Article-44[Mazhar Hussain CHRO ki makkarian]
"سید مظہر حسین کی مکاریاں اور ضیاآلدین کی عیاریاں اور دھوکہ بازیاں پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفڑڈ ملازمین "کے ساتھ
میں نے اپنے 24 جولائی 2017 کو اپنے مقالے میں یہ مندرجہ ذیل باتیں تحریر کی تھیں .جسکی بنیاد سید مظہر حسین CHRO کی بےتکی باتوں کا مختصرن جواب دیا تھا . میں سمجھتا ھوں ان باتوں کو کی پوائنٹ وآئز مکمل تشریح ھونا چاھۓ تاکے آپ کو اندازہ ھوسکے کے یہ شخض کتنا جھوٹ بول رھا ھے صرف اسلئے کے آپ لوگ اسکا کا دیا ھوا پی ٹی سی ایل کا نیو پیکج -17 قبول کرلیں اور پھر یہ اسکی وجہ سے آپلوگوں کو کمپنی کا ملازم بنا کر اپنا حکم چلاسکے اور آپ لوگ اسکا کچھ بھی نہ کر پائیں . اگر آپ میر ی ان باتوں کو غور سے سمجھ کر پڑھيں گے ، جو میں مندرجہ ذیل تحریر کرنے جارھا ھوں تو مجھے اللہ کی زات پر بھروسہ ھے کے آپ لوگ اس کے نرغے میں نہیں آئیں گےاور اس مظہر کو منہ کی کھانی پڑے گی. میں نے یہ مندرجہ زیل تحریر کیا تھا
" مجھے کل بروز اتوار ۲۳ جولائی-۱۷ ، یہ مظہر حسین صاحب کے خطاب کی یہ تین منٹ کی ویڈيو واٹس ایپ پر موصول ھوئی جسکو آپلوگوں کے لئے فیس بک پر اپلوڈ کردي ھے . اسکی کوالٹی اتنی اچھی نہیں اور آواز بھی کچھ مدھم ھے اسلئے آپ لوگوں سے گزارش ھے کے یہ ھیڈفون لگا کر شور شرابے سے دور انکی یہ چاپلوسی والی تقریر سنیں .یہ ویڈیو شائید کسی نے دوران تقریر اپنے موبائیل فون سے ریکاڑڈ کی ھے . کل جب یہ ویڈیو موصول ھوئی تو مجھےانکی تصویر دیکھکر ایسا لگا کے کسی نے ایک داڑھی والے گوئیے کی ویڈیو بھیجی ھے جو لہک لہک کر سٹیج پر گانا گارھا ھے. تو فورن تو یہ ویڈیو میں نے ڈاؤن لوڈ نہیں کی رات کو پھر جب اسکو میں نے ڈاؤن لوڈ کی تو یہ عقدہ کھلا کے موصوف جناب مظہر صاحب ھیں جو پی ٹی سی ایل کے ملازمین سے کسی ٹاؤن ہال میں خطاب کررھے ھیں .
مظہر صاحب کی تقریر کا لب لباب یہی تھا کے کے پی ٹی سی ایل کے ایمپلائی کمپنی کے دئے ھوئے یہ نیو اسکیل قبول کرلیں اور اسکا آپشن دے دیں. اس سلسلے میں انھوں نے بڑی ھی مضحکہ خیز باتیں کیں اور ساتھ انکی باتوں سے یہ لگ تھا کے جو عدالتی فیصلے پی ٹی سی ایل کے ان ٹرانسفڑڈ ملازمین کے حق میں آئے ھیں ، کمپنی ان پر عمل کرنے کا کوئی بھی ارادہ نہیں رکھتی . انکا یہ کہنا کے پی ٹی سی ایل کمپنی ایک مکمل پرائویٹ ادارہ ھے اور اس میں گورنمنٹ کے اسکیلز بالکل نھیں آسکتے . انکی یہ بہت بڑی بھول ھے . پہلے تو انکی یہ بات میں کلئیر کردوں کے یہ پی ٹی سی ایل کمپنی تو ھے مگر مکمل پرائیوٹ نھیں کیونکے اس کمپنی میں حکومت پاکستان کے اب بھی 63% شئیرز ھیں جبکے ایتصلات کے پاس 26% اور دوسرے پبلک سیکٹر کے پاس اسکے 11% شئرز ھیں تو ایک طرح کی یہ کمپنی سیمی گورنمنٹ کمپنی ھے . اور ایتصلات نے چونکے اسکے 26% شئرز خریدے ھیں اسلئے اسکو اسکے صرف انتظامی اختیارات ملے ھیں کوئی یہ اسکے مالک نہیں بن بیٹھے . اس کمپنی کے بوڑڈ آف ڈائریکٹرز کے چئیر مین فیڈرل سیکریٹری ، سیکریٹری منسٹری آ ئی ٹی و ٹیلیکام اسلام آباد ھیں جو ایک گورنمنٹ ملازم ھیں اور بوڑڈ آف ڈائریکٹرز گورنمنٹ ممبرز کی تعداد بحساب شئرس ھولڈر زیادہ ھے.مظہر صاحب کو یہ معلوم ھونا چاھئے.کے اس کمپنی کا وجود پاکستان ٹیلی گراف اینڈ ٹیلی فون ڈیپاڑمنٹ کے ختم ھونے اور اس میں اسکے گورنمنٹ کے ملازمین کے ضم ھونے کی وجہ سے ظہور میں آیا پھلے کار پوریشن بنی اور پھر اسی کارپوریشن کے پانچ حصے (entities) ھوئے اور ایک حصہ یہ کمپنی PTCL بنی. اور پی ٹی سی کے تمام ملازمین ان حصوں میں ٹرانسفڑڈ ھوگئے اپنے آپشنس کے تحت .کچھ NTC میں چلے گئے کچھ PTA میں ، کچھ FAB میں اور کچھ PTET میں اور باقی جو بچے تھے وہ سب اس کمپنی یعنی PTCL میں انھیں سروس کے ٹرمز اور کنڈیشنس میں جو انکے ٹی اینڈ ٹی میں تھے اور بعد میں PTC میں بھی تھے اور اسی طرح PTCL میں ھوئے پی ٹی ایکٹ 1996 کی شق (1) (2) 36 کے تحت جو لوگ دوسرے حصوں میں ٹرانسفر ھوئے تھے وہ ایک خود بخود سرکاری ملازم بن گئے کیونکے یہ اور ادارے ایک طرح کے مکمل گورنمنٹ ادارے تھے اور ان میں پی ٹی سی سے ٹرانسفر ھوکر آنے والے ملازمین سرکاری ملازم ھوگئے یعنی سول سرونٹ انکو وھی تنخواھیں اور پنشن ملنے لگی جو گورنمنٹ اپنے سول سرونٹس اور پنشنرس کو دیتی ھے اور جو لوگ PTCL میں میں آگئے تھے انکے لئے کمپنی یعنی PTCL انکو گورنمنٹ والی تنخواہ دینے کی پابند تھی یعنی پی ٹی ایکٹ 1996 کی شق (1) (2) 36کے تحت اور جو وہ باقاعدگی سے دے رھی تھی یعنی یکم جنوری 1996 سے . جب گورنمنٹ اپنے ملازمین کی تنخواہ بڑھاتی تو PTCL بھی بڑھاتی جیسا اسنے یکم دسمبر 2001 سے بڑھائی تھی گورنمنٹ کے طریقہ کار پر . PTCL نے ان تمام ملازمین کے تنخواہ کے اسکیل وھی رکھے جو گورنمنٹ کے تھے جیسے پہلے اسکیل BPS-1 شروع ھوتے اور BPS-22 تک جاتے بعد میں یہ B-1 سے B-22 تک لکھے جانے لگے .اور یہی اب تک PTCL میں لاگو ھیں. مگر اس میں وہ تنخواہ اور الاؤنسس نھیں جو گورنمنٹ کے انھی اسکیلس میں ھیں اور جو وہ اپنے ملازمین کو دے رھی ھے اور اس مں اضافہ کرتی رھتی ھے. مگر ان پی ٹی سی ایل کے ٹرانسفڑڈ ملازمین کے لئیے تو گورنمنٹ والی تنخواہ الاؤنسس تقریبن وھی ھیں جو یکم دسمبر 2001 کو تھے. .کمپنی نے اپنی طرف سے اس میں incentive pays کا اضافہ تو کیا اور الوئنسس کا مشروط اضافہ تو کیا مگر وہ اتنی سیلری کا اضافہ نہ کرسکی جو اسوقت ایک سول سرونٹ کو مل رھی ھے . تو اب مظہر صاحب کا یہ کہنا کے گورنمنٹ اسکیل نھیں دئے جاسکتے سورج کو چراغ دینے کے مترادف ھیں .یہ انکی بیوقوفی ، ھٹ دھرمی اور اعلی عدالتی احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی ھے . کمپنی کو انکےکے یہ گورنمنٹ والی تنخواہ اور الاؤنسسس لازمن دینا پڑیں گے جب سے کمپنی نے یہ دینا بند کئے ھيں انکے تو اچھے بھی دیں گے. انشاللہ"
اسی سلسلے میں میں اپنی اسی بات کو بڑھاتے ھوۓ مظہر حسین کی باتوں کا جواب پوائنٹ ٹو پوائنٹ دے رہا ھوں
(۱) مظہر صاحب کا یہ کہنا کے یہ کے یہ پی ٹی سی ایل کمپنی ایک مکمل پرائویٹ کمپنی ھے ا، ایک ایسا سفید جھوٹ ھے ھے جسکی نظیر نہیں ملتی . انکو یہ بات کرتے ھوئے اپنے گربیان میں ضرور جھانکنا چاھئے وہ ایک غیر ملکی کمپنی کے غلام بنے ھوئے ھیں جس نے کتنی مکاری اور چالاکی سے 2006 میں اسوقت کے بیغیرت اور غیر محب وطن حکمران کو کمیشن کھلا کر اس کمپنی کو اپنے قبضے میں لیا اور اب تک یہ لوگ اس 26 % شئرز کی رقم آٹھ سو ملین ڈالرز کی پھلی قسط بھی نہيں دے پائے ھیں . مظہر صاحب کو یہ معلوم ھونا چاھئۓ کے جب بی ٹی سی ایل کمپنی یکم جنوری 1996 کو وجود میں آئی تو یہ ایک مکمل گورنمنٹ بیس کمپنی تھی اسکی وجہ یہ ھے کے کے اس میں جو پی ٹی سی کے ملازمین یکم جنوری 1996 میں اس میں ٹرانسفر ھوکر کمپنی کے ملازم یعنی پی ٹی سی ایل کے ملازم بن گئے تھے ان سبکے سروس ٹرمز اور کنڈیشنس وھی تھے جو انکے کارپوریشن میں تھے یعنی پی ٹی سی میں اور پی ٹی سی میں وھی تھے جو ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ میں تھے کیونکے جب وہ ٹی اینڈ ٹی میں تھے . چونکے ٹی اینڈ ٹی ایک گورنمنٹ ڈیپاڑٹمنٹ تھا اسلئے وہاں کے تمام ملازمین سول سرونٹ کہلاتے تھے اور انکے وھی سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس تھے جو سول سرونٹس ایکٹ 1973 میں دئیے گئۓ ھيں. اور بطور ایک گورنمنٹ سول سرونٹ انکو بہت سے مراعت تھے مثلن ایک گریڈ 17 اور اس سے اوپر کا سول سرونٹ کے وہ کسی کی دستاویزات کو Attest تو عدالت اور ھرجگہ معنی جاتی تھی اسی طرح کسی کے شناختی کاڑڈ کے بنانے کے فارم اس بات کا سڑٹیفیکیٹ دے دے کے وہ اسکو جانتا ھے اور یہ صحیح شخض ھے تو اسکا شناختی کاڑڈ بغیر کسی تردد اور انکوائری سے بن جاتا تھا .لیکن جب یہ تمام ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنےوالے تمام گورنمنٹ سول ملازمین جب کاپوریشن یعنی پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن میں پی ٹی سی ایکٹ کی شق (۲)۹ کے تحت دسمبر ۱۹۹۱ میں ٹرانسفر ھوتے ھیں تو یہ کارپوریشن کے ملازم بن جاتے ھیں مگر انپر گورنمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں دی گئی سروز ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کے قوانین [ جو گورنمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں سیکشن 3 سے 22 تک دئیے ھیں ] استعمال ھوتے ھیں . اور پھر یہ پی ٹی سی ختم ھوجاتی ھے تو یہ تمام ملازمین یکم جنوری 1996 ،نئی کمپنی ،پی ٹی سی ایل میں ،پی ٹی ( ری آرگنائزیشن) ایکٹ 1996 کی سیکشن (2)36 کے تحت حصہ بن جاتے ھکں اور انپر پی ٹی سی ایل میں بھی وھی گورنمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں دی گئی سروز ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کے قوانین [ جو گورنمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں سیکشن 3 سے 22 تک دئیے ھیں ] ھی استعمال ھونے لگتے ھیں .[ اسکی باقاعدہ صحیح مزيد تشریح سپریم کوڑٹ 7 اکتوبر 2011 میں مسعود بھٹی کیس میں کردیتی ھے . اور پی ٹی سی ایل اور گورنمنٹ پر یہ واضح کردیا جاتا ھے کے جو ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کے قوانین ، جو گورنمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں سیکشن 3 سے 22 تک دئیے ھیں ، ان میں کوئی بھی منفی تبدیلی نہیں کی جاسکتی جس سے ان پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفڑڈ پی ٹی سی کے ملازمین کو نقصان ھو.پی ٹی سی ایلاور حکومت کو بھی اسکا بالکل اختیار نہیں. تو جو ملازمین پی ٹی سی سے ٹرانسفر ھوکر یکم جنوری 1996 کو کمپنی یعنی پی ٹی سی ایل میں آۓ تھے وہ کمپنی کے بھرتی کردہ ملازم نہیں تھے انپر گورنمنٹ والے ھی قوانین استعمال ھورھے تھے .چاھے انکیتنخواہ کا مسءلہ ھو یا پنشن کا ، چاھے انکے خلاف کسی انضباطی کاروائی کا مسءلہ ھو یا پرومموشن، سینیارٹی، چھٹیاں ٹرانسفر پوسٹنگ وغیرہ وغیرہ .ان سب پر گورنمنٹ کے ھی یہ سول سرونٹ والے مروجہ قوانین ھی شروع دن سے استعمال ھورھے تھے جیسے پی ٹی سی میں ھورھے تھے اور اس سے پہلے بطور سول سرونٹ ٹی اینڈ ٹی میں ھورھے تھے. تو مظہر صاحب کا یہ کہنا کے یے سب کمپنی کے ملازم ھیں اور کمپنی پرائویٹ ھے کچھ بھی معنی نہیں رکھتا بلکے لوگوں کو مس گائیڈ کرنے کا ایک طریقہ ھے. تاکے لوگ اسکی ان باتوں میں آکر نئے پی ٹی سکیل 2017 کا آپشن قبول کرلیں اور کمپنی کے ملازم بن جائیں اور گورنمنٹ کے پے سکیلز سے محروم ھوجائیں جو ایسے پی ٹی سی ایل ملازمین کا بنیادی حق ھے . اور اس طرح وہ یہ آپشن قبول کرنے کے بعد اپنے اس بنیادی حق سے محروم ھوجائیں گے . یہ ھی پی ٹی سی ایل منیجمنٹ چاھتی ھے کے کم سے کم لوگوں کو گورنمنٹ والے واجبات دئے جائیں جن سے انکو یکم جولائی 2005 سے محروم کر رکھا ھے ،کیونکے یہ تو انکو دینا ھی پڑيں گے چاھے کتنی تاویليں کرلیں اور اب جسطرح کے سپریم کوڑٹ نے راجہ ریاض کے حق میں فیصلہ دے رکھا ھے اور جو ان لوگوں کو بھی لازمن دینیں پڑيں گے جو اب تقریبن 68% سے 70% زیادہ پی ٹی سی ایل کے موجودہ اسکیل سے زیادہ ھیں جبکے پی ٹی سی ایل نے گورنمنٹ کا 2001 والا اسکیل یکم دسمبر 2001 سے دے رکھا ھے [ یاد رھے اسی مظہر نے ان گورنمنٹ والے اسکیلز _ 2001 میں کچھ مشروط الاؤنسس ڈال کر یکم جولائی 2008 سے پی ٹی سی ایل کا نیا پیکج_2008 دیا تھا . مگر اسوقت کوئی آپشن نھیں مانگا تھا اور وھی اب تک چل رھا ھے ] تو اس پر انکو68% سے 70% زیادہ رقم دینی پڑے گی اور ساتھ ابتک کے بقایا جات بھی ، تو کیوں نہ ایسے پی ٹی سی ایل میں آئے ھوئے ٹرانسفڑڈ ملازموں انکو صرف نئے پی ٹی سکیل 2017 میں انسے آپشن لے کر صرف 16% دے کر ٹرکایا جائے اور پھر اسطرح انکو پچھلے بقایا جات بھی نہیں دینے پڑيں گے. اور وہ اگراسکے خلاف اجتجاج کریں گے اور عدالت میں جائیں گے تو یہ موقف اپنایا جائے گا کے یہ لوگ آپشن قبول کرنے کے بعد انکے ملازمین یعنی کمپنی کے ملازم بن گئے اور اسلئے یہ اب گورنمنٹ والے اسکیلزلینے کا حق نہیں رکھتے پی ٹی ( ری آرگنائزیشن) ایکٹ 1996 کے سیکشن (2)36 کے تحت [ اسکی تفصیل میں اپنے پچھلے آڑٹیکل-43 بتا چکا ھوں] تو جناب یہ مقصد ھے جناب سید مظہر حسین کا اس طرح کی باتیں کرنے کا.
