Article -82[Draft of Notice for before filling implementation case in High Court]

Attention           Attention          Attention

Article-82

موضوع :- نان پٹیشنرس پی ٹی سی ایل پنشنرس  کا   سپریم کوڑٹ  کے 12 جون 2016  فیصلے  کا   ان پر بھی عمل کرنے کے لئیے ھائی کوڑٹ میں آئینی پٹیشن داخل کرنے سے پہلے  ڈیپاڑٹمنٹل representation کرنا اور  اس سلسلے میں  نوٹس  دینے کے  ڈرافٹ کا نمونہ-
عزیز پی پی ٹی سی ایل ساتھیو
                                                       اسلام و علیکم 
اپنے آڑٹیکل-80 میں میں نے نان پٹیشنرس پینشنرز کو  ھائی کوڑٹوں میں کیسز کرنے کا مشورہ دیا تھا - اس آڑٹیکل میں کچھ اھم باتیں اور اسی طرح کے ایک ریلیف کے متعلق   جو واپڈا کے نان پٹیشنرس ملازمین کو  فیڈرل سروس ٹریونل نے دیا تھا اور اسکے خلاف واپڈا چئیرمین کی اپیل سپریم کوڑٹ نے  دسمبر 2017  میں مسترد کردی تھی ، اس کیس کے ریفرنس کو بطور  ثبوت ذکر کرنا بھول گیا . اگرچہ اس قسم کے کیسوں میں پہلے ڈیپاڑٹمنٹل representation کرنا اور  پھر  اس representation کو ڈیپاڑٹمنٹ کی  طرف سے عمل نہ کرنے  یا خارج کرنے کے بعد ہی  اسکے خلاف   آئینی رٹ پٹیشن ھائی کوڑٹوں میں داخل  کرنا ضروری نہیں ھوتا ھے - کیونکے اگر کسی ایک بھی سرکاری ملازم  جس نے کیس کیا ھو اسکے کے حق میں  فیڈرل سروس ٹریونل  یا سپریم کوڑٹ  کی طرف سے آنے والے  فائینل فیصلے کا اطلاق,  دوسرے ایسے ملازمین  یا پنشنرس  پر عمل کرنے کے لئیے حکومت فوری طور پر ںوٹیفیکیشن جاری کرتی ھے کے اس فیصلے کا فائیدہ تمام ایسے تمام سرکاری ملازمین یا پنشرس پر  بھی ھوگا۔ آپ EstaCode اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو ایسے بہت سے  گورنمنٹ کے نوٹیفیکیشنس مل جائیں گے  جو سپریم کوڑٹ یا فیڈرل سروس ٹریونل  احکامات  تمام گورنمنٹ کے ملازمین یا پنشنرس  پر عمل کرنے کے لئی جاری کئے گئیے ھوں گے  جو کسی ایک سرکاری ملازم یا بہت سے سرکاری ملازمین کی litigation کی وجہ سے  عدالتوں نے انکے حق میں دئیے گئیے تھے۔ اسکی   حالیہ مثال  گورنمنٹ آف پاکستان  کا   تمام ایسے  سرکاری پنشرس پنشن کی کمیوٹڈ  اماؤنٹ کی بحالی  کا 13 جنوری 2018  کا وہ نوٹیفیکیشن ھے  جو اسنے   فیڈرل سروس ٹریونل کے  15 جنوری 2012  پنجاب گورنمنٹ کے سرکاری ملازمین پنشنرس  مرزا محمد اسحاق، غلام مصطفی اور دیگران  کے حق میں آئیے ھوئیے  فیصلے, جنھوں نے  litigation کی تھی ، کی بنیاد پر جاری کیا تھا- گورنمنٹ نے اسکے خلاف سپریم کوڑٹ  میں اپنی اپیل  خارج  ھوتے ھی  اسکے خلاف رویو اپیل تو کردی لیکن ساتھ ھی اسکے اطلاق تمام نان پٹیشنرس پینشنرز  پر بھی کردیا اور یہ شرط لگادی کے اس فیصلے کی وجہ سے انکو جو بھی پنشن کی کمیوٹڈ رقم ملے گی  وہ انکو اس صورت میں واپس کرنی ھوگی اگر  گورنمنٹ کی دائر کردہ  رویو اپیل کا فیصلہ  گورنمنٹ کے حق میں آجائیے -اس لئیے انکو ایک ۵۰ روپے  کے  جوڈیشل پیپر پر اس بات کی انڈر ٹیکنگ دینا ھوگی - بعد