۔ فیڈرل گورنمنٹ کے پنشن رولز میں گریجویٹی کے کالم میں یہ لکھا ھوا ھے جسکا ترجمعہ نیچے پیش کررھا ھوں
“اگر کوئی سرکاری ملازم پنشن ایبل سروس میں مستقل اور مستقل صلاحیت میں ملازم ہے تو وہ 5 سال کی قابلیت کی خدمت مکمل کرنے کے بعد لیکن 10 سال سے کم مدت کے بعد مستقل عہدے کے خاتمے کی وجہ سے ریٹائرمنٹ کے لئے منتخب ہوا ہے ، تو اسے ایک ماہ سے زیادہ مدت کی گرانٹ نہیں دی جاسکتی ہے۔ کوالیفائنگ سروس کے ہر مکمل سال کے لئے رقم۔ اگر اس طرح کے سرکاری ملازم نے ریٹائرمنٹ یا رخصت کے وقت 10 سال یا اس سے زیادہ کی کوالیفائنگ سروس مکمل کی ہے ، جیسا کہ معاملہ ہوسکتا ہے ، تو اسے عام پنشن دی جاسکتی ہے۔”تو آپ نے دیکھا پنشن لینے کے لئیے کم ازکم دس سال کی یا اس سے زیادہ سروس درکار ھوتی ھے نہ کے پی ٹی سی ایل کی طرف سے بنائی ھوئی بیس سال کی کوالیفائیڈ سروس ۔
پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے سابقہ ٹی اینڈ ٹی اور پی ٹی سی کے ملازمین اگرچہ سول سرونٹ تو نھیں کہلاتے ھیں مگر ان پر سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت مطابق گورمنٹ کے بنائے ھوئیے قوانین ھی نافظ ھوتے ھیں ۔ یہ حکم سپریم کوڑٹ پانچ رکنی بینچ نے ، پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کی ، مسعود بھٹی کیس ( 2012SCMR152) کے خلاف ، انکی رویو پٹیشن ، 19 فروری 2016 خارج کرکے دیا جو( 2016SCMR1362) درج ھے اور انھوں نے 7 اکتوبر 2011 کو تین رکنی سپریم کوڑٹ کے اس فیصلے کی اس فیصلے کی توثیق بھی کردی جو اسنے مسعود بھٹی اور دیگران کے حق میں دیا تھا ، جسکے تحت پی ٹی سی ایل میں یکم جنوری 1996 کو کارپوریشن سے ٹرانسفڑڈ ھوکر آنے والے ملازمین جو اس دن سے کمپنی کے ملازم بن گئیے تھے ان پر گورمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 بنائیے ھوئیے ھی قوانین نافظ ھوں گے جن کو statuary rules کہتے ھیں اور نہ ھی پی ٹی سی ایل کو اور نہ ھی حکومت کو اس کا اختیار ھو گا کے وہ ان کے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشن قوانین میں ایسی تبدیلی کریں جن سے ان ملازمین کو فائدہ نہ ھو بلکے گورمنٹ تو اس بات کی گارنٹر ھوگی کے اس میں پی ٹی سی ایل کی طرف سے کوئی بھی منفی تبدیلی نہ کی جائیے جن میں پنشن اور اسکے بینیفٹس کے قوانین شامل ھیں ۔ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی شق (1)19 میں صاف طور پر لکھا گیا ھے کے ریٹائیڑڈ ھونے والے ھر سول سرونٹ کو پنشن یا گریجویٹی دی جائیگی . اور اسی ایکٹ کی کلاز (3)19 کے مطابق صرف ان سول سرونٹ کو پینشن نھیں دی جائیگی جنکو نوکری سے ڈسمس کیا گیا ھو۔ تاھم انکو کچھ compensation کی رقم دی جاسکتی ھے ۔ تو گویا انھوں نے بیس ھزار سے زائید وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائڑڈ ھونے والوں کو جو پنشن سے محروم کردیا ، اور ایک طرح کا بغیر کسی جرم کے نوکری سے ڈسمس کرنا ھے اور جو رقم انکو دی گئی ھے وی ایس ایس لینے کی وجہ سے ، وہ ایک طرح سے انکو نوکری ڈسمس کرنے پر دیا جانے والا compensation معلوم ھوتا ھے ۔ تو سوال پیدا ھوتا انکو نوکری سے کس
قصور پر ڈسمس کیا گیا ھے اندھیر نگری چوپٹ راج؟؟؟
3. وی ایس ایس ۔2008 لینے کے لئیے پیکیج کے صفحہ 9/11 پر سیریل نمبر VI میں جو ۲۰ شرائیط اور قواعد اور ضوابط ( VSS Terms and Conditions) انگلش بنائیے گئیے تھے اور جو اردو میں ھدایت نامہ دیا گیا تھا میں اس میں یہ کسی جگہ بھی شرط نھیں لکھی گئی تھی “کے بیس سال سے کم کولیفائیڈ سروس والوں کو پنشن نھیں دی جائیگی “یا یہ “ کے بیس سال سے کم کولیفائیڈ سروس والے پنشن کے حقدار نہیں ھونگے “ ۔ جبکے اردو میں دی گئیے ھدایت نامہ میں صرف یہ تحریر تھا “قبل از ریٹائیرمنٹ کی اھلیت کا معیار “ وہ ریگولر حیثیت کے وہ ملازمین جن کی مدت ملازمت 20 سالوں کے برابر ھے وہ اھل ھیں “۔ یہ شرط تو یہ ظاھر کرتی ھے کے بیس سال سے کم ملازمت والے قبل از وقت ریٹائیرمنٹ کے اھل نھیں ھیں تو بات سمجھ نھیں آتی ایسوں کو بغیر وی ایس دے قبل از وقت کیوں ریٹائیڑڈ کردیا گیا ھے ۔ وہ کیسے وی ایس ایس آپٹ کرسکتے ھیں اور ایسے ملازمین کو کیوں وی ایس ایس لینے کی آفر کی گئی ?۔ وی ایس ایس 2008 کے پیکج میں ٹرمز اینڈ کنڈیشن میں کم ازکم بیس سال سے کم کولیفائیڈ سروس پر پنشن نہ دینے کی شرط کا نہ لکھنا ، اس بات کی عمازی کرتا ھے کے یہ لوگ نھیں چاھتے تھے کے اس شرط کی وجہ سے ایسےملازمین وی ایس ایس ھی قبول نہ کریں جنکی کوالیفیکیشن سروس بیس سال سے کم ھو ۔ انگلش میں لکھی ھوئی ان بیس شرائط اور ضوابط کے بعد انھوں نے بغیر نمبر کے ایک اور شرط بھی ڈال دی کے “کوالیفائیڈ سروس میں وہ عرصہ شامل نہیں ھوگا جو ٹریننگ اور غیر معمولی چھٹیوں لینے کی مدت میں گزرا ھوا ھو [ ان ٹرمز اینڈ کنڈیشن کی کاپی میں نے نیچے پیسٹ کردی ھے اور اسکو ھائی لائیٹ بھی کردیا آپ لوگ خود ھی ملاحظہ کرلیں“ ] اس شرط کے تحت انھوں نے ھزاروں ٹیلی فون آپریٹرس، ٹیکنیشین اور سپروائیزر کو، جنھوں نے صرف اس وجہ سے وی ایس ایس خوشی خوشی آپٹ کر لیا تھا کے انکی کولیفائیڈ سروس بیس سال یا اس سے زیاد ھے ، اس میں سے انکا ٹریننگ پیریڈ کاٹ کر ، پنشن سے محروم کردیا حالانکے جن لوگوں کی کولیفائیڈ سروس بیس سال سے یا اس سے زیادہ تھیں صرف انھیں کی متوقع ملنے والی پنشن کو کیلکولیٹ کرکے وی ایس ایس پیکیج میں بتایا گیا تھا . یہ انھوں نے اسطرح بہت بڑا ظلم کیا پہلے انکو پنشن دینے کے خواب دکھا کر وی ایس ایس لینے پر مجبور کیا اور جب انھوں نے وی ایس ایس آپٹ کرلیا تو انھوں نے اس بہانے انکو پنشن سے محروم کردیا ۔ یھاں تک ھوا کے ایسے بہت سے لوگوں کی پنشن ڈائیریکٹر اکاؤنٹ پنشن سے بھی منظوری بھی ھوگئی تھی اور بہت سی کی تو نہ صرف منظور ھوگئی تھی بلکے انکی پنشن بھی پوسٹ آفس میں پیمنٹ کے لئیے بھی آگئی تھی اور وہ جب ایسے لوگ پوسٹ آفس لینے گئیے تو پوسٹ آفسس نے یہ کہہ کر دینے سے انکار کردیا کے انکی کوالیفیکیشن بیس سال سے کم تھی اسلئیے انکی پنشن منسوخ کردی گئی ھے ۔ ایک کہرام مچ گیا ۔ بہت سے ایسے وی ایس ایس آپٹ کرنے والے شدید صدمے سے دوچار ھوگئیے ۔ ایک کی تو پوسٹ آفس میں اسی وقت صدمے موت ھی واقع ھوگئی جو خوشی خوشی اپنی پہلی پنشن پوسٹ آفس لینے آیا تھا۔ایسے بہت سے پی ٹی سی ایل ملازمین نے ھائی کوڑٹوں میں کیسس کردئیے ۔ ایک اسطرح کے پشاور سے تعلق رکھنے سابقہ ٹیلی فون آپریٹر اظھر علی بابر جنھوں نےاس وجہ سے وی ایس ایس 2008 کو آپٹ کیا تھا کیونکے انکی کولیفائیڈ سروس ، جو انکو دئیے ھوئیے پیکیج میں بیان کی گئی تھی وہ بیس سال کی کوالیفائیڈ سروس سے بھی زیادہ تھی اور جب انھوں نے وی ایس قبول کرلیا تو انکو پنشن اسلئیے نھیں دے گئی کے ان کی کولیفائیڈ سروس ٹریننگ پیرئیڈ کٹنے کی وجہ سے بیس سال سے کم ھو گئی تھی ۔ اظہر علی بابر اسوقت وکالت کی تعلیم بھی حاصلُ کررھے تھے انھوں نے وکالت کی تعلیمُ مکمل ھوتے ھی اور وکیل بننے کے بعد اپنے ایسے ساتھیوں کے ساتھ مل کر پہلے NIRC کے سنگل بینچ میں کیس کردیا جہاں سے وہ کیس جیت گئیے اور عدالت نے انکو پنشن دینے کا حکم دیا ۔ پی ٹی سی ایل نے اسکے خلاف NIRC کے ڈبل بینچ میں اپیل کردی وھاں سے جب انکی اپیل خارج ھوئی تو انھوں نے پشاور ھائی کوڑٹ میں اپیل کردی جو 11 ستمبر 2012 کو ڈسمس کردی گئی اور عدالت نے پی ٹی سی ایل کو سختی حکم دیا گیا کے کے انکی ٹریننگ پیریڈ کے عرصے کو بھی کولیفائیڈ سروس میں شامل کرکے پنشن دی جائیے۔ جو انکو دینا پڑی اور یہ سب پنشن لے رھے ھیں
[ اظھر علی بابر کیس کی تفصیل گوگل پر بھی موجود ھے
Azhar Ali Baber case
2013 P L C 345
[Peshawar High Court]
Before Dost Muhammad Khan, C.J. and Mrs. Irshad Qaiser, J
PAKISTAN TELECOMMUNICATIONS COMPANY LTD. through President and 5 others
Versus
AZHAR ALI BABAR and 2 others]
4. یہ ایک مسلمہ حقیقت اور قانون بھی جب ایک شخض یا کوئی پاڑٹی دوسری پاڑٹی یا شخض سے کوئی معاھدہ یا کنٹریکٹ کرنا چاھتا ھو تو وہ پہلے اس معاھدہ یا کنٹریکٹ سے پہلے اسکے شرائط اور ضوابط ( terms and conditions ) اس دوسری پاڑٹی یا شخض کو پیش کرتی ھے اور جب وہ دوسری پاڑٹی یا شخض ان شرائیط اور ضوابط کو قبول کرکے اس دوسری پاڑٹی کی آفر قبول کر لیتا ھے ۔ تو پہلے پاڑٹی پر یہ فرض وہ انھی شرائیط اور ضوابط کے مطابق ھی اقدام اگر وہ کوئی ایسا اقدام کرتا ھے جو پہلے سے ان شرائیط کے خلاف کام کرتا ھے تو یہ اسکا یہ اقدام غیر قانونی کہلائیے گا اور یہ پھر اسکا حق ھوگا وہ اسکے اس غیر قانونی اقدام کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے ۔ یہ سب breach of contract یعنی معاہدے کی خلاف ورزی کہلائیے گا اور اسکی سزا قانون میں موجود ھے ۔ پی ٹی سی ایل نے والئینٹری۔ سیپیریشن اسکیم ( VSS) ۲۰۰۸ کی ٹرمز اینڈ کنڈیشن میں کہیں بھی یہ نھیں لکھا تھا کے جن کی کوالیفائیڈ سروس بیس سال سے کم ھوگی ان کو پنشن نھیں دی جائیگی ۔ اگرچہ پی ٹی سی ایل کو ویسے بھی قانونی اختیار حاصل نھیں تھا کے وہ گورمنٹ کے پنشن قوانین میں تبدیل کر کے اسکو دس سال سے بیس سال کرتی ۔ VSS 1997-1998 میں یہ ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں واضح کردیا گیا تھا کے جن کی کوالیفائیڈ سروس 10 سال سے کم ھوگی انکو کیا پنشن دی جائیگی اور جنکی کوالیفیکیشن سروس دس سال ، 15سال، بیس سال اور تیس سال سے زیادہ ھوگی انکو کیا پنشن دی جائیگی اگر وہ وی ایس ایس لینا قبول کریں گے ۔