(۲ ) جناب سید مظہر حسین کا یہ کہنا کے پی ٹی سی ایل ایک پرائویٹ کمپنی ھے اس میں گورنمنٹ کے پے اسکیلز نہیں آسکتے ، یہ تو یا انکی لا علمی ھے یا وہ بن رھے ھیں اور ھم سبکو بیوقوف سمجھتے ھیں . انکی خدمت مں عرض ھے کے گورنمنٹ اسکیلز کمپنی میں آسکتے نہیں بلکے آچکے ھیں اور اسی وقت سے جب سے اس پی ٹی سی ایل یعنی کمپنی کا یکم جنوری 1996 کو ظہور ھوا تھا. [موصوف کو یہ معلوم ھونا چاھئۓ جب آپ اپریل 1996 کو اس کمپنی کے ملازمت میں بھرتی کیا گیا تھا تو انکو گورنمنٹ کے ھی اسکیلز BPS-18 دیا گیا تھا کوئی کمپنی کا اسکیل نھیں تھا]. اب یہاں معاملہ صرف ان گورنمنٹ اسکیلز پر گورنمنٹ کے مطابق تنخواہ اور الاؤنسس دینے کا ھے جو یہ پی ٹی سی ایل نھیں دے رھی اور غیر قانونی طور پر یکم جولائی 2005 سے منقطع کیئے ھوۓ ھے. جسکا مطالبہ اب یہ مزکورا ملازمین عدالتی احکامات کی روشنی میں کررھے ھیں.
بات یہاں یے ھے کے جب یہ کمپنی یکم جنوری 1996 میں قائم کی گئی تو اسمیں پی ٹی سی سے ٹرانسفڑڈ ھوئے ملازمین ، کمپنی میں بھی وھی تنخواہ گورنمنٹ والی لےرھے تھے جو وہ اس سے سے پہلے پی ٹی سی اور اس سے پہلے ٹی اینڈ میں لے رھے تھے. چونکے پی ٹی سی میں 1994 کے گورنمنٹ اسکیلز نافظ العمل تھے تویہی انپر پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفزڈ ھونے کے بعد یکم جنوری 1996 سے ھی نافظ العمل ھوچکے تھے اور جب گورنمنٹ نے یہ 1994 کے اسکیلز کو یکم دسمبر 2001 سےrevised کئے تو پی ٹی سی ایل نے بھی گورنمنٹ ھی کی طرح revise کیا اور 2001 کے گورنمنٹ والے ھی اسکیلز نافظ کئے تو باقی سالوں جب جب گورنمنٹ نے ان مں اضافہ کیا اور اپنے basic pay scales کو revise کیا تو پی ٹی سی ایل کو کیا موت آگئی تھی جو اسنے انمیں اضافہ یا revise کیوں نہیں کیا ؟؟؟. اور کیوں ، بقول انکےیہ اگر ایک پرائیویٹ کمپنی تھی تو کیوں کمپنی نے اپنے تنخواہوں کے اسکیل نہیں دئیے یا نافظ کئے سطرح اور پرائیویٹ کمپنیوں میں ھوتے ھیں .اسکا صرف ایک ھی جواب ھے کے یہ کمپنی گورنمنٹ بیس تھی اس میں جب یہ بنی اس میں گورنمنٹ کے shares جو 89% تھے اور اب یہ 63% ھیں اور اس میں کام کرنے والے تقریبن 90% سے زیادہ وہ ملازمین تھےاور اب بھی ھیں ، جو پہلے گورنمنٹ ے ملازمین کے زمرے میں آتے تھے .لہازا انکو وھی تنخواہ اور پنشن دی جانی تھے قانون کے تحت جو گورنمنٹ اپنے سول ملازمین اور پنشنرس کو دے رھے تھی .
جنا سید مظہر حسین دام اقبالحو کو تو یہ بھی معلوم نھیں کے President of Pakistan اور ETISALT کے ساتھ Shareholder agreement جو Sign کیا گیا تھا ، کیا معاہدہ ھوا تھا ، جب انکو پی ٹی سی ایل کے 26% Sahares منتقل کئے جارھے تھے . اس Shareholder agreement کی کلاز 16.2 میں ٹرمز اینڈ کنڈیشنس ان ٹرانسفڑڈ ریگولر ایمپلائیز کے کے بارے میں کیا لکھا ھے کسطرح ان کے حقوق کو Protect کئے گئے ھیں جن پر عمل کرنا ETISALT پر لازم ھےتو یہ پھر یہ شخص کیسے ان ٹرانسفڑڈ ملازمین کو ورغلا کر انسے آپشن لینا چاھتا ھے تاکے اسکو ان کے جائئز حقوق نہ دینے پڑيں . یہ شخض صرف ETISALT کا بھلا چاھتا ھے اور کچھ نہیں .کیونکے یہ انکا زر خرید غلام اور لونڈی ھے وہ ان ملازمین کا کیسے خیرخواہ ھوسکتا ھے.سوال ھی پیدا نہیں ھوتا. اسکی تمام یہ باتیں صرف بہلانے اور پھسلانے کی ھیں ان میں حقیقت کا دور دور تک کوئی واسطہ نھیں.
(۳ مظہر صاحب کا آخر میں عدالتی احکامات کے بارے میں فرمانا ،جسکا انکو شائید کیسز کا ٹھیک طرح پتہ نہیں یا وہ جان بجھ کر انجان بن رھے تھے اور کیسز کے نمبرز اور نام بھی ٹھیک طرح لے نہیں پارھے تھے .انکی ان باتوں سے صاف یہ لگ رھا تھا کے پی ٹی سی ایل عدالتی احکامات کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں لگتی اور وہ اس میں بلکل سنجیدہ نہیں .وہ جناب فرمارھے تھے کے اگر کبھی اس عمل کرنا پڑا تو اسکا فائدہ ان ملازمین کو بھی ھوگا جو یہ آپشن قبول کریں گے اور پی ٹی سی ایل سکیلز-2017 قبول کریں گے .اگر یہ بات ھے تو حضور آپ آپشن کیوں مانگ رھے ھیں ویسے ھی نیو اسکیلز -2017 دے دیں اور اسمیں گورنمنٹ والی تنخواہ اور الاؤنسس کا اضافہ جو یکم جولائی 2005 سے ابتک ھوا ھے تو وہ بھی دے دیں . کیونکے قانون کے مطابق آپ ان پی ٹی سی ایل ٹرانسفڑڈ ملازمین کو گورنمنٹ سے زیادہ تنخواہ اور الاؤنسس تو دے سکتے ھیں مگر کم نہیں .اگر آپ یہ نیو پی ٹی سی ایل اسکیلز2017 میں تنخواہوں اور الاؤنسسز میں اضافہ گورنمنٹ کی تنخواھوں اور الاؤنسس سے زیادہ کرتے اور اسکا اطلاق یکم جولائی2005 سے کرتے تو بات بنتی ھے ،پھر یہ ظاھر ھوتا کے آپ کے پی ٹی سی ایل والوں کو ان ٹرانسفڑڈ ملازمین کا کتنا خیال ھے . حضور ، مگر یہ آپ کر ہی نہیں سکتے اسلئے کے آپ کے من میں تو کھوٹ ھی کھوٹ ھے اور آپ یہ چاھتے کے جتنے بھی ٹرانسفڑڈ ملازمین ھیں جو ٹی اینڈ ٹی یا پی ٹی سی میں بھرتی ھوئے ھیں وہ سب یہ دیا ھوا آپشن قبول کرلیں تاکے انکو اگر گورنمنٹ کے اسکیلز میں جو تنخواہوں اور الاؤنسس کا اضافہ یکم جولائی2005 سے کیا گیا وہ انکو نہ مل سکے ، انکے بقایا جات نہ دینے پڑیں اور انکی تنخواھیں اور الاؤنسس گورنمنٹ کے برابر نہ کی جائیں . مگر مظہر صاحب آپ کو یہ سب دینے ھی پڑیں گے چاھے پی ٹی سی ایل کچھ بھی کرلے کیونکے یہ ھی عدالت عالیہ کا حکم ھے اور ماننا ھی پڑے گا. پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کی تمام رویو اپیليں تک خارج ھوچکی ھیں توپی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کو لازمن گورنمنٹ والی تنخواھوں اور گورنمنٹ کی پینش انکریز کے تمام واجبات دینےھی پڑيں گے اور اب کوئی بھی ٹال مٹول کام نہیں آئیگا جسطرح نصیرالدین کے کیس میں کام نہیں آیا تھا اور اسی طرح سے دینے پڑیں گے جسطرح آپنے نصیرالدین غوری کو 10 اگست 2012 کو سابق چیف جسٹس افتخار چوھدری کی سخت تنبیہ پر دینے پڑے تھے .آپ لوگوں کی اطلاع کے لئے نصیرالدین غوری اے ای پی ٹی سی ایل کے یہ تنخواہ کےواجبات اوراور اسکی پروموشن اے ڈی ای کے طور تیس دن کے اندر کرنے سپریم کوڑٹ نے اپنے 7 اکتوبر2011 مں مسعود بھٹی کیس کے فیصلے (2012SCMR152) میں دینے کو حکم دیا تھا اوریہ حکم سپریم کوڑٹ نے اسکی(نصیرالدین غوری) اپیل نمبر CA-241/2011 کو قبول کرتے ھوئے دیا تھا [ دراصل ان تنخواہ والےواجبات(وھی تھے جو اس زمانے میں گورنمنٹ والے تھے) دینے کا اور اسکی پروموشن کا حکم بطور اے ڈی ای ، فیڈرل سروس ٹریوینل (FST) نے 2004 میں دیا تھا جسکے خلاف پی ٹی سی ایل کی اپیل بھی سپرکم کوڑٹ نے 2009 میں مسترد کردی تھی مگر پی ٹی سی ایل نے نہ تو اسکے واجبات دئیے اور نہ ھی پروموشن کی . نصیرالدین غوری نے انکے خلاف توھین عدالت کا کیس سندھ ھائی کوڑٹ میں کردیا جہاں پہلے سے ھی پی ٹی سی ایل کے ایسے ملازموں کیں اپیلیں پینڈنگ پڑی تھیں جو پی ٹی سی ایل کی انکے ساتھ victimisation policy کا شکار تھے .مگر سنھ ھائی کوڑٹ نے یہ تمام اپیلیں اس ٹیکنیکل گراؤنڈ پر 6 جون 2010 مں خارج کردیں تھیں کے جن ملازمین نے یہ اپیلیں کی ھیں انکے کوئی statutory rules نہیں ھیں اور یہ کمپنی کے ملازم ھیں اور انپر ماسٹر اینڈ سرونٹ کا قانون ایمپلائی ھوتا ھے اور یہ ھائی کوڑٹ میں آئین کے آڑٹیکل -۱۹۹ کے تحت اپیل کرنے کے مجاز نہیں .سندھ ھائی کوڑٹ کے اس فیصلے کے خلاف ،مسعود بھٹی، نصیرالدین غوری اور دل آویز نے سپریم کے کوڑٹ میں اپیلں دائرکیں .