میں گورنمنٹ کی رویو  اپیل بھی خارج ھوگئی  اور یہ فیصلہ فائنل ھوگیا اور قانون بن گیا -  پی ٹی سی ایل  پٹیشنرپنشنرز  کے حق میں آئیے ھوئیے  عدالت عظمی کے ۱۲ جون ۲۰۱۵ فیصلے  کے خلاف  رویو اپیل بھی 17 مئی2017 کو خارج ھوگئی,  مگر نہ تو پی ٹی ای ٹی نے اور نہ منسٹری انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی  فیڈرل گورنمنٹ آف پاکستان نے اس فیصلے کا اطلاق,  مروجہ قانون کے تحت تمام ایسے نان پی ٹی سی ایل پٹیشنرس  پینشنرز  پر اس پر عمل درآمد  کرنے کا ںوٹیفیکیشن نکالا- اب یہ کسطر ح ممکن ھے کے چالیس ھزار کے قریب پی ٹی سی ایل  نان پٹیشنرس پینشنرز  جن میں ھزاروں کی تعداد میں بیوائیں بھی شامل ھے ھر ایک پہلے representation کرے اور  جب اس کرنے کا نتیجہ منفی رھے تو عدالت میں کیس کرے - عدالت عظمی نے حمید اختر نیازی کیس 1996SCMR1185جو ایک اصول اور قانون متعین کردیا کے کسی سرکاری ملازم جسنے  نے  litgation کی  ،اسکے حق میں آنے والے   فیصلے  کا فائیدہ اور دوسرے ایسے تمام  سرکاری ملازمین پر بھی ھوگا بجائیے انسے کہا جائیے  کے  بھی عدالت اور کسی اور فورم سے رجوع کریں- آپ خو د سوچیں یہ کیسے ممکن ھوتا- لیکن  چونکہ  پی ٹی ای ٹی نے اور نہ منسٹری انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی  فیڈرل گورنمنٹ آف پاکستان نے کوئی اس قسم کا نوٹیفیکیشن نہیں نکالا اسلئے مجبوراً  عدالت سے , اس پر تمام  نان پٹیشنرس پینشنرز پر عمل کرانے کے لئیے رجوع کرنا پڑ رھا ھے ۔ یقین جانئیے اگر صرف 0.1%  ایسے نان  پٹیشنرس  پی ٹی سی ایل  پنشنرز  نے بھی پاکستان کی  ھائی کوڑٹس  میں اس طرح کے عمل درآمد کرنے کے کیسس کردئیے تو ایک ہلہ گلہ مچ جائیگا اور پی ٹی ای ٹی اور حکومت کو جواب دینا مشکل ھو جائیگا کے وہ کیوں ۱۲ جون 2015 کے  عدالت عظمی کے فیصلے کا عملدرآمد  نان پٹیشنر پی ٹی سی ایل پینشنرز پر کیوں نہیں کرنا چاھتے . یہ ضروری ہے جو نان پٹیشنر پی ٹی سی ایل پینشنرز یہ کیس کرنا چاھتے ھیں وہ انکو ۱۵ دن کا ایک نوٹس دیں کے  نہ عملدرآمد کرنے کی صورت میں عدالت عالیہ سے رجوع کیا جائیے گا . تاکے کیس کرنے کی صورت میں  یہ لوگ اس بات پر اعتراض نہ کرسکیں کے انھوں نے عدالت میں آنے سے پہلے ھم سے رجوع نہیں کیا ورنہ ھم  انکا مسعلہ حل کر دیتے ۔ اور عدالت کو اس کیس کو اس بنا پر سنے بغیر خارج کرنے کا فیصلہ نہ کرنا پڑے کے, remedy کو exhaust نہیں کیا گیا- میں نے اس نوٹس کا ڈرافٹ تیار کردیا جو  image کی صورت میں تین پیجز پر مشتمل ھے - ویسے یہ نوٹس  تو ایک  لیگل پیج کا ھے ۔ اس کو ھر ایک کو ٹی سی ایس یا Regd A/D  کے زریعے بھیجا جائیے اور اسکے بھیجنے کی رسید کی کاپی اور جس نے یہ  نوٹس وصول کیا ھو اسکا نام اور وصول کرنے کی تاریخ کا ریکاڑڈ اس نوٹس کی کاپی کو اپنی رٹ پٹیشن کا حصہ بناکر اٹیچ کریں۔  یہ نوٹس تو تقریبن سب ھی نان پٹیشنر پی ٹی سی ایل پینشنرز کو بھیجنے چاھئیں چاھے وہ کیس کریں یا نا کریں۔

