Regarding questions about Section 12(2) CPC and meaning of “Beside”
نوٹ : میرے بچپن کے دوست و اسکول فیلو خورشید انور شاکر وی ایس ایس آپٹ ریٹائڑڈ اسسٹنٹ انجینئر پی ٹی سی ایل سیکریٹری جنرل آل پاکستان پی ٹی سی ایل پنشنرز ٹرسٹ راولپنڈی نے مجھ سے واٹس ایپس پر (2)12 اور لفظ بیسائیڈ کے بارے جو وی ایس ایس والوں پر لگائی گئی ھے اسکی تشریح طلب کی ۔ جو میں نے انکو واٹس ایپس پر دے دی۔ چونکے یہ ایک بہت اھم تشریح تھی اسلئیے اسکو گیس بک پر بھی آپ سب لوگو مہیا کررھا ھوں تاکے ایسے وی ایس آپٹیز فیس بک فرینڈز بھی اس سے استفادہ کرسکیں۔ شکریہ طارق
۱۔ خورشید تمھارے دو سوال ھیں تم نے پہلے سوال
میں (2)12 کے بارے میں پوچھا ھے کے یہ کیا ھے اور یہ کیوں سپریم کوڑٹ نے ھم پر لگائی ھے ۔ یہ (2)12 CPC کہلاتیھے جو کوڈ آف سول پروسیجر, جسکو انگلش میں Code of Civil Procedure لکھتے ھی جس کا مخفف CPC ھےاسکے سیکشن 12 کے سب سیکشن 2 ھے جسمیں میں یہ کہاگیا ھے
Section 12(2) CPC
“In simple words, Section 12(2) CPC, speaks of the principle that if
a Decree, Order or Judgment is obtained by Fraud, misrepresentation, or where Question of jurisdiction has risen, such Order Decree or Judgment shall be challenged through an application in the same court and no other separate Suit shall lie.
It is very important section in the Code of Civil procedure, (C.P.C.) which is usually filed an application by an aggrieved person for setting aside a final judgment, decree or order, which is passed b a court due to fraud, misrepresentation or want of jurisdiction.
یعنی
سادہ الفاظ میں، سیکشن 12(2) سی پی سی، اس اصول کی بات کرتا ہے کہ اگر کوئی حکمنامہ، حکم یا فیصلہ دھوکہ دہی، غلط بیانی، یا جہاں دائرہ اختیار کا سوال پیدا ہوا ہے، تو ایسے حکم نامے یا فیصلے کو ایک درخواست کے ذریعے چیلنج کیا جائے گا۔ ایک ہی عدالت اور کوئی دوسرا الگ مقدمہ نہیں چلے گا۔"
یہ کوڈ آف سول پروسیجر عدالت کو چلانے کے لئیے طریقہ کار ھیں کے عدالت کسطرح کن قوانین کے تحت کا م کریگی ۔ ان قوانین کی انگریزوں کےزمانے 1875 میں تشکیل ھوئی تھی یہ تمام رولز اور پروسیجر ایک بہت ھی ضخیم کتاب میں موجود ھیں ۔ او ر اسکے سیکشن 12 کی سب سیکشن 2 ایک آڑڈیننس کے زریعے 1980 میں کے زریعے شامل کی گئی تھی ۔ وہ اسلئیے ھوا ، دراصل ھوتا یہ تھا کے اکثر لوگ کسی کے خلاف جھوٹے ڈکومنٹس یا عدالت میں غلط بیانی کرکے یا ایسی عدات سے اپنے حق میں فراڈلی فیصلے کرو الیتے تھے جسکا یہ اختیار یعنی دائرہ کار ھی نھیں ھوتا تھا۔ او جو متاثر پاڑٹی اسکو پھر اسکے خلاف اپیل جانا پڑتا تھا پھر مقدمہ شروع ھوجاتا پھر اسکے فیصلوں سالوں سال لگ جاتے تو حکومت نے اسکے تدارک کے لئیے یہ قانون بنایا کے اگر یہ ثابت ھوجائیے کے جس بنا پر کسی پاڑٹی نے کوئی عدالت سے ریلیف حاصل کیا وہ فراڈلی لیا ھے یا عدالت کو گمراہ کرکے ھے تو متاثر پاڑٹی اسی عدالت اس سیکشن 12 (2) C.P.C کے تحت مقدمہ دائر کرے گی اور عدالت میں یہ ثابت کرے گی کے جس مقدمے کا فیصلہ اسنے مزکورہ پاڑٹی کے حق میں دیا ھے ھے وہ فراڈلی حاصل کیا گیا ھے عدالت کو دھوکے میں رکھ کر تو اسکو فورن واپس لیا جائیے ، کلعدم کیا جائیے اور جسنے کیا ھے ایسا فراڈ کیا ھے اسکے خلاف قانونی کاروئی کی جائیے ۔ تو جس وقت پی ٹی ای ٹی کی اس رویو پٹیشن کی ھئرنگ ھورھی تھی , جو اسنے 12 جون 2015 کے اس فیصلے کی خلاف دائر کی تھی [جسمیں پی ٹی ای ٹی کو عدالت عظمی نے حکم دیا تھا کے وہ ایسے تمام ریسپوڈنںٹس کو جو ٹی اینڈ ٹی سے کارپوریشن اور کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھوکر ریٹائیڑڈ انکو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز دئیے جائیں۔اور اسکے ساتھ عدالت عظمی نے پی ٹی ای ٹی اور
پی ٹی سی ایل کی تمام اپیلیں ڈسمس کردیں اور ریسپونڈنٹس کے حق میں دئیے گئیے پشاور اور اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے فیصلے کو کنفرم کردئیے ۔ جہاں اس میں ریسپونڈنٹس میں وہ پی ٹی سی ایل پنشنرز شامل تھے جو ساٹھ سال کی عمر میں نارملی قانون کے مطابق ریٹائیڑڈ ھوئیے وھاں ایسے بھی
پی ٹی سی ایل پنشنرس بھی شامل تھے جو مارچ 2008 وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے اور ھائی کوڑٹوں سے ریلیف حاصل کئیے ، یعنی وھی گورمنٹ کے اعلان کردہ پنشنری بینیفٹس جو وہ اپنے ریٹائڑڈ سرکاری ملازمین کے لئیے اعلان کرتی ھے اور دیتی ھے ۔ ان میں وی ایس آپٹ ریٹائیڑڈ صادق علی اور مسمات بخت پری و دیگران نے یہ ریلیف پشاور ھائی کوڑٹ سے حاصل کئیے اور فاضل ملک و دیگران ، فدا حسن و دیگران ، محمد انور شاھد و دیگران نے اسلام آباد ھائی کوڑٹ سے ]- پی ٹی ای ٹی کے وکیل ایڈوکیٹ خالد انور ، جنکو پی ٹی ای ٹی نے ڈیڑھ کڑوڑ روپے دیکر ھائیر کیا گیا تھا ، انھوں نے پہلے اپنی پوری کوشش کی کے کسی طرح 12 جون 2015 کا سپریم کوڑٹ کا فیصلہ ھی ختم ھوجائیے اور کسی کو بھی گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز نہ ملیں اور جب انھوں نے یہ دیکھا کے عدالت اس فیصلے کو ختم یا تبدیل کرنے کے موڈ میں نہیں نظر آتی ھے تو انھوں نے فورن پینترا بدلا اور چیخ چیخ کر کہنا شروع کردیا ان ریسپونڈنٹس میں ، جو وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ ھوئیے اور انھوں نے کافی معاوضہ بھی لیا ھے انکے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس چینج ھوگئیے ھیں اور وہ کمپنی کے ملازم بن گئیے ھیں اسلئیے وہ ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرنے کا حق کھو چکے ھیں [ یاد رھے صرف سول سرونٹ کو ھی یہ اختیار ھوتا کے وہ اپنے grievances دور کرنے آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت ھائی کوڑٹ سے رجوع کرسکتے ۔ جبکے سپریم کوڑٹ نے مسعود بھٹی کیس 2012SCMR152 یہ کلئیریفائی کردیا تھا کے یکم جنوری 1996 کو کارپوریشن سے کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھونے والے ملازمین پر کمپنی میں گورمنٹ کے ھی سرکاری قوانین یعنی statuory rules ھی لاگو ھونگے جو سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت بنائیے گئیے ھیں بے شک وہ سول سرونٹ تو نھیں کہلائیں گے بلکے کمپنی کے ملازمین ھونگے مگر انکو
پی ٹی سی ایل کے خلف اپنے grievances دور کرنے کے لئیے آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرنے کا اختیار حاصل ھو گا۔ پی ٹی سی ایل یا گورمنٹ کو اس کا بلکل اختیار نہیں ھے کے وہ انکے ان سروس ٹرمز کو منفی تبدیل کریں جن سے انکو فائیدہ نہ ھو ] ۔ مگر انھوں فراڈلی طور ھائی کوڑٹوں سے رجوع کیا جو وہ یہ وی ایس آپٹ کرنے کی وجہ سے یہ اختیار ھی نھیں رکھتے تھے کمپنی کیونکے انکے گورمنٹ والے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس چینج ھو چکے تھے ۔ انھوں نے یہ بات ھائی کوڑٹوں سے چھپائی اور ھائی کوڑٹوں انھوں نے فراڈلی ریلیف حاصل کرلیا ۔ اس موقع پر جسٹس گلزار نے جو اس تین رکنی بینچ کے سربراہ تھے جو انکی رویو پٹیشن سن رھا تھا، خالد انور ایڈوکیٹ سے کہا اگر آپ یہ سمجھتے ھیں کے انھوں نے ھائی کوڑٹ سے رجوع کرکے فراڈلی طور پر ریلیف حاصل کرلئییے ھیں تو آپ انھی ھائی کوڑٹوں میںSection 12(2) CPC کے تحت درخواستیں دائیر کریں اور انکے خلاف کاروائی کریں ۔ میں سمجھتا ھوں جسٹس گلزار صاحب یہ کچھ انسے بلکل نھیں کہنا چاھئیے تھا بلکے انکی یہ دلائیل کو فورن مسترد کردینا چاھئیے تھا کیونکے قانون میں اسکی گجائیش ھی نہ تھی ۔ ریسپونڈنٹ کے کچھ وکیلوں کھڑے ھوکر انکو ٹوکنے کی کوشش بھی کی مگر جسٹس گلزار صاحب انکو سنے بغیر بیٹھنے کا حکم دے دیا ۔کیا جسٹس صاحب کو یہ بات معلوم نہیں تھی اور انکو کیا معلوم نہیں تھا کے سپریم کوڑٹ مسعود بھٹی کیس میں 2012SCMR152 کیا حکم دیا تھا جسکی بنیاد پر ھی جسٹس گلزار صاحب 12 جون 2015 فیصلہ ریسپونڈنٹس کے حق میں تحریر کیا تھا ۔ کیا مسعود بھٹی کیس 2012SCMR152 ایسا کوئی حکم دیا گیا تھا کے جو ایسے کمپنی میں کام کرنے والے ملازمین جو گولڈن شیک ھینڈ یا وی ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھونگے اسکے گورمنٹ والے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشن تبدیل ھو جائیں گے ۔ عدالت عظمی نے تو اپیلنٹ مسعود بھٹی ، جو کے وی ایس آپٹ کرکے مارچ 2008 میں ریٹئیڑڈ ھوئیے تھے ، انکو کو یہ حکم دیا کے وہ یہ سمجھیں کے انکی رٹ پٹیشن ابھی سندھ ھائی کوڑٹ میں ھی پڑی ھوئی ھے اور اسپر عدالت یعنی سندھ ھائی کوڑٹ نے ابھی فیصلہ کرنا ھے وھاں کے فیصلے کے بعد وہ ، اگر مطمئن نہ ھوں تو تب ھی سپریم کوڑٹ سے رجوع کرسکتے ھیں ۔ تو سوچنے کی بات ھے اگر وی ایس ایس آپٹ کرنے کے ناطے مسعود بھٹی کے گورمنٹ والے سروس اور ٹرمز اینڈ کنڈیشن بدل گئیے ھوتے تو عدالت عظمی انکو کیونکر ھائی کوڑٹ سے رجوع کرنے کا حکم دیتی ؟؟؟ ۔ جسٹس گلزار صاحب نے جو کچھ کہا اسکو اپنے 17 مئی 2017 عدالتی حکم میں بھی تحریر کردیا اور 12 جون 2015 کے میں کسی تبدیلی ، موڈیفیکیشن کے بغیر اسکو ڈسپوزڈ آف کردیا یعنی انھوں نے 12 جون 2015 کے تین رکنی بینچ کے فیصلے پر مہر ثبت کردی - انھوں نے دودھ میں میگنیاں ڈالنے والا حساب کیا۔ اور اپنے آڑڈر میں یہ پخ لگادی اور پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کو یہ موقع فراھم کردیا کے وہ 12 جون 2015 کے فیصلے پر من وعن عمل نہ کریں ۔
پی ٹی ای اٹی نے عدات کے اس حکم کے مطابق اسلام ھائی کو ڑٹ اور پشاور ھائی کو ڑٹ میں Section 12(2)CPC کے تحت ایسے ایسے وی ایس آپٹیز کے خلاف مقدمات دائیر کردئیے جنھوں نے انکے بقول فراڈلی طور پر ان ھائی کوڑٹوں سے ریلیف حاصل کرلئییے تھے۔ جسکا ان ھائی کوڑٹوں سننے کا دائیرہ اختیار ھی نہیں تھا مگر دونوں ھائی کوڑٹوں سے انکی کی یہ Section12(2)CPC تحت دائیر کردہ درخواستیں ، شائید ستمبر یا اکتوبر 2018 میں خارج کردیں ۔ یعنی ان ھائی کوڑٹوں نے یہ قبول کرلیا جن وی ای ایس آپٹیز نے ان سے رجوع کیا تھا وہ حقیقی طور پر بطور سول سرونٹ ان ھائی کوڑٹوں سے آئین کے آڑٹیکل ۱۹۹ کے تحت رجوع کرنے کا اختیار رکھتے ھیں ۔ پی ٹی ای ٹی نے اسکے خلاف سپریم کوڑٹ میں اپیلیں دائیر کردیں ۔ جو اب تک وھی پینڈنگ ھوئی ھیں ۔ جسکی شائید ایک یا دو ھئیرنگ ھوئی ھے جو مارچ ۲۰۱۹ کی ھئرنگ کے بعد ابھی تک پینڈنگ ھیں اور اس پر ھئرنگ ھو ھی نہیں ھو رھی ھے ۔ چیف جسٹس گلزار صاحب ، جو انکے وکیل انور شاھد باجواہ صاحب کے دیرینہ دوست ھیں ، جنھوں نے سندھ ھائی کوڑٹ میں ایک ساتھ ایک بینچ میں کام کیا ھے ۔ اور انھی پر مشتمل دورکنی بینچ نے سندھ ھائی کوڑٹ میں دائیر کردہ ایسے ملازمین کی رٹ پٹیشنیں صرف اس ٹیکنیکل بنیاد پر سنے بغیر 6 جون 2010 کو خارج کردیں تھیں کے جو ایسے ملازمین نے جو ٹرانسفڑڈ ھوکر کمپنی میں آئیے تھے وہ کمپنی کے ملازم بن گئیے تھے اور انکو یہ بلکل اختیار نہیں حاصل تھا وہ ھائ کوڑٹ سے اپنے grievances دور کرنے کے لئیے ، آئین کے آڑٹیکل ۱۹۹ کے تحت رجوع کرتے۔ ان میں تین متاثرہ ملازمین ، مسعود بھٹی ، نصیرالدین غوری اور سید دل آویز نے اس حکم سپریم کوڑ ٹ میں اپیلیں دائیر کردیں سپریم کوڑٹ نے انکی اپیلیں 7 اکتوبر 2011 کو منظور کرلیں اور سندھ ھائی کوڑٹ 6 جون 2010 کا وہ آڑڈر کلعدم قرار دے دیا جو موجودہ چیف جسٹس گلزار صاحب اور موجو دہ پی ٹی ا ی ٹی کے وکیل ریٹائڑڈ جج سندھ ھائی کوڑٹ جسٹس شاھد انور نے دیا تھا ۔ سپریم کا یہ فیصلہ فیصلہ 2012SCMR152 میں درج ھے اور اسکے خلاف انکی رویو پٹیشن بھی پانچ رکنی بینچ نے 19 فروری 2016 کو ڈسمس کردی جو 2026SCMR1362 میں درج ھے ۔
