Article-220[ Regarding urdu translation of HCJ SC J Yahaya Afridi of para 13 to Para 25]

 Article-220


جناب چیف جسٹس یحیٰ آفریدی کے پیرا 23 سے 25 تک کا مکمل جامع اردو ترجمہ

پیرا 23:

خلاصہ کے طور پر، میرا غور کیا ہوا نظریہ یہ ہے کہ جو ملازمین ٹی اینڈ ٹی سے پی ٹی سی اور اس کے بعد پی ٹی سی ایل میں منتقل ہوئے، انہوں نے اپنے پنشن کے حقوق اور فوائد کو محفوظ رکھا، جن میں نہ صرف ان کے پنشن کے فوائد شامل ہیں بلکہ ان کے خاندان کے افراد کے لیے بھی یہ فوائد برقرار رہتے ہیں۔ جبکہ یہ ملازمین سول سروسز کے تحت کام کرتے تھے، ان کے پنشن کے حقوق کا تعین سرکاری فریم ورک کے تحت ہوتا ہے۔ ان کے تبادلے کے وقت ان کے پنشن کے حقوق کو منجمد نہیں کیا گیا بلکہ یہ زندہ حقوق ہیں جو وقت کے ساتھ ترقی پزیر ہیں، جیسے کہ متعلقہ اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں پی ٹی سی ایکٹ سیکشن 9 اور پی ٹی سی ایل ایکٹ سیکشن 36 کے تحت ملازمین کے تسلسل اور ان کے انتظامیاتی انتظام کو یقینی بنایا گیا، جس کا مقصد پی ٹی ای ٹی کے قیام کو فروغ دینا تھا، نہ کہ اسے روکنا۔ پی ٹی سی اور پی ٹی ای ٹی دونوں ہی اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ ان کے ملازمین کے حقوق مکمل طور پر محفوظ رہیں، اور اس کے برعکس کوئی اختیاری ادائیگی نہیں کی جانی چاہیے، بلکہ قانونی تقاضوں کو پورا کیا جانا چاہیے۔

پیرا 24:

اس فیصلے سے پہلے اس بات کو واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ نتیجہ اور اس کے احکامات مالیاتی خدشات کو نظر انداز کرکے نہیں دیے گئے، جو پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی نے اٹھائے تھے۔ ان کی طرف سے مالی بوجھ اور مالیاتی عدم استحکام کے دعوؤں پر غور کیا گیا۔ اگر موجودہ پنشن کا ماڈل مالی طور پر برقرار رکھنا ناممکن ہو، تو اسے دوبارہ ترتیب دینا ہوگا، نہ کہ قانونی حقوق کو ختم کیا جائے۔ عملی چیلنجز کو تسلیم کرتے ہوئے، پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مالیاتی ذمہ داریوں کو تسلیم کریں۔ اس تناظر میں، پی ٹی سی ایل کو اپنے مالیاتی ریکارڈز کو بہتر بنانا ہوگا اور سول ملازمین کے لیے مناسب ادائیگی کا شیڈول طے کرنا ہوگا۔ اس کے بعد، پی ٹی ای ٹی کے ذریعے 90 دن کے اندر اندر ادائیگی کا عمل مکمل کیا جائے گا، اور اس کی ضرورت ہے کہ ادائیگی کا عمل شروع کیا جائے۔

پیرا 25:

اس کے مطابق، اوپر بیان کردہ وجوہات کی بناء پر، میں جسٹس عائشہ ملیک کے نتیجے سے اختلاف کرتا ہوں اور رائے دیتا ہوں کہ:

