Article-148[ Regarding Arguments to be placed by respondent’s councils in ICA cases in IHC]

نوٹ : یہ طویل آڑٹیکل 148 نہایت ھی  اھمیت کا حامل ھے , خاص کر ان پی ٹی سی ایل  ملازمین اور ریٹائیڑڈ ملازمین کے لئے جو ٹی اینڈ ٹی میں گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 15 تک  کی پوسٹوں پر کام کرتے تھے - جو لوگ  طویل مضمون پڑھتے سے کتراتے ھیں ان سے میری درخواست کے وہ صرف اس کا آخری پیرا نمبر 2 ھی غور سے سمجھ کر پڑھلیں ۔ انکو نہ صرف ایک اچھی آگاھی بھی ھوگی بلکے  تسلی بھی ھو گی ۔ شکریہ

(طارق)


Article - 148


تجزیہ :۔ کیا پاکستان ٹیلگراف و ٹیلیفون ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے والے نون گزیٹڈ ملازمین (  گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 15 تک کے کام کرنے والے سرکاری ملازمین ) ، گورمنٹ کے سول سرونٹ کی کٹیگری میں نہیں آتے ھیں یا نہیں  ؟؟. . . .  24 جون 2021 کو انٹرا کوڑٹ اپیلوں کی سماعت کے دوران پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے وکیل انور شاھد باجواہ نے یہ ایک نیا ایشو کھڑا کردیا اور کہا کے  اسلئیے ایسے نون گزیٹڈ ملازمین  جو ورک مین تھے  وہ پہلے کارپوریشن  اور پھر کمپنی میں  ٹرانسفڑڈ ھو کر آئیے ھیں ، وہ گورمنٹ کی اعلان کردہ تنخواہ ، پنشن اور اس سے متعلقہ دیگر مراعات کے بلکل  حقدار نہیں ھیں . . .  اور بادئیانظر  میں  محترم جناب  جسٹس اطہر من اللہ  چیف جسٹس صاحب اسلام ھائی کوڑٹ  اسپر قائیل  ھوتے نظر آتے ھیں ؟؟؟؟؟؟؟؟


عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو 

اسلام وعلیکم 


 1. اس سے قبل میں نے اپنے اردو آڑٹیکل -147 میں ، 24 جون  2021 کو اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں چیف جسٹس کی عدالت کمرہ نمبر 1 میں ھونے والی پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کی طرف سے دائیر کردہ انٹرا کوڑٹ اپیلوں پر سماعت کے  بارے میں  ایک طویل مضمون لکھا تھا  میں نے اس مضمون کے آخر میں یہ تحریر کیا  تھا 

“اب اس دن ھونی والی کاروائی کا مکمل تجزئیہ اور اس پر تبصرہ آپکو اپنے اگلے آڑٹیکل 148 میں بتاؤں گا ۔ اور یہ بتاؤں گا کے چیف جسٹس صاحب آج کے ھونے والے  ریسپونڈنٹ کے وکیل کے دلائیل سے کیوں مطمئن نظر نھیں آرھے تھے ۔ انھوں نے یہ بات کیوں  کہی  کے Law کے زریعے یہ ثابت کرنا ، کے ٹی اینڈ میں ایسے ملازم کام کرنے والے جو ورک مین کی کٹیگری میں آتے تھے وہ ورک مین نہیں بلکے سول سرونٹ تھے ،  جس کو ثابت کرنا ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے مترادف ھوگا ۔اور اب اسکو   ریسپونڈنٹس کے وکلاء کیسے ثابت کریں گے ۔ اور کیا جواب  اسکی اگلی پیشی پر جمع کرائیں گے ؟۔ ایک بات تو صاف ظاھر  لگ رھی ھے کے محترم چیف جسٹس  صاحب سپریم کوڑٹ کے مسعود بھٹی کیسس اور چند ایسے ھی سپریم کوڑٹ کے دیگر کیسس کے حوالے سے یہ بات  ماننے  کے لئیے بلکل بھی تیار نھیں  نظر آتے تھے  کے چونکے سپریم کوڑٹ نے اپنے فیصلوں قرار دیا کے 

ٹی اینڈ ٹی میں کام کرنے والے سارے ملازمین ، ڈیپاڑٹمنٹل ایپملائیز کہلاتے تھے اور سپریم کوڑٹ نے انھی ٹرانسفڑڈ ڈیپاڑٹمنٹل ایمپلائیز کی بابت یہ کہا  کے کمپنی میں ان پر وھی سرکاری قوانین جو گورمنٹ کے جو سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت بنائیے گئیے ھیں ان کا ھی  اطلاق ھوگا کیونکے  یہ سب ٹی اینڈ ٹی میں سول سرونٹ ھی تھے اور جب یہ  کارپوریشن اور پھر  کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھوئیے  تو , پی ٹی سی ایکٹ 1991 کی شق (1)9 اور پی ٹی ایکٹ 1996 کی شق 35 اور 36 کے تحت انکو سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی تحت ان بنائیے گئیے قوانین  کا تحفظ حاصل تھا اور یہ  اسلئے آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت ھائی کوڑٹوں سے اپنے grievances دور کرانے کے لئے  ان سے رجوع کرنے کے مجاز تھے۔ پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے وکیل کا تو سب سے بڑا یہ ھی اعتراض تھا کے جب گریڈ 1 سے لے کر گریڈ 15 تک ملازمین کا ورک مین کے زمرے میں آنے کی وجہ سے وہ ٹی اینڈ ٹی میں سول سرونٹ تھے ھی نہی ، تو کسطرح  اور کیوں کر انھوں نے ھائی کوڑٹ سے رجوع کرکے  یہ گورمنٹ کی پنشن اور دیگر گورمنٹ کے الاؤنس حاصل  کر لئیے ۔ اسی بات پر تو چیف جسٹس صاحب نے مسکرا کر  ان سے کہا تھا تو آپ یہ بات مان گئیے جو ریسپونڈنٹس سول سرونٹس تھے ،  انکے حق میں دیا گیا ھو عدالت کا حکم صحیح ھے ۔ اس پر  وکیل شاھد انور باجوہ صاحب  خاموش رھے تھے ۔”

