Article-147 [ Regarding detail report of ICA cases proceedings in IHC on 24th June 2021]

 Article-147


  24 جون 2021 بروز جمعرات کو پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کی طرف سے پر پی ٹی سی ایل پنشنرز پٹیشنرز کے حق میں آنے والے سنگل بینچ  اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے 3 مارچ 2020 فیصلوں کےخلاف دائیر ھونے والی انٹرا کوڑٹ اپیلوں پر سماعت کی مفصل تفصیل . . . .  پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی وکیل انور شاھد باجوہ صاحب کی دشنام طرازیاں اور عدالت کا  بادئی انظر میں اسپر توجہ دینا

 

عزیز پی ٹی سی ایک ساتھیو

اسلام وعلیکم 

میں نے 24 جون  2021 کو چیف جسٹس کی عدالت کمرہ نمبر 1 میں اس دن ھونے والی انٹرا کوڑٹ اپیلوں کی سماعت کے بارے میں ،  عدالتی کاروائی  ختم ھونے  کے فورن بعد وھیں عدالت  کے احاطے سے ھی اپنے واٹس ایپس میسیج کے زریعے اس دن کی کاروئی کے بارے میں مختصرن بتایا تھا اور کہا تھا اس کی مکمل تفصیل میں اپنے آڑٹیکل 147 میں بتاؤں گا اب وھی تفصیل لے کر حاضر ھوا ھوں ۔ لیکن اس سے پہلے میں وہ تمام تفصیل آپکے سامنے رکھوں اور بتاؤں کے اس دن کیا ھوا،  مجھے اس بات کا بہت دکھ ھوا کے کچھ لوگوں نے اس دن کی کاروئی میں ریسپونڈنٹس کے وکیلوں کے کردار پر بیوجہ تنقید شروع کردی ھے کے ھمارے یہ وکیل بلکل نکمے ھیں انکو بولنا نھیں آتا اور یہ لوگ ھم کو مروادیں گے ۔ ایم ایچ اسلم صاحب جو وی ایس ایس پنشنر ریٹائیری ھیں  اور کسی پی ٹی سی ایل پنشنر ایکشن کمیٹی کے شائید سیکریٹری بھی ھیں ، وہ ان انٹرا کوڑٹ اپیلوں میں کسی گروپ میں نہ تو شامل تھے اور نہ ھی ریسپونڈنٹ تھے  مگر عدالت میں موجود تھے انھوں واٹس ایپس پر اس قسم آئیڈیو میسیج  بھیجا ۔ اور فرمایا کے طارق صاحب ،  رسول خان صاحب اور اسطرح گروپ کے اور جو وکیل کئیے ھیں وہ بہت کمزور نکمے وکیل تھے جن سے بولا تک نہ گیا انکو اچھے وکیل  کرنے چاھئیں ورنہ یہ انکو مروادیں گے  ، اسی طرح  توقیر صاحب  جو کسی اور ایسے  ھی پی ٹی سی ایل پنشنر ایکشن کمیٹی کے ممبر یا سیکریٹری ھیں انھوں نے  بھی اسی طرح کا ایک لمبا میسیج ٹھونک دیا ،جبکے موصوف تو اس دن عدالت میں موجود ھی نھیں تھےاور  ایسی ھی نصیحت کی  کے ان وکلاء فورن تبدیل کردیا جائیے اور رحیم بھٹی ، مسعود بھٹی جیسے وکیلوں سے ان کیسس پیروی کروائی جائیے ورنہ کہاں ایسا نہ جو وکلاء کیس لڑرھے ھیں انکی وجہ سے عدالت کوئی اور ھی آڑڈر پاس نہ کردے جو ایسے  جو پی ٹی سی ایل کے ایسے پنشنروں کے لئیے نقصان دہ ثابت ھو ۔انکو ایسا میسیج دینے سے پہلے اپنے اپنے