جس میں سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے پہلے یہ بات واضح کی کے اپیلنٹس کا پی ٹی سی ایل میں سٹیٹس کیا تھا ؟. یہ پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفڑڈ ملازمین ھیں میں جو پہلے ٹی اینڈ ٹی بھرتی ھؤے پھر یہاں سے پی ٹی سی دسمبر 1991میں آۓ اور پھر یکم جنوری 1996 کو پی ٹی سی ایل میں یعنی کمپنی میں آئے اسلئےا نپر گورنمنٹ کے ھی قوانین یعنی statutory rules کا اطلاق ھوگا اور نہ تو پی ٹی سی ایل اور نہ تو گورنمنٹ کو یہ اختیار ھے کے اس میں کوئی ایسی منفی تبدیلی کریں جن سے انکو کوئی نقصان ھو. اور یوں سپریم کوڑٹ نے سندھ ہائی کوڑٹ کا یہ 6 جون 2010 کا والا یہ حکم منسوخ کیا اور پھر یہ فیصلہ نصیرالدین غوری کے حق میں کیا اور مندرجہ بالا حکم اس کے حق میں دیا. مگر پھر بھی پی ٹی سی ایل نے سپریم کوڑٹ ے اس حکم کی تعمیل نہیں کی تو مجبورن نصیرالدین غوری نیں فیڈریشن آف پاکستان اور پی ٹی سی ایل کے خلاف توھین عدالت کا کیس سپریم کوڑٹ میں داخل کیا [ Crl.org Petition #09 of 2012] کے تحت داخل کیا. اور جب سابق چیف جسٹس افتخار چوھدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کی 10 اگست 2012 بروز جمعہ کے اس توھین عدالت کیس کی شنوائی کی (اس کیس میں اسوقت کے سیکٹری آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام جناب فاروق اعوان بذات خود بھی پیش ھؤے تھے) تو اسکے شروع ھونے سے پہلے سابق چیف جسٹس افتخار چوھدری نے پہلے پی ٹی سی ایل کو یہ غندیہ دیا کے وہ یہ توھین عدالت کیس جمعہ کی نماز کے بعد سنيں گے اس سے پہلے پہلے پی ٹی سی ایل نصیرالدین غوری کے تمام تنخواہ کے واجبات ادا کرديں. مرتے کیا نہ کرتے ان سب پی ٹی سی ایل ایل کے بڑے بڑے لوگوں لوگ عدالت میں جو موجود تھے ، سب کی سٹی گم ھوگئی اسوقت یہ اب بڑکیں مارنے والے عدالت میں اسوقت یہ نہ کہہ سکے کے یہ تو کمپنی کا ملازم ھے ھم کیوں اسکو گورنمنٹ والے واجبات ادا کریں ، بھاگم بھاگ یہ لوگ پی ٹی سی ایل ایل ھیڈ کوارٹر پہنچے اور جتنے تنخواہ کے واجبات تھے ، (جو شائید تقریبن چارلاگھ سے اوپر تھے)، اسکا چیک بنوایا اور جب جمعہ کی نماز کے بعد کیس لگا تو وہ چیک عدالت میں نصیرالدین کو انکے وکیل منیر پراچہ نے دیا اور پروموشن کے لئے کہا کے اسکا کا فیصلہ ڈی پی سی ایک ماہ میں کردے گی اور پھر پی ٹی سی ایل کے طرز عمل پر معافی بھی عدالت سے مانگی. عدالت ان پر کتنا برھم تھی وہ آپ لوگ اس دن کے عدالتی فیصلے سے لگالیں جب انکا کیس ڈسپوزڈ آف کیا گیا اور انکی خلاصی ھوئی تھی. فیصلے میں لکھا تھا.
"Mr Munir Paracha the learned council of the respondents has stated under wrong impression, that the judgement of this Court of dated 7th October 2011, has not been implemented, as according to the respondents reviews petition has been filed against the said judgement. When we inquired as to wheather any request has been made for early fixation of this review petition or any stay order has been obtained, learned council could not answer except saying that the judgement will be implemented today(10-8-2012) by issuing of promotion order of the petitioner as well as making of all outstanding dues/salaries to him. Although the department has committed serious contempt of court, yet in view of apology and the statement given at bar, no further faction is called for. The matter is disposed accordingly."
Sd/- Iftikhar Muhammad Chudhary CJ
Sd/-Jawwad S Khuwaja J
Sd/-Tariq Pervaz J
تو آپ لوگ خود اندازہ لگالیں کے پی ٹی سی ایل نے کس ھٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا تھا اور جب عدالت کی طرف سے انکو جوتے پڑنے لگے، تو لگے معافی مانگنے اور جو عدالت کا حکم تھا اس پر عمل بھی کیا.عدالت کو کہنا پڑا کے "انھوں نے سخت توھین عدالت کی تھی . مگر انکی معافی مانگنے اور عدالت کا حکم ماننے پر انکی خلاصی بغیر کسی مزید ایکشن کے کی جارھی ھے". لیکن لگتا ھے ان بیحس لوگوں پر کوئی اثر نہیں پڑا . آج انکی رویو پٹیشن خارج ھوئے تین ماہ سے زیادہ ھوگئے ھیں لیکن انھوں نے ابتک سپریم کوڑٹ کے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے حکم پر آج تک عمل نہیں کیا .اسی طرح راجہ ریاض کیس میں انکی رویو پٹیشن خارج ھوچکی ھے جو اس کے حق میں آۓ ھوئے سپریم کوڑٹ کے جولائی 2015 میں اس فیصلے ( 2015SCMR1783) کی خلاف تھی جس میں راجہ ریاض کو سپریم کوڑٹ نے گورنمنٹ والی تنخواہ اور پنشن میں گورنمنٹ والے اضافے کا حکم دیا تھا .جسطرح صادق علی اور محمد عارف صاحب سابقہ ڈی جی پی ٹی سی ایل نے انکے خلاف توھین عدالت کا کیس کررکھا ھے اسی طرح راجہ ریاض نے بھی کر رکھا ھے جو اب آخری مراحل میں ھے.یہ پہلے اس وجہ سے پینڈنگ تھا کے انھوں نے رویو پٹیشن ڈال رکھی تھی اب وہ بھی خارج ھو چکی ھے مگر ان بے حس لوگوں پر ذرا سا بھی اسکا اثر نہیں کے انکے خلاف توھین عدالت کا کیس پھر شروع ھوگیا ھے اور اگر انھوں نے اس پر اب بھی عمل نہيں کیا یا اور دیر کی تو یہ ان سب کو لے ڈوبے گا اور شآئید اس بار انکو معافی بھی نہ ملے اور فیصلوں پر عمل کرنا بھی پڑے .یہاں ایک بات اور عرض کردوں عدالت اپنے حکم کی تعمیل کرانا اچھی طرح جانتی ھے جسکی مثال میں آپکو اوپر دے چکا ھوں تو مظہر صاحب آپ اس خام وخیال میں نہ رھیں ، کے آپ عداتوں کا حکم نہیں مانیں گے اور اسکو طول دینے کی کوشش کریں گے . اب آپ لوگ کچھ نہیں کرسکتے عدالت کے تمام اسطرح کے فیصلے ، پی ٹی سی ایل کے ایسے ملازمین اور پنشنرس کے حق میں آئے ھوئے ، اب فائنل ھوچکے ھیں. اور ان پر عمل کرنا پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی پر اب واجب ھوگیا ھے اور حکومت پر بھی ، جو اسکی گارنٹر ھے . ایسا نہ ھو ان سبکا دھڑن تختہ ھوجائے ، عدالتی حکم کی تعمیل نہ کرنے پر. یہ بات اب مظہر صاحب کو جان لینی چاھئے کے ابھی تو صرف تین ایسے پی ٹی سی ایل کے ملازمین نے سپریم کوڑٹ میں انکے خلاف توھین عدالت کا کیسس کر رکھے ھیں وہ دن دور نہیں جب ایسےتمام لوگ انکے خلاف سپریم کوڑٹ میں توھین عدالت کا کیس کریں گے. کیوں کے سپریم کوڑٹ اپنے ایک فیصلے یعنی " حمید اختر نیازی بنام سیکریٹری اسٹیبلیشمنٹ گورنمنٹ آف پاکستان اور دیگر میں حمید اختر نیازی کی اس سول اپیل نمبر 345/1988 پر 24 اپریل 1996 کو عدالت علیہ نے دیا جو اب 1996SCMR1185 میں درج ھے ، "کے کسی سرکاری ملازم کے حق میں آیا ھوا عدالت عالیہ کا فیصلہ ایسے تمام سرکاری ملازموں پر بھی استعمال / لاگو ھوگا جن کا issue یعنی مسءلہ اس سرکاری ملازم کی طرح ھو جسکے حق میں یہ فیصلہ آیا ھو جو اسکی طرف سے قانونی چارہ جوئی کے باعث آیا ھو، بیشک اور دوسرے ایسا ھی مسعلہ رکھنے والے سرکاری ملازمین اس طرح کی قانونی چارہ جوئی کا حصہ ھوں یہ نہ ھوں"[ یہ فیصلہ دو سابق چیف جسٹسس سپریم کوڑٹ یعنی سعید الزماں صدیقی مرحوم اور اجمل میاں نے دیا تھا]. تو مظہر صاحب آپ خود ھی اندازہ کرلیں کے اگر ھر ایسا پی ٹی سی ایل ملازم اس سپریم کوڑٹ کی حکم کی روشنی کے تحت پی ٹی سی ایل کے پرزیڈنٹ اور پی ٹی ای ٹی کے ایم ڈی اور حکومت پاکستان کے سیکرٹری آئی ٹی اور ٹیلیکام کے خلاف توھین عدالت کا کیس لےکر پہنچ گیا کے یہ لوگ سپریم کوڑٹ کے ان دئے ھوئے فیصلوں پر عمل نہ کرکے اور ھم لوگوں کو وھی مراعات نہیں دے رھے جنکا حکم سپریم کوڑٹ راجہ ریاض کے کیس اور اور دوسرے پی ٹی سی ایل کے 34 ایسے پنشنرس کیس میں ۱۲جون ۲۰۱۵ میں دے چکی ھے ، تو پھر ان پر عمل نہ کرنے والوں کا کیا انجام ھوگا ،یہ سب جانتے ھیں . میری اطلاع کے مطابق اب پورے پاسکتان سے تقریبن ۱۲۰۰ ایسے پی ٹی سی ایل کے ریگولرز پی ٹی سی ایل ملازمین نے جنھوں نے پی ٹی سی ایل کا نیو پیکج 2017 لینے سے انکار کردیا تھا ، انھوں نے ایک بہت ھی نامی گرامی وکیل کے زریعے یا تو کیس کردیا ھے یہ وہ سپریم کوڑٹ کی چھٹیوں کے بعد ڈائریکٹ سپریم کوڑٹ میں contempt case کرنےکی تیاری کرلی ھےاسی کیس کی روشنی میں جسکا تزکرہ ، میں اوپر کرچکا ھوں.