میں  اپنے آڑٹیکل 147  میں یہ بھی بتا چکا ھوں جب یہ ایشو وکیل شاھد باجواہ صاحب نے اٹھایا تو چیف  جسٹس صاحب نے کس رد عمل کا اظہار کیا تھا  میں نے لکھا تھا “ اس دن مجھے چیف جسٹس صاحب مجھے بلکل مختلف نظر آئیے اور وہ مجھے بادئیانظر میں   اپیلنٹ  کے وکیل شاھد انور باجواہ  کے زیادہ ھمدرد دکھائی دئیے  ،کیونکے 2 جون 2021 کی سماعت میں جب ایسی طرح کا اعتراض   وکیل شاھد انور باجواہ نےجب یہ اٹھایا تھا کے چونکے ٹی اینڈ ٹی سے ٹرانسفڑڈ ھوکر کارپوریشن کے ملازمین پی ٹی سی ایکٹ  1991 کی شق (1)9 کے تحت ٹرانسفڑڈ ھوکر آئیے تھے جس میں کہا گیا تھا ان کے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس وھی رھیں گے جو انکے ٹرانسفڑڈ  ھونے سے پہلے فورن پہلے تھے ، اسلئے یہ لوگ بعد میں کسی گورمنٹ کی تنخواہ اور پنشن میں اضافے کے  حقدار نہیں ھیں ۔ اس پر  اسوقت چیف صاجب نے انسے  یہ کہا تھا کے آپ نے آج تک یہ ایشو  کبھی بھی  کسی عدالت میں نہیں  اٹھایا  اور سپریم کوڑٹ میں مسعود بھٹی کیس کی ھئیرنگ کے دوران بھی ۔ اب تو ھم اسی کو فالو کریں گے جو کچھ  معزز سپریم کوڑ ٹ نے مسعود بھٹی کیس کے فیصلے میں کہا ھے۔ ھم اپنے فیصلے میں صرف آپ کا یہ اعتراض ضرور لکھ دیں گے [ میں یہ سب کچھ اپنے 4 جون 2021 کے آڑٹیکل 143 بتا چکا ھوں ] تو جب وکیل شاھد انور باجواہ صاحب نے چوہدری مشتاق حسن کے دلائیل دینے کے دوران ، درمیان  میں یہ  گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 15 تک کے ملازمین کا بوجہ ورک مین ھونے کے ، سول سرونٹ نہ ھونے کا ایشو  اٹھایا  تو چیف جسٹس کو اسکو فورن قانون کے مطابق  over ruled کردینا چاھئیے تھا ۔  مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا بلکے یہ کہا  عدالتیں فیصلے قانون کی تشریح کرکے ھی دیتی ھیں  نہ کے قانون عدالتی فیصلوں پر بنتے ھیں۔  انکا شائید یہ مقصد یہ تھا کے سپریم کوڑٹ نے اپنے مسعود  کیس میں تمام ٹرانسفڑڈ ملازمین  کے لئیے یہ کہنا کے پی ٹی سی ایل میں انپر  گورمنٹ کے سرکاری قوانین  یعنی statutory rules کا استعمال ھوگا  کیونکے یہ سب سول سرونٹ تھے ، صحیح نہیں تھا انکو کٹیگری وائز کے مطابق ھی ایسا حکم دینا چاھئیے تھا یعنی جو لوگ سول سرونٹ کی  کٹیگری میں نہیں آتے  اور ورک مین تھے ، تو  انکا پی ٹی سی اور بعد میں پی ٹی سی ایل میں آنے کے بعد گورمنٹ کے ان قوانین یعنی statutory rules کا اطلاق نہیں  ھونا چاھئیے تھا تو اسطرح انکو گورمنٹ کی تنخواہ اور پنشن نہیں ملنی چاھئیے تھی وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ سب کمپنی کی مرضی سے ھونا چاھئیے  ۔ دوسرے لفظوں میں انکا شائید یہ مطلب تھا جو نون گزیٹڈ ملازمین یعنی گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 15 تک کے ٹرانسفڑڈ ملازمین تھے وہ تو ورک مین تھے کیونکے انکی یونین ھوتی ھے اسلئیے وہ سول سرونٹ کے زمرے میں نہیں آتے انکا اسطرح کا گورمنٹ کی تنخواہ اور پنشن لینے کا حق نہیں رکھتے ۔ جب معزز چیف جسٹس صاحب  وہ بار بار چودھری مشتاق حسین  ایڈوکیٹ سے بار بار یہ سوال کررھے تھے کے آپ law میں سے یہ provision نکال کر کیسے ثابت کریں کے یہ اس کٹیگری کے لوگ سول سرونٹ تھے نا کے ورک مین ۔ انھوں نے یہاں تک کہا یہ قانون سے نکالنا اور ثابت کرنا ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے مترادف ھوگا ۔”تو یہ ثابت کرنے کے لئیے کے آیا ٹی اینڈ ٹی میں کام کرنے والے کے ایسے گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 15 تک کے ملازمین واقعی ورک مین کے اس زمرے میں آتے تھے یا نہیں ،  جسکی تعریف فیکٹری ایکٹ 1934  اور ورک مین کمپنسیشن ایکٹ 1923  میں کی گئی ھے،  اسکو ثابت کرنے سپریم کوڑٹ نے ان ملازمین  کے حق میں دئیے گئیے ان فیصلوں کے ریفرینس سے کام بلکل نہیں چلے گا ۔ یہ سب چیف جسٹس صاحب واضح کرچکے ھیں اور بقول انکے یہ ثابت کرنا کے ورک مین  سول سرونٹ تھے ، ایک ماؤنٹ سر کرنے کے کے مترادف ھوگا ۔ اس دن ریسپونڈنٹ کے وکیل چودھری مشتاق حسین  کے   دلائیل کے دینے دوران  ، جب اپیلنٹ کے وکیل یہ اعتراض اٹھایا تھا محترم چیف جسٹس صاحب نے  بجائیے ریسپونڈنٹ کے وکیل کے دلائیل سنتے انھوں نے اپیلنٹ کے وکیل انور شاھد باجواہ کے اس موقف بعد میں انھوں نے اس دن کی سماعت  ختم کردی اور تمام ریسپونڈنٹس کے وکلاء کو یہ حکم دیا تھا کے وہ اگلی پیشی یعنی 14 جولائی 2021 کو اسکا  جواب بنا کرائیں کے کیا ٹی اینڈ ٹی میں کام کرنے والے ایسے ملازمین کیسے سول سرونٹ کی کٹیگری میں آسکتے جب کے وہ قانون کے مطابق ورک میں کی کٹیگری میں آتے تھے ۔ اس سلسلے میں میری نظروں سے چودھری مشتاق حسین کا جواب گزرا ھے  جو انھوں نے عدالت میں جمع کردیا ھے ، جس میں انھوں وھی سپریم کوڑٹ مسعود بھٹی کیس ، راجہ ریاض کیس اور 12 جون 2015 کے کیسسز کا حوالہ دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ھے ۔ کے یہ سب نون گزیٹڈ ملازمین ٹی اینڈ ٹی سول سرونٹ تھے ۔ میں سمجھتا ھوں محترم چیف جسٹس صاحب اس جواب کو قبول نہیں کریں گے اور رد کردیں گے ۔ کیونکے انکے دماغ میں کچھ اور ھی ھے ۔ اور کہیں ایسا نہ ھو وہ اس کٹیگری کے ملازمین کے متعلق کوئی adverse آڑڈر پاس  نہ کردیں ۔ کیونکے بقول انکے یہ مسعلہ کبھی بھی کسی عدالت میں زیر بحث ھی نہیںُ آیا  چاھے کسی نے اٹھایا ھو یا نہ ھو اور انکے بقول عدالت قانون  کی تشریح کرکے ہی فیصلہ دیتی ھے عدالتوں کے آڈر سے کوئی قوانین نہیں بنتے .