اس کیس کا میں نے اوپر زکر کیا ھے وہ  واپڈا بزریعہ اسکے چئیرمین  بنام عبدل غفار اور دیگر جو 2018SCMR380 درج ھے  - تین رکنی سپریم کوڑٹ کے بینچ، جسکے سربراہ سابق چیف جسٹس محترم ثاقب نثار صاحب تھے  ، واپڈہ کی یہ اپیل  21 دسمبر  2017 کو خارج کردی اور فیڈرل سروس ٹریونل کا یکم فروری 2017 کا دیا گیا ھوا نان پٹیشنر واپڈا کے گریڈ 17 کے ملازمین کے حق میں آیا ھوا فیصلہ برقرار رکھا- نان پٹیشنر واپڈا کے گریڈ 17 کے ملازمین نے اپنی representation, واپڈہ کے  چئیرمین سے خارج ھونے کے بعد فیڈرل سروس ٹریونل [یاد ر کھیں فیڈرل سروس ٹریونل کا فیصلہ ھائی کوڑٹ کے فیصلے  کی طرح ھوتا ھے اور اسکی اپیل صرف  سپریم کوڑٹ میں کی جاتی ھے] میں کیس کیا کے فیڈرل سروس ٹریونل بھی ان نان پٹیشنرس واپڈا کے گریڈ 17 کے ملازمین کو بھی وہی ریلیف دے جو اسنے  2008 میں ایسے پٹیشنر واپڈا کے گریڈ 17 کے ملازمین کو دیا تھا, جسکو  سپریم کوڑٹ نے بھی برقرار رکھا۔ میں نے اس پٹیشن یعنی 2018SCMR380 کی فوٹو کاپیاں نیچے پیسٹ کردی ھیں اور اسمیں اھم نکات کو کو بھی ھائی لائیٹ کردیا ھے تاکے آپ سب لوگ اپنے اس نان پٹیشنرس کے کیس کرنے کی آفادیت بھی جان سکیں - اس ریفرنس کو بھی اپنی آئنی پٹیشن کا حصہ ضرور بنائیں

میں نے جو اسلام آباد ھائی کوڑٹ  میں  اپنے ۳۱ نان پٹیشنرس پی ٹی سی ایل ساتھیوں کے ساتھ مل کر    نومبر 2018 میں  سپریم کوڑٹ کے 12 جون 2015 کے فیصلے پر نان پٹیشنرس  پر بھی عمل کرانے کے لئیے کیس کیا اور آئینی رٹ پٹیشن نمبر 4588/2018 داخل کی ھے  جو 3دسمبر 2018 کو ایڈمٹ بھی ھوگئیئ اور عدالت نے اسکا جواب پندرہ دن میں دینے کے لئیے پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کو نوٹسس جاری کردئیے ۔ آج چار مہینے ھونے کو آئیے کوئی اب تک اسکا جواب  انکی طرف سے  نہیں آیا  اور کیس اب تک دوبارا نہیں لگ سکا۔ یہ ایسے ھی ھتکنڈے ڈیلے پر تاخیر کرنے کا اختیار کریں گے۔ یقین جانئیے ان کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں کے یہ کیوں نان پٹیشنرس کو  گورنمنٹ پنشن انکریز نہیں دینا چاھتے عدالت عظمی  کے  دئیے گئیے احکامات کے  برخلاف۔
 سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے جسکے سربراہ   سابق چیف جسٹس  ایس ایس خواجہ تھے انھوں نے  انیتا تراب علی کیس  (PLD 2013 S.C. 195)   میں  صاف طور پر تحریر کیا ھے کے۔   “ سرکاری ملازمین سے متعلقہ ایک مقدمے حمید اختر نیازی بنام سیکریٹری اسٹیبلیشمنٹ ڈویژن (1996SCMR1185) میں یہ واضح کیا جا چکا ھےکے جب یہ عدالت کوئی اصول یا قاعدہ واضح کردے  تو پھراسکا اطلاق ھر خاص وعام پر ھوگا.اور اگر کسی تشریح کا فائیدہ ایسے شخض کوھورھا ھے جو اس مقدمے میں فریق نہیں تھا ،تب بھی اسکو ضرور فائدہ پہنچنا چاھئیےاور اسکی جانب سے مقدمہ بازی کا انتظار نہیں کرنا چاھئیے- ھم سمجھ سکتے ھیں کہ کچھ معاملات میں تو نظائر میں طے شدہ قانونی اصول بغیر کسی تامل اور ابہام کے من وعن  لاگو ھوں گے, مگر کچھ معاملات ایسے بھی ھونگے جہاں یہ طے کرنے پے مشکل پیش آسکتی ھے. بحرحال قاعدہ یہ ھے کے آئین کے آڑٹیکل  189 اور190 تحت سرکاری ملازمین کو یہ حق حاصل ھے کہ وہ عدالت کی جانب سے طے کردہ ان قانونی اصولوں کے نفاز کے لئے محکمانہ اعتراض دائیر کریں یا مجاز عدالت سے قانونی چارہ جوئیی کریں.