[ نوٹ :- میں نے نیچے VSS 1997-1998 کا نوٹیفیکیشن جو پی ٹی سی ایل ھیڈ کوارٹر کے لیٹر نمبرPA&P 6-19/97 dated 8th Oct 1997 کے تحت ایشو کیا گیا تھا نیچے VSS 2007-2008 پیکیج کے نوٹیفیکیشن کے ساتھ نیچے پیسٹ کردیا ھے ۔ آپ دیکھیں کے کے VSS 1997-1998 کے نوٹیفیکیشن میں اسکی Terms and conditions کے پیرا 9 میں دس سال کی کوالیفائیڈ کے ریفرنس سے زیادہ پنشن دینے کا لکھا جو میں اوپر بیان کرچکا ھوں مگر یہ دیکھیں کے
VSS 2007-2008 کے پیکیج میں دئیے گئیے Terms and Conditions میں کہیں بھی یہ نھیں لکھا ھو کے جن کی سروس بیس سال سے کم ھو گی انکو پنشن نھیں دی جائیگی ۔ اگر وہ یہ کنڈیشن ڈال دیتے تو ھزاروں ایسے پی ٹی سی ایل ملازمین کبھی بھی یہ وی ایس قبول نہ کرتے جنکی کولیفائیڈ سروس بیس سال سے کم ھوتی ]۔ ریٹائیڑڈ سرکاری ملازم کو اس کی دس سال یا اس سے زیادہ کی کولیفائیڈ سروس پر دینے کا حق ، یہ آج کا قانون نھیں یہ 1874 کا قانون ھے ۔ گورمنٹ آف پاکستان نے سرکاری ملازمین کو ریٹائیرمنٹ پر جو پنشن کیلکولیٹ دینے کا فارمولا بنایا ھے اس میں پنشن دینے کا جو تعین کیا جاتا ھے ، اس کا آغاز ھی دس سال کی کوالیفائیڈ سروس سے کیا جاتا ھے۔ اسکی ٹیبل ( جسکو بھی نیچے پیسٹ کردیا گیا ھے کو غور سے دیکھیں )، اس ٹیبل میں 10 سال کی کولفئیڈ سروس سے لے کر تیس سال تک کی کولیفائیڈ سروس تک کی سروس پر ریٹائیرمنٹ لینے پر نیٹ پنشن کیلکولیٹ کرنے کا فارمولا دیا گیا ھے . تیس سالہ کولیفائیڈ سے زیادہ کوالیفائیڈ سروس پر ، ریٹائیرمنٹ ھونے والوں پر بھی تیس سالہ کوالیفائیڈ سروس والا ھی فارمولہ ھی استعمال ھو گا۔ ڈائیریکٹر پنشن اکاؤنٹ اسی ٹیبل کے مطابق ھی ریٹائیڑڈ ھونے والےملازمین کی نیٹ پنشن نکالتے ھیں
5. سب سے گندہ کردار پاکستان ایمپلائیز ٹرسٹ ( پی ٹی ای ٹی) کا رھا ھے ۔ یہ ٹرسٹ حکومت نے ھی یکم جنوری 1996 سے تشکیل دیا تھا جسکا کام صرف یہ تھا کے وہ ٹی اینڈ ٹی سے ریٹائیڑڈ ھونے والے سرکاری ملازمین اور وہ جو ٹی اینڈ سے کارپوریشن اور پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفڑڈ ھوکر ریٹائیڑڈ ھوگئیے تھے اور جو مستقبل میں ریٹائیڑڈ ھوگئیے تھے انکو گورمنٹ کے پنشن قوانین کے مطابق پنشن اور اسکے بینیفٹس ادا کرنا تھا ۔ گورمنٹ نے اس ٹرسٹ کو وھی ٹرسٹ ڈیڈ بتاریخ 2 اپریل 1994 “پنشن فنڈ اور اسکے واجبات ( liabilities ) کے ساتھ پی ٹی [ ری آرگنائیزیشن ] ایکٹ 1996 کی شق 46 کے تحت تقویض کردی تھی جس میں یہ واضح کردیا گیا تھا کے بوڑڈ آف ٹرسٹیز کو گورمنٹ کے پنشن قوانین کے مطابق عمل کرنا ھے ۔ ساٹھ سال کی عمر میں ھر سرکاری ملازم پنشن لینے کا حقدار بن جاتا ھے ۔ اور وہ سرکاری ملازم بھی پنشن کا لینے حقدار بن جاتا ھے جسکی ملازمت دس سال یا اس اس زیادہ سروس ھونے پر ختم کردی جائیے۔ مگر انھوں نے غیر قانونی طور تقریبن بیس ھزار سے زیادہ، پی ٹی سی ایل کی طرف سے وی ایس ایس 2008 آپٹیز کو جنکی کولیفائیڈ سروس 10 سال یا اس سے زیادہ تھی مگر بیس سال سے کم ، انکو پنشن نہ دے کر اس ٹرسٹ ڈیڈ کی سنگین خلاف ورزی کی ھے جبکے وہ ھمیشہ، یکم جنوی 1996 سے اسی طرح پنشن دیتے چلے آرھے تھے انھوں نے تو وی ایس ایس 1998-1997 لینے والوں کو ایسے دس سال یا اس سے زیادہ کولیفائیڈ سروس رکھنے والے آپٹیز کو پنشن دی جو وہ لوگ اب بھی لے رھے ھیں مگر وی ایس ایس ۔2008 میں پی ٹی سی ایل ریٹائیڑڈ ملازمین کو اسی پنشن سے محروم کردینا ، انکی طرف سے کتنی بڑی زیادتی اور ناانصافی ھے ۔ انھوں نے نہ صرف اس ٹرسٹ ڈیڈ کی خلاف ورزی کی بلکے انھوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آڑٹیکلز 4 اور 27 کی سخت ترین خلاف ورزی بھی کی ھے ۔ آئین کا آڑٹیکل 4 ، ھر ایک کو قانونی برابری پر عمل کرنے کا کہتا ھے جبکے آئین کا آڑٹیکل 27 کسی سے بھی امتیازی سلوک یعنی discrimination سے منع کرتا ھے۔ اور یہ غیر قانونی اقدام اسی پی ٹی ای ٹی کے بوڑڈ آف ٹرسٹیز نے کئیے ، فرق صرف اتنا تھا کے اسوقت پی ٹی سی ایل کی نجکاری نھیں ھوئی تھی ۔ اور وی ایس میں ان بوڑڈ آف ٹرسٹیز نے نجکاری کے بعد 2008، اسکی نئی مینیجمنٹ کی بات مان کر ، وی ایس ایس 2008 قبول کرنے والے ایسے ھزاروں پی ٹی سی ایل ملازمین کو پنشن نھیں دی ایک غیر ملکی کمپنی کے بنائیے ھوئیے قانون پر عمل کرنا اور گورمنٹ کے قوانین کو پس پشت ڈالنا ، اس ٹرسٹ کے بوڑڈ آف ٹرسٹیز کو اسکا زرا سا بھی قانونی اختیار نہیں تھا ۔ بادئی انظر میں یہ ھی نظر آتا کے اس بوڑڈ آف ٹرسٹیز میں شامل چھ میں سے تین گورمنٹ کے ممبران پی ٹی سی ایل سے زبردست قسم کی رشوت ملتی ھے اور جب ھی پی ٹی سی ایل کے حق میں فیصلے دیتے ھیں جنکو میجاڑٹی ووٹ کی بنیاد پر منظور کرلیا جاتا ھے