   


 2. جیسا کے آپ جانتےھیں کے 24 جون 2021  عدالت میں ، پی ٹی سی ایل کے وکیل شاھد انور باجواہ کے اس انکشاف کے بعد کے  ٹی اینڈ ٹی میں کام کرنے والے نون گزیٹڈ ملازمین یعنی گریڈ 1 سے لے کر گریڈ 15 تک کے ملازمین ورک مین تھے  اور انکی یونین بھی ھوتی ھے اسلئیے وہ سول سرونٹ کی کٹیگری میں نھیں آتے ۔ اور پھر اس معزز چیف جسٹس صاحب کا بادئیانظر میں  اس پر راضی  ھونا، ایک بہت ھی قابل افسوسناک بات ھے اب ایسے کٹیگری کے ملازمین  ریسپونڈنٹس کے  وکلاء کو قانون کے زریعے یہ  ثابت کرنا ھوگا کے یہ سب ایسے ملازمین سول سرونٹ ھی تھے نہ کے ورک مین   ۔ اس سلسلے میں محترم چیف جسٹس صاحب نے اگلی پیشی یعنی 14 جولائی 2021 کو ریسپونڈنٹس کے وکلاء سے اسکا جواب مانگا ھے ۔ میں سمجھتا ھوں کے اگر ان وکلاء نے اسکا جواب دینے کے لئیے معزز سپریم کوٹ کے مسعود بھٹی کیس میں اور دیگر کیسوں  میں ایسے ٹی اینڈ ٹی میں کام کرنے والے تمام گریڈ کے ایسے پی ٹی سی ایل کے ملازمین اور ریٹائیڑڈ ملازمین حق میں آنے والے فیصلوں کے ریفرنسس دے کر یہ گتھی سلجھانے کی کوشش کی ، تو محترم چیف جسٹس کبھی بھی نہیں مانیں گے ۔ انکے تیور تو ھم سب نے ھی دیکھ ھی لئیے تھے کے وہ کسطرح  اپیلنٹ کے وکیل شاھد انور باجوہ سے قائیل ھوتے نظر آرھے تھے۔ اور ریسپونڈنٹ کے کچھ وکلاء نے  نے کتنی بار ان سے درخواست کی تھی کے آپ اسکا جواب دینا چاھتے ھیں مگر ھر مرتبہ آپ کو چیف جسٹس صاحب نے منع کردیا. میں سمجھتا ھوں اب ایسے ریسپونڈنٹ کے وکلاء اسکا  جو جواب تیار کریں تو انکو اپنے اس جواب میں معزز سپریم کوڑٹ کے پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفڑڈ ھوکر آئیے ھوئیے ان ملازمین اور ریٹائیڑڈ ملازمین  کے حق میں آئیے ھوئے مسعود بھٹی کیس اور دیگر اسی طرح  کیسس کے ریفرنسس دینے کی ضرورت نہیں ھے ۔ کیونکے  وہ عدالت شائید قبول نہ کرے اگرچہ معزز سپریم کوڑٹ  نے ان کیسوں کے فیصلے صاف طور پر واضح کردیا تھا کہ ٹی اینڈ ٹی  ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے والے سارے ریگولر ملازمین سول سرونٹ  ھی تھے کیونکے یہ سب گورمنٹ کے ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرتے تھےاور جب یہ سب کاپوریشن اور پھر کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھونے کے بعد یہ سب  ، با الفاظ  سول سرونٹ تو نہیں کہلائیے جاسکتے ھیں  مگر کمپنی  پی ٹی سی  ایل میں انپر  سول سرونٹ ایکٹ 1973  کے  تحت  گورمنٹ کے  سرکاری قوانین کا ھی نفاظ ھو گا یعنی وہ سرکاری قوانین جو سول ایکٹ 1973 کے تحت بنائیے ھیں۔ اور  انکو ھائی کوڑٹوں سے اپنےgrivences دور کرانے کے لئیے ، آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت رجوع کرنے کا بھی اختیار  بھی اسی طرح حاصل ھوگا ۔   جیسا کے گورمنٹ سول سرونٹ  کو ھوتا ھے یاد رھے معزز سپریم کوڑٹ نے انکی رویو پٹیشن خارج کرنے والے , 19 فروری 2016  میں  بات بلکل صحیح طریقے سے واضح کردی تھی  ۔ مگر  چیف جسٹس صاحب کو سمجھانے کے لئیے آپکو کوئی اور نئیے دلائیل دینے پڑیں گے جس سے وہ راضی ھوجائیں ۔ کیونکے وہ فرما  چکے ھیں کے یہ ثابت کرنا کے یہ ورک مین نھیں سول سرونٹ تھے ، ماؤنٹ ایورسٹ پہاڑ سر کرنے کے موافق ھوگا - اگر یہ ثابت نہ کیا جاسکے تو  ایسا نہ ھو وہ ان چھوٹے ملازمین کے خلاف کوئی اور ھی منفی آڑڈر نہ پاس کردیں جس سے یہ معاملہ مزید الجھ جائیے ۔