اور  اگر کوئی ریاستی ادارہ جان بوجھ کر اور ڈھٹائی کے ساتھ عدالت کی جانب سے ان احکامات کی رو گردانی کرتا ھے تو ظاھر ھے اسے اس حرکت سے باز آنا چاھئے. ورنہ یاد رھے کے آئین کا آڑٹیکل کی کلاز 204 کی سب کلازز (2) کی (a) , اس عدالت کو یہ اختیار دیتی ھیں کےوہ کسی ایسے شخص کو توھین عدالت کی سزادے جو " اس عدالت کے احکامات کی حکم عدولی کا مرتکب ھو"۔  
   مجھے آجکل رہ رہ کر اس  بات پر بیحد افسوس اور دکھ ھورھا ھے کے میں نے اسی طرح کی اپیل   ، انکی رویو پٹیشن ، 17 مئی 2017  کو خارج ھونے کے بعد فورن  بعد ھی کیوں اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں نہیں کی-اگر کر دیتا ,تو اسکا  اچھا رزلٹ اب تک آچکا ھوتا۔ 
پی ٹی سی ایل کے جو بے چارے نان پٹیشنرس پینشنرز  وہ پٹیشنرس پینشنروں کے کیسس سے  آس لگائیے بیٹھے تھے کے انکا فیصلہ ان پٹیشنروں کے حق میں آنے سے  انکو  بھی فائیدہ  ھوگا  ایسے لوگ انکی کامیابی کے لئیے   بہت دعا گو رھتے تھے ،  چاھے وہ صادق علی ، نسیم وھرہ اور عارف صاحب کی طرف سے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کے لئیے  سپریم کوڑٹ توھین عدالت  کے کیسسس ھو یا راجہ  ریاض کی طرف سے اپنے
  ۵ جولائی ۲۰۱۵  کے سپریم کوڑٹ  فیصلے پر عمل  کرانے کے لئیے توھین عدالت کا کیس ھو ۔  مگر ان کیسوں پر آنے والے فیصلوں کا فائیدہ انھیں  لوگوں کو ھوا جنھوں نے کیسس کئیے تھے  باقی نان پٹیشنرس  بےفیض رھے ۔ صادق علی ، نسیم وھرہ اور عارف صاحب  کے توھین عدالت کیسس   سپریم کوڑٹ کے دو رکنی بینچ نے جسکے سربراہ محترم جسٹس گلزار تھے،   ۱۵ فروری ۲۰۱۸  کو ڈسپوزڈ آف کردئیے  ۔ صادق علی ، نسیم وھرہ کے کیسس کا فیصلہ نا انصافی پر مبنی تھا ۔ محترم جج جسٹس گلزار صاحب  نے   پی ٹی سی ایل کے وکیل  شاھد باجواہ کے کہنے پر  , ماسوائے
 وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھونے والوں کے  صرف نارمل ریٹائیڑڈ  پی ٹی سی ایل پٹیشنرس پینشنرز کو ھی گورنمنٹ  پنشن انکریز دینے  کا حکم دے کر انکی توھین عدالت کے کیسس  53/2015 اور 54/2015 کو disposed off  کردئیے یعنی نمٹا دئیے   سپریم کوڑٹ کے دو رکنی بینچ کا یہ ایک بہت ھی contraventiol اور ultra vires  فیصلہ تھا. وہ اسلئے  کے یہ چھ معزز ججز کے  دئیے گئیے  حتمی فیصلے کے برخلاف تھا- کیونکے تین رکنی معزز ججز نے ۱۲ جون ۲۰۱۵  کو جو  فیصلہ پی ٹی سی ایل پٹیشنرس پنشنرز کے حق میں دیا اس  میں میں پی ٹی ای ٹی کو  اس بات کا پابند کیا کے وہ ان ریٹائیڑڈ  پی ٹی سی ایل ملازمین کو جو ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی  ھوئیے اور پھر کارپوریشن اور کمپنی میں ٹرانسفڑڈ  ھوکر ریٹائیڑڈ ھوئیے، ان کو گورنمنٹ کی اعلان کردہ  پنشن انکریز ادا کرے -اس میں یہ کہیں  نہیں کیا گیا تھا کے جو وی ایس ایس لے کر ریٹآئیڑڈ  ھوئیے ھوں انکو یہ انکریز نہ دیا جائیے-  اور  پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کی اسکے خلاف رویو اپیلں  بھیں، 17 مئی 2017  کو عدالت تین رکنی بینچ نے بغیر آریجنل ۱۲ جون ۲۰۱۵  کے آڈڑ میں کسی modification   یا کسی ammendement  کے نمٹادیں ۔