 گر بیانوں میں جھانک ضرور لینا چاھئیے تھا جس طرح کے وکیل ان لوگوں نے کئیے ھیں  اور وی ایس ایس  ریٹائیڑڈ پنشنرز صادق علی اور دیگر لوگوں نے ھر ایک ان وکیلوں انکا کردار کیا رھا ھے جو ابھی تک انکا کوئی بھی کیس پائیہ تکمیل تک نھیں پہنچا ھے اسمیں کسی کو زرا سا بھی کسی کو شک نہیں ھونا چاھئیے انکے جو وکلاء انھوں نے کئیے ھیں  وہ سب سو فیصد  اندرون خانہ پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی والوں سے  ملے ھوئیے ھیں جبھی تو انکے کیسس انکے ان وکیلوں کی وجہ ھی سے ھائی کوڑٹوں اور سپریم کوڑٹ میں لنگر اون ھورھے ھیں اور ابھی تک انکے ان ھی کی وجہ ھی سے خاطر خواہ رزلٹ نہیں آرھا ھے ۔ انکے وکیل ابراھیم ستی کے کردار کے متعلق تو سب ھی جانتے ھیں کے انھوں نے رویو پٹیش،  ۱۲ جون  ۲۰۱۵  کے فیصلے کے خلاف ، ھئیرنگ کے دوران انھوں نے کیا حرکت کی تھی جسکی وجہ سے یہ کیس لنگر اون ھوتا گیا اور تمام پی ٹی سی ایل  پنشنرس ھوں یا پٹیشنر ھوں نے انکو سخت برا بھلا کہا تھا۔ اسلم صاحب کے اس آئیڈیو میسیج اور توقیر صاحب کے میسیج کے بعد مجھے ایسے کافی پنشنروں کے میسیج آئیے جن سے معلوم ھوا کے انکا مورال  ڈاؤن ھورھا ھے اور وہ پریشان ھیں کے ان وکیلوں کی وجہ سے یہ کیس اور ھی کچھ رخ نہ اختیار کرلے اور انکو نقصان ھوجائیے ۔ میں نے فورن  ان سبکو یہ پیغام  دیا کے ایسا کچھ بی نھیں ھو سکتا ۔ جو فیصلہ سپریم کوڑٹ  کے آٹھ معزز ججز دے چکے ھیں وہ فائینل ھے اور اب ایک قانون بن چکا ھے کے  ٹی این ٹی میں کام کرنے والے ان تمام ملازمین  جو ٹی اینڈ ٹی سے   کارپوریشن  اور پھر کمپنی   ٹرانسفڑڈ ھوکر آگئیے ان پر گورمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 زریعے بنائیے ھوئیے مروجہ قانون ھی استعمال ھوں گے اور انکو اپنے حق کے لئیے ھائی کوڑٹوں سے آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت رجوع کرنے کا مکمل اختیار ھوگا  جسطرح سول سرونٹ کو ھوتا ھے اور پی ٹی سی ایل یا گورمنٹ کو اسکا کوئی بھی اختیار نھیں کے وہ ان کے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشن ( یعنی جو سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں سیکشن 3 سے سیکشن 22 تک دئیے گئیے ھیں ) ان میں ایسی کوئی منفی تبدیلی کریں جن سے انکو فائیدہ نہ ھو ۔ سپریم کوڑٹ نے یہ کہیں نھیں کہا کے جو لوگ ٹی اینڈ ٹی میں گریڈ 1 سے لے کر گریڈ 15 تک ملازم تھے انکا یہ حق نہیں کے  کیونکے وہ سول سرونٹ کی کٹیگری میں آتے  ھی نہیں تھے۔  میں نے تو اسی وقت اس بات کو کو رد کردیا اور لغو قرار دیا  اور  واٹس ایپس پر یہ میسیج دیا جن جن کو اسلم صاحب کا آئیڈیو میسیج اور توقیر صاحب کا میسیج گیا تھا تاکے ان لوگوں کا مورال ڈاؤن ھونے سے بچ جائے ۔اسلم صاحب  کمرہ عدلت میں ان وکلا۶ سے ، جو معزز ججز کی ڈآئیس بہت باھر پیچھے کھڑے تھے۔   جب کے میں بلکل وکلاء کے بیچ میں ڈائیس کے قریب کھڑا تھا - اور شائید انکو ججز حضرات اور وکیلوں کی آوازیں صاف طور سنا ئی بھی نہیں دی ھوں لیکن انھوں نے اپنے وائس میسیج میں غلط بیانی کی اور ھمارے وکلاء کی برائی کی میں نے, رسول خان اور دیگر نے بہت کمزور وکیل کئے ھیں جن کو بولنا نھیں آتا۔اور پھر توقیر صاحب نے اسی طرح کا بیان نمک مرچ لگا کر داغ دیا ۔تو یقینن ان پی ٹی سی ایل پنشنرز ریسپونڈنٹس تھے اور انکا  جنکا تعلق  گریڈ 1 سے 15 تک کا ھوگا انکو یہ اسلم صاحب آئیڈیو میسیج سن بہت دکھ ھوا ھوا ھوگا تو اس بات سے یقینن انکا بھی  مورال ڈاؤن ھوگا کے انکے وکیل کیسے ھیں جن کو بولنا تک نھیں آتا اور وہ کہیں انکو مرواہ ھی نہ دیں وغیرہ وغیرہ۔جب ھی یہ سوچ کر مجھے ان دونوں حضرات ہر بہت غصہ آیا اور میں نے فورن ھر اسجگہ اپنا ی میسیج بھیجا جہاں جہاں  اسلم صاحب کا  یہ آئڈیو پیغام اور توقیر صاحب نے  میسیج بھیجا ۔اور انکو سمجھایا تسلی دی کے ایسی کوئی بات نہیں ۔ ھمارے وکیل کیسے بولتے جبکے بار بار اجازت مانگنے ہر بھی چیف جسٹس صاحب نے بولنے نھیں دیا اور اس پر یہ سمجھ لینا کے یہ وکیل نکمے اور کمزور ھیں ، یہ بہت غلط بات اسلم صاحب نے کی ھے جس سے مجھے خود بہت دکھ ھوا-