اپیلنٹ کے وکیل شاھد انور باجواہ  کہنا تھا کے  ٹی   اینڈ میں کام کرنے والے یہ چھوٹے ملازمین  یعنی گریڈ  1 سے لیکر گریڈ 15 تک والے  جنکی یونین بھی ھوتی ھے وہ ، سول سرونٹ ایکٹ  1973 کی شق (iii) (b) 2  کے تحت سول سرونٹ نہیں ھو سکتے اس شق میں کہا گیا ھے  گورمنٹ ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے وہ شخض  سول سرونٹ نہیں ھوسکتا  جو فیکٹریز ایکٹ ، (1934 کا XXV) ، یا ورک مین معاوضہ ایکٹ ، 1923 (1923 کا VIII) میں بیان کردہ "کارکن" یا "مزدور" ھو: 

تو  اب پہلے  ھمیں فیکٹریز ایکٹ ، (1934 کا XXV) ، یا ورک مین معاوضہ ایکٹ ، 1923 (1923 کا VIII)   کا بڑی باریک بینی  سے جائیزہ لینا ھوگا جب ھی ھم کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ھیں ۔ تو پہلے  یہ دیکھنا ھوگا ان مزکورہ ایکٹ میں  ورک مین یا ورکر کی کیا تعریف کی گئی ھے  اور اس تعریف کے حامل ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے والے اشخاض کون  تھے  ۔ فیکٹریز ایکٹ ، (1934 کا XXV)   کا تو فیکٹریز کے ملازمین کے لئیے تھا اسمیں کہیں بھی پوسٹ اینڈ ٹیلیگراف محکمہ کا زکر نہیں آیا   اور صرف انھی ملازمین کا تفصیل سے زکر ھے جو فیکٹریز وغیرہ میں  کام کرتے ھیں ۔ مگر ورک مین کمپنسیشن ایکٹ ، 1923 (1923 کا VIII)  میں اسکا زکر ھے ورک مین کی ایک تعریف کرکے  یہ بتایا گیا  ھے، کے ایسے افراد جو پوسٹ اینڈ ٹیلیگراف محکمہ  کے بیرونی شعبے میں کام کرتے ھوں ، تاکے کام کے دوران  اگر انکی موت واقع ھوجائیے  یا وہ زخمی ھوجاتے ھیں یا وہ اپنے کسی اعضا سے محروم ھو جاتے ھیں تو انکو کو یا ان پر انحصار کرنے ( dependents)  کو معاوضہ دیا جاسکے ۔ میں اس مزکورہ ورک مین کمپنسیشن ایکٹ 1923 کا مزکورہ  حصہ مندرجہ زیل ھے تاکے یہ پہلے معلوم ھوسکے اس ایکٹ میں دی گئی تعریف کے تحت ورک مین کون ھوسکتے ھیں 

2. Definition.– (1) In this Act, unless there is anything repugnant in the subject or context,–

           (a)   “adult” and “minor” mean respectively a person who is not and a person who is under the age of fifteen years;

           (b)   “Commissioner” means a Commissioner for Workmen’s Compensation appointed under Section 20;