6. جیسا کے اوپر بتا چکا ھوں کے 19 فروری 2016 کو [ 2016SCMR1362] کوڑٹ کے پانچ رکنی بینچ نے سپریم کوڑٹ کے پانچ رکنی بینچ کے مسعود بھٹی کیس میں 7 اکتوبر 2011 کو دئے گئیے ھوئیے اس فیصلے پر مہر ثبت لگادی [ جو اب 2012SCMR152 میں درج ھے ] جس میں کہا گیا تھا “ کے یکم جنوری 1996 کو کارپوریشن سے کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھونے والے ملازمین پر گورمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 تحت بننے والے قوانین کا ھی نفاذ ھو گا جو دیگر گورمنٹ ادروں میں کام کرنے والے سول سرونٹس پر ھوتا ھے مگر یہ پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے سول سرونٹ نھیں کہلائیں جائیں گے ۔ پی ٹی سی ایل کو یا حکومت کو اسکا کوئی بھی اختیار نھیں ھوگا کے وہ انکے سروس اینڈ ٹرمز میں ایسی منفی تبدیلی کریں جن سے انکو فائیدہ نہ ھو ۔ گورمنٹ اس کی گارنٹر ھوگی خاص کر پنشن اور اسکے بینیفٹ دینے کے بارے میں ۔ “ یہ بات ھمیشہ یاد رکھنی چاھئیے کے سپریم کوڑٹ نے یہ احکامات کوئی اپنی طرف سے جاری نھیں کئیے تھے بلکے انھوں نے اس بارے پی ٹی سی ایکٹ 1991 اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن [ ری آرگنائیزیشن ] ایکٹ 1996 متعلقہ دفعات کی تشریح کی تھی ۔ تو یہ کہنا صحیح نھیں ھو گا سپریم کوڑٹ کا یہ حکم نامہ 7 اکتوبر 2011 کو آیا جبکے وی ایس ایس بغیر پنشن کے 2008 میں دیا گیا تھا ۔ پی ٹی ( ری آرگنائیزیشن ) ایکٹ 1996 تو موجود تھا جسکے تحت ھی پی ٹی سی ایل کی یکم جنوری 1996 سے معرض وجود میں آئی تھی ۔ تو انکا یہ فرض تھا کے 2008 میں وہ ایکٹ 1996 کی متعلقہ کلازز 35 اور 36 کو ھی فالو کرتے اور ایسا کوئی اقدام نھیں کرتے جو اس کے خلاف ھوتا . انکے وکلاء ھمیشہ یہ راگ الاپتے رھتے ھیں کے سپریم کوڑٹ کے پانچ رکنی بینچ نے انکی جو رویو پٹیشن ( 2016SCMR1362) کردی تھی ، اس میں یہ عدالت نیں یہ کہا تھا کے یہ ٹرانسفڑڈ ایمپلائیز سول سرونٹ نہیں ھیں ، تو انکے بقول ان پر سول سرونٹ کے قوانین استعمال نہیں ھوسکتے ۔ مگر یہ لوگ پوری بات نھیں بتاتے عدالت عظمی نے اپنے فیصلے میں کیا لکھا ھے ؟ ۔ عدالت عظمی نے اس فیصلے پیرا 6 تحریر کیا ھے “ پیرامذکورہ بالا دفعات کی بناء پر وہ پہلی بار کارپوریشن کے ملازم بن گئے اور پھر کمپنی کے اسلئیے وہ مزید سول سرونٹ نہیں رہے۔ لیکن ان پر سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں انکے سروس کے ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کے سیکشن 3 سے سیکشن 22 کے میں فراہم کردہ قانون لاگو رھیں گے کیونکے انکو 1991 کے ایکٹ کے سیکشن (2)9 اور ایکٹ 1996 کے سیکشن (2)35 ، (a) 36 اور (b) کے تحت انکی پروٹیکشن حاصل ھے ۔ اور اگر ان قوانین کی خلاف ورزی یہ پی ٹی سی ایل یا پی ٹی ای ٹی والے کرتے ھیں تو ان پی ٹی سی ایل ملازمین کو یہ اختیار حاصل ھے کے وہ اسکے خلاف ھائی کوڑٹوں سے آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت رجوع کرسکتے ھیں “۔ یاد رھے قانون کے تحت صرف گورمنٹ کے سرکاری ملازمین جنکو سول سرونٹ کہتے ھیں ، کو ھی صرف یہ اختیار حاصل ھوتا ھے اور کسی پرائیویٹ ، کارپوریشن یا کمپنی ملازمین کو کو یہ اختیار بلکل حاصل نہیں ھوتا ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرنے کا۔ تو پی ٹی سی ایل نے اس سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے سیکشن (2)3 کی خلاف ورزی کرتے ھوئیے انکو کم از کم دس سال کی کولیفائیڈ سروس پنشن دینے حق کو بیس سال کی کولیفائیڈ سروس میں تبدیل کردیا ۔ انھوں نے اسی ایکٹ سیکشن 11A کی خلاف سرپلس سٹاف کو بجائیے ایڈجسٹ کرنے کے انکو وی ایس ایس آفر کرکے فارغ کردیا۔ انھوں اسی ایکٹ کے سیکشن (1)19 کی خلاف ورزی کرتے ھوئیے ھزاروں ایسے پی ٹی سی ایل ملازمین کو ریٹائیرمنٹ پر بغیر کسی پنشن کے فارغ کردیا ۔ جبکے وہ اس قانون کے مطابق ھر ریٹائیڑڈ سرجری ملازمین کو پنشن یا گریجویٹی دی جائیگی