اب میں اس دن یعنی 24 جون 2021 بروز جمعرات میں چیف جسٹس صاحب کی کمرہ عدالت نمبر 1 ھونے والی تفصیلی کاروائی کی طرف آتا ھوں ۔  اس دن کیسس سننے کا وقت بارہ بجے دوپہر تھا ۔ میں تقریبن پونے بارہ بجے ھی عدالت کمرہ نمبر 1 پہنچ گیا تھا۔ اس وقت کمرہ کچھ ھی لوگ موجود تھے مجھے درمیان میں اچھی سی جگہ پر  خالی کرسی بیٹھنے کے لئیے مل گئی تھی ۔  تھوڑی دیر بعد شیراز صاحب میرے ساتھ والی  بائیں کرسی پر آکر بیٹھ گئیے اور اسکے دو یا تین کے قریب پی ٹی سی ایل ساتھی بھی آکر ماسک لگائیے ھوئیے بیٹھ گئیے جن کو میں پہنچانا نہیں تھا ۔ میرے آگے والی سیٹ پر ایک بوڑھا داڑھی والا شخض ماسک لگائی آکر بیٹھ گیا ۔ وہ بار بار میری طرف منہ کرکے دیکھے  جارھا تھا ۔ پھر یکایک وہ میری طرف زور زور سے مخاطب ھوکر،  پی ٹی ایکٹ 1996 کی کاپی میری طرف بڑھا کر کہنے لگا “یہ کلاز آپ ، پڑھیں یہ کلاز آپ پڑھیں ۔ آپ کو کچھ بھی معلوم نہیں خوامخواہ لوگوں کو گمراہ کرتے رھتے ھیں اور آڑٹیکلز لکھتے رھتے  ھیں “۔ میں ایک دم بڑا حیران ھوا کے بھئی یہ کون شخض ھے جو مجھ سے اس طرح سے کلام کررھا ھے۔ وہ بہت زور زور سے بول رھا تھا کے یہ پڑھیں۔ ۔ یہ  پڑھیں یہ پڑھیں ۔ اسکی بلند آواز کی وجہ سیکیورٹی کے ایک آدمی نے اسکو آکر ٹوکا کے آھستہ بولیں آھستہ بولیں ۔ میں نے شیراز سے  آھستگی سے پوچھا بھئی یہ  شخض کون ھے ۔ شیراز نے جواب دیا سر یہ راجہ ریاض ھے یہ ہر ایک مراعات لے چکا ھے اب پتہ نھیں یہاں کیوں اور کس لئیے آیا ھے ۔ پھر شیراز   صاحب نے ، اپنے ماتھے پر انگلی رکھ کر اشارے  سے کہا اسکی باتوں کو درگزر فرمائیں یہ کیس ھے ۔ تھوڑی دیر بعد راجہ ریاض میری داھنی طرف کی خالی کرسی پر آکر بیٹھ گیا  ، اور پی ٹی ایکٹ 1996  کلاز 50 پڑھنے کا کہنے لگا ۔ یہ پڑھیں یہ پڑھیں جس کلاز 50 کا وہ حوالہ دے رھا تھا وہ اس ٹرسٹ کے آڈٹ کے بارے میں تھا جو آج تک کبھی بھی نھیں ھوا  تھا اور وہ مجھ کو اس کلاز کا حوالہ دے کر بتا رھا تھا وہ انکے اس آڈٹ نہ کرانے کے خلاف کوڑٹ میں جارھا ھے ۔ اسکا کہنا تھا وہ پہلے اوپر تک سیکریٹری وغیرہ تک پہنچ چکا ھے پہلے وھاں سے کوشش کرے گا اور وھاں کچھ نہ بنا تو عدالت میں جائیگا ۔ میں نے اس سے کہا آپ بیشک مقدمہ کریں مجھے کیوں بتا رھے ھیں۔پھر مجھے وہ  پی ٹی ایکٹ  1996 کی  اپنی طرف سے کی گئی ھائی لائیٹڈ  کلاز (a)(2)46 کو مجھے دکھا کر زور زور سے بولنے لگا یہ دیکھیں اس میں صاف صاف لکھا کے پینشن بینفٹس پوڑڈ آف ٹرسٹیز کی مرضی سے دئیے جائیں گے مجھے بھی اسکی اس چیخنے پر  غصہ آگیا میں نے اس سے کہا میں نے سب پڑھ رکھیں ھیں در اصل وہ مجھے یہ بتا رھا تھا کے پنشن بینیفٹس وھی ملیں گے جو پی ٹی ای ٹی بوڑڈ خود منظور کرے گا نہ کے گورمنٹ  کے اعلان کردہ ۔ جبکے اس بیوقوف کو یہ بات معلوم ھی نھیں تھی کے جو کلاز وہ پڑ رھا تھا   وہ پنشن کے مزید اگر پی ٹی ای ٹی اپنی طرف سے دینا چاھے بینیفٹس  وہ کلاز تھی  (a)(2)46 اور بات صرف گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن دینے کی تھی جو  ایکٹ 1996 کی کلاز (d)(1)46  تھی جو پی ٹی ای بوڑڈ، اسکے  تحت گورمنٹ والی ھی پنشن دینے کا پابند تھا جو  انکا حق بنتا ھے۔ راجہ ریاض  کو میں نے اس دن پہلی مرتبہ دیکھا تھا ۔ وہ مجھ سے شروع سے بہت خائیف اور ناراض تھا کیونکے میں اسکے حق میں آئیے ھوئیے فیصلے کے ریفرنس سے اور نان پٹیشنروں کو یہ مشورہدیتا تھا کے وہ بھی مقدمات کریں اور اپنا یہ حق لیں ۔ اور اسنے مجھ سے ایمیل کے زریعےکئی بار منہ ماری بھی کی تھی  اور مجھے ایسا کرنے سے منع کیا تھا ۔ یاد رھے اسکو سپریم کوڑٹ نے گورمنٹ والی تنخواہ اور پنشن  دینے کے احکامات  , اسکی دائیر کردہ اپیل پر پر 6 جولائی 2015 کو صادر فرمائیے تھے , جو  2015 ایس سی ایم آر 1783  میں درج ھیں اور جب  پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی نے اس پر عمل نہیں کیا تو راجہ ریاض نے انکے خلاف توھین عدالت کا کیس کردیا  تھا اور 27 اکتوبر 2017 کو سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے اس  کی توھین عدات کا کیس نمٹاتے ھوئیے  اسکو   گورمنٹ والی تنخواہ اور پنشن  دینے کا حکم دیا چونکے انکے وکیل شاھد انور باجواہ نے یہ حامی بھر لی تھی کے   پی ٹی سی ایل  انکو گورمنٹ والی تنخواہ اور پنشن incentive pay بغیرکاٹے ، دینے کے لئیے تیار ھے ۔