           (c)   “compensation” means compensation as provided for by this Act;


           👎   “workman” means any person (other than a person whose employment is of a casual nature and who is employed otherwise than for the purposes of the employer’s trade or business) who is–

                   (i)   a railway servant as defined in section 3 of the Railways Act, 1890[17], not permanently employed in any administrative, district or sub-divisional office of railway and not employed in any such capacity as is specified in Schedule II, or

                  (ii)   employed [18][* * *] [19][* * *] in any such capacity as is specified in Schedule II

یہ دیکھیں ورک میں کی تعریف جس شق نمبر (n)2  میں کی گئی ھے اسکی سب شق (ii) وہ اشخاض جو اس جگہ ملازمت کرتے ھوں جو شیڈول 2 میں بیان کئیے گئیے ھیں ۔ اس شیڈول 2 کا بھی وہ مندرجہ زیل ھے جس میں پوسٹل اینڈ ٹیلیگراف محکمہ کا زکر ھے


SCHEDULE II

[See section 2(1)(n)]

LIST OF PERSONS WHO, SUBJECT TO THE PROVISIONS OF SECTION 2(1)(N), ARE INCLUDED IN THE DEFINITION OF WORKMEN

      The following persons are workmen within the meaning of section 2 (1) 👎 and subject to the provisions of that section, that is to say, any person who is:-


    (ix)  employed in setting up, repairing, maintaining, or taking down any telegraph or telephone line or post or any overhead electric line or cable or post or standard for the same; or

         (x)  employed, [189][* * *] in the construction, working, repair or demolition of any aerial ropeway, canal pipeline, or sewer; or

        (xi)  employed in the service of any fire-brigade; or

       (xii)  employed upon railway as defined in clause (4) of section 3, and sub-section (1) of section 148 of the Railways Act, 1890[190], either directly or through a sub-contractor, by a person fulfilling a contract with the railway administration; or

      (xiii)  employed as an inspector, mail guard, sorter or van peon in the Railway Mail Service, or employed in any occupation ordinarily involving outdoor work in the [191][* * *] Posts and Telegraphs Department; or

اس شیڈول ۲ کے سیریل کہ سیریل (ix)  لکھا گیا ھے وہ اشخاض جنکو ملازم رکھا گیا ھو  کسی بھی ٹیلی گراف یا ٹیلیفون لائن یا پوسٹ یا کسی بھی اور ہیڈ الیکٹرک لائن یا کیبل یا پوسٹ یا معیار کو قائم کرنے ، مرمت کرنے ، برقرار رکھنے یا نیچے اتارنے والے کاموں کے لئیے - تو اسکے تحت تو ٹی اینڈ ڈیپاڑٹمنٹ میں ایسے کاموں کے لئیے رکھے ھوئیے وہ ملازم آتے ھیں جنکو ڈیلی ویجز مسٹر رول پر رکھا گیا ھوں یا کسی کنٹریکٹ ایسے کاموں کے لئیے عارضی طور پر رکھا گیا ھو ۔ اور شیڈول 2 کے  سیریل (xiii)  میں کہا گیا ریلوے میل سروس میں انسپکٹر ، میل گارڈ ، سارٹر یا وین گاڑی میں چپراسی  کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی ھو، یا [191] [* * *] پوسٹ  اور ٹیلی گراف محکمہ میں عام طور پر بیرونی کام میں ملوث کسی بھی پیشے میں ملازم۔ 

 شیڈول 2 کے سیریل (xiii)  کہا گیا ھے پوسٹ اینڈ ٹیلی گراف کے ریگولر ملازمین جو اسکے بیرونی کام کرتے ھوں ۔ اسکا مطلب ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ میں باھر کے کاموں کے لئیے رکھے ھوئیے ملازمین جیسے ، لائین مین ، ٹیکنشینز ، وائیر مین جنکا  صرف باھر یعنی آؤٹ سائیڈ پلانٹ پر کام کرنے سے تعلق ھو اور کیبل جائنٹرز وغیرہ غیرہ سب شامل ھیں ۔ 

شیڈول 2 کے سیریل (xiii)  میں پوسٹ اینڈ ٹیلی گراف محکمہ کا زکر ھے نہ کہ پاکستان پوسٹل اینڈ ٹیلیگراف ڈیپاڑٹمنٹ  (جسکو شاڑٹ میں  ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ  بولتے ھیں)  ۔ تو اسکے متعلق بھی عرض کردوں کہ  یہ پوسٹ اینڈ ٹیلیگراف کا گورمنٹ محکمہ ، 1898 میں  متحدہ ھندوستان میں انگریزوں کے زمانے میں بنایا گیا تھا اسوقت کے  پوسٹل سروس والا محکمہ  ٹیلیگراف سروس والا محکمہ شامل کرکے ایک محکمہ یعنی انڈین  پوسٹ اینڈ ٹیلیگراف کا گورمنٹ محکمہ بنادیا گیا تھا   [اس محکمے کے اپنے ھی الگ سے قوانین دونوں طرح ایڈمنسٹریشن  ، فائیننس اور ریوینیو کے بارے  میں جو  پر مشتمل ھیں جنکو P& T Volumes اور ICA Volumes کہتے ھیں ہ نمبرنگ کے حساب سے ھیں جیسے P&T Volume 1, 2 3 . . . 10 اور اسی طرح ICA Volumes ھوتے ھیں]  بعد  میں پاڑٹیشن کے بعد اس محکمہ کا جو حصہ گورمنٹ آف پاکستان کے انڈر آیا اسکو پاکستان پوسٹل اینڈ ٹیلیگراف ڈیپاڑٹمنٹ کا کہا جاتا تھا اس میں پوسٹل سروس اور ٹیلیگراف  سروس والے دونوں ڈیپاڑٹمنٹ شاملُ تھے ۔ 1964 اس کو  دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا  ٹیلیگراف  سروس والا ڈیپاڑٹمنٹ  الگ نکال  دیا گیا اسمیں ٹیلی فون سروس دینا   والے محکمہ کو جمع  کرکے پاکستان ٹیلی گراف اینڈ ٹیلیفون ڈیپاڑٹمنٹ کے نام  سے ایک نیا گورمنٹ  ڈیپاڑٹمنٹ بنادیا گیا ۔ جس  میں کام کرنے والے والے  گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 15 ملازمین کو  جو سول سرونٹ کے زمرے میں آتے ھیں ، انکو اپیلنٹ کے وکیل شاھد انور باجواہ صاحب  ورک مین قرار دے کر سول سرونٹ کی کٹیگری سے خارج کررھے ھیں جبکے ورک مین کمپنسیشن  ایکٹ 1923 میں صرف میں پوسٹ اینڈ ٹیلیگراف کے  وہ پیشہ ور ملازمین جو بیرونی کاموں کے لئیے ھیں وھی اس زمرے میں آتے ھیں تاکے انکو کام کرنے کے دوران کسی ناگہانی وجہ سے موت یا زخمی یا اعضا کو نقصان پہنچنے کی صورت میں اسکو یا اسکے لواحقین کو معاوضہ دیا جاسکے -