7. پی ٹی سی ایل کے ایسے تمام نان پنشرز وی ایس آپٹیز کو متحرک اور motivate کرنے کے لئیے میں نے اپنا 22 فوری 2016 کو اپنا پہلا آڑٹیکل نمبر 1 لکھا جسکو فیس بک اور اپنے بلاگ سائیٹ میں اپلوڈ کیا ۔ لوگوں کو یہ ھی مشورہ دیا پہلے وہ ڈیپاڑٹمنٹل اپیلیں کریں جسکا ڈرافٹ میں نے آڑٹیکل نمبر 3 میں دیا اور پھر ھائی کوڑٹوں میں آئنی رٹ پٹیشنیں آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت ھائی کوڑٹوں میں دائیر کریں ۔ میں نے ان رٹ پٹیشنوں کے ڈرافٹس الگ الگ انکے لئیے جو ٹی اینڈ ٹی میں اور پی ٹی سی میں بھرتی ھوئیے تھے اپنے آڑٹیکل 27 اور 28 میں تحریر کئیے ۔ جو فیس بک اور بلاگ سائٹ میں آپ لوڈ کئے ھوئیے ۔ مجھے افسوس اس بات کا ھوا کے ڈیپاڑٹمنٹل اپیلیں تو تقریبن پندرہ ھزار سے زیادہ لوگوں نے کیں مگر رٹ پٹیشنیں صرف چند سینکڑوں نے ھیں کیں ۔ مگر کسی بھی ھائی کوڑٹ نے ابتک اس پر میرٹ کی بنیاد پر فیصلہ نھیں دیا ۔ پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے وکیل شاھد انور باجوہ کی تو ھمیشہ یہ ھی کوشش رھی کے ان کیسوں پر کوئی بھی ھائی کوڑٹ میرٹ کی بنیاد پر فیصلہ نہ کرے اور ایسے گول مول فیصلے کرے کے جو سپریم کو ڑٹ تک نہ پہنچ سکے ۔ کیونکے یہ سپریم کوڑٹ اپنے متعد فیصلوں میں یہ کہہ چکی ھے کے Pension Is a Statutory Right, Not a Bounty: یعنی پنشن کوئی انعام نھیں ھوتا بلکے ایک ریٹائیڑڈ سرکاری ملازم کا حق ھوتا ھے ۔ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی کلاز (۱)۱۹ میں کہا گیا ھے “ جو سرکاری ملازم ریٹئائیڑڈ ھو گا اسکو پنشن یا گریجویٹی ملے گی ، گورمنٹ کے پنشن رولز میں گورمنٹ سروس ریگولیشنس کی کلاز “474 اے اے “ پنشن کا حقدار ھونے کے لئے کولیفائیڈ سروس دس سال یا اس سے زیادہ ھونی چاھئیے۔
8. سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے 13 اپریل 2018 کو بنکنگ کیسس میں انکی رویو پٹیشنیں خارج کردی تھیں اور یو بی ایل بنک کی انتظامیہ کو یہ حکم جاری کیا تھا کے جن 5416 بنک ملازمین کو انھوں نیں 10 اکتوبر 1997 سٹاف کمی کرنے وجہ سے ملازمت سے برطرف کردیا تھا ، انکو 10 سال کی کولیفائیڈ سروس ھونے کی بنا پر پنشن دی جائیے ۔ تو اسی ڈر سے انکے وکیل شاھد انور باجوہ نہیں چاھتے ان کے کیسس سپریم کوڑٹ تک پہنچیں ۔ تو جو بھی ایسے کیسس وی ایس ایس نان پنشنرس پٹیشنرس نے ھائی کو ڑٹوں میں داخل کئیے کچھ تو ابھی تک لٹکے ھوئیے ھیں اور جن پر فیصلہ کیس گیا، وہ بھی بیحد عجیب طریقے کا گول مول سا ایسا کے نہ جائیے رفتن نہ پائیے مانند۔ ان ھائی کوڑٹوں میں یہ کیسس سننے والے معزز ججوں نے کھل کر پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کا ساتھ دیا اور انصاف کا خون کیا اور ان سبکا کرتا دھرتا اور انکے وکیل یہ ھی شاھد انور باجواہ صاحب ھیں جنھوں نے ریٹائیڑڈ سندھ ھائی کو ڑٹ کے جج کے ھونے ناطے ، اپنا اثر اور رسوخ استعمال کرکے ان پٹیشنروں نان پنشنر پی ٹی سی ایل پنشنروں کے ساتھ زیادتی کی اور ھائی کوڑٹوں میں کسی کیس کو پائیہ تکمیل نہیں پہنچانے دیا وہ اگر اس ھائی کوڑٹوں انکے خلاف یا حق میں آئیگا تو معاملہ لازمن معاملہ سپریم کوڑٹ تک پہنچ جائیے گا جہاں انکی شکست لازمی ھے تو پھر پی ٹی سی ٹی دس سال یا اس سے زیادہ کوالیفائیڈ سروس رکھنے والے ، وی ایس ایس لے ریٹائیڑڈ ھونے والے پنشنروں کو بھی پنشن دینی پڑے گی۔
9. میں اس بارے میں آپ لوگوں کی خدمت میں یہاں چند مثالیں دینا چاھتاھوں ۔ اسلام ھائی کو ڑٹ میں غلام سرور اور ساتھیوں کی طرف سے دائیر کی گئی رٹ پٹیشن نمبر 2114/2016 اسلام آباد میں 31 مئی 2016 کو دائیر کی گئی تھی رٹ پٹیشن کا فیصلہ تقریبن چارسال میں ، 13 فروری 2020 کو آیا جسکو اس کیس کے جج محترم گل حسن اورنگ زیب نے non maintainable قرار دیتے ھوئیے ڈسمس کردیا اور اس پر میرٹ پر فیصلہ دینے سے احتراز کیا ۔ اس کو non maintainable پر خارج کرنے کاجواز انھوں نے یہ بنایا کے جن پٹیشنروں نیں یہ اپیلیں داخل کی تھیں انکو تو ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرنے کا تو اختیار ھی نھیں تھا ۔ انکا یہ فیصلہ، بلکل غلط تھا، کیونکے سپریم کوڑٹ اپنے مسعود بھٹی و دیگر بنام فیڈریشن آف پاکستان( جو 2012SCMR152 میں درج ھے کیس ،جسکا فیصلہ 7 اکتوبر 2011 کو آیا تھا ) ، اس میں کہہ چکی ھے کے یکم جنوری 1996 جو کارپوریشن سے کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھونے کر آنیوالے ملازمین پر گورمنٹ کے سرکاری قوانین کا ھی اطلاق ھوگا [ان قوانین کو انگلش میں statutory rules کہتے ھیں اور یہ گورمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت بنائیے گئیے ھیں ۔ ] اسلئیے انکو ھائی کوڑٹوں سے اپنے grievances دور کرنے کے لئیے ، رجوع کرنے کا بلکل اختیار حاصل ھوگا ھے ۔ معزز عدالت عظمی نے اس سلسلے میں سندھ ھائی کوڑٹ کے دو رکنی بینچ 6 جون 2010 یہ فیصلہ منسوخ کردیا ، جس میں اسنے اپیلنٹ مسعود بھٹی اور دیگر ایسے ھی 84 پٹیشنروں کی رٹ پٹیشنیں اس بنیاد پر خارج کردییں تھیں کے انکی کوئی سرکاری statutory حیثیت نھیں ھے کیونکے یہ کمپنی کے ملازم ھیں ۔ معزز عدالت عظمی اپنے اس 7 اکتوبر 2011 کے فیصلے میں اپیلنٹ مسعود بھٹی ، جو سابقیہ ڈائیریکٹر پی ٹی سی ایل کراچی ساؤتھ زون تھے اور وی ایس ایس 2008 قبول کرکے ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے اور دوسرے اپیلنٹ دل آویز کے لئیے تو یہ حکم جاری کیا کے وہ یہ سمجھیں کے انکی رٹ پٹیشنیں ابھی تک سندھ ھائی کوڑٹ میں پینڈنگ پڑی ھوئی ھیں اسلئیے وہ پہلے ھائی کوڑٹ سے فیصلہ لیں ۔ اور تیسرے اپیلنٹ نصیرالدین غوری اے ڈی ای ، جسکے حق میں پہلے ھی فیصلہ سپریم کوڑٹ کی سطح تک پورا ھو چکا تھا اور انھوں تو اس پر عملدرآمد نہ ھونے کی وجہ سے سندھ ھائی کوڑٹ میں توھین عدالت کا کیس داخل کیا تھا ، معزز عدالت نے انکو ایک ماہ کے اندر پروموشن اور اسکے بقایا جات دینے کا حکم دیا تھا [ یاد رھے سندھ ھائی کوڑٹ کے اس دو رکنی بینچ جسکے جو دو ممبرز ججز تھے ان میں سے ایک تو موجودہ چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد صاحب اور دوسرے پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے وکیل انور شاھد باجواہ جو اسوقت سندھ ھائی کوڑٹ کے جج تھے ۔ فیصلہ بھی انھوں نے ھی تحریر کیا تھا ] ، تو معزز جج اسلام آباد ھائی کوڑٹ جناب جسٹس میاں گل اورنگ زیب نے کس انکی پٹیشن 2114/2016 کو کس بنیاد ناقابل سماعت دے کر خارج کردیا یہ کہہ کر وی ایس ایس 2008 نان پنشنرز پٹیشنرز کو یہ قرار دیا کے وہ ھائی کوڑٹ سے رجوع کرنے کا اختیار نھیں رکھتے اور انکو اسکا خیال چارسال بعد کیسے آیا جب وہ اسی پٹیشن کی تین بار ھئیرنگ بھی کرچکے تھے ۔ اسکی پہلی ھئیرنگ کا آغاز انھوں نے جنوری 2017 میں شروع کیا اور 17 اپریل 2017 تک ھرطرح سے اسکو مکمل کرلیا اور فیصلہ محفوظ کرلیا ۔ 25 جون 2017 , کو جب یہ امید کی جارھی تھی کے اس محفوظ فیصلے کا اعلان ھوگا ، محترم جج صاحب نے اعلان کیا کے ابھی انھوں نے فیصلہ نھیں لکھا اب وہ اسکا فیصلہ 27 ستمبر 2017 کو عدالتی چھٹیوں کے بعد سنائیں گے ۔ جب 27 ستمبر 2017 کو یہ کیس لگا تو بجائیے فیصلہ سنانے کے انھوں نے پی ٹی سی ایل وکیل کی ایما پر اسپر دوبارا ھئیرنگ کا آغاز کردیا پہلے انکو ایک ھفتے کا ٹائیم دیا اور دوبارہ بحث کرنے آغاز اکتوبر2017 کے اختتام یا نومبر 2017 کے اوائیل میں میں ھوا اور خدا خدا کرکے 28 فروری 2018 کو انھوں نے ایک بار پھر فیصلہ محفوظ کردیا اور جو ایک سال سے زیادہ محفوظ ھی رھا . پھر 14 مارچ 2018 انھوں نے اس کیسس کو اور دوسرے نئیے کیسوں کے ساتھ کے ساتھ کلب کردیا اور پھر تیسری مرتبہ ھئیرنگ شروع کردی اور پھر اس پر فیصلہ 13 فروری 2020 کو آیا اور اسکو نون مینٹین ایبل کی بنیاد ڈسمس کردیا گیا۔ وہ یہ تو شروع ھی میں خارج کرسکتے تھے اگر وہ ایسا کردیتے تو یقینن یہ پٹیشنرس سپریم کوڑٹ کی اسٹیج سے ابتک ریلیف حاصل کرچکے ھوتے ۔ لاھور ھائیکوڑٹ میں بھی کافی ایسے پی ٹی سی ایل نان پنشنروں نیں کیسس کئیےُ انھوں نے میری ھدایت کے مطابق اسی طرح کی آئینی پٹیشنیں داخل کیں ، انمیں سے بیشتر بغیر کسی مستند فیصلے کے ڈسپوزڈ آف ھو چکی ھیں ۔ جسطرح انکے وکیل انور شاھد باجوہ چاھتے تھے ۔ اور ھائیکوڑٹ نے کسی کے خلاف حق میں فیصلہ نھیں دیا ۔ بس ریسپونڈنٹ کو یہ احکامات جاری کئیے کے انھوں نے جن پٹیشنروں نے ڈیپاڑٹمنٹل اپیلیں کر رکھیں ھیں ، جو ایم ڈی پی ٹی ای ٹی اور پریزیڈنٹ پی ٹی سی ایل کے پاس پینڈنگ پڑی ھیں ، وہ دو ماہ کے اندر اس پر فیصلہ کرکے عدالت کو رپوڑٹ کریں ۔جن نان پینشرس پی ٹی سی ایل پٹیشنروں نے وہ پٹیشنس داخل کر رکھی تھیں ان میں سے اکثر ھمیشہ مجھ سے رابطے میں رھتے تھے اور مجھے اپڈیٹ دیتے رھتے ۔ جب ان لوگوں کی رٹ پٹیشنوں فیصلہ بھی ایسا ھی آیا تو انھوں نے مجھے بتایا کے انکی رٹ پٹیشنیں ڈسپوزڈ کردی گئیں اتنا عرصہ کاروائی کے باجود ۔ وہ لوگ بہت پریشان تھے ۔ انکو میں نے تسلی دی کے گھبرانے کی کوئی بات نھیں ۔ اب یہ دیکھیں گے یہ لوگ عدالتی احکامات کے مطابق دو مہینے کے اندر ، آپکی ڈیپاڑٹمنٹل اپیلوں پر کیا فیصلہ کرتے ھیں ۔ اگر وہ فیصلہ نھیں کرتے یا کوئی منفی فیصلہ کرتے ھیں اور آپ لوگوں کو پنشن نھیں دیتے تو پھر آپ کو لاھور ھائی کوڑٹ میں دوبارہ اپیل کرنے پڑے گی اور عدالت سے گزارش کرنی پڑے گی کے وھی قانون کے مطابق انکو پنشن کی ادائیگی کا حکم جاری کرے کیونکے یہ انکا قانونی حق ھے ۔ میں نے انسے یہ بھی کہا میں اسکی پٹیشن بھی انکو ڈرافٹ بھی انکو بنا کر دوں گا اگر وہ چاھیں گے ۔ لیکن دو مھینے گزرنے کے بعد انھوں نے مجھ سے کبھی رابطہ ھی نہیں کیا اور نہ مجھے یہ بتا یا کے انکی ڈیپاڑٹمنٹل اپیلوں پر کیا فیصلہ دیا اور ایسے غائیب ھوئیے جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔ مجھے خود بھی حیرت ھوئی جو لوگ مسلسل مجھ سے رابطے میں رھتے اور گائیڈ لئیے لیتے تھے وہ اچانک کہاں غائیب ھوگئیے ۔ کچھ عرصے بعد مجھے لاھور سے ایک میرے دوست نے مجھے بتایا کے بیشتر ایسے نان پنشنرز کو پی ٹی ای ٹی نے پنشن کی ادئیگی شروع کردی ھے ۔ وہ اس شرط پر وہ اسکا تزکرہ یا اسکا ریفرنس کسی اور نہیں دیں گے ۔ ان میں ایک لیڈی آپریٹر بھی تھی ۔مجھے یہ سب سن کر بیحد دکھ ھوا کے اگر اللہ کے بندے بتا دیتے تو اسکا فائیدہ اور دوسرے ایسوں کو بھی مل جاتا ۔ اسی طرح سندھ ھائی کوڑٹ میں بھی ایسے کافی لوگوں نے کیسس کئیے ان سب کی رٹ پٹیشنیں ڈسپوزڈ آف کردی گئیں عدالت کے اس حکم کے تحت کے پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی انکی ڈیپاڑٹمنٹل اپیلوں پر چھ مہینے کے قانون کے مطابق فیصلہ کریگی جیسا کے پٹیشنروں کے وکیل اور ریسپونڈنٹس کے وکیلوں درمیان طے ھوا ھے ۔ جب مجھے یہ بتایا گیا ، تو یقین جانئیے میں نے اپنا سر پیٹ لیا اور اسی وقت انکو مطلع کردیا کے بھول جائیں کے پی ٹی سی ایل والے انکے لئے پنشن لینے کا حق قبول کریں گے تاکے پی ٹی ای ٹی والے انکو یہ پنشن دے سکیں ۔ وہ تو عدالت میں یہ ھی رپوڑٹ دیں گے کے ھم نے اپنے قانون کے مطابق جو فیصلہ دیا وہ صحیح تھا یہ پنشن کے حقدار نہیں ھیں ۔ پٹیشنرس کے وکیل موصوف، جن کو سب کراچی والے جانتے ھیں ، اگر عدالت سے یہ حکم دلوادیتے کے جو قانون پٹیشنروں یعنی ٹرانسفڑڈ ملازمین کا گورمنٹ والا ھے جس میں تو دس سال کی کولیفائیڈ سروس پر ایک ریٹائیڑڈ سرکاری ملازم پنشن کا حقدار بن جاتا ھے ۔ اب سننے میں آیا کے ان لوگوں نے سپریم کوڑٹ میں اپیلیں داخل کر رکھیں ھیں اور اسکے لئیے انھوں نے مشہور وکیل عبدالرحیم بھٹی کے بیٹے کو وکیل کیا ھوا ھے ۔
10. ایک بات میں نے نوٹ کی ھی کے جب بھی کسی بھی ایسے نان پنشنرس وی ایس ایس آپٹیز ریٹئیڑڈ ملازمین کے مقدمات عدالت میں لگتے تھے تو ُانکے وکیل یہ جو باتیں عدالت کے روبرو کرتے تھے کے یہ بغیر پنشن والا وی ایس ایس انھوں نے خود آپٹ کیا اور دوسرے یہ کے یہ لوگ اور مزید رقم پنشن کی صورت مد میں مانگ رھے ھییں جبکے انکو ایک خطیر رقم دی جاچکی ھے انکے وی ایس ایس قبول کرنے کی وجہ سے ۔ تو پی ٹی سی ایل نان پنشنرز پٹیشنروں کے وکیل ھمیشہ یہ جواب دینے سے قاصر رھے کے “جناب جو رقم انھوں نے دی وہ ایک طرح کا انکو compensation دیا گیا ھے انکو جلد نوکری چھوڑنے کی وجہ سے اور جو یہ پنشن مانگ رھے ھیں یہ تو انکا قانونی حق ھے کیونکے یہ لوگ پنشن لینے کے لئیے کم ازکم دس سال سروس یا اس سے زیادہ ھونے کوالیفائیڈ سروس پر پورا ھونے والی معیار کی وجہ سے کی وجہ سے مانگ رھے ھیں، جو یہ لوگ 1998-1997 میں وی ایس ایس لینے والوں کو دیے چکے ھیں جو پنشن لے رھے ھیں ۔ مگر یہ دیکھا گیا اعلی عدالتیں اور عدالت عظمی ھی نہیں چاھتی ھیں کے انکا مسعلہ حل ھو اور انکو انکی جائیز پنشن ملے ۔ کیوں ؟؟؟؟؟ ۔ بہت ھی بڑا ظلم کیا گیا ھے ان وی ایس نان پنشنرس کے ساتھ جو تقریبن بیس ھزار سے زیادہ ایسے پی ٹی سی ایل ملازمین کو زبردستی بغیر پینشن کے ریٹائیڑڈ کردیا گیا ۔ ان میں سے اب کافی لوگ وفات بھی پاچکے ھیں اور انکی بیوائیں بھی بغیر پنشن کے کسمپرسی کے دن گزار رھی ھیں ۔میرے پاس ایسی کئی بیواؤں کے فون بھی آئیے تھے جنھوں نے مجھے رو رو کر بتا یا تھا کے انکے شوھروں کی سروس اٹھارہ سال ، انیس سال تک تھی لیکن انھوں زبردستی زور اور دھمکیاں دے کر انکے مرحوم شوھروں کو , وی ایس ایس لینے پر مجبور کیا۔ اور انکو مرحوموں کی پنشن نہ ھونے کی وجہ سے اب انکو بھی پنشن نھیں مل سکی وہ اپنی زندگی بچوں کے ساتھ نہایت مصائیب والے حالات سے گزر رھی ھیں ۔