دن کے بارہ بج چکے تھے مگر ابھی تک معزز ججز حضرات تشریف نہیں لائیے تھے ۔ 12 بجکر پچپن منٹس پر انکے آنے کا اعلانُ کیا گیا اور ھم سب تعظیمن اپنی  اپنی جگہوں پر کھڑے ھوگۓ۔ ٹھیک دن ایک بجے عدالت میں کاروائی کا آغاز ھمارے کیسز سے پہلے پی ٹی سی ایل اور پی ٹی سی ایل کی طرف سے دائیر کردہ نئی انٹرا کوڑٹ اپیلوں کو سنا گیا ، جو سنگل بینچ کے  محترم جج  جناب  جسٹس  بابر ستار نے ، خالد محمود اور 128 دیگران کی رٹ پٹیشن نمبر 3391/2018 پر 27 مئی 2021  کو پٹیشنروں کے حق میں دئیے ھوئیے فیصلے کے خلاف تھا ۔ یہ فیصلہ بھی بلکل اسی طرح کا تھا جو رسول خان کی رٹ پٹیشن 523/2012 پر ، سنگل بینچ کے محترم جج جناب جسٹس میاں گل حسین مینگل نے 3 مارچ 2020 کو ، اس پٹیشن کے ساتھ کلب کی ھوئی تمام پٹیشنس کے پٹیشنروں کے حق میں دیا تھا , جسکے خلاف پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی  دائر کردہ انٹرا کوڑٹ اپیلوں پر اس دن سماعت ھو رھی تھی ۔ تو اسکے بعد ان پرانی انٹرا کوڑٹ اپیلوں پر سماعت کا آغاز ھوا ۔ یاد رھے 2 جون 2021 کی ھئیرنگ میں انکے وکیل شاھد انور باجواہ صاحب نے اپنی ان دائیر کردہ انٹرا کوڑٹ اپیلوں پر تفصیلن  دلائیل دئیے تھے اور انکو  مکمل کر لیا  تھا  . جس پر عدالت نے 9 جون 2021 دن ریسپونڈنٹس کے وکلاء کو دلائیل دینے کے لئیے اور پھر اسکا جوالجواب  ( rebutter)  اپیلنٹس کے وکلاء سے دینے کے لئے رکھا تھا  اور 9 جون 2021 کی  وہ تاریخ  ،انکے وکیل شاھد انور باجواہ سے ھی یہ کنفرم ھونے کے بعد رکھی گئی تھی , کے وہ اس دن عدالت میں موجود ھونگے  مگر، چونکے 9 جون کو ھئیرنگ نہیں ھوسکی  تھی اور 24 جون 2021 کی  نئی تاریخ رکھ دی گئی تھی ۔ تو اس دن تو پہلے قانون کے تحت ریسپونڈنٹس کے  وکلاء کو ھی پہلے بولنے کی باری تھی ۔  اور ھر ایک نے باری باری آکر بولنا تھا۔ اور اسکے بعد  ھی انکے وکیل شاھد انور باجواہ کو اسکا جوابلجواب ( rebutter) دینا تھا ۔ جونھی ان اپیلوں پر ھئیرنگ سننے کا اعلان ھوا  تو ان اپیلوں کے ریسپونڈنٹس کے وکلاء کا ایک جھرمٹ ججز صاحبان کے ڈائیس کے گرد گھیرا ڈال کر کھڑا ھوگیا ۔ محترم چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ان وکیلوں کے دلائیل سنے سے پہلے سب کو ایک مشورہ دیا کے انٹرا کوڑٹ اپیلوں پر  صرف ایک ھی  وکیل ، جسکو اور تمام وکیلوں کی حمایت حاصل ھو ، وہ ھی دلائیل دے اور بحث کرے تاکے وقت کم لگے اور عدالت جلد ھی فیصلہ دے سکے ۔ اور انھوں نے چودھری مشتاق حسن ایڈوکیٹ کو یہ سبکی طرف سے اختیار دینے کو کہا تھا۔ اسوقت 28 سے زیادہ انٹرا کوڑٹ  اپیلیں تھیں اور ھر ایک انٹرا کوڑٹ اپیل کے ریسپونڈنٹس کے اپنے اپنے وکیل تھے اور بعض دو یا دو سے  زیادہ  ایسی اپیلوں کے ریسپونڈنٹ کے ایک ھی وکیل تھے ۔اگرچہ چیف جسٹس صاحب کا یہ اچھا مشورہ تھا مگر   دیگر  وکیلوں نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور یہ ھی کہا کے وہ اپنی   اپنی انٹرا کوڑٹ اپیلوں  پر خود ھی دلائیل دیں گے ۔ جسکے لئیے انکو ریسپونڈنٹس نے مقرر کیا ھے ۔  جس پر چیف جسٹس صاحب کا کچھ موڈ خراب  نظر آیا بحرحال انھوں نے ھر ایک کو الگ الگ دلائیل  دینے کا کہہ دیا۔ 