میرے علم میں کچھ دن پہلے ھی یہ بات لائی گئی کے پی ٹی سی ایل کے نیو پیکج 2017 کا آپشن لینے یہ نہ لینے کی آخری تاریخ یعنی شائید 15جولائی 2017 تھی . اور اسوقت تک صرف 10% نے یہ آپشن قبول کی اور باقی نے نہیں. چونکے آپشن قبول کر لینے والوں کی تعداد بہت کم تھی ، اس لئے مظہر جسین نے در پردہ ضیاالدین اور اسی کے یونین والے دوستوں کو زبردست فیڈنگ کی اور انکے زریعے ان لوگوں کو جنھوں نے يہ آپشن لینے سے انکار کیا تھا ، یہ باور کرانا شروع کرادیا کے اس آپشن لینے کا بڑا فائدہ ھے . اور اب کافی لوگ اس ضیاالدین اور اسکے ٹاؤٹس کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر یہ آپشن قبول کررھے ھیں .اور اسطرح اب تک یہ تعداد 10% سے بڑھ کر تقریبن 20% تک ھوچکی ھے. میں ان تمام یونین والوں کو اچھی طرح جانتا ھوں .انسے میرا واسطہ تقریبن 26 سال تک رھا ے . کیونکے جن پوسٹوں پر میں رہا اس میں ویلفئیر کا شعبہ میرے پاس ھمیشہ رہا اور اس میں یہ یونین والے بھی آتےتھے. سات سال کنٹرولر ٹیلیگراف سٹور کراچی ،دو سال ڈائیریکٹر فون حیدرآباد اور بعد میں ڈی جی ایم ایس ٹی آر ون، فور اور ٹو اور آخر میں جی ایم ایس ٹی آر ون حیدرآباد.میں یونین والوں کی ورکنگ سے نس نس سے واقف ھوں .یہ لوگ ھمیشہ اپنے مفاد کے لئے کام کرتے ھیں . سٹاف ملازمین ورکرز کےلئے بہت کم. اور یہ کام اس وقت تک نہیں کرتے جب تک انکو اس سے کچھ نہ مل جاتا ھو . بس یہ دکھاوے کی اپنے ورکروں سے ھمدردی کرتے اور اندرون خانہ انتظامیہ سے ملے ھوۓھوتے ھیں اور ان سے فائدے حاصل کرتے ہور ورکروں کو لارے لپے دیتے ھیں. انکو مجھ سے اس بات کی ھمیشہ شکایت رھتی تھی کے میں بغیر انکے کہے کیوں ایسے ملازمین کے مسءلے حل کردیتا ھوں اور کیوں انکے کہے بغیر خاصکر بلڈنگ ایڈوانس وغیرہ ان ورکر بیچاروں کو دے دیتا ھوں جو ورکر میرے پاس ڈائریکٹ چلے آتے تھے .میں جب ایسے ورکروں سے سوال کرتا تھا تو وہ اپنی یونین کے نمائندوں کے تھرو کیو نھیں آتے تو وہ یہ ھی جواب دیتے کے ان یونین والوں کو لون میں سے حصہ جو دینا پڑتا جو یہ لوگ بہت زیادہ لیتے تھے. ان یونین والوں کی کوئی بھی میں نے انکی ناجائیز بات نہیں مانی .یہ مجھ سے بہت نالاں رھتے تھے میری شکائتیں کرتے اور اخبارات میں میرے خلاف طرح طرح خبریں لکھواتے تاکے میں ڈر کر انکی ہاں ميں ہاں ملاؤں میں نے کئی بار ایسے ایک اخبارات کو لیگل نوٹسس بھجوائے تھے اور انھوں نے مجھ سے معافی مانگنی پڑی اور معزرت پہلے صفحے میں شآئع کیں . جب میں ڈی جی ایم ایس ٹی آر فور تو یہ یونین اس بات سے مجھ سے بہت نالاں ھوۓ کے کیوں انکے recommend کئے ھوئے ورک چارج پر کام کرنے والے کنفرم نہيں کئے جن کی ورک چارج کی سروس پانچ سال سے کم تھی . جبکے کرنے کے لئے مسلسل پانچ سال ورک چارج بر کام کرنا ضروری تھا. . یہ لوگ مجھے مارنے میرے آفس میں بھی گھس آئے تھے اور سارا آفس کا فرنیچر توڑ ڈالا تھا . میں تو ان سب کے خلاف ذاتی طور پر ایف آئی آر کٹوانے والا تھا مگر مجھ کو میرے جی ایم زیڈ اے ٹونیو صاحب نے مجھ سے منتیں کرکے اس کام سے روکا. ریکاڑڈ ھے کے میں نے کبھی بھیان لوگوں کی کوئی بھی غلط بات مانی ھو یا انکو میری کسی قسم کمزوری نظر آئی ھو کیونکے مجھے علم تھا یہ بعد میں مجھ کو اسی غلط بات پر میری کسی قسم کی کمزوری کابہانہ بنا کر مجھے بعدمیں بلیک میل کریں گے اور اور اپنا اور غلط کام نکلوائیں گے . یہ تو ایسے لوگ ھیں کے جو چور سے کہیں جا ،جاکر چوری کر اور پھر خود جاکر کوتوال سے شکایت کریں کے یہ چوری کرنے گیا ھے . تو جو ضیاالدین کا طرز عمل ھے اس میں کسی بھی حیرانی کی ضروت نہیں . یہ لوگ کسی طرح سے بھی ان پی ٹی سی ایل ملازمین کے ھمدرد نہیں جن کو یہ بہکا کر یہ آپشن لینے پر مجبور کررھے ھیں.ضیا سمیت ایسے لوگوں کو یہ مظہر حسین زبردست فیڈنگ کررھا ھے تاکے زیادہ سے زیادہ ایسے ملازمین آپشن قبول کرکے کمپنی کے ملازم بن جائیں اور انکو گورنمنٹ والی تنخواھوں کے واجبات نہ دینے پڑیں. مظہر حسین کی ضیاالدین سے بہت دوستی ھےکیونکے یہ اسکے بہت کام آتاھے .اسکا اندازہ اس بات سے لگالیں کے یہ مظہر ، ضیاء کے والد کے انتقال کے پرسے کے لئے اسلام آباد سے آیاتھا اور ضیا کے گھر گیا تھا . تو جو لوگ اس کی باتوں میں آکر یہ آپشن قبول کررھے ھیں ، وہ اپنا بڑا نقصان کررھے ھيں.ضیا جو آج یہ کہتا پھرتا ھے کے یہ نیو پی ٹی سی ایل پیکج 2017 بہت اچھا ھے اسے لینا چاھئے، کل تک یہ ھی ضیا ان پی ٹی سی ایل والوں اور پی ٹی ای ٹی والوں کو لتاڑ رھا تھا کے پی ٹی سی ایل کی انتظامیہ ان لوگوں کو گورنمنٹ والی تنخواہ اور الاؤنسس کا انکریز نہ دے کر ایک غیر قانونی کام کررھی ھے . یہ سب کچھ ضیاالدین نے بطور سنٹرل پریزیڈنٹ پی ٹی ای یو ( سی بی اے) پی ٹی سی ایل اپنی ۲۲ جون ۲۰۱۲ کو سکریٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کام کو اپنی ایک بھیجی ھوئی ای میل جو اس نوٹیفیکیشن یعنی S.R.O. 525(1)/2012 dated 22-05-2012 کے خلاف تھی ، جسکے تحت پی ٹی ای ٹی نے پی ٹی سی ایل پنشنرز اور پی ٹی سی ایل سے ریٹائڑد ھونے والے، ٹرانسفڑد پی ٹی سی ایل ملازمین کے لئے نئے رولز یعنی پی ٹی ای ٹی نیو پنشن رولز - ۲۰۱۲ تھے . جن میں ایسے ٹرانسفڑد پی ٹی سی ایل ملازمین سراسر نقصان ھی نقصان تھا.اور ضیاء نے ان رولز کو ختم کرنے کو کہا تھا کیونکے ایسے تمام ٹرانسفڑڈ ملازمین جن کو ریٹائیر ھونا تھا یاجو ھو چکے تھے ان پر قانون کے مطابق فیڈرل گورنمنٹ کے ھی پنشنس رولز استعمال ھونے تھے اور پی ٹی ای ٹی یا حکومت اس میں کسی بھی قسم کی منفی تبدیلی کا اختیار نہں رکھتے تھے . یہ بات سپریم کوڑٹ نے مسعود بھٹی کیس میں بڑی طرح واضح کردی تھی [ یہ پی ٹی ای ٹی نیو رولز - ۲۰۱۲ مرحوم یوسف آفریدی صاحب سابقہ جی ایم پی ٹی سی ایل پشاور نے پشاور ھائی کوڑٹ میں اپنی رٹ پٹیشن WP-2657/2012 میں چیلنج کردئے تھے اور پشاور ھائی کوڑٹ نے 2014-07-03 کو انکو ان ٹرانسفڑڈ ملازمین کی حد تک یعنی جو پی ٹی سی سی یکم جنوری 1996 کو ٹرانسفڑڈ ھوکر پی ٹی سی ایل کے ملازمین بن گئے تھے ، کلعدم قرار دے دئۓتھے.عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ یہ نیو پی ٹی ای ٹی رولز -۲۰۱۲ صرف کمپنی کے ملازمین پر ھی استعمال ھوں گے (یعنی وہ جنھوں نے پی ٹی سی ایل یکم جنوری 1996 کے بعد جائین کیا ھو یا کمپنی کی ملازمت اختیار کی ھو) اور جو ٹرانسفڑڈ ریگولر ملازمین ھیں یعنی جو پی ٹی سی سے سے پی ٹی سی ایل میں سے ٹرانسفر ھوکر یکم جنوری 1996 سے پی ٹی سی ایل کے ملازمین ھوگئے تھے ان پر فیڈرل گورنمنٹ کے ھی پنشنس رولز استعمال ھونگے. پی ٹی ای ٹی نے اس پشاور ہائی کوڑٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کوڑٹ میں اپیل بھی کی مگر اس کو سپریم کوڑٹ نے اپنے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے میں ڈس مس کردیا. پھر پی ٹی ای ٹی نے اسکے خلاف ایک ریو پٹیشن بھی سپریم کوڑٹ میں داخل کی وہ بھی 2017-05-17 کو خارج ھوگئی. اور پشور ہائی کورٹ کا 2014-07-03 کا یہ فیصلہ ، اب فائنل ھوگیا یعنی اب یہ امرھوگیا اور قانون بنگیا ہے. افسوس کی بات یہ ھے کے کمپنی کے ملازمین کے ( یعنی جو یکم جنوری 1996 کے بعد پی ٹی سی ایل ایل میں یا توبھرتی ھوۓ ھوں یا وہ ٹرانسفرڈ ملازمین جو ٹی اینڈ ٹی یا پی ٹی سی میں ورک چارج لئے، ایڈہاک طور پر کام کرھے ھوں اور یکم جنوری 1996 کے بعد ریگولر یا کنفرم ھوئۓ ھوں ) لئے پی ٹی سی ایل نے یہ پنشن سیسٹم ھی ختم کردیا اور انکو صرف کو ساٹھ سال کی عمر مکمل ھوے نے پر صرف اولڈ ایج بینیفٹ (EOBI) کی ایک مقرر کردہ ھی پنشن ملے گی . ایک بات آپ سب کو یاد رکھنی چاھئے کےگورنمنٹ کے ایسے پی ٹی سی ایل ٹرانسفڑد ملازمین کو پنشن دینے کا اختیار صرف پی ٹی ای ٹی کو ھے . جسکے لئے یہ ٹرسٹ گورنمنٹ نے پی ٹی ( ری آرگنائییزیشن) ایکٹ 1996 کی شق 44 کے تحت صرف ایسے پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفڑد ملازمین کو گورنمنٹ کے پنشنس رولز کے تحت پنشن دینے کے لئے بنایا ھے . اور یہ اسکے بوڑڈ آف ٹرسٹی کی زمہ داری ھے کے اس میں گورنمنٹ کی مقرر کردہ بلجاظ گریڈ ھر ایسےتمام پی ٹی سی ایل ملازمین کو ریٹائیرمنٹ کے بعد گورنمنٹ کی مقرر کردہ اپنے سرکاری ملازمین پنشنرس کی طرح اور اسی کے مطابق پنشن دی جائے جو انکا حق ھے اور اس میں کوئی بھی کمی بیشی نہ کی جائے اور ان ریٹائڑڈ ملازمین کو بھی اسی طرح پنشن دی جائے جو ٹی اینڈ ٹی میں یا پی ٹی سی میں ٹی اینڈ ٹی سے ٹرانسفڑڈ ھونے کے بعد ریٹائیر ھوۓ ھوں اور ھونگے. اگرچہ پی ٹی سی ایل نے اپنے کمپنی ملازمین کے لئۓ پنشن سیسٹم ختم کردیا ھے. اگر یہ ھوتا تو پی ٹی ای ٹی انکو پنشن دینے کی بالکل مجاز نہیں تھی کیونکے حکومت پاکستان ٹیلیکام ایمپلائی ٹرسٹ صرف اپنے ان سرکاری ملازمین کےلئے بنایا تھا جو ٹرانسفر ھوکر پہلےٹی اینڈ ٹی سے پی ٹی سی میں آئۓ اور پھر پی ٹی سی ایل میں . جبکے پی ٹی سی پنشن ٹرسٹ فنڈ حکومت نے 1994-4-1پی ٹی سی میں ایک پی ٹی سی ٹرسٹ ڈیڈ کے ساتھ قائیم کیا تھا اور پی ٹی سی کو ٹرسٹی بنایا تھا کے وہ نا صرف ان ٹی اینڈ ٹی کے پی ٹی سی میں ٹرانسفڑڈ ھونے والے سرکاري ملازمین کو پی ٹی سی میں ریٹائرمنٹ کے بعد گورمنٹ کی مقرر کردہ پنشن دیں گے بلکے انکو بھی دیں جوٹی اینڈ ٹی میں ریٹائیڑڈ ھوگئے تھے اور ٹی اینڈ ٹی میں گورمنٹ ٹی اینڈ ٹی پنشن فنڈ سے پنشن باقاعدہ لے رھے تھے. بعد میں یہ ھی گورنمنٹ والا پنشن ٹرسٹ فنڈ پی ٹی ای ٹی کو منتقل کردیا گیا انھی اصولوں پرے پی ٹی سی ایل میں آنےوالےٹرانسفڑڈ ایمپلائیز کو پنشن دینے کے لئے .کیونکے پی ٹی سی کے ختم ھونے کے بعد حکومت نے یہ پاکستان ٹیلی کام ایمپلائی ٹرسٹ قائیم کیا تھا یعنی پی ٹی ای ٹی(PTET)].
میں آپلوگوں کی آگاھی کے لئے اس ضیاالدین کی اس ای میل کی فوٹو ایمج کاپیاں جو تین صفحوں پر مشتمل ھیں، نیچے پیسٹ کرھا ھوں جس میں یہ ضیاء پی ٹی سی ایل منیجمنٹ کو بتا رھا ھے کے وہ وہ غیر قانونی طور پر ان ٹرانسفڑڈ ملازمین کی تنخواھوں اور الاؤنسس میں گورنمنٹ کے مطابق اضافہ نہیں کر رھی ھے [یہ اسکے ایمیل کے تیسرے صفحے پر پیرا ۹ میں لکھا ھوا ھے . ] اور آج یہ ، ان لوگوں کو اسکی نفی کررھا ھے اور انکو نیوپیکج -2017 کا آپشن لینے پر مجبور کرررھا ھے . یاد رکھئیے جو پی ٹی سی ایل میں ایسے ٹرانسفڑڈ ایمپلائیز ، جن کا گورنمنٹ والی تنخواہ اور الاؤنسس کا حق بنتا ھے ، اور ایسے لوگ اس ضیاء اور اسکے گارندوں کی باتوں میں آکر یہ نیوپیکج -2017 آپشن قبول کررھے ھیں ، وہ اپنا بہت ھی بڑا نقصان کررھے ھیں .کیونکے کل وہ نہ گھر کے رہیں گے نہ گھاٹ کے. اللہ ان انکو عقل سلیم دے.آمین!