11. سے کو میں نے انھیں وی ایس نان پنشنروں کو motivate کرنے کا آغاز فیس بک پر انکے لئیے اپنا پہلا آڑٹیکل لکھ کر آغاز کیا تھا ۔ 22 فروری 2016 سے اسکے آغاز کی وجہ وہ 19 فروری 2016 کو سپریم کوڑٹ کے پانچ رکنی بینچ کا حکمنامہ تھا جس میں اسنے پی ٹی سی ایل کے رویو پٹیشن خارج کی اور اور سپریم کوڑٹ کے تینُ رکنی بینچ کے 7 اکتوبر 2011 اس فیصلے کو ری کنفرم کیا کیا کے پی ٹی سی ایل میں کام کرنے سابقہ کارپوریشن کے ملازمین جو یکم جنوری 1996 کو ٹرانسفر ھوکر آئیے تھے اور کمپنی کے ملازم بن گئیے تھے ان پر گورمنٹ آف پاکستان کے سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے قوانین ھی لاگو رھیں گے اگرچہ انکو سول سرونٹ نہیں کہا جائیگا اور انکے ان قوانین کو کسی بھی منفی تبدیلی کا جس سے انکو فائیدہ نہ ھو ، نہ تو پی ٹی سی ایل اور نہ ھی حکومت کو یہ اختیار ھوگا ۔ اسی حکمنامے کو مدنظر رکھتے ھوئیے میں نے تمام ویی ایس پنشنرس کے لئیے وہ آڑٹیکل نمر 1 تحریر کیا فیس بک پر اور اپنی بلاگ سائیٹ پر ۔ اور انکو ایک رہ دکھائی کے وہ کیسے اپنی اس قانونی جنگ لڑیں اور اپنا حق لیں ۔ میں بزات خود نہ تو وی ایس ایس لے ریٹائیڑڈ ھوا اور نہ ھی نان پنشنر ھوں ۔ میں تو بفضل خدا 35 سال کی سروس کے بعد اپنے وقت 60 سال کی عمر میں 14 جنوری 2012 کو ریٹئیڑڈ ھوا تھا ۔ میرا وہ آڑٹیکل نمبر 1 اور پھر متعد اسی پر میں نے اور اردو آڑٹیکل لکھے جواب ھی تک جاری ھیں انکا صرف یہ ھی مقصد تھا کے جو ان کے وی ایس نان پنشنرس کے ساتھ جو زیادتی ھوئی ھے جنکو انکو پہلے علم تک نھیں تھا اس کا ازالہ ھو۔ یہ آڑٹیکل لکھنے کی وجہ ، آپ سب کو یہ باور کرانا تھا کے جو محمد ریاض ( راجہ ریاض) کے حق میں سپریم کوڑٹ 6 جولائی 2015کے فیصلہ (2015SCMR1783 ) آیا ھے اور اس فیصلے کے مطابق راجہ ریاض کو گورمنٹ والی پنشن اور ریٹائیرمنٹ سے پہلے ملنی والی تنخواہ گورمنٹ کے اسکیلز کے مطابق ، جو پی ٹی سی ایل نے یکم جولائی 2005 سے غیر قانونی طور دینا بند کردی تھی۔ ادا کردی گئیی ھے تو اسطرح وہ آپ سبکو بھی ملنی چاھئیے کیونکے آپ سبکا تعلق اسی کٹیگری کے ملازمین سے ھے جس کٹیگری کا راجہ ریاض تھا اور سپریم کو ڑٹ کا حمید اختر نیازی کیس 1996SCMR1185 میں بنایا ھوا اصول اور قانون جے کے کسی بھی سرکاری ملازم کے حق میں آنے والے فیصلے کا فائیدہ جس نے مقدمہ کیا ھو اور ایسے ھی سرکاری ملازمین کو بھی پہنچے گا چاھے وہ اس نے مقدمہ کیا ھو یا نہ ھو بجائیے اس سے کہا جائیے کے وہ بھی کسی عدالت یا پراپر فورم سے رجوع کریں ۔ کیونکے پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی والے سپریم کوڑٹ کے اسی اصول اور قانون کو نہیں مانتے اور وہ راجہ ریاض کو جو فائیدہ سپریم کوڑٹ نے اسکے مقدمہ کرنے کی وجہ سے اسکو پہنچایا مگر یہ ھی فائیدہ یہ لوگ نان پٹیشنرز کو نہیں دے رھے اور سپریم کوڑٹ کے بنائیے ھوئیے اس اصول اور قانون کی خلاف ورزی کررھے ھیں اسلئیے اب آپ سب کے لئیے کے انکے خلاف ھائی کوڑٹوں سے رجوع کیا جائیے اور پٹیشنیں داخل کی جائیں کیونکے یہ ھائی کوڑٹ کو آئین کے آڑٹیکل 189 کو یہ اختیار دیا گیا ھے ھیں کے وہ سپریم کوڑٹ کے فیصلوں پر عمل کرائیے۔ تو ضروری ھے اگر آپ لوگ یہ اپنا گورمنٹ کی تنخواہ اور پنشن کا حق لینا چاھتے ھیں تو آپ کو بھی اسی طرح کی پٹیشنیں اپنی اپنی متعلقہ ھائی کوڑٹوں میں داخل کرنا پڑیں گی لیکن اسکے لئیے پہلے یہ ضروری ھے آپلوگوں کو پہلے ڈیپاڑٹمنٹل اپیلیں کرنی پڑیں گی اور اسپر نہ عمل کرنے صورت یا منفی طرز عمل اختیار کرنے پر ھی آپ لوگوں یہ آئینی رٹ پٹیشنیں ، سپریم کوڑٹ کے احکامات کے مطابق
عمل کرنے ھائی کوڑٹوں میں دائیر کرنا پڑیں گی ۔ اس سلسلے میں نے نیچے اس ڈیپاڑٹمنٹل اپیل کا ایک ڈرافٹ بنادیا ھے جو اس آڑٹیکل کے پاڑٹ 2 میں ھے ور پھر رٹ پٹیشن رٹ دائیر کرنا پڑیں گی اس رٹ پٹیشن کا ڈرافزٹ گائیڈ لائنز کے ساتھ بھی اس آڑٹیکل 137 کے پاڑٹ 2 میں موجود ھے اور اس میں یہ بھی بھی بتایا ھے کے آپکو کیسے کسطرح اور کونسے وکیل کرنے چاھئیں ۔ شکریہ
واسلام
محمد طارق اظہر
ریٹائیڑڈ جنرل منیجر ( آپس) پی ٹی سی ایل
راولپنڈی
Dated 12-3-2021
div dir="auto">
ڈیکومنٹس چیک کرنے کے لئی ے نیچے کلک کریں
https://www.facebook.com/1218137701/posts/10226484553639619/
https://www.facebook.com/1218137701/posts/10226484553639619/
Comments