یہ ثابت کرنے کرنے کے لئیے ٹی اینڈ میں  کام کرنے والے سارے ریگولر ملازمین سول سرونٹ کی کٹیگری  میں آتے تھے اور معاوضہ دینے کا یہ قانون یعنی  ورک مین کمپنسیشن ایکٹ 1923  ، معاوضہ دینے کے لئیے صرف ایسے  ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین کے لئیے تھا جو فیلڈ میں یعنی آؤٹ سائیڈ پلانٹ پر کام کرتے تھے ۔ اس سلسلے میں ،   ڈائیریکٹر جنرل ٹی ایڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ  کی   طرف سے 10 دسمبر 1988  کو اسٹیبلیشمنٹ ڈویژن گورمنٹ آف پاکستان راولپنڈی  کو بھیجے ھوئیے اس یو او نوٹ کی طرف کرانا چاھتا ھوں  جسمیں انھوں نے یہ سوال اٹھایا تھا آؤٹ ڈور کام  کرنے والے ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین جسمیں چھوٹے گریڈ کے  لائین مین ،  ٹیکنیشین  ، وائیرمین وغیرہ ھوتے ھیں اور جو  سول سرونٹ کے زمرے میں بوجہ گورمنٹ ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے کے آتے ھیں تو کیا یہ سول سرونٹ کام کے دوران  زخمی ، اعضا کو نقصان اور موت کی صورت   میں اس ورک مین ایکٹ 1923 کے تحت معاوضہ  کے حقدار ھوتے ھیں یا نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن گورمنٹ آف پاکستان راولپنڈی نے اپنے  یکم جنوری 1989  کے اس یو او نوٹ  یعنی 

U.O No 3/2/78-R, 2 Dated 1-1-1989

کے زریعے  ڈائیریکٹر جنرل ٹی ایڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ  کو انکے اس لیٹر کا جواب دیا تھا جسکا عنوان  تھا

“Clarification  Civil Servant Act 1973 , Factories Act 134 and Workmen Compensation Act 1923   

 [ڈائیریکٹر جنرل ٹی ایڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ  اپنے اس مزکورہ یو او نوٹ میں   وضاحت مانگی تھی  کہ جن  ملازمین کٹیگری ملازمین کا  انھوں   نے مزکورہ  یو او نوٹ  میں زکر کیا ھے  آیا وہ ورک مین 

Workmen Compensation Act 1923  

میں دئیے گئیے قوانین کے کام کے دوران موت یا زخمی ھونے کی صورت معاوضے کے حقدار ھوسکتے ھیں یا نہیں کیونکے یہ سب تو سول سرونٹ ھوتے ھیں - اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے اپنے اس جواب میں لکھا تھا ۔

 “کہ جن  ملازمین کی کٹیگری ملازمین کا  انھوں مزکورہ یو او نوٹ  میں زکر کیا ھے  اسلئیے یہ سول سرونٹ ایکٹ  1973 کی شق ( iii)(b)2  کی رو سے سول سرونٹ نہیں ھوسکتے، اسلئیے وہ سول سرونٹ ایکٹ 1973  کے تحت بنائیے ھوئیے قوانین  جیسے سول سرونٹ ( ای اینڈ ڈی) رولز 1973  بھی شامل ھے ، اسکے  دائرہ کار ( jurisdiction) سے باھر ھوجاتے ھیں ۔ اگرچہ  اس کٹیگری کے ملازمین سول سرونٹ نہیں  ھوتے جسکا زکر کیا گیا ھے لیکن انکو سرکاری ملازم قرار دیا جاسکتا ھے کیونکے یہ گورمنٹ  ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کر رھے ھوتے ھیں ۔  اور  سرکاری ملازمین کے ناطے یہ سرکاری قوانین کے تحت ھی کام کرسکتے ھیں جیسے  گورنمنٹ سروس رولز 1960 وغیرہ ،  میں کہا گیا ھے جو عام طور پر دوسرے ایسے سرکاری ملازمین  پر لاگو ہوتے ہیں۔ اپنی فیلڈ ڈیوٹیز کی دوران   آؤٹ ڈور کام کرتے ھوئیے ،  موت ، اعضاء کو نقصان  یا زخمی ھونے کی صورت میں  یہ صرف کمپنسیشن  ورک مین کمپنسیشن ایکٹ  لینے کے حقدار ھیں “