واسلام
محمد طارق اظہر
ریٹائیڑڈ جنرل منیجر(آپس) پی ٹی سی ایل
9 ستمبر 2017
0345-5211167
0300-8249598
میں نے اپنے 24 جولائی 2017 کو اپنے مقالے میں یہ مندرجہ ذیل باتیں تحریر کی تھیں .جسکی بنیاد سید مظہر حسین CHRO کی بےتکی باتوں کا مختصرن جواب دیا تھا . میں سمجھتا ھوں ان باتوں کو کی پوائنٹ وآئز مکمل تشریح ھونا چاھۓ تاکے آپ کو اندازہ ھوسکے کے یہ شخض کتنا جھوٹ بول رھا ھے صرف اسلئے کے آپ لوگ اسکا کا دیا ھوا پی ٹی سی ایل کا نیو پیکج -17 قبول کرلیں اور پھر یہ اسکی وجہ سے آپلوگوں کو کمپنی کا ملازم بنا کر اپنا حکم چلاسکے اور آپ لوگ اسکا کچھ بھی نہ کر پائیں . اگر آپ میر ی ان باتوں کو غور سے سمجھ کر پڑھيں گے ، جو میں مندرجہ ذیل تحریر کرنے جارھا ھوں تو مجھے اللہ کی زات پر بھروسہ ھے کے آپ لوگ اس کے نرغے میں نہیں آئیں گےاور اس مظہر کو منہ کی کھانی پڑے گی. میں نے یہ مندرجہ زیل تحریر کیا تھا
" مجھے کل بروز اتوار ۲۳ جولائی-۱۷ ، یہ مظہر حسین صاحب کے خطاب کی یہ تین منٹ کی ویڈيو واٹس ایپ پر موصول ھوئی جسکو آپلوگوں کے لئے فیس بک پر اپلوڈ کردي ھے . اسکی کوالٹی اتنی اچھی نہیں اور آواز بھی کچھ مدھم ھے اسلئے آپ لوگوں سے گزارش ھے کے یہ ھیڈفون لگا کر شور شرابے سے دور انکی یہ چاپلوسی والی تقریر سنیں .یہ ویڈیو شائید کسی نے دوران تقریر اپنے موبائیل فون سے ریکاڑڈ کی ھے . کل جب یہ ویڈیو موصول ھوئی تو مجھےانکی تصویر دیکھکر ایسا لگا کے کسی نے ایک داڑھی والے گوئیے کی ویڈیو بھیجی ھے جو لہک لہک کر سٹیج پر گانا گارھا ھے. تو فورن تو یہ ویڈیو میں نے ڈاؤن لوڈ نہیں کی رات کو پھر جب اسکو میں نے ڈاؤن لوڈ کی تو یہ عقدہ کھلا کے موصوف جناب مظہر صاحب ھیں جو پی ٹی سی ایل کے ملازمین سے کسی ٹاؤن ہال میں خطاب کررھے ھیں .
مظہر صاحب کی تقریر کا لب لباب یہی تھا کے کے پی ٹی سی ایل کے ایمپلائی کمپنی کے دئے ھوئے یہ نیو اسکیل قبول کرلیں اور اسکا آپشن دے دیں. اس سلسلے میں انھوں نے بڑی ھی مضحکہ خیز باتیں کیں اور ساتھ انکی باتوں سے یہ لگ تھا کے جو عدالتی فیصلے پی ٹی سی ایل کے ان ٹرانسفڑڈ ملازمین کے حق میں آئے ھیں ، کمپنی ان پر عمل کرنے کا کوئی بھی ارادہ نہیں رکھتی . انکا یہ کہنا کے پی ٹی سی ایل کمپنی ایک مکمل پرائویٹ ادارہ ھے اور اس میں گورنمنٹ کے اسکیلز بالکل نھیں آسکتے . انکی یہ بہت بڑی بھول ھے . پہلے تو انکی یہ بات میں کلئیر کردوں کے یہ پی ٹی سی ایل کمپنی تو ھے مگر مکمل پرائیوٹ نھیں کیونکے اس کمپنی میں حکومت پاکستان کے اب بھی 63% شئیرز ھیں جبکے ایتصلات کے پاس 26% اور دوسرے پبلک سیکٹر کے پاس اسکے 11% شئرز ھیں تو ایک طرح کی یہ کمپنی سیمی گورنمنٹ کمپنی ھے . اور ایتصلات نے چونکے اسکے 26% شئرز خریدے ھیں اسلئے اسکو اسکے صرف انتظامی اختیارات ملے ھیں کوئی یہ اسکے مالک نہیں بن بیٹھے . اس کمپنی کے بوڑڈ آف ڈائریکٹرز کے چئیر مین فیڈرل سیکریٹری ، سیکریٹری منسٹری آ ئی ٹی و ٹیلیکام اسلام آباد ھیں جو ایک گورنمنٹ ملازم ھیں اور بوڑڈ آف ڈائریکٹرز گورنمنٹ ممبرز کی تعداد بحساب شئرس ھولڈر زیادہ ھے.مظہر صاحب کو یہ معلوم ھونا چاھئے.کے اس کمپنی کا وجود پاکستان ٹیلی گراف اینڈ ٹیلی فون ڈیپاڑمنٹ کے ختم ھونے اور اس میں اسکے گورنمنٹ کے ملازمین کے ضم ھونے کی وجہ سے ظہور میں آیا پھلے کار پوریشن بنی اور پھر اسی کارپوریشن کے پانچ حصے (entities) ھوئے اور ایک حصہ یہ کمپنی PTCL بنی. اور پی ٹی سی کے تمام ملازمین ان حصوں میں ٹرانسفڑڈ ھوگئے اپنے آپشنس کے تحت .کچھ NTC میں چلے گئے کچھ PTA میں ، کچھ FAB میں اور کچھ PTET میں اور باقی جو بچے تھے وہ سب اس کمپنی یعنی PTCL میں انھیں سروس کے ٹرمز اور کنڈیشنس میں جو انکے ٹی اینڈ ٹی میں تھے اور بعد میں PTC میں بھی تھے اور اسی طرح PTCL میں ھوئے پی ٹی ایکٹ 1996 کی شق (1) (2) 36 کے تحت جو لوگ دوسرے حصوں میں ٹرانسفر ھوئے تھے وہ ایک خود بخود سرکاری ملازم بن گئے کیونکے یہ اور ادارے ایک طرح کے مکمل گورنمنٹ ادارے تھے اور ان میں پی ٹی سی سے ٹرانسفر ھوکر آنے والے ملازمین سرکاری ملازم ھوگئے یعنی سول سرونٹ انکو وھی تنخواھیں اور پنشن ملنے لگی جو گورنمنٹ اپنے سول سرونٹس اور پنشنرس کو دیتی ھے اور جو لوگ PTCL میں میں آگئے تھے انکے لئے کمپنی یعنی PTCL انکو گورنمنٹ والی تنخواہ دینے کی پابند تھی یعنی پی ٹی ایکٹ 1996 کی شق (1) (2) 36کے تحت اور جو وہ باقاعدگی سے دے رھی تھی یعنی یکم جنوری 1996 سے . جب گورنمنٹ اپنے ملازمین کی تنخواہ بڑھاتی تو PTCL بھی بڑھاتی جیسا اسنے یکم دسمبر 2001 سے بڑھائی تھی گورنمنٹ کے طریقہ کار پر . PTCL نے ان تمام ملازمین کے تنخواہ کے اسکیل وھی رکھے جو گورنمنٹ کے تھے جیسے پہلے اسکیل BPS-1 شروع ھوتے اور BPS-22 تک جاتے بعد میں یہ B-1 سے B-22 تک لکھے جانے لگے .اور یہی اب تک PTCL میں لاگو ھیں. مگر اس میں وہ تنخواہ اور الاؤنسس نھیں جو گورنمنٹ کے انھی اسکیلس میں ھیں اور جو وہ اپنے ملازمین کو دے رھی ھے اور اس مں اضافہ کرتی رھتی ھے. مگر ان پی ٹی سی ایل کے ٹرانسفڑڈ ملازمین کے لئیے تو گورنمنٹ والی تنخواہ الاؤنسس تقریبن وھی ھیں جو یکم دسمبر 2001 کو تھے. .کمپنی نے اپنی طرف سے اس میں incentive pays کا اضافہ تو کیا اور الوئنسس کا مشروط اضافہ تو کیا مگر وہ اتنی سیلری کا اضافہ نہ کرسکی جو اسوقت ایک سول سرونٹ کو مل رھی ھے . تو اب مظہر صاحب کا یہ کہنا کے گورنمنٹ اسکیل نھیں دئے جاسکتے سورج کو چراغ دینے کے مترادف ھیں .یہ انکی بیوقوفی ، ھٹ دھرمی اور اعلی عدالتی احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی ھے . کمپنی کو انکےکے یہ گورنمنٹ والی تنخواہ اور الاؤنسسس لازمن دینا پڑیں گے جب سے کمپنی نے یہ دینا بند کئے ھيں انکے تو اچھے بھی دیں گے. انشاللہ"
اسی سلسلے میں میں اپنی اسی بات کو بڑھاتے ھوۓ مظہر حسین کی باتوں کا جواب پوائنٹ ٹو پوائنٹ دے رہا ھوں
(۱) مظہر صاحب کا یہ کہنا کے یہ کے یہ پی ٹی سی ایل کمپنی ایک مکمل پرائویٹ کمپنی ھے ا، ایک ایسا سفید جھوٹ ھے ھے جسکی نظیر نہیں ملتی . انکو یہ بات کرتے ھوئے اپنے گربیان میں ضرور جھانکنا چاھئے وہ ایک غیر ملکی کمپنی کے غلام بنے ھوئے ھیں جس نے کتنی مکاری اور چالاکی سے 2006 میں اسوقت کے بیغیرت اور غیر محب وطن حکمران کو کمیشن کھلا کر اس کمپنی کو اپنے قبضے میں لیا اور اب تک یہ لوگ اس 26 % شئرز کی رقم آٹھ سو ملین ڈالرز کی پھلی قسط بھی نہيں دے پائے ھیں . مظہر صاحب کو یہ معلوم ھونا چاھئۓ کے جب بی ٹی سی ایل کمپنی یکم جنوری 1996 کو وجود میں آئی تو یہ ایک مکمل گورنمنٹ بیس کمپنی تھی اسکی وجہ یہ ھے کے کے اس میں جو پی ٹی سی کے ملازمین یکم جنوری 1996 میں اس میں ٹرانسفر ھوکر کمپنی کے ملازم یعنی پی ٹی سی ایل کے ملازم بن گئے تھے ان سبکے سروس ٹرمز اور کنڈیشنس وھی تھے جو انکے کارپوریشن میں تھے یعنی پی ٹی سی میں اور پی ٹی سی میں وھی تھے جو ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ میں تھے کیونکے جب وہ ٹی اینڈ ٹی میں تھے . چونکے ٹی اینڈ ٹی ایک گورنمنٹ ڈیپاڑٹمنٹ تھا اسلئے وہاں کے تمام ملازمین سول سرونٹ کہلاتے تھے اور انکے وھی سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس تھے جو سول سرونٹس ایکٹ 1973 میں دئیے گئۓ ھيں. اور بطور ایک گورنمنٹ سول سرونٹ انکو بہت سے مراعت تھے مثلن ایک گریڈ 17 اور اس سے اوپر کا سول سرونٹ کے وہ کسی کی دستاویزات کو Attest تو عدالت اور ھرجگہ معنی جاتی تھی اسی طرح کسی کے شناختی کاڑڈ کے بنانے کے فارم اس بات کا سڑٹیفیکیٹ دے دے کے وہ اسکو جانتا ھے اور یہ صحیح شخض ھے تو اسکا شناختی کاڑڈ بغیر کسی تردد اور انکوائری سے بن جاتا تھا .لیکن جب یہ تمام ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنےوالے تمام گورنمنٹ سول ملازمین جب کاپوریشن یعنی پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن میں پی ٹی سی ایکٹ کی شق (۲)۹ کے تحت دسمبر ۱۹۹۱ میں ٹرانسفر ھوتے ھیں تو یہ کارپوریشن کے ملازم بن جاتے ھیں مگر انپر گورنمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں دی گئی سروز ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کے قوانین [ جو گورنمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں سیکشن 3 سے 22 تک دئیے ھیں ] استعمال ھوتے ھیں . اور پھر یہ پی ٹی سی ختم ھوجاتی ھے تو یہ تمام ملازمین یکم جنوری 1996 ،نئی کمپنی ،پی ٹی سی ایل میں ،پی ٹی ( ری آرگنائزیشن) ایکٹ 1996 کی سیکشن (2)36 کے تحت حصہ بن جاتے ھکں اور انپر پی ٹی سی ایل میں بھی وھی گورنمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں دی گئی سروز ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کے قوانین [ جو گورنمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں سیکشن 3 سے 22 تک دئیے ھیں ] ھی استعمال ھونے لگتے ھیں .[ اسکی باقاعدہ صحیح مزيد تشریح سپریم کوڑٹ 7 اکتوبر 2011 میں مسعود بھٹی کیس میں کردیتی ھے . اور پی ٹی سی ایل اور گورنمنٹ پر یہ واضح کردیا جاتا ھے کے جو ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کے قوانین ، جو گورنمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں سیکشن 3 سے 22 تک دئیے ھیں ، ان میں کوئی بھی منفی تبدیلی نہیں کی جاسکتی جس سے ان پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفڑڈ پی ٹی سی کے ملازمین کو نقصان ھو.پی ٹی سی ایلاور حکومت کو بھی اسکا بالکل اختیار نہیں. تو جو ملازمین پی ٹی سی سے ٹرانسفر ھوکر یکم جنوری 1996 کو کمپنی یعنی پی ٹی سی ایل میں آۓ تھے وہ کمپنی کے بھرتی کردہ ملازم نہیں تھے انپر گورنمنٹ والے ھی قوانین استعمال ھورھے تھے .چاھے انکیتنخواہ کا مسءلہ ھو یا پنشن کا ، چاھے انکے خلاف کسی انضباطی کاروائی کا مسءلہ ھو یا پرومموشن، سینیارٹی، چھٹیاں ٹرانسفر پوسٹنگ وغیرہ وغیرہ .ان سب پر گورنمنٹ کے ھی یہ سول سرونٹ والے مروجہ قوانین ھی شروع دن سے استعمال ھورھے تھے جیسے پی ٹی سی میں ھورھے تھے اور اس سے پہلے بطور سول سرونٹ ٹی اینڈ ٹی میں ھورھے تھے. تو مظہر صاحب کا یہ کہنا کے یے سب کمپنی کے ملازم ھیں اور کمپنی پرائویٹ ھے کچھ بھی معنی نہیں رکھتا بلکے لوگوں کو مس گائیڈ کرنے کا ایک طریقہ ھے. تاکے لوگ اسکی ان باتوں میں آکر نئے پی ٹی سکیل 2017 کا آپشن قبول کرلیں اور کمپنی کے ملازم بن جائیں اور گورنمنٹ کے پے سکیلز سے محروم ھوجائیں جو ایسے پی ٹی سی ایل ملازمین کا بنیادی حق ھے . اور اس طرح وہ یہ آپشن قبول کرنے کے بعد اپنے اس بنیادی حق سے محروم ھوجائیں گے . یہ ھی پی ٹی سی ایل منیجمنٹ چاھتی ھے کے کم سے کم لوگوں کو گورنمنٹ والے واجبات دئے جائیں جن سے انکو یکم جولائی 2005 سے محروم کر رکھا ھے ،کیونکے یہ تو انکو دینا ھی پڑيں گے چاھے کتنی تاویليں کرلیں اور اب جسطرح کے سپریم کوڑٹ نے راجہ ریاض کے حق میں فیصلہ دے رکھا ھے اور جو ان لوگوں کو بھی لازمن دینیں پڑيں گے جو اب تقریبن 68% سے 70% زیادہ پی ٹی سی ایل کے موجودہ اسکیل سے زیادہ ھیں جبکے پی ٹی سی ایل نے گورنمنٹ کا 2001 والا اسکیل یکم دسمبر 2001 سے دے رکھا ھے [ یاد رھے اسی مظہر نے ان گورنمنٹ والے اسکیلز _ 2001 میں کچھ مشروط الاؤنسس ڈال کر یکم جولائی 2008 سے پی ٹی سی ایل کا نیا پیکج_2008 دیا تھا . مگر اسوقت کوئی آپشن نھیں مانگا تھا اور وھی اب تک چل رھا ھے ] تو اس پر انکو68% سے 70% زیادہ رقم دینی پڑے گی اور ساتھ ابتک کے بقایا جات بھی ، تو کیوں نہ ایسے پی ٹی سی ایل میں آئے ھوئے ٹرانسفڑڈ ملازموں انکو صرف نئے پی ٹی سکیل 2017 میں انسے آپشن لے کر صرف 16% دے کر ٹرکایا جائے اور پھر اسطرح انکو پچھلے بقایا جات بھی نہیں دینے پڑيں گے. اور وہ اگراسکے خلاف اجتجاج کریں گے اور عدالت میں جائیں گے تو یہ موقف اپنایا جائے گا کے یہ لوگ آپشن قبول کرنے کے بعد انکے ملازمین یعنی کمپنی کے ملازم بن گئے اور اسلئے یہ اب گورنمنٹ والے اسکیلزلینے کا حق نہیں رکھتے پی ٹی ( ری آرگنائزیشن) ایکٹ 1996 کے سیکشن (2)36 کے تحت [ اسکی تفصیل میں اپنے پچھلے آڑٹیکل-43 بتا چکا ھوں] تو جناب یہ مقصد ھے جناب سید مظہر حسین کا اس طرح کی باتیں کرنے کا.
