Article-150[ Regarding update of today hearing of ICA cases in IHC]
Article-150
کے خوشی سے مر نا جاتے اگر اعتبار ھوتا؟؟؟
عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو
اسلام وعلیکم
آج مورخہ 14 جولائی 2021 بروز بدھ ، اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کی ، پی ٹی سی ایل پنشنرس کے حق میں آئیے ۳مارچ ۲۰۲۰ کی سنگل بینچ اسلام آباد ھائی کوڑٹ فیصلے کے خلاف دائیر کردہ انٹرا کوڑٹ اپیلوں کی شنوائی تھی ، جسکی اپڈیٹ آپ لوگوں کے وھیں عدالت سے ھی دے چکا ھوں کے وہ adjourned کردی گئی ھے اور اب 27 جولائی 2021 کو انکی شنوائی ھوگی ۔ میں سمجھتا ھوں اب یہ کیسیز اسی طرح کسی نہ کسی بہانے لنگر آن ھوتے ھی رھیں گے اور شائید کوئی معجزہ ھی ھو گا جو یہ کیسسز اس سال کے دوران اپنے پائیے انجام تک پہنچیں ۔ کم ازکم میں تو اب یہ ھی سمجھنے لگا ھوں ۔ مجھ کو محترم چیف جسٹس صاحب اور پی ٹی سی ایل کے وکیل شاھد انور باجواہ صاحب ایک ھی پیج پر بادئیانظر میں دکھائی دیتے ھیں ۔ وہ یہ سمجھتے ھیں کے ان کیسسز میں پی ٹی سی ایل پنشنرس کا ھی پلڑا بھاری ھے اس لئیے اسپر کوئی فیصلہ نہ ھی دیا جائیے تو اچھا ھے اور مختلف حیلے بہانے سے یہ لنگر آن پہ لنگر آن ھوتے رھیں ۔
آج میں تو اپنے وقت پر 12 بجے دوپہر سے پہلے ھی کمرہ عدالت نمبر ون پہنچ گیا تھا اور ایک بجے کے قریب معزز ججز حضرات تشریف لائیے اور کیسس کی کاروئی شروع ھوئی ۔ ھمارے کیس کا نمبر دوسرا تھا ۔ لیکن اس سے پہلے جو کیس لگا وہ شائید پہت ھی اھم تھا کچھ اس پر بحث ھورھی تھی کے صدر پاکستان کو آڑڈیننس کن حالات میں نکالنے چاھئیے ، آئین کے آڑٹیکل 89 کے مطابق ۔ جو وکیل صاحب اس پر بحث کررھے تھے ان کی آواز پوری عدالت میں گونج تھی تھی ۔ انکے دلائیل ابھی جاری ھی تھے ، کے چیف صاحب کچھ دیر کو انکو روک کر اعلان کیا کے پی ٹی سی ایل کے کیسسز کی شنوائی آج نہیں ھوگی اور اب 27 جولائی 2021 کو ھوگی اور دوسرے کیسس والے رکے رھیں ، اور جناب پی ٹی سی ایل ریسپونڈنٹ کے وکلاء جو 15 کی تعداد میں تھے ، یہ اعلان سن کر بڑی ھی خندہ پیشانی سے اسے قبول کرتے ھوئیے کمرہ عدالت سے سر جھکائیں نکل گئیے ۔ کسی وکیل کی یہ ھمت نہیں ھوسکی کے کم ازکم وہ چیف جسٹس صاحب سے یہ ھی شکوہ کردیتا کے “ عزت مآب سر یہ آپ کیا ظلم کر رھے ھیں یہ بیچارے پنشنرس کتنی آس لگائیے کب سے بیٹھے ھیں کے آپ ان کیسسز پر جلد فیصلہ کریں گے جیسے آپ نے پہلی ھئیرنگ کے دوران وعدہ کیا تھا اور پی ٹی سی ایل کے وکلاء کو یہ جواب دیا تھا کے ھم جو فیصلہ کریں گے وہ معزز سپریم کوڑٹ کے مسعود بھٹی کیس میں دئیے گئیے فیصلے کی بنیاد پر ھی کریں گے” مگر کسی کی کوئی بھی ھمت بولنے کی نہیں ھوئی ۔ مجھے ان وکیلوں یہ رویہ دیکھ کر ، آج سے 34 سال پہلے سندھ ھائی کوڑٹ میں ٹی اینڈ ٹی کی طرف سے کئیے گئیے وکیل صاحب کی وہ گھن گھرج یاد آگئی ، جب انھوں نے سندھ ھائی کوڑٹ دو رکنی بینچ کو سنائی تھی کے جب معزز عدالت کے دو رکنی بینچ نے ٹی اینڈ ٹی کے اس اھم کیس کو ملتوی کرنے کا اعلان کیا تھا (ان وکیل صاحب کا نام میرے زھین میں نہیں آرھا ) مگر وہ اتنے نامی گرامی وکیل بھی نھیں تھے ۔ ان کی گورمنٹ کی مقرر کردہ فیس صرف تین سو روپے ھی تھی ۔ مگر انکی گھن گرج اور کیس کی نوعیت دیکھکر اس دو رکنی بینچ نے وہ کیس اسی دن سنا اور فورن ھی فیڈرل گورمنٹ کے ٹی اینڈ کے حق میں کے ایم سی کے خلاف حکم امتناعی جاری کیا.
کیس یہ تھا کے 1988 میں الیکشن کے بعد کی بات ھے ۔ میں ان دنوں کنٹرولر ٹیلیگراف سٹور کراچی تعینات تھا اور ریٹائیڑڈ کرنل عظمت صاحب ھمارے ڈائیریکٹر سٹور تھے ۔ نہایت ھی دبنگ او اصول پسند ڈائیریکٹر تھے ۔
ستار فاروق صاحب مئیر کراچی بنے تو انھوں نے اپنے نادر شاھی حکم سے ٹی اینڈ ٹی فیڈرل گورمنٹ ڈیپاڑٹمنٹ کے امپوڑٹڈ سامان پر ٹیکس لگادیا اور چنگی بھی ، جبکے قانون میں اسکی ممانعت تھی ۔ جو ٹی اینڈ ٹی کا سامان بھی گورمنٹ کا سامان باھر سے امپوڑٹ ھوکر آتا اور ملک کے مختلف شہروں میں جاتا اسپر چنگی یا اور کسی بھی قسم کے ٹییکس لینے کی صوبوں کو ممانعت تھی ۔ تو موصوف مئیر کراچی نے ٹی اینڈ ٹی کے سامانوں پر جو ٹیکس لینے کا حکم دیا اور یہ جواز پیش کیا کے یہ تو کمرشل ڈیپاڑٹمنٹ ھے اسلئیے انسے ٹیکس لینا جائیز ھے ۔ ھمارے ڈائیریکٹر سٹور نے انکو خط لکھا کے یہ آپ کا غلط حکم ھے اسکو واپس لیں ۔ مگر مئیر ستار فاروق نے کوئی جواب نہیں دیا پھر میں اور ڈائیریکٹر عظمت خود انکے آفس ، KMC میں پہنچے ۔ انھوں دو گھنٹے ھم دونوں کو اپنے کے باھر بٹھایا اور پھر اندر بلایا مگر وہ اپنی بات پر اڑے رھے ۔ واپس آفس پہنچتے ھی ڈائیریکٹر صاحب نے مجھے کہا “طارق انکے خلاف فورن سندھ ھائی کوڑٹ میں کیس کرو اور اس آڑڈر پر سٹے لو “، اور ساتھ انھوں ٹی اینڈ ٹی ھیڈ کواٹر اسلام آباد فیکس کے زریعے گورمنٹ کی طرف وکیل مقرر کرنے کی منظوری بھی لے لی ۔ میں نے رٹ پٹیشن بنائی جسمیں فیڈرل گورمنٹ کے قوانین کا حوالہ دیا اور اس ساری کوشش کا زکر کیا جو ھم نے یہ کیس داخل کرنے سے پہلے کی تھی ۔ تاکے عدالت کو یہ تاثر نہ جائیے کے ھم سیدھے عدالت چلے آئیے ھمارا خیال تھا کے ھمیں سٹے آڑڈڑ فورن ملُ جائیے گا مگر ایسا نہیں ھوا عدالت نے انکو یعنی