یہاں یہ بتانا بیحد ضروری ھے کے  جی ایم سی ٹی  آر لاھور نے یہ سوال کیوں اٹھائیے تھے؟ ۔  ھوا یوں جب ایک ٹیلیگراف ڈویژن کے آؤٹ سائیڈ پلانٹ پر کام کرنے والے  ایک سابقہ انجینئرنگ سپروائزر عبدل قیوم نواز بلوچ  کے دوران ڈیوٹی  کسی حادثے کی وجہ سے انتقال ھو گیا  تو اسکو  اس کے لواحقین کو،   کمپنسیشن ایکٹ  1923  کے تحت بطور   متوفی کے ورک مین  ھونے کے ناطے 15000 روپے  کا معاوضہ   دے دیا گیا لیکن پنشنُ نہیں دی گئی  وہ اسلئیے کے  وہ ورک مین تھا اسلئیے وہ  گورمنٹ کے سول سرونٹ کی کٹیگری  کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا اور پنشن صرف گورمنٹ سرونٹ  یا اسکے ان لواحقین کو دی جاتی جو اسکے dependents ھوتے ھیں ۔  تو   متوفی سپروائزر عبدل قیوم نواز بلوچ    کے ایسے dependents کو پنشین دینے کے لئیے فائیننس ڈویژن گورمنٹ آف پاکستان سے منظوری لی گئی  اور فائننس ڈویژن گورمنٹ آف پاکستان نے اسکو پنشن دینے کی منظوری دے دی  اور  یہ جواز دیا کے  سول سرونٹ ایکٹ  1973 کی شق 19 [ سول سرونٹ کو ریٹائیرمنٹ پر پنشن دینے کی] (iii)(b)2 کے دائرہ کار میں آئیے  ھو   

 تو  اس پر یہ سوال اٹھ گیا کے جو اسطرح کے دوسری کٹیگری کے ملازمین جو آؤٹ ڈورکام کرتے ھیں جیسے وائیرمین، لائین مین اور  ٹیلیکام ٹیکنیشین  وغیرہ وغیرہ ، جن پرورک مین کمپنسیشن ایکٹ 1923 کا اطلاق ھوتا ھے تو کیا ان پر بھی سول سرونٹ ایکٹ1973 کا اس ایکٹ یعنی   ورک مین کمپنسیشن ایکٹ 1923 ساتھ بساتھ اطلاق ھوسکتاھے یا نہیں  ۔ یہ ھی کلئیریفیکیشن اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے ڈی جی ٹی اینڈ ٹی نےمانگی تھی اور اس کے ناطے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن  گورمنٹ آف پاکستان  راولپنڈی کوایک  لیٹر ، اسوقت کےُ ڈائیریکٹراسٹیبلشمنٹ  ) جناب  رحیم قادر کے دستخطوں  اسعنوان   سے جاری کیا گیا  تھا ، جسکا زکر اوپر کرچکا ھوں    اور جسکا جواب  اسٹیبلشمنٹ ڈویژن  گورمنٹ آف پاکستان  راولپنڈی  نے affirmative میں  دیا جو اوپربیان کیا جا چکا ہے 


یہ سمجھنے  کے لئیے  کے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن  گورمنٹ آف پاکستان  راولپنڈی  ایساaffirmative جواب کیوں آیا  اس  مزکورہ لیٹر کے  مشمولات( contents ) کو جاننا  اورسمجھنا بیحد ضروری ھے   

اس مزکورہ لیٹر کے پیرا 2  میں صاف طور لکھا گیا “ کے ایک سوال یہ پیدا ھورھا ھےکے سول سرونٹ ایکٹ 1973 جو اوپر دی گئی کٹیگری کے ملازمین پر نافظ ھے تو کیااسکے ساتھ انپر ورک مین کمپنسیشن ایکٹ 1923 کا  بھی اطلاق  ھو سکتا یا  نہیں ۔پھر اسی لیٹر کے پیرا 3 میں  پہلے سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی شق  (iii)(b)2  کاریفرنس دے کر یہ لکھا “ کے  ٹیلی گراف اینڈ ٹیلی فون  ڈیپاڑٹمنٹ اییمپلائز کا بڑاسٹیٹس سول سرونٹ کا ھے اور  ورک مین کمپنسیشن ایکٹ 1923  کا دائیرہ اختیارصرف  ٹیلی گراف اینڈ ٹیلی فون  ڈیپاڑٹمنٹ کے ان سٹاف تک بڑھا دیا گیا ھے  جو آؤٹڈور ڈیوٹیاں انجام دے رھے ھیں جو دوران  ڈیوٹی کسی بھی حادثے کا شکار ھوسکتےھیں ۔ ورکر کمپنسیشن ایکٹ 1923 کے تحت انکو موت یا زخمی ھونے ھونے کی صورتمیں انکو معاوضہ دیا جاتا ھے۔ جبکے سول سرونٹ ھوتے کے ناتے وہ  سروس  انھیبینفٹس لینے کے حقدار ھیں  وہ جو   E&D rules میں آتے ھیں اور پھر اس لیٹر کےآخری پیرے میں لکھا “ کے یہ بیحد ضروری کے  اوپر بیان  کئے گئیے فائینس ڈویژن کیمنظوری  کے  contention  پر غور کیا جائیے اسلئیے  اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے  درخواست کی جاتی ھے کے  وہ  ان بڑی تعدا میں ایسے  ملازمین  کے مفاد  میں  انکی  ایمپلائیمنٹ کے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کو مد نظر رکھتےھوئیے  اس پوزیشن کوکلئیریفائی کرے۔