(۲ ) جناب سید مظہر حسین کا یہ کہنا کے پی ٹی سی ایل ایک پرائویٹ کمپنی ھے اس میں گورنمنٹ کے پے اسکیلز نہیں آسکتے ، یہ تو یا انکی لا علمی ھے یا وہ بن رھے ھیں اور ھم سبکو بیوقوف سمجھتے ھیں . انکی خدمت مں عرض ھے کے گورنمنٹ اسکیلز کمپنی میں آسکتے نہیں بلکے آچکے ھیں اور اسی وقت سے جب سے اس پی ٹی سی ایل یعنی کمپنی کا یکم جنوری 1996 کو ظہور ھوا تھا. [موصوف کو یہ معلوم ھونا چاھئۓ جب آپ اپریل 1996 کو اس کمپنی کے ملازمت میں بھرتی کیا گیا تھا تو انکو گورنمنٹ کے ھی اسکیلز BPS-18 دیا گیا تھا کوئی کمپنی کا اسکیل نھیں تھا]. اب یہاں معاملہ صرف ان گورنمنٹ اسکیلز پر گورنمنٹ کے مطابق تنخواہ اور الاؤنسس دینے کا ھے جو یہ پی ٹی سی ایل نھیں دے رھی اور غیر قانونی طور پر یکم جولائی 2005 سے منقطع کیئے ھوۓ ھے. جسکا مطالبہ اب یہ مزکورا ملازمین عدالتی احکامات کی روشنی میں کررھے ھیں.
بات یہاں یے ھے کے جب یہ کمپنی یکم جنوری 1996 میں قائم کی گئی تو اسمیں پی ٹی سی سے ٹرانسفڑڈ ھوئے ملازمین ، کمپنی میں بھی وھی تنخواہ گورنمنٹ والی لےرھے تھے جو وہ اس سے سے پہلے پی ٹی سی اور اس سے پہلے ٹی اینڈ میں لے رھے تھے. چونکے پی ٹی سی میں 1994 کے گورنمنٹ اسکیلز نافظ العمل تھے تویہی انپر پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفزڈ ھونے کے بعد یکم جنوری 1996 سے ھی نافظ العمل ھوچکے تھے اور جب گورنمنٹ نے یہ 1994 کے اسکیلز کو یکم دسمبر 2001 سےrevised کئے تو پی ٹی سی ایل نے بھی گورنمنٹ ھی کی طرح revise کیا اور 2001 کے گورنمنٹ والے ھی اسکیلز نافظ کئے تو باقی سالوں جب جب گورنمنٹ نے ان مں اضافہ کیا اور اپنے basic pay scales کو revise کیا تو پی ٹی سی ایل کو کیا موت آگئی تھی جو اسنے انمیں اضافہ یا revise کیوں نہیں کیا ؟؟؟. اور کیوں ، بقول انکےیہ اگر ایک پرائیویٹ کمپنی تھی تو کیوں کمپنی نے اپنے تنخواہوں کے اسکیل نہیں دئیے یا نافظ کئے سطرح اور پرائیویٹ کمپنیوں میں ھوتے ھیں .اسکا صرف ایک ھی جواب ھے کے یہ کمپنی گورنمنٹ بیس تھی اس میں جب یہ بنی اس میں گورنمنٹ کے shares جو 89% تھے اور اب یہ 63% ھیں اور اس میں کام کرنے والے تقریبن 90% سے زیادہ وہ ملازمین تھےاور اب بھی ھیں ، جو پہلے گورنمنٹ ے ملازمین کے زمرے میں آتے تھے .لہازا انکو وھی تنخواہ اور پنشن دی جانی تھے قانون کے تحت جو گورنمنٹ اپنے سول ملازمین اور پنشنرس کو دے رھے تھی .
جنا سید مظہر حسین دام اقبالحو کو تو یہ بھی معلوم نھیں کے President of Pakistan اور ETISALT کے ساتھ Shareholder agreement جو Sign کیا گیا تھا ، کیا معاہدہ ھوا تھا ، جب انکو پی ٹی سی ایل کے 26% Sahares منتقل کئے جارھے تھے . اس Shareholder agreement کی کلاز 16.2 میں ٹرمز اینڈ کنڈیشنس ان ٹرانسفڑڈ ریگولر ایمپلائیز کے کے بارے میں کیا لکھا ھے کسطرح ان کے حقوق کو Protect کئے گئے ھیں جن پر عمل کرنا ETISALT پر لازم ھےتو یہ پھر یہ شخص کیسے ان ٹرانسفڑڈ ملازمین کو ورغلا کر انسے آپشن لینا چاھتا ھے تاکے اسکو ان کے جائئز حقوق نہ دینے پڑيں . یہ شخض صرف ETISALT کا بھلا چاھتا ھے اور کچھ نہیں .کیونکے یہ انکا زر خرید غلام اور لونڈی ھے وہ ان ملازمین کا کیسے خیرخواہ ھوسکتا ھے.سوال ھی پیدا نہیں ھوتا. اسکی تمام یہ باتیں صرف بہلانے اور پھسلانے کی ھیں ان میں حقیقت کا دور دور تک کوئی واسطہ نھیں.
(۳ مظہر صاحب کا آخر میں عدالتی احکامات کے بارے میں فرمانا ،جسکا انکو شائید کیسز کا ٹھیک طرح پتہ نہیں یا وہ جان بجھ کر انجان بن رھے تھے اور کیسز کے نمبرز اور نام بھی ٹھیک طرح لے نہیں پارھے تھے .انکی ان باتوں سے صاف یہ لگ رھا تھا کے پی ٹی سی ایل عدالتی احکامات کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں لگتی اور وہ اس میں بلکل سنجیدہ نہیں .وہ جناب فرمارھے تھے کے اگر کبھی اس عمل کرنا پڑا تو اسکا فائدہ ان ملازمین کو بھی ھوگا جو یہ آپشن قبول کریں گے اور پی ٹی سی ایل سکیلز-2017 قبول کریں گے .اگر یہ بات ھے تو حضور آپ آپشن کیوں مانگ رھے ھیں ویسے ھی نیو اسکیلز -2017 دے دیں اور اسمیں گورنمنٹ والی تنخواہ اور الاؤنسس کا اضافہ جو یکم جولائی 2005 سے ابتک ھوا ھے تو وہ بھی دے دیں . کیونکے قانون کے مطابق آپ ان پی ٹی سی ایل ٹرانسفڑڈ ملازمین کو گورنمنٹ سے زیادہ تنخواہ اور الاؤنسس تو دے سکتے ھیں مگر کم نہیں .اگر آپ یہ نیو پی ٹی سی ایل اسکیلز2017 میں تنخواہوں اور الاؤنسسز میں اضافہ گورنمنٹ کی تنخواھوں اور الاؤنسس سے زیادہ کرتے اور اسکا اطلاق یکم جولائی2005 سے کرتے تو بات بنتی ھے ،پھر یہ ظاھر ھوتا کے آپ کے پی ٹی سی ایل والوں کو ان ٹرانسفڑڈ ملازمین کا کتنا خیال ھے . حضور ، مگر یہ آپ کر ہی نہیں سکتے اسلئے کے آپ کے من میں تو کھوٹ ھی کھوٹ ھے اور آپ یہ چاھتے کے جتنے بھی ٹرانسفڑڈ ملازمین ھیں جو ٹی اینڈ ٹی یا پی ٹی سی میں بھرتی ھوئے ھیں وہ سب یہ دیا ھوا آپشن قبول کرلیں تاکے انکو اگر گورنمنٹ کے اسکیلز میں جو تنخواہوں اور الاؤنسس کا اضافہ یکم جولائی2005 سے کیا گیا وہ انکو نہ مل سکے ، انکے بقایا جات نہ دینے پڑیں اور انکی تنخواھیں اور الاؤنسس گورنمنٹ کے برابر نہ کی جائیں . مگر مظہر صاحب آپ کو یہ سب دینے ھی پڑیں گے چاھے پی ٹی سی ایل کچھ بھی کرلے کیونکے یہ ھی عدالت عالیہ کا حکم ھے اور ماننا ھی پڑے گا. پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کی تمام رویو اپیليں تک خارج ھوچکی ھیں توپی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کو لازمن گورنمنٹ والی تنخواھوں اور گورنمنٹ کی پینش انکریز کے تمام واجبات دینےھی پڑيں گے اور اب کوئی بھی ٹال مٹول کام نہیں آئیگا جسطرح نصیرالدین کے کیس میں کام نہیں آیا تھا اور اسی طرح سے دینے پڑیں گے جسطرح آپنے نصیرالدین غوری کو 10 اگست 2012 کو سابق چیف جسٹس افتخار چوھدری کی سخت تنبیہ پر دینے پڑے تھے .آپ لوگوں کی اطلاع کے لئے نصیرالدین غوری اے ای پی ٹی سی ایل کے یہ تنخواہ کےواجبات اوراور اسکی پروموشن اے ڈی ای کے طور تیس دن کے اندر کرنے سپریم کوڑٹ نے اپنے 7 اکتوبر2011 مں مسعود بھٹی کیس کے فیصلے (2012SCMR152) میں دینے کو حکم دیا تھا اوریہ حکم سپریم کوڑٹ نے اسکی(نصیرالدین غوری) اپیل نمبر CA-241/2011 کو قبول کرتے ھوئے دیا تھا [ دراصل ان تنخواہ والےواجبات(وھی تھے جو اس زمانے میں گورنمنٹ والے تھے) دینے کا اور اسکی پروموشن کا حکم بطور اے ڈی ای ، فیڈرل سروس ٹریوینل (FST) نے 2004 میں دیا تھا جسکے خلاف پی ٹی سی ایل کی اپیل بھی سپرکم کوڑٹ نے 2009 میں مسترد کردی تھی مگر پی ٹی سی ایل نے نہ تو اسکے واجبات دئیے اور نہ ھی پروموشن کی . نصیرالدین غوری نے انکے خلاف توھین عدالت کا کیس سندھ ھائی کوڑٹ میں کردیا جہاں پہلے سے ھی پی ٹی سی ایل کے ایسے ملازموں کیں اپیلیں پینڈنگ پڑی تھیں جو پی ٹی سی ایل کی انکے ساتھ victimisation policy کا شکار تھے .مگر سنھ ھائی کوڑٹ نے یہ تمام اپیلیں اس ٹیکنیکل گراؤنڈ پر 6 جون 2010 مں خارج کردیں تھیں کے جن ملازمین نے یہ اپیلیں کی ھیں انکے کوئی statutory rules نہیں ھیں اور یہ کمپنی کے ملازم ھیں اور انپر ماسٹر اینڈ سرونٹ کا قانون ایمپلائی ھوتا ھے اور یہ ھائی کوڑٹ میں آئین کے آڑٹیکل -۱۹۹ کے تحت اپیل کرنے کے مجاز نہیں .سندھ ھائی کوڑٹ کے اس فیصلے کے خلاف ،مسعود بھٹی، نصیرالدین غوری اور دل آویز نے سپریم کے کوڑٹ میں اپیلں دائرکیں .