مئیر کراچی اور متعلقہ ڈائیریکٹر جن کی زمہ داری ایسے ٹیکس کی وصولیات تھی ، ان سبکو کو نوٹس ایشو جاری کردئیے ۔ ادھر جو ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ فیڈرل گورمنٹ آف پاکستان کے سامان باھر سے پوڑٹ کے زریعے آرھے تھے کے ایم سی والوں نے اس ٹیکس لینا شروع کردیا ، یہ ایک الگ سے ھمیں خرچہ کرنا پڑ گیا جسکی بجٹ میں پرویژن نہ تھی ۔ ادھر عدالت کاروائی میں جسطرح کام چلتا ھے وہ میں سمجھتا تھا ۔ جو رٹ پٹیشن میں نے ٹی اینڈ ٹی کی طرف سے نومبر کے شروع میں دائر کی تھی اسکی دوسری شنوائی 4 جنوری 1989 کو ھوئی [ یہ تاریخ مجھے اسلئیے یاد ھے کے اسکے دوسرے دن میرے یعنی 5 جنوری 1989 کو سب سے چھوٹے بھائی کی شادی تھی اور میں نے جب 4 جنوری والے دن سے ڈائیریکٹر صاحب سے چھٹی مانگی تھی تو انھوں نے صاف انکار کردیا تھا اور کہا تھا پہلے عدالت اس کیس میں سٹے لیکر آؤ پھر چھٹی ملے گی ۔ اور جب کیس لگا تو میں ان وکیل صاحب سے یہ ھی کہا تھا کے آج اس کیس کی ضرور ھئیرنگ ھونی چاھئیے اور سٹے ملنا چاھئیے ۔ مجھے اور وکیل صاحب کو سو فیصد یقین تھا کے اس پر سٹے ضرور مل جائیے گا کیونکے ھمارا کیس بیحد مضبوط تھا۔ یہاں سٹے لینے کا مطلب تھا ،مئیر کراچی کو ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کے امپوڑٹڈ سامان پر ٹیکس اور چنگی لینے حکم ، عارضی طور پر معطل کرنے کا تھا ، مزکورہ جب تک اس رٹ پٹیشن کا فیصلہ نہ ھو ، تھا ]۔ بحرحال اس دن عدالتی کاروائی تقریبن شام ساڑھے چار بجے تک جاری تھی عدالت میں ، میں ، میرا ساتھ شپنگ انسپکٹر مرحوم غلام رسول میرے وکیل اور کے ایم سے کے متعلقہ ڈائیریکٹر اور وکیل رہ گئیے تھے ۔ عدالت نے بحث کے بعد اسی وقت فیصلہ جاری کرکے حکم امتنائی دے دیا کے ایم سی فیڈرل گورمنٹ ڈیپاڑٹمنٹ ، ٹی اینڈ ٹی کے امپوڑٹڈ سامان پر ٹیکس یا چنگی وغیرہ نہیں لے سکتے تا وقتییکے اس کیس کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں ھوجاتا ۔ اور اسکے بعد دونوں معزز جج حضرات کمرہ عدالت سے اٹھکر چلے گئیے ۔ انکےُسٹینو نے یہ آڑڈر شاڑٹ ھینڈ میں لکھا تھا پھر اسنے اس شاڑٹ ھینڈ کے لکھے ھوئیے فیصلے کو ، متعلقہ کیس کی فائیل کے نوٹ شیٹ پر منتقل کیا ھمارے سامنے ھی کمرہ عدالت میں اور پھر وہ فائیل متعلقہ معزز جج حضرات کو بھیج دی ۔ ھم وھیں کمرہ عدالت میں بیٹھے انتظار کرتے رھے ۔ سٹینوصاحب کی خاطر تواضح کی تاکے جلد کام ھوجائیے ۔ فائیل ان دو معزز ججز حضرات کے دستخطوں کے بعد واپس آئی اسوقت شام کے پانچ بچ چکے تھے ۔ پھر وہ فائیل آڑڈ شیٹ پرنٹنگ کے لئیے چلی گئی اور وھاں سے بھی آدھے گھنٹے کے بعد واپس آئی ۔ اور وہ پرنٹڈ سائن ھونے کے لئیے ایک اور ڈیپاڑٹمنٹ پر چلی گئی پھر وھاں سے ایک اور جسکو implementation department بولتے ھیں وھاں پر اسکا وہ آڑڈر جو عدالت نے لکھا تھا وھی متعلقہ شخض کے نام لکھا اور دستخط کئیےاسکے دستخط کے بعد اسکو بیلیف کو بلاکر دے دیا گیا تاکے وہ فورن اسکو کے ایم سی کے متعلقہ شخض کو عملدرآمد کرنے کے لئیے دے کر آئیے اور اسکی وصول کرنے کی رسید حاصل کرے۔ اسوقت رات کے سات بج چکے تھے ۔ سارے کام تیزی سے کئیے گئیے وہ کیوں ؟؟ آپ سب جانتے ھی ھیں ۔ مجھے اسی دن سارا کام کرانے کا کہا گیا تھا تو میں اسکے جلدی کے لئیے اپنی جیب سے ھی خرچ کر کے کرتا رھا ۔ بیلف کو تو لازمن کچھ نہ کچھ دینا ھی پڑتا ھے ورنہ وہ تو قدم بھی نھیں اٹھاتا۔ اور یہ ھی سب ایک عدالتوں میں ھوتا ھے اسکو کوئی بھی جھٹلا نہیں سکتا ۔ رات نو بجے گھر پہنچا اور گھر سے فون کرکے ڈائیریکٹر صاحب کو رپوڑٹ دی اور بتایا سٹے مل گیا ھے ۔ ۔وہ بہت ھی خوش ھوئیے اور کہنے لگے تم اب آرام سے شادی میں شرکت کرکے آفس آنا ۔ دوسرے دن مجھے آفس والوں نے بتایا کے کے ایم سی والوں نے کلُ یعنی 4 جنوری 1989 کو پوڑٹ سے جانے والے ٹی اینڈ ٹی کے سامان پر ٹیکس چارج کر لئیے تھے جو انھوں آج ریفنڈ کردئیےھیں ۔ تو اسطرح اگر اس دن ٹی اینڈ ٹی کے وکیل صاحب اسطرح کی گھن گرج نہ کرتے اور عدالت اسی کیس کو سننے کے لئیے تیار نھیں ھوتی ، جسکو وہ اس دن ملتوی کررھی تھی ، تو معاملہ بہت ھی خراب ھوجاتا ۔
تو مجھے ان ریسپونڈنٹس کے ان وکلاء سے بہت شکایت ھے کے کم ازکم کسی کو تو چیف جسٹس صاحب کو یہ باور کردینا چاھئیے تھا ۔ کے سر یہ آپ کیا ظلم کررھے ھیں ۔ یہ لوگ کب سے انتظار کررھے ھیں اور آپ کیسس کی ھئیرنگ کو ملتوی کر رھے ھیں ۔
آئندہ 27 جولائی 2021 کی ھئرنگ میں نھیں جا سکوں گا کیونکے مجھے 27 جولائی کو کراچی ، اپنے بھتیجے کی شادی کے سلسلے میں جانا ھے ۔ ویسے بھی آج کیس کی شنوائی نہ ھونے کی وجہ سے ، میرا دل کھٹا ھو چکا ھے اور یہ امید بھی مجھ کو بلکل نہیں کے کیا 27 جولائی کو بھی ان کیسسز کی ھئیرنگ ھوسکی گی بھی یا نہیں ؟؟؟؟
واسلام
طارق
راولپنڈی
Dated 14th July 2021
Comments