سب سے پہلے دلائیل کا آغاز ایڈوکیٹ سپریم کوڑٹ چوھدری مشتاق حسن نے کیا جو محمد اعظم  اور دیگران کے خلاف  انٹرا کوڑٹ  اپیلوں یعنی  ICA No 84, & 150/2020 اور محمود مہدی اور دیگران  کے خلاف انٹرا  کوڑٹ اپیلوں یعنی ICA No117&141/2020 ریسپونڈنٹس کے وکیل تھے ۔ جس وقت انھوں نے اپنے دلائیل کا آغاز کیا ، میں اسوقت   میں  دور پیچھے کرسی پر بیٹھا ھوا تھا یہ سب دیکھ اور سن رھا تھا۔  اور جب ان وکیل صاحب کی آواز ٹھیک سے سنائی نہیں دی ، تو میں  اپنی جگہ سے اٹھا اور آھستہ آھستہ چلتے ھوئیے انھی وکیلوں کے جھرمٹ میں جاکر کھڑا ھوگیا مجھے اتفاقاً جو جگہ ملی وہ چوھدری مشتاق حسن ایڈوکیٹ کے پیچھے والی تھی  ، جو دلائیل دے رھے تھے ۔ میرے بائیں جانب میرے اور دیگران خلاف انکی انٹرا کوڑٹ اپیلُ نمبر ICA-98/2020 کے وکیل خلیل الرحمان عباسی کھڑے تھے ۔  جب میں وھاں پہنچ کر کھڑا  ھوا  تو میں نے دیکھا کے اسوقت محترم جسٹس فاروق عامر صاحب ،  ایڈوکیٹ چودھری مشتاق حسین سے  یہ پوچھ رھے تھے کے کیا یہ ریسپونڈنٹس ٹی اینڈ ٹی میں سول سرونٹ تھے یا نہیں ۔ اس  پر ایڈوکیٹ چودھری مشتاق حسین نے کچھ کہا ھی تھا کے “ جی “ جو میری سمجھ میں آسکا ، لیکن اسی وقت مجھے   اپیلنٹس کے وکیل شاھد باجواہ کی آواز سنائی دی ۔ نھیں بلکل نہیں ، یہ تو سول سرونٹ کٹیگری  کے ملازم ھی نہیں تھے جو ٹرانسفڑڈ ھوکر کارپوریشن میں آئیے تھے۔ یہ تو ورک مین تھے اور یونین کے ممبرز تھے ۔ میں سمجھتا ھوں کے قانون کے مطابق جب اس دن پہلے صرف ریسپونڈنٹس کے وکلاء کا دن تھا اور اسکے بعد ھی اپیلنٹس کے وکلاء کا انکو جوابلجواب (rebutter) دینے کا جواز بنتا تھا اسلئیے وکیل شاھد انور باجواہ کا اسطرح درمیان  میں بولنا عدالتی ڈیکورم کے خلاف تھا ۔ مگر جب اپیلننٹس کے وکیل شاھد انور بیچ میں ھی بول اٹھےاور محترم چیف جسٹس انکو اس بات سے منع بھی نہیں کیا کے ابھی وہ کچھ نہ کہیں  جب کہیں جب انکی جوابلجواب (rebutter)  دینے کی باری آئیے  تو محترم چیف جسٹس کو انکی بات نہیں سننی چاھئیے تھے  شاھد انور باجواہ کے اسطرح اچانک بولنے پر  اس کہنے پر ریسپونڈنٹس کے وکیلوں میں ایک شور مچ گیا اور انھوں نے  یہ غلط بات کررھے ھیں اور بیشتر نے اپنے ھاتھ کھڑے کر کر کے محترم چیف جسٹس صاحب سے جواب دینے کی اجازت مانگنی شروع کردی مگر انھوں نے سب کو سختی سے جواب دینے سے منع کردیا ۔  میرے ساتھ بائیں پر کھڑے ھوئیے وکیل جناب خلیل الرحمان عباسی صاحب نے کوئی تین مرتبہ اسکا جواب دینے کے لئیے ھاتھ کھڑا کرکے محترم چیف جسٹس صاحب سے اجازت طلب کرنےکے کوشش کی مگر ھر بار محترم چیف جسٹس صاحب نے انکو  ڈانٹ دیا ۔مگر محترم چیف جسٹس صاحب نے اسکا جواب  چودھری مشتاق ایڈوکیٹ سےمانگا جو دلائیل دے رھے تھے،  اس پر چودھری مشتاق صاحب ایڈوکیٹ  نے کچھ جواب دیا  مجھے اور وکیلوں کے شور کی وجہ سے سمجھ نھیں آیا مگر میں نے یہ چیک کیا کے چیف جسٹس ان سے بار بار ان سے یہ ھی سوال کررھے تھے کے جب law میں کہہ دیا گیا کے یہ ورک مین تھے اسلئیے یہ سول سرونٹ نہیں ھو سکتے تو آپ یہ کیسے ثابت کریں گے کے یہ ورک مین نہیں تھے بلکے سول سرونٹ تھے ۔محترم چیف جسٹس صاحب نے اس دوران  وکیل شاھد باجواہ  سے پوچھا کے کتنی کٹیگری کے ملازمین ٹرانسفڑڈ ھو کر کارپوریشن  میں آئیے تھے۔   تو وکیل شاھد باجواہ  نے جواب دیا  کے سر تین  ایک وہ جو ٹی اینڈ ٹی میں ورک مین کی کٹیگری میں تھے ، جنکی یونینُ ھوتی ھے اور وہ سول سرونٹ نہیں ھوتے دوسری وہ جو سول سرونٹ تھے یعنی گریڈ 16 سے اوپر ، اور تیسرے وہ جو ان دونوں ھی کیٹیگریز میں نھیں آتے ۔    پھر فورن محترم  چیف جسٹس صاحب نے فرمایا جب اتنی اھم یہ بات تھی تو سپریم کوڑٹ  نے مسعود بھٹی کیس میں اسکو کلئیریفائی کیوں  نھیں کیا ۔  تو وکیل شاھد باجواہ  نے جواب دیا سر چونکے جن تین ملازمین نے وہ اپیلیں داخل کی تھیں وہ سب کے سب سول سرونٹ کی کٹیگری والے تھے جن کے لئیے  عدالت اپنے فیصلے کے شروع میں ھی  تیسری لائین  لکھ میں دیا تھا  جن  اپیلنٹس  نے  جنھوں نے  داخل کی ھیں وہ سول سرونٹس لگتے ھیں  اسلئی عدالت اس طرف گئیی ھی نھیں ورنہ وہ اسکو بھی ضرور کلئر کردیتی [ حقیقت میں اسوقت وکیل شاھد انور باجواہ صاحب نے  غلط بیانی سے کام لیا کیونکے  مسعود بھٹی کیس میں جن تین اپیلنٹس نے مقدمہ کیا تھا اس میں یعنی  دو مسعود بھٹی گریڈ 19  اور نصیر الدین غوری گریڈ 17 کے ایمپلائز تھے جو سول سرونٹ تھے تیسرے  ایس ایم دل آویز جو گیٹ وے ایکسچینج میں گریڈ 5 کا کلرک تھا جو بقول  وکیل شاھد انور باجواہ  کے سول سرونٹ نھیں تھا، مگر  پر بھی عدات کے سامنے اسکو بھی سول سرونٹ گردانہ تھا - جبکے سپریم کوڑٹ نے ان تمام تین اپیلنٹس ڈیپاڑٹمنٹل  ایمپلائز کے لئے ھی یہ قرار دیا تھا کے ان ہر گورمنٹ آف پاکستان کے سرکای قوانین استعمال ھوں گے جو سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت بنائے گئے ھیں] اس دن مجھے چیف جسٹس صاحب مجھے بلکل مختلف نظر آئیے اور وہ مجھے بادئیانظر میں   اپیلنٹ  کے وکیل شاھد انور باجواہ  کے زیادہ ھمدرد دکھائی دئیے  ،کیونکے 2 جون 2021 کی ھئیرنگ میں جب ایسی طرح کا اعتراض   وکیل شاھد انور باجواہ نےجب یہ اٹھایا تھا کے چونکے ٹی اینڈ ٹی سے ٹرانسفڑڈ ھوکر کارپوریشن کے ملازمین پی ٹی سی ایکٹ  1991 کی شق (1)9 کے تحت ٹرانسفڑڈ ھوکر آئیے تھے جس میں کہا گیا تھا ان کے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس وھی رھیں گے جو انکے ٹرانسفڑڈ  ھونے سے پہلے فورن پہلے تھا ، اسلئے یہ لوگ کسی گورمنٹ کی تنخواہ اور پنشن کے حقدار نہیں ھیں ۔ اس پر  اسوقت چیف صاجب نے انسے  یہ کہا تھا کے آپ نے آج تک یہ ایشو  کبھی بھی  کسی عدالت میں نہیں  اٹھایا  اور سپریم کوڑٹ میں مسعود بھٹی کیس کی ھئیرنگ کے دوران بھی ۔ اب ھم اسی کو فالو کریں گے جو کچھ  معزز سپریم کوڑ ٹ نے مسعود بھٹی کیس کے فیصلے میں کہا ھے۔ ھم اپنے فیصلے میں صرف آپ کا یہ اعتراض ضرور لکھ دیں گے [ میں یہ سب کچھ اپنے 4 جون 2021 کے آڑٹیکل 143 بتا چکا ھوں ] تو جب وکیل شاھد انور باجواہ صاحب نے چوہدری مشتاق حسن کے دلائیل دینے کے دوران ، درمیان  میں یہ  گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 15 تک کے ملازمین کا بوجہ ورک مین ھونے کے سول سرونٹ نہ ھونے کا ایشو  اٹھایا  تو چیف جسٹس کو فون اسے over ruled کردینا چاھئیے تھا اس بنا پر کے وہ یہ سب ابھی کیوں اٹھا رھے ھیں اور جسطرح کا انھوں نے بیان  انھوں نے 2 جون 2021 دیا تھا وھی اور اسی طرح دینا چاھئیے تھا ۔  مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا بلکے یہ کہا  عدالتیں فیصلے قانون کی تشریح کرکے ھی دیتی ھیں  نہ کے قانون عدالتی فیصلوں پر بنتے ھیں۔  انکا شائید یہ مقصد یہ تھا کے سپریم کوڑٹ نے اپنے مسعود  کیس میں تمام ٹرانسفڑڈ ملازمین  کے لئیے یہ کہنا کے پی ٹی سی ایل میں انپر  گورمنٹ کے سرکاری قوانین  یعنی statutory rules کا استعمال ھوگا  کیونکے یہ سب سول سرونٹ تھے ، صحیح نہیں تھا انکو کٹیگری وائز کے مطابق ھی ایسا حکم دینا چاھئیے تھا یعنی جو لوگ سول سرونٹ کی  کٹیگری میں نہیں آتے  اور ورک مین تھے ، تو  انکا پی ٹی سی اور بعد میں پی ٹی سی ایل میں آنے کے بعد گورمنٹ کے ان قوانین یعنی statutory rules کا اطلاق نہیں  ھونا چاھئیے تھا تو اسطرح انکو گورمنٹ کی تنخواہ اور پنشن نہیں ملنی چاھئیے تھی وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ سب کمپنی کی مرضی سے ھونا چاھئیے  ۔ دوسرے لفظوں میں انکا شائید یہ مطلب تھا جو گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 15 تک کے ٹرانسفڑڈ ملازمین تھے انکا اسطرح کا گورمنٹ کی تنخواہ اور پنشن لینے کا حق نہیں تھا ۔ جب ھی وہ بار بار چودھری مشتاق حسین  ایڈوکیٹ سے بار بار یہ سوال کررھے تھے کے آپ law میں سے یہ provision نکال کر کیسے ثابت کریں کے یہ اس کٹیگری کے لوگ سول سرونٹ تھے نا کے ورک مین ۔ انھوں نے یہاں تک کہا یہ قانون سے نکالنا اور ثابت کرنا ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے مترادف ھوگا ۔