اس رکنی  بینچ  سربراہ  محترم جج جسٹس گلزار صاحب ھی  تھے،  جو ۱۲ جون ۲۰۱۵ فیصلے کے  بھی مصنف بھی تھے  انھوں  نے تو اسی  صادق علی ، نسیم وھرہ  توھین کے ان  کیسوں کی ھئیرنگ کے دوران 
 یکم نومبر 2017 کی آڑڈ شیٹ  میں یہ تحریر کیا تھا۔( اسکی ھائی لائیٹڈ فوٹو کاپی نیچے پیسٹ کی ھوئی ھے )۔    “کے یہ سوال کے وی ایس ایس آپٹیز کو پنشن پیمنٹ کی جائے یا نہیں یہ سوال ناتو اس عدالت کے سامنے  ھے اور نا  ہی اسکے بارے میں 12 جون 2015 کے فیصلے میں کوئی ذکر ھے - تو اس فیصلے ہر عمل نہ کرنے کا یہ  جواز نھیں بنایا جاسکتا کے   وی ایس ایس آپٹیز اس پنشن کے حقدار ہیں  یا نہیں -“      مگر پھر جج محترم جسٹس گلزار صاحب نے اس یکم نومبر 2017 کے اپنے ھی دئیے گئے حکم کے برخلاف، 15 فروری 2018 میں ھونے والی انھیں کیسسس کو ڈسپوزڈ آف کرتے ھوئیے ماسوائیے وی ایس ایس آپٹ کرنے والے پٹیشنرس کے ، نارمل ریٹائیڑڈ  ھونے والے  پی ٹی سی ایل پنشنروں کو  گورنمنٹ پنشن انکریز  کی پیمنٹ کا حکم دیا انکے وکیل شاھد باجواہ کے کہنے پر ۔یہ بات سمجھ میں نہیں آرھی کے اپنے یکم نومبر 2017 کے احکامات کے  برخلاف جج محترم جسٹس گلزار صاحب نے 15 فروری 2018 کو وی ایس ایس آپٹیز کو انکو پنشن انکریز کی پیمنٹ نہ کرنے کا حکم  کیوں دیا؟؟؟؟
صادق علی اور نسیم وھرہ صاحب کو چاھئیے تھا کے وہ  15 فروری 2018 کے  دو رکنی بینچ  کے contraventiol اور ultra vires آڈر کو   رویو پٹیشن میں  چیلنج کرتے تو بہت بہتر تھا۔ ان دونوں کی توھین عدالت کی پٹیشنیں  53/2015 اور 54/2015 تو اسی 15 فروری 2018 کے آڈر میں دو رکنی سپریم کوڑٹ کے بینچ نے   مندرجہ بالا حکم دے کر  ڈسپوزڈ آف کردیئے تھے  - صادق علی صاحب نے اس میں دو توھین عدالت کی کریمنل اپیلیں  دآئیر کردیں ایک مظہر حسین  اور دیگران نمبر 8/2018 کے  خلاف اور دوسری اسوقت کے پریزڈنٹ پی ٹی سی ایل اور سی ای او  ڈینیل رٹز کے خلاف  نمبر  84/2018 اور نسیم وھرہ صاحب  نے نمبر  28/2018 ، جو انھوں نے ایم ڈی پی ٹی ای ٹی حامد فاروق اور دیگران کے خلاف ھے جو انھوں نے ٹیلیکام  پنشنرس ایسوسیشن ، جسکے ممبران نارمل ریٹائیریز ھیں انکو گورنمنٹ پنشن انکریز نہ دینے کی وجہ سے داخل کی ھے  اور ایک توھین عدالت کا کیس عارف صاحب نے بھی داخل کیا جس کا نمبر  30/2018 ھے  جوانھوں نے بھی ایم ڈی پی ٹی ای ٹی حامد فاروق اور دیگران کے خلاف   گورنمنٹ پنشن انکریز کے ساتھ گورنمنٹ  کے اعلان کردہ  میڈیکل   الاؤنس دینے  جو گورنمنٹ نے  یکم جولائی 2010  سے پنشنرس کو دینے کا اعلان کیا تھا اور اردلی  الاؤنس میں اضافہ دینے کا جو گور نمنٹ نے اپنے گریڈ ۲۰ کے ریٹآئیڑڈ پنشنرس کو تو دیا لیکن پی ٹی ای ٹی نے نہیں دیا ۔ ان کیسوں اور اسکے علاوہ اسی  طرح کے دیگر  گیارہ کیسوں کی شنوائی  6 مارچ 2019  سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے محترم جج جسٹس گلزار احمد کی سربراہی  میں کی  جو adjourned کردی گئی( اسکے آڑڈڑ شیٹ کی  فوٹو کاپی آپ لوگوں کی اطلاع کے لئے نیچے پیسٹ کردی گئی ھے) - اب اسکی دوبارا شنوائی کے لئے  شائید 11 اپریل 2019 کی تاریخ دی گئی ھے۔
 ان کیسوں پر  اتنی جلدی اچھے فیصلے کی امید، ماضی میں  اسطرح کے کیسس  کے فیصلو ں پر آنے والوں کے فیصلے کی بنیاد پر نہیں کی جاسکتیں، خاص کر جو تین کیسسس، صادق علی، نسیم وہرہ اور عارف صاحب کے توھین عدالت کے کیسس جو  میں نے اوپر بیان کئیے  ھیں انکے مثبت رزلٹ اور وہ جلد جو بظاہر ناممکن لگتا ھے۔ 
صادق علی نے جو توھین عدالت کے کیسسس مظہر حسین اور  پی ٹی سی ایل کے پریزیڈنٹ پر اسلئے کئے کے وہ  12 جون 2015 کے سپریم کوڑٹ کے فیصلے پر پٹیشنرس پینشنرز پر عمل کرانے میں ناکا م رھے ، یہ بلکل غلط ھے کیونکے انکا براہ راست تعلق پنشن دینے سے نھیں ھے ۔ اور پھر پی ٹی سی ایل نے ، اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے اپنے  سیکشن (2)12 آف CPC  کیس خارج کرنے کی خلاف اپیل، جو ایڈوکیٹ خالد انور کے وساطت سے کی ھے ، جو وی ایس ایس آپٹیز کے خلاف ھے ، وہ اسی تین رکنی سپریم کوڑٹ کے سامنے لگی ھوئی ھے جسکے نمبر 
CP1011 to 1012/2018 اور CP1025 to1028/2018 ھیں- اور جب تک ان اپیلوں پر کوئی فیصلہ نہیں آجاتا تو صادق علی ، جو خود بھی  وی ایس ایس آپٹیز ھیں  انکی اپیلوں پر  کوئی کیسے فیصلہ آسکتا ھے اور وہ بھی مثبت- نسیم وھرہ صاحب کے توھین عدالت  کے کیس ، ٹیلیکام پنشنرس ایسوسیشن کے  نارمل ریٹائیڑڈ پینشنرز ممبران کو  گورنمنٹ پنشن انکریز نہ دینے  کا  پی ٹی ای ٹی کی طرف سے ھے ، اسکا مثبت فیصلہ ، میرے خیال  میں آنا ممکن نہیں ھے ، کیوں کے مسعلہ سمجھ میں نھیں آرھا کے  ٹیلیکام پنشنرس ایسوسیشن  کیسے  سپریم کوڑٹ  میں  پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی  کی طرف سے  کی طرف سے ڈالی ھوئی اپیلوں میں ریسپونڈنٹ بن گئیے- کیونکے انکے حق میں کسی بھی ھائی 
کو ڑٹ نے فیصلہ  نہیں دیا جسکے خلاف پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی نے سپریم کوڑٹ میں اپیل کی ھو - محترم جسٹس گلزار صاحب  نے بھی اس پر اعتراض کرچکے ھیِں ۔ رھا عارف صاحب کی طرف مزید اضافی الاؤنس   پنشن  کے ساتھ نہ دینے پر توھین  عدالت کے کیس کا۔ یہ انھوں نے عجیب کیس کیا کم از کم  میری  سمجھ سے تو بالا تر ھے کے انھوں نے کیوں کیا جو انھوں نے اسلا م آباد ھائی کوڑٹ میں آریجنل پٹیشن  کی تھی ایک تو یہ سب  انکی prayer میں  شامل  بھی نہیں تھا  اور جو  فیصلہ 21 دسمبر 2011  انکے حق میں آیا اس میں  کے پٹیشنروں  گورنمنٹ انکریز  وغیرہ بمع بقایا جات   کرنے کا زکر تھا ، جبکے جو  فیصلہ  سپریم کوڑٹ اپنے  12 جون 2015  اسکے خلاف پٹیشن کرنے پر دیا  وہ  پی ٹی ای ٹی کو صرف گورنمنٹ  کی اعلان کردہ  پنشن انکریز دینے کا پابند کیا اور  رویو پٹیشن میں بھی ری کنفرم  کیا اس فیصلے میں یہ کہیں نہ کہا کے اسکے ساتھ گورنمنٹ کے اعلان کردہ الاؤنس بھی دئیے جائیں گے -  اردلی الاؤنس  میں جو انکریز گورنمنٹ اپنے  گریڈ 20  کے ریٹائیڑڈ پنشنرس کو یکم جولائی 2012 سے دیا تھا، وہ  تو انکی  اس  آریجنل پٹیشن میں ڈیمانڈ ھی نہیں کیا گیا تھا  جو انھوں نے جنوری 2011  میں اسلام آباد ھائی کوڑٹ  میں داخل کی اور فیصلہ انکے حق میں 21 دسمبر 2011 کو آیا۔ انکا اس جواز ہر توھین عدالت ، ایم ڈی پی ٹی ای ٹی کے خلاف  کرنے کا بلکل بھی  نہیں بنتا۔ اور یہ میرے خیال میں یقینن خارج ھو جائیگی ۔
میرا  ان کیسوں   پر تبصرہ کرنے  کا مقصد صرف یہ ہے کے  تمام  نان پٹیشنرس  پی ٹی سی ایل پنشنرس کو یہ باور کروں کے وہ  ان پر تکیہ اور بھروسہ کرنا چھوڑدیں اور انکے لئیے دعائیں کرنے کا عمل چھوڑدیں ۔ کیونکے ان سے انکو کوئی بھی فائیدہ بلکل بھی ھونے والا نھیں۔
 ان لوگو نے   حشر دیکھ لیا کے   وہ 12 جو ن 2015   میں آنے فیصلہ جو 2 دسمبر 2014  سے محفوظ تھا اس کو جلد آنے کے لئیے کتنی دعائیں کرتے رھتے تھے ۔ تقریبن روزانہ ھی مجھے  نان پٹیشنرس لوگوں کے فون اور ایس  ایم ایس آتے تھے اور مجھ سے یہ ھی پوچھتے تھے کے فیصلہ کب آئیگا میں انکو تسلی دیتا اور کہتا بس دعا کریں۔ کیا ھو فیصلہ آنے کے بعد صرف ان لوگوں کو ھی فائیدہ ھوا جو پٹییشنرس تھے ۔ میرے بھی ایسے بہت سے دوست تھے  جو مجھ سے اس بارے میں بار بار پوچھتے اور رائیے لیتے۔ یہاں تک پوچھتے کے انکو کتنی رقم بقایا جات  میں ملے گی اور اسکو کییلکولیٹ  کرنے کا فارمولا کیا ھوگا ۔ میں ھر ایک کو اچھی طرح سمجھاتا۔ لیکن فیصلہ انکے حق میں آنے کے بعد اور  انکو تمام  بقایا جات ملنے کے بعد انھوں نے تو مجھ سے کسی قسم کی بات تک کرنا بھی چھوڑدی  ۔ اسکا مجھے افسوس تو ضرور ھے لیکن گلہ بلکل نہیں کیونکے فی زمانہ اس قسم کے رد عمل  آتے ھیں چاھے اپنے ھوں یا پرائیے- اس لئیے میں پھر تمام نان پٹیشنرس پی ٹی سی ایل پنشنرس سے یہ درخواست کروں گا ان کے کیسس پر بلکل تکیہ  نہ کریں اور انکو کسی  قسم کا بغیر ، کیس میں پٹیشنرس بنے ھوئے وکیل کے لئے چندہ نہ دیں۔ انھوں نے جو وکیل کر رکھے ھیں آٹھ سالوں سے وہ صرف پیسہ ان سے کھینچ رھے ھیں اور کچھ نہیں کر رھے خود مل کر کیس کریں جیسا میں  آپ سبکو مشورہ دے رھا ھوں ۔  اسی میں یقینن آپکا فائیدہ ھوگا اور کسی سے نہ امید رکھیں اورنہ فائدے کی لو لگائیں-شکریہ
واسلام
محمد طارق اظہر
 ریٹائیڑڈ جنرل منیجر(آپس) پی ٹی سی ایل
راولپنڈی
بتاریخ 4 اپریل 2019

                                                        [DRAFT]

                                                                               Dated _____________
To 
1.President /CEO PTCL,
   PTCL Head Quarters, G-8/4, 
   Islamabad. 