2. دوسرا سوال خورشید تمھارا بیسائیڈ ( beside) لفظ تھونپنے کے بارے میں تھا کے اسکا کیا مطلب ھے۔ یہ لفظ جسٹس گلزار صاحب نے استعمال کیا تھا جب و ہ اس دورکنی بینچ کے سربراہ تھے جسنے 15 فروری 2018 صادق علی اور نسیم وہرہ کئ طرف سے 2015 میں دائر کردہ توھین عدالت کی اپیلیں نمبر 53 اور 54 کو ڈسپوزڈ کرتے ھوئیے استعمال کیا تھا - یہ توھین عدالت کے کیسز صادق علی اور نسیم وہرہ نے ، پی ٹی ای ٹی کی خلاف کئیے تھے جو 12 جون 2015 کے سپریم کوڑٹ کے فیصلے پر عمل نھیں کررھے تھے اور انکو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز نہیں دے رھے تھے ۔ مگر دو رکنی بینچ نے فیصلہ انکے برخلاف دیا ۔ پہلے یہ سمجھ لو اس آڈر کے content کیا تھے (یہ ۱۵ فروری ۲۰۱۸ میں نے نیچے پیسٹ کردیا ھے ) جب ھی تمھارے سمجھ میں بات آئیگی ۔ ۔ میں نیچے اس آڑڈر کا وہ لائین لکھ رھا ھوں جس میں یہ لفظ beside لکھا گیا ھے
“ It is further stated by the learned ASC for the alleged contemners PTCL/PTET that the alleged contemners PTCL/PTET shall make payments of pension with incentive pay to the petitioners “besides” VSS optees within 15 days . . . . .
اسکا اردو میں یہ ترجمعہ یہ آتا ھے کے
“ توھین عدالت کا الزام لگنے والے پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کی جانب سے انکے معروف ایڈوکیٹ سپریم کوڑٹ نے کہا وہ ماسوائیے وی ایس ایس آپٹیز کے ، پٹیشنروں کو پنشن انسیٹو پے کے ساتھ پیمنٹ 15 دن میں کریں گے
تو اسوقت سب نے یہاں لفظ “besides “ کا مطلب “بشمول “ نکالا ۔ یعنی یہ گورمنٹ پنشن لینے والوں وی ایس ایس آپٹیز بھی شامل ھیں ۔میں نے کہا نہیں ایسا نہیں اور اسی دن فیس بک پر لکھا اسکا مطلب ے کے ماسواۓ
وی ایس ایس آپٹیز پٹیشنرز کے صرف ان پٹیشنرز کو یہ پنشن دی جائیگی جو ساٹھ سال کی عمر میں نارملی ریٹائیڑڈ ھوئیے ھونگے۔ ساتھ میں نے یہ بھی لکھا کے کے یہ آڑڈر utra-viries یعنی ناقابل عمل ھے ۔کیونکے دو رکنی بینچ کے ممبر ججز سپریم کوڑٹ اس تین رکنی بینچ کے 12 جون 2015 کے اس آڑڈر کو کیسے تبدیل یا موڈیفائی کرسکتے تھے جس نے تمام ریسپوںڈنٹس کو چاھے وہ وی ایس ایس آپٹیز تھے یا نارملی ریٹائیڑڈ ان سب کو یہ گورمنٹ والی پنشن انکریزز ادا کرنے کے لئیے بوڑڈ آف ٹرسٹیز کو یہ حکم دیا تھا اور پھر اسکو تین رکنی بینچ نے 17 مئی 2017 کو کنفرم بھی کیا اور بغیر کسی تبدیلی اور نوڈیفیکیشن کے اسکو ڈسپوزڈ آف کردیا ۔ اور ۱۲ جون ۲۰۱۵ فیصلہ فائینل ھوگیا تھا جسمیں میں بعد میں کسی ترمیم کی گنجائش باقی نہیں رھتی تھی نے ۔ میں نے یہ بھی تحریر کیا تھا کے صادق علی کو فورن اس فیصلے کے خلاف رویو اپیل فائیل کرنی چاھئیے کیونکے رویو اپیل فائیل کرنے کا ٹائیم بہت لمیٹیڈ ھو تا ھے ۔ مگر یہ لوگ اسی “beside “ کے اس ترجمعہ یعنی “بشمول “ پر ھی تکیہ کرتے رھے کے انکو بھی ان پنشن لینے والوں میں شامل کیا گیا ھے ، مجھے پتہ نہیں کس کس ڈکشنری کے ریفرنس لکھ بھیجے کے دیکھئیے اسکا مطلب بشمول ھوتا ھے ۔ آخر میں نے زچ ھوکر لکھا کے دا گز دا میدان ۱۵ دن دیکھ لیں کے انکو پیمنٹ ھوتی ھے یا نہیں جب ھی انکو سمجھ میں آئیے گا اور اس طرح کے پنگ پانگ کے گیم میں انھوں نے رویو پٹیشن دائر کرنے کا وقت ضائیع کردیا دیا ۔ یہ صادق صاحب نے ایک بہت بڑا blunder کیا۔ یقین جانو اگر انھوں نے یہ رویو پٹیشن داخل کردی ھوتی اور اس میں صرف یہ سوال ھی اٹھا دیا ھوتا کے دو رکنی بینچ کے ممبر ججز کسطرح تین رکنی بینچ کے احکامات کو موڈیفائی کرسکتے ھیں جبکے مزید تین رکنی بینچ نے انکی رویو پٹیشن بھی خارج کردی تھی اور وہ 12 جون 2015 کا فیصلہ امر ھوگیا تھا جس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی ھو ھی نھیں سکتی ، تو یقینن انکی ریو پٹیشن لازمن منظور ھوگئی ھوجاتی اور 15 فروری کا یہ فیصلہ کے وی ایس آپٹیز کو یہ گورمنٹ پنشن انکریزز نہ دئیے جائیں فورن ختم ھو جاتا اور وھی 12 جون 2015 کا فیصلہ مکمل بحال ھو جاتا ھوجاتا۔ مگر یہ ان لوگوں کی کم عقلی اور ناسمجھی کی وجہ سے ایسا نہ ھو سکا ۔ اور اس غلط فیصلے کے نتائج تمام وی ایس آپٹیز ریٹائیڑڈ آج تک بھگت رھے ھیں اور پی ٹی ای ٹی والوں کو یہ موقع مل گیا وہ ھر جگہ یہ راگ الاپتے پھرتے ھیں کے وی ایس آپٹیز کے گورمنٹ کے سروس ٹرمز کنڈیشن تبدیل ھوگئیے ھیں کیونکے سپریم کوڑٹ نے انکو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز کا نا حقدار ٹہرایا ھے جبکے ایسی حقیقت نھیں ھے ۔ صادق علی اور شائید انکے ساتھ کچھ ساتھی 12 جون 2015 کے فیصلے میں ریسپونڈنٹ تھے لیکن انھوں نے جو توھین عدالت کے کیسسز کئیے ان میں باھر سے وہ لوگ بھی شامل کرکئیے جنھوں نے پہلے کسی ھائی کوڑٹ میں کیس بھی نھیں کیا تھا اور اس 12جون 2015 والے کیس میں ریسپونڈنٹس بھی نھیں تھے۔ مجھے معلوم ھوا تھا کوئی چھ سو یا اس سے بھی زیادہ لوگ صادق علی نے اپنے ساتھ اس توھین عدالت کے کیس میں باھر سے شامل کر لئیے تھے۔ اور انسے وکیل کی فیس کی مد کافی رقم بٹور لی تھی ۔ اتنے زیادہ توھین عدالت کے کیسس کرنے والوں کو دیکھ کر پنشن دینے والوں کو یعنیٹرسٹ کو بدلنا ھی تھا اور انھوں نے چکر چلا کر ان کا سب پتہ ھی صاف کردیا ، اب یہ لوگ اسی کا بھگت رھے ھیں ۔ اگر آپ غلط ٹریک اختیار کریں گے تو سفر اور انجام دونوں ھی غلط ھونگے ۔
واسلام
محمد طارق اظہر
13-12-2021
Comments