[نوٹ :-ڈائیریکٹر جنرل پاکستان ٹیلی گراف اینڈ ٹیلی فون  ڈیپاڑٹمنٹ کے آفس نےاسٹیبلشمنٹ ڈویژن گورمنٹ آف پاکستان راولپنڈی کا  یہ جواب  آفس لیٹر نمبر E(I).4-2/88 Dated 30-1-1989 کے  تحت جی ایم سی ٹی آر ریجن  لاھور کو بھیج دیا کیونکےانکی طرف سے یہ سوالات  انھی کی جانب سے اٹھائیے گئیے تھے اور بعد میں جی ایم  ایس ٹی آر کو جاری کردہ اس  لیٹر  کی کاپی  اور  دیگر ٹیلیکام ریجنوں  کو  اسوقت کےاسسٹنٹ  ڈائریکٹرایسٹیبلشمنٹ ) ٹی اینڈ ٹی عبدل لطیف نے اپنے   دستخطوں سےendorsedکردی تھیں  ۔ یہ کاپی نیچے پیسٹ کردی ھے جسکے contents  پیلے رنگ سےھائی لائیٹ کئیے ہیں  

ڈائیریکٹر جنرل پاکستان ٹیلیگراف اینڈ ٹیلیفون ڈیپاڑٹمنٹ کے اس ، اسٹیبلشمنٹ ڈویژنگورمنٹ آف پاکستان کو بھیجے ھوئیے لیٹر سے ایک بات تو واضح ھوگئی کے ٹی اینڈ  ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے والے  تقریبن سارے ریگولر ملازمین سول سرونٹ ھی تھے  اورجو آؤٹ ڈور فیلڈ میں کرتے تھے وہ ورکر کٹیگری میں  اس وجہ سے آتے تھے جیسا ورککمپنسیشن ایکٹ  1923   میں اسکے سیکشن (1)(n)2 میں کہا گیا ھے تو اسٹیبلشمنٹڈویژن  کی کلئریفئکیشن سے یہ بات ثابت ھوگئی  ھے کے سول سرونٹ ایکٹ  1973 کااطلاق   ان  کٹیگریز کے ملازمین پر  بھی   ساتھ بساتھ ھوگا جو ورک کمپنسیکشینایکٹ 1923 کے زیر اثر آتے ھیں ۔  تو اس سے یہ بات ثابت ھوتی ھے صرف    ٹی اینڈٹی ڈیپاڑٹمنٹ کے  وہ ملازمین جو اسکے  آؤٹ ڈور فیلڈ میں کام کرتے تھے جیسے آؤٹسائیڈ پلانٹ بولتے ھیں وھی لوگ ورکر  یا ورکر کی اس کٹیگری میں آتے تھے  جسکازکر  کمپنسیکشین ایکٹ 1923 میں کیا گیا ہے اس لحاظ وہ سول سرونٹ ایکٹ کی شق(iii)(b) 2 تحت سول سرونٹ کی کٹیگری سے خارج ھو جاتے ھیں مگر چونکے یہ لوگگورمنٹ ڈیپاڑٹمنٹ کے ملازم تھے اسلئے ان پر سول سرونٹ ایکٹ  1973 کا اطلاق   ،کمپنسیکشین ایکٹ 1923 کے ساتھ ساتھ ھونا ایک لازمی جز تھا ۔ اور اسی کواسٹیبلشمنٹ ڈویژن آف پاکستان نے کلئیر کیا تھا ۔  اسکا مطلب  اب یہ ھی نکلتا ھے کےٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ میں سارے کام کرنے والوں پر چونکے سول سرونٹ ایکٹ 1973 کااطلاق ھوتا تھا اسلئی یہ سب ھی سول سرونٹ کے ھی کٹیگری میں آتے تھے اور نہکسی دوسری کٹیگری میں جیسے  اپیلنٹ کے وکیل انور شاھد باجواہ نے اس دن عدالتکو بتایا تھا کے تین کٹیگری کے لوگ ٹرانسفڑڈ ھو کر کارپوریشن گئیے تھے جس میںسے گریڈ 1 سے لے کر گریڈ 15 تک کے کام کرنے ملازم  سول سرونٹ کی کٹیگری میںنہیں آتے تھے۔ 

تو میں سمجھتا ھوں کے اگر ریسپونڈنٹ کے وکلاء، ڈائیریکٹر جنرل  سابقہ پاکستانٹیلی گراف و ٹیلیفون ڈیپاڑٹمنٹ  کے مزکورہ لیٹر اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن  اور فائیننسڈویژن گورمنٹ آف پاکستان کی طرف سے دئیے گئیے  مثبت جوابات کو ھی اپنی بحثمیں  فوکس رکھیں تو  قوی امید ھے کے وہ  عدالت  سے بہت ھی اچھے نتائج حاصلکرسکتے ھیں -

انشااللہ 

واسلام 

 محمد طارق اظہر

 ریٹائیڑڈ جنرل منیجر  ( آپس) پی ٹی سی ایل

تکمیل مضمون :  جمعہ بتاریخ 9 جولائی 2021 

شب 2 بجکر پانچ منٹ پر


ڈیکومنٹس دیکھنے کے لئی یہاں کلک کریں


https://www.facebook.com/1218137701/posts/10227393510602975/


Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]