2. Mr. Hamid Farooq,
     Managing Director 
     Pak Telecom Employees Trust,
    Tele-House, Mauve Area, G-10/4,
    Kashmir Highway,
    Islamabad. 

SUBJECT:- Notice for the implementation order of  HSCP of dated 12th June 2015  to the non Petetioners PTCL Pensioners .

Dear Sir

I, ________ s/o ____________ joined the then Government of Pakistan Telegraph & Telephone Department on regular post of ___________ (Grade- ) on the date ______. My joining in Government T&T Department . After the establishment of Corporation i.e. Pakistan Telecommunication Corporation (PTC),my service had been transferred from T&T department to it in December 1991 as per Section 9(1) of PTC Act-1991 , on the same Terms & Conditions of Service, which  I had in T&T department just before my transfer to PTC. On the date 1st January 1996, I again stood transferred  from PTC to a new established company Pakistan Telecommunication Company Limited (PTCL ), in accordance to the Sections 35(1) & 36(2) of Pakistan Telecommunication (re-Organization) Act 1996 and became the employee of PTCL on the same terms and of services which I had before in PTC.
I was  retired from the PTCL at the superannuation age of sixty years/premature voluntarily retirement/retirement by opting VSS from the post of ___________ (B-) wef __________ vide PTCL H/Qrs Memo Number_________Dated__________.Where in the decision HSCP of dated 12-06-2015 in the case PTET, PTCL & President PTCL reported in 2015 SCMR 1472 ,PTET was bound to pay the increase in pension as per Government announcement to the respondents who were employees T&T and  were retired after their transfer to PTC and then to PTCL.The  payments such  increase in pension as per GoP , were only effected to the PTCL Petitioners  Pensioners only who were respondants in the said case of dated 12th June 2015.Contrary to the rule & principle laid down by HSCP, in case of Hameed Akhtar Niazi vs. Secretary Establishment Federal Government & others reported in 1996 SCMR 1185 , no benefit of such order of HSCP of dated 12th June 2015 had been extended to non petitioners who were not the party and did not litigate the case.With nrefrence to the the  HSCP Hameed Akhtar Niazi case(1996 SCMR 1185) the good governance  demand that the benefits of judgement of HSCP of dated 12th 2015 , required to be extended to all PTCL non  petitioners who were not the party of the case and did not of the litigate.
Consequently in the light of above noted rulings of HSCP ,I ,being non  petitioner PTCL pensioner  request you to grant me  the same increase  in pension as per GoP within 15 days from the date of issuance this Notice.
If no such complete payment is effected to me in due time,then I will be constrained to knock the door of competent  court  of law for my  litigimate  right.

Yours Sincerely,

Signature_________
[ Name & Rtd, Ex Designation (B-) ]
CNIC #
Previous PTCL Employee #:
Pension PPO /Ref #
Address:
CC to:
Federation Governament of Pakistan 
through Federal Secretary (IT& Telecom)
Ministry of Information Technology and Telecom  
 4th Flour, Evacuee Trust Complex 
 Agha Khan Road F-5/1 Road 
 Islamabad

Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]