جس میں سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے پہلے یہ بات واضح کی کے اپیلنٹس کا پی ٹی سی ایل میں سٹیٹس کیا تھا ؟. یہ پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفڑڈ ملازمین ھیں میں جو پہلے ٹی اینڈ ٹی بھرتی ھؤے پھر یہاں سے پی ٹی سی دسمبر 1991میں آۓ اور پھر یکم جنوری 1996 کو پی ٹی سی ایل میں یعنی کمپنی میں آئے اسلئےا نپر گورنمنٹ کے ھی قوانین یعنی statutory rules کا اطلاق ھوگا اور نہ تو پی ٹی سی ایل اور نہ تو گورنمنٹ کو یہ اختیار ھے کے اس میں کوئی ایسی منفی تبدیلی کریں جن سے انکو کوئی نقصان ھو. اور یوں سپریم کوڑٹ نے سندھ ہائی کوڑٹ کا یہ 6 جون 2010 کا والا یہ حکم منسوخ کیا اور پھر یہ فیصلہ نصیرالدین غوری کے حق میں کیا اور مندرجہ بالا حکم اس کے حق میں دیا. مگر پھر بھی پی ٹی سی ایل نے سپریم کوڑٹ ے اس حکم کی تعمیل نہیں کی تو مجبورن نصیرالدین غوری نیں فیڈریشن آف پاکستان اور پی ٹی سی ایل کے خلاف توھین عدالت کا کیس سپریم کوڑٹ میں داخل کیا [ Crl.org Petition #09 of 2012] کے تحت داخل کیا. اور جب سابق چیف جسٹس افتخار چوھدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کی 10 اگست 2012 بروز جمعہ کے اس توھین عدالت کیس کی شنوائی کی (اس کیس میں اسوقت کے سیکٹری آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام جناب فاروق اعوان بذات خود بھی پیش ھؤے تھے) تو اسکے شروع ھونے سے پہلے سابق چیف جسٹس افتخار چوھدری نے پہلے پی ٹی سی ایل کو یہ غندیہ دیا کے وہ یہ توھین عدالت کیس جمعہ کی نماز کے بعد سنيں گے اس سے پہلے پہلے پی ٹی سی ایل نصیرالدین غوری کے تمام تنخواہ کے واجبات ادا کرديں. مرتے کیا نہ کرتے ان سب پی ٹی سی ایل ایل کے بڑے بڑے لوگوں لوگ عدالت میں جو موجود تھے ، سب کی سٹی گم ھوگئی اسوقت یہ اب بڑکیں مارنے والے عدالت میں اسوقت یہ نہ کہہ سکے کے یہ تو کمپنی کا ملازم ھے ھم کیوں اسکو گورنمنٹ والے واجبات ادا کریں ، بھاگم بھاگ یہ لوگ پی ٹی سی ایل ایل ھیڈ کوارٹر پہنچے اور جتنے تنخواہ کے واجبات تھے ، (جو شائید تقریبن چارلاگھ سے اوپر تھے)، اسکا چیک بنوایا اور جب جمعہ کی نماز کے بعد کیس لگا تو وہ چیک عدالت میں نصیرالدین کو انکے وکیل منیر پراچہ نے دیا اور پروموشن کے لئے کہا کے اسکا کا فیصلہ ڈی پی سی ایک ماہ میں کردے گی اور پھر پی ٹی سی ایل کے طرز عمل پر معافی بھی عدالت سے مانگی. عدالت ان پر کتنا برھم تھی وہ آپ لوگ اس دن کے عدالتی فیصلے سے لگالیں جب انکا کیس ڈسپوزڈ آف کیا گیا اور انکی خلاصی ھوئی تھی. فیصلے میں لکھا تھا.
"Mr Munir Paracha the learned council of the respondents has stated under wrong impression, that the judgement of this Court of dated 7th October 2011, has not been implemented, as according to the respondents reviews petition has been filed against the said judgement. When we inquired as to wheather any request has been made for early fixation of this review petition or any stay order has been obtained, learned council could not answer except saying that the judgement will be implemented today(10-8-2012) by issuing of promotion order of the petitioner as well as making of all outstanding dues/salaries to him. Although the department has committed serious contempt of court, yet in view of apology and the statement given at bar, no further faction is called for. The matter is disposed accordingly."
Sd/- Iftikhar Muhammad Chudhary CJ
Sd/-Jawwad S Khuwaja J
Sd/-Tariq Pervaz J
تو آپ لوگ خود اندازہ لگالیں کے پی ٹی سی ایل نے کس ھٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا تھا اور جب عدالت کی طرف سے انکو جوتے پڑنے لگے، تو لگے معافی مانگنے اور جو عدالت کا حکم تھا اس پر عمل بھی کیا.عدالت کو کہنا پڑا کے "انھوں نے سخت توھین عدالت کی تھی . مگر انکی معافی مانگنے اور عدالت کا حکم ماننے پر انکی خلاصی بغیر کسی مزید ایکشن کے کی جارھی ھے". لیکن لگتا ھے ان بیحس لوگوں پر کوئی اثر نہیں پڑا . آج انکی رویو پٹیشن خارج ھوئے تین ماہ سے زیادہ ھوگئے ھیں لیکن انھوں نے ابتک سپریم کوڑٹ کے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے حکم پر آج تک عمل نہیں کیا .اسی طرح راجہ ریاض کیس میں انکی رویو پٹیشن خارج ھوچکی ھے جو اس کے حق میں آۓ ھوئے سپریم کوڑٹ کے جولائی 2015 میں اس فیصلے ( 2015SCMR1783) کی خلاف تھی جس میں راجہ ریاض کو سپریم کوڑٹ نے گورنمنٹ والی تنخواہ اور پنشن میں گورنمنٹ والے اضافے کا حکم دیا تھا .جسطرح صادق علی اور محمد عارف صاحب سابقہ ڈی جی پی ٹی سی ایل نے انکے خلاف توھین عدالت کا کیس کررکھا ھے اسی طرح راجہ ریاض نے بھی کر رکھا ھے جو اب آخری مراحل میں ھے.یہ پہلے اس وجہ سے پینڈنگ تھا کے انھوں نے رویو پٹیشن ڈال رکھی تھی اب وہ بھی خارج ھو چکی ھے مگر ان بے حس لوگوں پر ذرا سا بھی اسکا اثر نہیں کے انکے خلاف توھین عدالت کا کیس پھر شروع ھوگیا ھے اور اگر انھوں نے اس پر اب بھی عمل نہيں کیا یا اور دیر کی تو یہ ان سب کو لے ڈوبے گا اور شآئید اس بار انکو معافی بھی نہ ملے اور فیصلوں پر عمل کرنا بھی پڑے .یہاں ایک بات اور عرض کردوں عدالت اپنے حکم کی تعمیل کرانا اچھی طرح جانتی ھے جسکی مثال میں آپکو اوپر دے چکا ھوں تو مظہر صاحب آپ اس خام وخیال میں نہ رھیں ، کے آپ عداتوں کا حکم نہیں مانیں گے اور اسکو طول دینے کی کوشش کریں گے . اب آپ لوگ کچھ نہیں کرسکتے عدالت کے تمام اسطرح کے فیصلے ، پی ٹی سی ایل کے ایسے ملازمین اور پنشنرس کے حق میں آئے ھوئے ، اب فائنل ھوچکے ھیں. اور ان پر عمل کرنا پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی پر اب واجب ھوگیا ھے اور حکومت پر بھی ، جو اسکی گارنٹر ھے . ایسا نہ ھو ان سبکا دھڑن تختہ ھوجائے ، عدالتی حکم کی تعمیل نہ کرنے پر. یہ بات اب مظہر صاحب کو جان لینی چاھئے کے ابھی تو صرف تین ایسے پی ٹی سی ایل کے ملازمین نے سپریم کوڑٹ میں انکے خلاف توھین عدالت کا کیسس کر رکھے ھیں وہ دن دور نہیں جب ایسےتمام لوگ انکے خلاف سپریم کوڑٹ میں توھین عدالت کا کیس کریں گے. کیوں کے سپریم کوڑٹ اپنے ایک فیصلے یعنی " حمید اختر نیازی بنام سیکریٹری اسٹیبلیشمنٹ گورنمنٹ آف پاکستان اور دیگر میں حمید اختر نیازی کی اس سول اپیل نمبر 345/1988 پر 24 اپریل 1996 کو عدالت علیہ نے دیا جو اب 1996SCMR1185 میں درج ھے ، "کے کسی سرکاری ملازم کے حق میں آیا ھوا عدالت عالیہ کا فیصلہ ایسے تمام سرکاری ملازموں پر بھی استعمال / لاگو ھوگا جن کا issue یعنی مسءلہ اس سرکاری ملازم کی طرح ھو جسکے حق میں یہ فیصلہ آیا ھو جو اسکی طرف سے قانونی چارہ جوئی کے باعث آیا ھو، بیشک اور دوسرے ایسا ھی مسعلہ رکھنے والے سرکاری ملازمین اس طرح کی قانونی چارہ جوئی کا حصہ ھوں یہ نہ ھوں"[ یہ فیصلہ دو سابق چیف جسٹسس سپریم کوڑٹ یعنی سعید الزماں صدیقی مرحوم اور اجمل میاں نے دیا تھا]. تو مظہر صاحب آپ خود ھی اندازہ کرلیں کے اگر ھر ایسا پی ٹی سی ایل ملازم اس سپریم کوڑٹ کی حکم کی روشنی کے تحت پی ٹی سی ایل کے پرزیڈنٹ اور پی ٹی ای ٹی کے ایم ڈی اور حکومت پاکستان کے سیکرٹری آئی ٹی اور ٹیلیکام کے خلاف توھین عدالت کا کیس لےکر پہنچ گیا کے یہ لوگ سپریم کوڑٹ کے ان دئے ھوئے فیصلوں پر عمل نہ کرکے اور ھم لوگوں کو وھی مراعات نہیں دے رھے جنکا حکم سپریم کوڑٹ راجہ ریاض کے کیس اور اور دوسرے پی ٹی سی ایل کے 34 ایسے پنشنرس کیس میں ۱۲جون ۲۰۱۵ میں دے چکی ھے ، تو پھر ان پر عمل نہ کرنے والوں کا کیا انجام ھوگا ،یہ سب جانتے ھیں . میری اطلاع کے مطابق اب پورے پاسکتان سے تقریبن ۱۲۰۰ ایسے پی ٹی سی ایل کے ریگولرز پی ٹی سی ایل ملازمین نے جنھوں نے پی ٹی سی ایل کا نیو پیکج 2017 لینے سے انکار کردیا تھا ، انھوں نے ایک بہت ھی نامی گرامی وکیل کے زریعے یا تو کیس کردیا ھے یہ وہ سپریم کوڑٹ کی چھٹیوں کے بعد ڈائریکٹ سپریم کوڑٹ میں contempt case کرنےکی تیاری کرلی ھےاسی کیس کی روشنی میں جسکا تزکرہ ، میں اوپر کرچکا ھوں.