سی پی ایل اے نمبرز 412، 420، 461-463، اور 506 آف 2019؛ سی پی ایل اے نمبرز 424-کے، 387-کے، اور 365-کے آف 2019؛ سی پی ایل اے نمبرز 6005، 6006، 6023-6030، 6037-6096، 6101-6106، 6268-6273، اور 6364 آف 2021، 6453-6456 آف 2021؛ اور سی پی ایل اے نمبرز 134-135 آف 2022 کو مسترد کیا جاتا ہے۔ ان کے خلاف دیے گئے فیصلے کو برقرار رکھا جاتا ہے، جو پی ٹی سی ایل کے ملازمین کے حق میں دیے گئے 2 نومبر 2011 کے فیصلے کو بحال کرتا ہے، جس میں انہیں سرکاری پنشن دینے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس کے تحت پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل ان ملازمین کو سرکاری پنشن اور اس کے بقایا جات ادا کرنے کے پابند ہیں۔

سی پی ایل اے نمبرز 2197، 2199، اور 2200-2205 آف 2022؛ سی پی ایل اے نمبرز 2563 اور 2564 آف 2022؛ اور سی پی ایل اے نمبرز 495-کے اور 496-کے آف 2023 کو اپیل میں تبدیل کیا جاتا ہے، اور انہیں متعلقہ ہائی کورٹس کو ریمانڈ کیا جاتا ہے تاکہ درخواست دہندگان کے ملازمت کے درجہ بندی اور ان کے حقوق کا تعین کیا جا سکے۔

سی اے نمبر 1509 آف 2021 کو لاگت کے بغیر مسترد کیا جاتا ہے۔

دیگر سی پی ایل اے اور سی آر آئی او پی کیسز، جن کا ذکر اوپر کیا گیا، کو بھی مسترد کیا جاتا ہے۔


تجزیہ اور تبصرہ

جناب چیف جسٹس یحیٰ آفریدی نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ 2 نومبر 2011 کے فیصلے کو بحال کیا جاتا ہے، جس میں پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے ان ملازمین کو سرکاری پنشن اور اس کے بقایا جات ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا جو ٹی اینڈ ٹی سے پی ٹی سی اور پھر پی ٹی سی ایل میں منتقل ہوئے تھے۔ اس فیصلے کا بنیادی جواز یہ ہے کہ ان ملازمین کے پنشن کے حقوق کو سول سروسز کے تحت تسلسل کے ساتھ برقرار رکھا گیا، اور ان کے تبادلے کے وقت ان کے حقوق کو منجمد کرنے کی بجائے انہیں ترقی پزیر سمجھا گیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مالیاتی بوجھ کے دعوؤں کو نظر انداز نہیں کیا گیا، لیکن قانونی حقوق کو ختم کرنے کی بجائے پنشن کے ماڈل کو دوبارہ ترتیب دینے کی تجویز دی گئی ہے، جو کہ ایک متوازن نقطہ نظر دکھاتا ہے۔

جناب چیف جسٹس نے کچھ سی پی ایل اے درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے ان فیصلوں کو برقرار رکھا جو 2 نومبر 2011 کے فیصلے کے حق میں تھے، جبکہ کچھ دیگر سی پی ایل اے کو اپیل میں تبدیل کرکے ہائی کورٹس کو ریمانڈ کیا گیا تاکہ ان ملازمین کی ملازمت کی حیثیت اور ان کے پنشن کے حقوق کا تعین کیا جا سکے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے ان معاملات کو گہرائی سے جانچنے کی ضرورت کو تسلیم کیا، خاص طور پر ان کیسز میں جہاں ملازمین کی سول سرونٹ کے طور پر حیثیت مشکوک تھی۔


ان لوگوں کے لیے رہنما اصول جن کی سی پی ایل اے اپیلوں کو ہائی کورٹس میں ریمانڈ کیا گیا ہے

جن افراد کی سی پی ایل اے اپیلوں کو ہائی کورٹس میں ریمانڈ کیا گیا ہے، انہیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ 1991 میں ٹی اینڈ ٹی سے پی ٹی سی میں منتقل ہونے کے وقت سول سرونٹ تھے۔ اس کے لیے درج ذیل دلائل اور رہنما اصول اپنائے جا سکتے ہیں:

1. ملازمت کے ریکارڈز پیش کرنا:

انہیں اپنے ملازمت کے ابتدائی دستاویزات، جیسے کہ تقرری کا خط، سروس بک، یا ٹی اینڈ ٹی سے پی ٹی سی میں تبادلے کا نوٹیفکیشن پیش کرنا ہوگا، جو ان کی سول سرونٹ کی حیثیت کی تصدیق کرتا ہو۔

ان دستاویزات میں ان کی تنخواہ، مراعات، اور سروس کے حالات کو سول سروسز کے تحت درج ہونا چاہیے۔

2. سرکاری نوٹیفکیشنز کا حوالہ:

1991 کے تبادلے کے وقت جاری کردہ سرکاری نوٹیفکیشنز کو پیش کرنا ہوگا، جو یہ ظاہر کرتے ہوں کہ تبادلہ سول سروسز کے فریم ورک کے تحت عمل میں آیا تھا، نہ کہ کسی نجی معاہدے کے تحت۔

اگر کوئی نوٹیفکیشن موجود نہ ہو، تو متعلقہ محکمے سے اس کی کاپی حاصل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔

3. شہادت اور گواہی:

ان کے ساتھیوں یا سینئرز کی شہادت پیش کی جا سکتی ہے جو اس وقت موجود تھے اور تصدیق کر سکتے ہیں کہ وہ سول سرونٹ کے طور پر کام کر رہے تھے۔

اس کے لیے حلفی بیانات (افداوٹس) تیار کیے جا سکتے ہیں۔

4. قانونی فریم ورک کا حوالہ:

انہیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ان کی ملازمت پی ٹی سی ایکٹ 1991 اور اس کے بعد پی ٹی سی ایل ایکٹ کے تحت سول سروسز کے دائرہ کار میں آتی تھی۔ اس کے لیے متعلقہ سیکشنز (مثلاً پی ٹی سی ایکٹ سیکشن 9) کا مطالعہ اور حوالہ دینا ضروری ہے۔

انہیں یہ بھی دکھانا ہوگا کہ ان کے پنشن کے حقوق کو تسلسل کے ساتھ برقرار رکھا گیا، جو سول سرونٹس کے لیے مخصوص ہے۔

5. ہائی کورٹ میں دلائل کی تیاری:

ایک اچھا وکیل یا قانونی مشیر رکھنا ضروری ہے جو ان کے کیس کو مضبوط بنانے کے لیے مندرجہ بالا دستاویزات اور دلائل پیش کر سکے۔

ہائی کورٹ سے درخواست کی جا سکتی ہے کہ وہ متعلقہ محکموں سے اصل ریکارڈ طلب کرے تاکہ ان کی سول سرونٹ کی حیثیت کی تصدیق ہو سکے۔

6. وقت کی حد اور عملدرآمد:

چونکہ فیصلے میں 90 دن کے اندر ادائیگی کا عمل مکمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، انہیں ہائی کورٹ میں جلد از جلد اپنا کیس پیش کرنا ہوگا تاکہ ان کے حقوق کا تعین ہو سکے۔

اگر کوئی ثبوت غائب ہو، تو فوری طور پر متعلقہ اداروں سے رجوع کرنا ہوگا۔


نتیجہ

جناب چیف جسٹس یحیٰ آفریدی نے اپنے فیصلے سے نہ صرف 2 نومبر 2011 کے فیصلے کو بحال کیا بلکہ ان ملازمین کے قانونی حقوق کی حفاظت کو یقینی بنایا، جن کی سی پی ایل اے مسترد ہوئیں۔ تاہم، جن کی اپیلوں کو ریمانڈ کیا گیا، ان کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ اپنی سول سرونٹ کی حیثیت ثابت کرکے اپنے پنشن کے بقایا جات حاصل کر سکیں۔ اس کے لیے انہیں مذکورہ رہنما اصولوں پر سختی سے عمل کرنا ہوگا اور قانونی عمل کو تیز کرنا ہوگا۔

.