جب  چوھدری مشتاق حسن  صاحب ایڈوکیٹ کے دلائیل کے دوران ، محترم چیف جسٹس صاحب نے انسے  یہ بات کی تو اور وکیلوں کے درمیان شور مچا ھوا کے کیوں  محترم چیف جسٹس ان سے اسی بات کا بار بار پوچھے جارھے تھے کے کیا انکے ریسپونڈنٹس ٹی اینڈ ٹی میں سول سرونٹ تھے یا نھیں ، جسکا کا جواب وہ نفی میں دےرھے تھے اور دلائیل دے رھے ۔  بادئی انظر ایسا لگتا تھا کے محترم  چیف جسٹس  صاحب ، ایڈوکیٹ چودھری مشتاق حسین صاحب کو اس بات پر قائیل کرنے کی کوشش کررھے تھے کے وہ یہ مان جائیں کے انکے  ریسپونڈنٹس جو گریڈ 1 سے لیکر گرڈ 15  تک کے پی ٹی سی ایل کے ملازمین تھے ، وہ ورک میں تھے نہ کے سول سرونٹس اسوقت ایڈوکیٹ چودھری مشتاق حسین صاحب نے زچ ھوکر کہا کے اگر یہ ثابت ھوجائیے کے یہ سول سرونٹ نھیں تو میں ان سب کوwithdraw کرلوں گا ۔ اس پر محترم چیف جسٹس صاحب نے مسکرا کر کہا نہیں ایسی کوئی بات نہیں ۔ وھیں کھڑے اور دوسرے وکیلوں نے ایڈوکیٹ چودھری مشتاق  حسن صاحب کے ان ریمارکس  کو اچھا نہیں سمجھا ۔ مجھے چیف جسٹس صاحب کی یہ آواز بار سُنائیے دے رھی  تھی کے لاء  سے یہ ثابت کرنا کے یہ ورک مین نہیں تھے بلکے سول سرونٹ تھے ، ایک ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے مترادف ھوگا ۔ پھر  انھوں نے اس دن کی عدالتی کروائی ختم کرتے ھوئیے تمام ریسپونڈنٹس کے وکلاء سے کہا کے وہ اسکا جواب اگلی پیشی پر بناکر  لائیں کے جو ورک مین کی کٹیگری میں آتے وہ  ٹی اینڈ ٹی میں سول سرونٹ کیسے بن گئیے    اور اس دن کی کاروائی کو آڑڈ شیٹ پر لکھوایا اور اگلی تاریخ 14 جولائی 2021 دے دی جب اس دن ریسپونڈنٹس کے وکلاء اپنے دلائیل جاری رکھیں گے اور اسکا جواب  بھی دیں گے ۔ جب وہ آڑڈر لکھوا چکے ھی تھے کے ایک  داڑھی والے وکیل صاحب ، جنھوں نے چھوٹا سا کالا کوٹ پہن رکھا تھا اچانک چیف جسٹس صاحب  کے سامنے  نمودار ھوئیے اور کہنے لگے میرے دلائیل بھی وھی ھیں  جو چودھری مشتاق حسین ایڈوکیٹ  نے دئیے ھیں ۔  تب محترم چیف جسٹس صاحب نے جواب دیا کے وہ آج کا آڑڈر لکھوا  چکے ھوں انکی  کی اس استدعا کے بارے اگلی پیشی پر دیکھا جائیگا ۔  کوئی ڈھائی یا پونے تین بجے بجے کے قریب اس دن کی عدالتی کاروائی ختم ھوگئی ۔جب عدالت کے کمرے سے باھر آیا تو دیکھا کچھ وکلاء حضرات اس دن کے چودھری مشتاق حسین  ایڈوکیٹ کے دینے والے دلائیل پر بحیث  کررھے تھے  ۔ وہ تو اس بات پر ناراض نظر آرھے تھے کے کیوں انھوں نے چیف جسٹس صاحب کے میں اگر ثابت نہ کرسکا کے یہ لوگ  سول سرونٹ نہیں تھے تو میں انکو واپس لے لوں گا۔وکلاء حضرات اس دن  چودھری مشتاق حسن ایڈوکیٹ کی طرف سے دئیے گئیے دلائیل سے غیر مطمئن نظر آرھے تھے ۔ نہ جانے کیوں میں یہ سمجھ نہیں سکا ۔ سب یہ کیوں   کہہ رھے تھے کے چودھری  مشتاق حسنصاحب چیف جسٹس صاحب کو  کیوں مطمئین نہیں کرسکے ۔