میرے علم میں کچھ دن پہلے ھی یہ بات لائی گئی کے پی ٹی سی ایل کے نیو پیکج 2017 کا آپشن لینے یہ نہ لینے کی آخری تاریخ یعنی شائید 15جولائی 2017 تھی . اور اسوقت تک صرف 10% نے یہ آپشن قبول کی اور باقی نے نہیں. چونکے آپشن قبول کر لینے والوں کی تعداد بہت کم تھی ، اس لئے مظہر جسین نے در پردہ ضیاالدین اور اسی کے یونین والے دوستوں کو زبردست فیڈنگ کی اور انکے زریعے ان لوگوں کو جنھوں نے يہ آپشن لینے سے انکار کیا تھا ، یہ باور کرانا شروع کرادیا کے اس آپشن لینے کا بڑا فائدہ ھے . اور اب کافی لوگ اس ضیاالدین اور اسکے ٹاؤٹس کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر یہ آپشن قبول کررھے ھیں .اور اسطرح اب تک یہ تعداد 10% سے بڑھ کر تقریبن 20% تک ھوچکی ھے. میں ان تمام یونین والوں کو اچھی طرح جانتا ھوں .انسے میرا واسطہ تقریبن 26 سال تک رھا ے . کیونکے جن پوسٹوں پر میں رہا اس میں ویلفئیر کا شعبہ میرے پاس ھمیشہ رہا اور اس میں یہ یونین والے بھی آتےتھے. سات سال کنٹرولر ٹیلیگراف سٹور کراچی ،دو سال ڈائیریکٹر فون حیدرآباد اور بعد میں ڈی جی ایم ایس ٹی آر ون، فور اور ٹو اور آخر میں جی ایم ایس ٹی آر ون حیدرآباد.میں یونین والوں کی ورکنگ سے نس نس سے واقف ھوں .یہ لوگ ھمیشہ اپنے مفاد کے لئے کام کرتے ھیں . سٹاف ملازمین ورکرز کےلئے بہت کم. اور یہ کام اس وقت تک نہیں کرتے جب تک انکو اس سے کچھ نہ مل جاتا ھو . بس یہ دکھاوے کی اپنے ورکروں سے ھمدردی کرتے اور اندرون خانہ انتظامیہ سے ملے ھوۓھوتے ھیں اور ان سے فائدے حاصل کرتے ہور ورکروں کو لارے لپے دیتے ھیں. انکو مجھ سے اس بات کی ھمیشہ شکایت رھتی تھی کے میں بغیر انکے کہے کیوں ایسے ملازمین کے مسءلے حل کردیتا ھوں اور کیوں انکے کہے بغیر خاصکر بلڈنگ ایڈوانس وغیرہ ان ورکر بیچاروں کو دے دیتا ھوں جو ورکر میرے پاس ڈائریکٹ چلے آتے تھے .میں جب ایسے ورکروں سے سوال کرتا تھا تو وہ اپنی یونین کے نمائندوں کے تھرو کیو نھیں آتے تو وہ یہ ھی جواب دیتے کے ان یونین والوں کو لون میں سے حصہ جو دینا پڑتا جو یہ لوگ بہت زیادہ لیتے تھے. ان یونین والوں کی کوئی بھی میں نے انکی ناجائیز بات نہیں مانی .یہ مجھ سے بہت نالاں رھتے تھے میری شکائتیں کرتے اور اخبارات میں میرے خلاف طرح طرح خبریں لکھواتے تاکے میں ڈر کر انکی ہاں ميں ہاں ملاؤں میں نے کئی بار ایسے ایک اخبارات کو لیگل نوٹسس بھجوائے تھے اور انھوں نے مجھ سے معافی مانگنی پڑی اور معزرت پہلے صفحے میں شآئع کیں . جب میں ڈی جی ایم ایس ٹی آر فور تو یہ یونین اس بات سے مجھ سے بہت نالاں ھوۓ کے کیوں انکے recommend کئے ھوئے ورک چارج پر کام کرنے والے کنفرم نہيں کئے جن کی ورک چارج کی سروس پانچ سال سے کم تھی . جبکے کرنے کے لئے مسلسل پانچ سال ورک چارج بر کام کرنا ضروری تھا. . یہ لوگ مجھے مارنے میرے آفس میں بھی گھس آئے تھے اور سارا آفس کا فرنیچر توڑ ڈالا تھا . میں تو ان سب کے خلاف ذاتی طور پر ایف آئی آر کٹوانے والا تھا مگر مجھ کو میرے جی ایم زیڈ اے ٹونیو صاحب نے مجھ سے منتیں کرکے اس کام سے روکا. ریکاڑڈ ھے کے میں نے کبھی بھیان لوگوں کی کوئی بھی غلط بات مانی ھو یا انکو میری کسی قسم کمزوری نظر آئی ھو کیونکے مجھے علم تھا یہ بعد میں مجھ کو اسی غلط بات پر میری کسی قسم کی کمزوری کابہانہ بنا کر مجھے بعدمیں بلیک میل کریں گے اور اور اپنا اور غلط کام نکلوائیں گے . یہ تو ایسے لوگ ھیں کے جو چور سے کہیں جا ،جاکر چوری کر اور پھر خود جاکر کوتوال سے شکایت کریں کے یہ چوری کرنے گیا ھے . تو جو ضیاالدین کا طرز عمل ھے اس میں کسی بھی حیرانی کی ضروت نہیں . یہ لوگ کسی طرح سے بھی ان پی ٹی سی ایل ملازمین کے ھمدرد نہیں جن کو یہ بہکا کر یہ آپشن لینے پر مجبور کررھے ھیں.ضیا سمیت ایسے لوگوں کو یہ مظہر حسین زبردست فیڈنگ کررھا ھے تاکے زیادہ سے زیادہ ایسے ملازمین آپشن قبول کرکے کمپنی کے ملازم بن جائیں اور انکو گورنمنٹ والی تنخواھوں کے واجبات نہ دینے پڑیں. مظہر حسین کی ضیاالدین سے بہت دوستی ھےکیونکے یہ اسکے بہت کام آتاھے .اسکا اندازہ اس بات سے لگالیں کے یہ مظہر ، ضیاء کے والد کے انتقال کے پرسے کے لئے اسلام آباد سے آیاتھا اور ضیا کے گھر گیا تھا . تو جو لوگ اس کی باتوں میں آکر یہ آپشن قبول کررھے ھیں ، وہ اپنا بڑا نقصان کررھے ھيں.ضیا جو آج یہ کہتا پھرتا ھے کے یہ نیو پی ٹی سی ایل پیکج 2017 بہت اچھا ھے اسے لینا چاھئے، کل تک یہ ھی ضیا ان پی ٹی سی ایل والوں اور پی ٹی ای ٹی والوں کو لتاڑ رھا تھا کے پی ٹی سی ایل کی انتظامیہ ان لوگوں کو گورنمنٹ والی تنخواہ اور الاؤنسس کا انکریز نہ دے کر ایک غیر قانونی کام کررھی ھے . یہ سب کچھ ضیاالدین نے بطور سنٹرل پریزیڈنٹ پی ٹی ای یو ( سی بی اے) پی ٹی سی ایل اپنی ۲۲ جون ۲۰۱۲ کو سکریٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کام کو اپنی ایک بھیجی ھوئی ای میل جو اس نوٹیفیکیشن یعنی S.R.O. 525(1)/2012 dated 22-05-2012 کے خلاف تھی ، جسکے تحت پی ٹی ای ٹی نے پی ٹی سی ایل پنشنرز اور پی ٹی سی ایل سے ریٹائڑد ھونے والے، ٹرانسفڑد پی ٹی سی ایل ملازمین کے لئے نئے رولز یعنی پی ٹی ای ٹی نیو پنشن رولز - ۲۰۱۲ تھے . جن میں ایسے ٹرانسفڑد پی ٹی سی ایل ملازمین سراسر نقصان ھی نقصان تھا.اور ضیاء نے ان رولز کو ختم کرنے کو کہا تھا کیونکے ایسے تمام ٹرانسفڑڈ ملازمین جن کو ریٹائیر ھونا تھا یاجو ھو چکے تھے ان پر قانون کے مطابق فیڈرل گورنمنٹ کے ھی پنشنس رولز استعمال ھونے تھے اور پی ٹی ای ٹی یا حکومت اس میں کسی بھی قسم کی منفی تبدیلی کا اختیار نہں رکھتے تھے . یہ بات سپریم کوڑٹ نے مسعود بھٹی کیس میں بڑی طرح واضح کردی تھی [ یہ پی ٹی ای ٹی نیو رولز - ۲۰۱۲ مرحوم یوسف آفریدی صاحب سابقہ جی ایم پی ٹی سی ایل پشاور نے پشاور ھائی کوڑٹ میں اپنی رٹ پٹیشن WP-2657/2012 میں چیلنج کردئے تھے اور پشاور ھائی کوڑٹ نے 2014-07-03 کو انکو ان ٹرانسفڑڈ ملازمین کی حد تک یعنی جو پی ٹی سی سی یکم جنوری 1996 کو ٹرانسفڑڈ ھوکر پی ٹی سی ایل کے ملازمین بن گئے تھے ، کلعدم قرار دے دئۓتھے.عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ یہ نیو پی ٹی ای ٹی رولز -۲۰۱۲ صرف کمپنی کے ملازمین پر ھی استعمال ھوں گے (یعنی وہ جنھوں نے پی ٹی سی ایل یکم جنوری 1996 کے بعد جائین کیا ھو یا کمپنی کی ملازمت اختیار کی ھو) اور جو ٹرانسفڑڈ ریگولر ملازمین ھیں یعنی جو پی ٹی سی سے سے پی ٹی سی ایل میں سے ٹرانسفر ھوکر یکم جنوری 1996 سے پی ٹی سی ایل کے ملازمین ھوگئے تھے ان پر فیڈرل گورنمنٹ کے ھی پنشنس رولز استعمال ھونگے. پی ٹی ای ٹی نے اس پشاور ہائی کوڑٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کوڑٹ میں اپیل بھی کی مگر اس کو سپریم کوڑٹ نے اپنے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے میں ڈس مس کردیا. پھر پی ٹی ای ٹی نے اسکے خلاف ایک ریو پٹیشن بھی سپریم کوڑٹ میں داخل کی وہ بھی 2017-05-17 کو خارج ھوگئی. اور پشور ہائی کورٹ کا 2014-07-03 کا یہ فیصلہ ، اب فائنل ھوگیا یعنی اب یہ امرھوگیا اور قانون بنگیا ہے. افسوس کی بات یہ ھے کے کمپنی کے ملازمین کے ( یعنی جو یکم جنوری 1996 کے بعد پی ٹی سی ایل ایل میں یا توبھرتی ھوۓ ھوں یا وہ ٹرانسفرڈ ملازمین جو ٹی اینڈ ٹی یا پی ٹی سی میں ورک چارج لئے، ایڈہاک طور پر کام کرھے ھوں اور یکم جنوری 1996 کے بعد ریگولر یا کنفرم ھوئۓ ھوں ) لئے پی ٹی سی ایل نے یہ پنشن سیسٹم ھی ختم کردیا اور انکو صرف کو ساٹھ سال کی عمر مکمل ھوے نے پر صرف اولڈ ایج بینیفٹ (EOBI) کی ایک مقرر کردہ ھی پنشن ملے گی . ایک بات آپ سب کو یاد رکھنی چاھئے کےگورنمنٹ کے ایسے پی ٹی سی ایل ٹرانسفڑد ملازمین کو پنشن دینے کا اختیار صرف پی ٹی ای ٹی کو ھے . جسکے لئے یہ ٹرسٹ گورنمنٹ نے پی ٹی ( ری آرگنائییزیشن) ایکٹ 1996 کی شق 44 کے تحت صرف ایسے پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفڑد ملازمین کو گورنمنٹ کے پنشنس رولز کے تحت پنشن دینے کے لئے بنایا ھے . اور یہ اسکے بوڑڈ آف ٹرسٹی کی زمہ داری ھے کے اس میں گورنمنٹ کی مقرر کردہ بلجاظ گریڈ ھر ایسےتمام پی ٹی سی ایل ملازمین کو ریٹائیرمنٹ کے بعد گورنمنٹ کی مقرر کردہ اپنے سرکاری ملازمین پنشنرس کی طرح اور اسی کے مطابق پنشن دی جائے جو انکا حق ھے اور اس میں کوئی بھی کمی بیشی نہ کی جائے اور ان ریٹائڑڈ ملازمین کو بھی اسی طرح پنشن دی جائے جو ٹی اینڈ ٹی میں یا پی ٹی سی میں ٹی اینڈ ٹی سے ٹرانسفڑڈ ھونے کے بعد ریٹائیر ھوۓ ھوں اور ھونگے. اگرچہ پی ٹی سی ایل نے اپنے کمپنی ملازمین کے لئۓ پنشن سیسٹم ختم کردیا ھے. اگر یہ ھوتا تو پی ٹی ای ٹی انکو پنشن دینے کی بالکل مجاز نہیں تھی کیونکے حکومت پاکستان ٹیلیکام ایمپلائی ٹرسٹ صرف اپنے ان سرکاری ملازمین کےلئے بنایا تھا جو ٹرانسفر ھوکر پہلےٹی اینڈ ٹی سے پی ٹی سی میں آئۓ اور پھر پی ٹی سی ایل میں . جبکے پی ٹی سی پنشن ٹرسٹ فنڈ حکومت نے 1994-4-1پی ٹی سی میں ایک پی ٹی سی ٹرسٹ ڈیڈ کے ساتھ قائیم کیا تھا اور پی ٹی سی کو ٹرسٹی بنایا تھا کے وہ نا صرف ان ٹی اینڈ ٹی کے پی ٹی سی میں ٹرانسفڑڈ ھونے والے سرکاري ملازمین کو پی ٹی سی میں ریٹائرمنٹ کے بعد گورمنٹ کی مقرر کردہ پنشن دیں گے بلکے انکو بھی دیں جوٹی اینڈ ٹی میں ریٹائیڑڈ ھوگئے تھے اور ٹی اینڈ ٹی میں گورمنٹ ٹی اینڈ ٹی پنشن فنڈ سے پنشن باقاعدہ لے رھے تھے. بعد میں یہ ھی گورنمنٹ والا پنشن ٹرسٹ فنڈ پی ٹی ای ٹی کو منتقل کردیا گیا انھی اصولوں پرے پی ٹی سی ایل میں آنےوالےٹرانسفڑڈ ایمپلائیز کو پنشن دینے کے لئے .کیونکے پی ٹی سی کے ختم ھونے کے بعد حکومت نے یہ پاکستان ٹیلی کام ایمپلائی ٹرسٹ قائیم کیا تھا یعنی پی ٹی ای ٹی(PTET)].
میں آپلوگوں کی آگاھی کے لئے اس ضیاالدین کی اس ای میل کی فوٹو ایمج کاپیاں جو تین صفحوں پر مشتمل ھیں، نیچے پیسٹ کرھا ھوں جس میں یہ ضیاء پی ٹی سی ایل منیجمنٹ کو بتا رھا ھے کے وہ وہ غیر قانونی طور پر ان ٹرانسفڑڈ ملازمین کی تنخواھوں اور الاؤنسس میں گورنمنٹ کے مطابق اضافہ نہیں کر رھی ھے [یہ اسکے ایمیل کے تیسرے صفحے پر پیرا ۹ میں لکھا ھوا ھے . ] اور آج یہ ، ان لوگوں کو اسکی نفی کررھا ھے اور انکو نیوپیکج -2017 کا آپشن لینے پر مجبور کرررھا ھے . یاد رکھئیے جو پی ٹی سی ایل میں ایسے ٹرانسفڑڈ ایمپلائیز ، جن کا گورنمنٹ والی تنخواہ اور الاؤنسس کا حق بنتا ھے ، اور ایسے لوگ اس ضیاء اور اسکے گارندوں کی باتوں میں آکر یہ نیوپیکج -2017 آپشن قبول کررھے ھیں ، وہ اپنا بہت ھی بڑا نقصان کررھے ھیں .کیونکے کل وہ نہ گھر کے رہیں گے نہ گھاٹ کے. اللہ ان انکو عقل سلیم دے.آمین!
واسلام
محمد طارق اظہر
ریٹائیڑڈ جنرل منیجر(آپس) پی ٹی سی ایل
9 ستمبر 2017
0345-5211167
0300-8249598
Comments