سول سروس قوانین پاکستان میں سرکاری ملازمین کے تقرر، ترقی، تنخواہ، پنشن، اور دیگر سروس سے متعلق امور کو منظم کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ان قوانین کا بنیادی مقصد سول سروسز کے نظام کو شفاف، منصفانہ، اور مؤثر بنانا ہے۔ ذیل میں سول سروس قوانین کے کچھ اہم پہلوؤں کا مختصر جائزہ دیا جا رہا ہے:

اہم قوانین اور قوانین کے ماخذ

1. سول سرونٹس ایکٹ، 1973:

یہ پاکستان میں سول سروسز کا بنیادی قانون ہے، جو وفاقی اور صوبائی سول ملازمین کے حقوق، فرائض، اور سروس کے حالات کو طے کرتا ہے۔

اس میں تقرر، تبادلہ، معطلی، برطرفی، اور پنشن کے اصول شامل ہیں۔

2. سول سرونٹس (تعیناتی، ترقی، اور دیگر حالات) کے قواعد، 1973:

اس قانون کے تحت تفصیلی قواعد وضع کیے گئے ہیں جو سول ملازمین کی بھرتی، ترقی، اور سروس سے متعلق معاملات کو سنبھالتے ہیں۔

مثال کے طور پر، میرٹ پر تقرری اور شفافیت کے اصول شامل ہیں۔

3. پنشن قوانین:

سول سرونٹس بنفٹس (پنشن) کے قواعد، 1977، جو سول ملازمین کے پنشن، گریچوئٹی، اور خاندانی پنشن کے حقوق کا تعین کرتے ہیں۔

ان قوانین کے تحت ملازمین کو سروس کے دوران اور ریٹائرمنٹ کے بعد مالی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔

4. محکمہ جاتی قوانین:

کچھ اداروں (جیسے پی ٹی سی ایل یا پی ٹی ای ٹی) کے لیے الگ سے قوانین بنائے گئے ہیں جو سول سروسز کے فریم ورک کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں، جیسے پی ٹی سی ایکٹ، 1991۔

اہم نکات

سول سرونٹ کی تعریف: سول سرونٹ وہ شخص ہوتا ہے جو سرکاری ملازمت میں مقرر کیا جاتا ہو اور اس کی سروس سول سروسز کے قوانین کے دائرہ کار میں آتی ہو۔

پنشن کے حقوق: اگر کوئی ملازم سول سرونٹ کے طور پر خدمات انجام دیتا رہا، تو اسے پنشن اور اس کے بقایا جات کا حق حاصل ہوتا ہے، بشرطیکہ اس کی سروس تسلسل کے ساتھ سرکاری فریم ورک میں رہی ہو۔

تبادلہ اور تسلسل: جیسے کہ جناب چیف جسٹس یحیٰ آفریدی کے فیصلے میں ذکر ہے، تبادلے کے دوران پنشن کے حقوق کا تسلسل برقرار رہنا چاہیے، بشرطیکہ ملازم سول سرونٹ کی حیثیت میں رہا ہو۔

حالیہ تناظر (جولائی 2025)

آپ کے پچھلے سوال کے تناظر میں، جناب چیف جسٹس یحیٰ آفریدی کے فیصلے (SCPF reserved attested judgment 100725.pdf) نے 2 نومبر 2011 کے فیصلے کو بحال کرتے ہوئے واضح کیا کہ پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے ملازمین، جو 1991 میں ٹی اینڈ ٹی سے منتقل ہوئے تھے، کو سول سروسز کے تحت پنشن کے حقوق دیے جائیں گے، بشرطیکہ وہ اس وقت سول سرونٹ تھے۔ جو کیسز ریمانڈ ہوئے، ان میں ملازمین کو اپنی سول سرونٹ کی حیثیت ثابت کرنا ہوگی، جس کے لیے مندرجہ بالا قوانین اور دستاویزات کا استعمال کرنا ضروری ہوگا۔

Comments

Popular posts from this blog

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

.....آہ ماں۔

Article-170[ Regarding Article -137 Part -1 in English]