میں نے اس دن 24 جون 2021 کو ھونے والی اس کاروائی مکمل روداد میں نے آپ لوگوں کے سامنے پیش کردی ھے اور وھی لکھا جو کچھ وھاں اس دن دیکھا اور اپنی طرف سے اور طرم خان بنے کی کوشش بلکل نہیں کی ۔ اب اس دن ھونی والی کاروائی کا مکمل تجزئیہ اور اس پر تبصرہ آپکو اپنے اگلے آڑٹیکل 148 میں بتاؤں گا ۔ اور یہ بتاؤں گا کے چیف جسٹس صاحب آج کے ھونے والے  ریسپونڈنٹ کے وکیل کے دلائیل سے کیوں مطمئن نظر نھیں آرھے تھے ۔ انھوں نے یہ بات کیوں  کہی  کے لاء کے زریعے یہ ثابت کرنا ، کے ٹی اینڈ میں ایسے ملازم کام کرنے والے جو ورک مین کی کٹیگری میں آتے ھیں وہ ورک مین نہیں بلکے سول سرونٹ تھے ،  جس کو ثابت کرنا ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے مترادف ھوگا ۔اور اب اسکو   ریسپونڈنٹس کے وکلاء کیسے ثابت کریں گے ۔ اور کیا جواب  اسکی اگلی پیشی پر جمع کرائیں گے ؟۔ ایک بات تو صاف ظاھر  لگ رھی ھے کے محترم چیف جسٹس  صاحب سپریم کوڑٹ کے مسعود بھٹی کیسس اور چند ایسے ھی سپریم کوڑٹ کے دیگر کیسس کے حوالے سے یہ بات  ماننے  کے لئیے بلکل تیار نھیں  نظر آتے ھیں  کے چونکے سپریم کوڑٹ نے اپنے فیصلوں قرار دیا یہ 

ٹی اینڈ ٹی میں کام کرنے والے سارے ملازمین ، ڈیپاڑٹمنٹل ایپملائیز کہلاتے تھے اور سپریم کوڑٹ نے انھی ٹرانسفڑڈ ڈیپاڑٹمنٹل ایمپلائیز کی بابت یہ کہا  کے کمپنی میں ان پر سرکاری قوانین جو گورمنٹ کے جو سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت بنائیے گئیے ھیں ان کا ھی  اطلاق ھوگا کیونکے  یہ سب ٹی اینڈ ٹی میں سول سرونٹ ھی تھے اور جب یہ  کارپوریشن اور پھر  کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھوئیے  تو , پی ٹی سی ایکٹ 1991 کی شق (1)9 اور پی ٹی ایکٹ 1996 کی شق 35 اور 36 کے تحت انکو سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی تحت ان بنائیے گئیے قوانین  کا تحفظ حاصل تھا اور یہ  اسلئے آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت ھائی کوڑٹوں سے اپنے grievances دور کرانے کے لئے  ان سے رجوع کرنے کے مجاز تھے۔ پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے وکیل کا تو سب سے بڑا یہ ھی اعتراض تھا کے جب گریڈ 1 سے لے کر گریڈ 15 تک ملازمین کا ورک مین کے زمرے میں آنے کی وجہ سے وہ ٹی اینڈ ٹی میں سول سرونٹ تھے ھی نہی تو کسطرح  اور کیوں کر انھوں نے ھائی کوڑٹ سے رجوع کرکے  یہ گورمنٹ کی پنشن اور دیگر گورمنٹ کے الاؤنس حاصل  کر لئیے ۔ اسی بات پر تو چیف جسٹس صاحب نے مسکرا کر  ان سے کہا تھا تو آپ یہ بات مان گئیے جو ریسپونڈنٹس سول سرونٹس تھے ،  انکے حق میں دیا گیا ھو عدالت کا حکم صحیح ھے ۔ اس پر  وکیل شاھد انور باجوہ صاحب  خاموش رھے تھے ۔

واسلام

محمد طارق اظہر 

ریٹائیڑڈ جنرل منیجر ( آپس) پی ٹی سی ایل 

راولپنڈی

تکمیل بمطابق 2 جولائی 2021 

بروز جمعہ شب 02:07

Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]