Article-151[Regarding suggestion for respondents ‘s lawyers for pleading the ICA cases in IHC]
Article-151
عنوان :- گورمنٹ آف پاکستان کے ٹیلیگراف اینڈ ٹیلیفون ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے والے گریڈ 1 سے لیکر
گریڈ 15 تک کے سرکاری ملازمین کا سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت سول سرونٹ ھونے یا نہ ھونے کا مسعلہ ۔ ؟؟؟؟
عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو
اسلام وعلیکم
جیسا کے آپ سب لوگ جانتے ھیں کے 14 جولائی 2021 ، اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں انٹرا کوڑٹ اپیلوں کی ھئیرنگ کے دواران اپیلنٹس یعنی پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے وکیل جناب انور شاھد باجواہ صاحب نے یہ ایک نیا شوشا چھوڑا تھا کے چونکے سابقہ گورمنٹ کے ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے والے گریڈ 1 سے لیکر گریڈ 15 تک کے ملازمین گورمنٹ سول سرونٹ ایکٹ میں دی گئی ، سول سرونٹ کی تعریف میں نہیں آتے اور وہ ورک مین تھے اور وہ یونین کے ممبرز بھی تھے ، اسلئیے وہ گورمنٹ کی طرف سے ادا کرنے والی پنشن کے حقدار نہیں ھوتے ۔ اسلئیے ایسے ملازمین کارپوریشن اور بعد میں کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھونے کے بعد ریٹائیرمنٹ پر گورمنٹ والی پنشن نہیں دی جاسکتی ۔ انکا یہ استعدال بلکل غلط تھا۔ انھوں نے عدالت میں فرمایا تھا کے تین کٹیگری کے ملازمین ٹی اینڈ ٹی سے ٹرانسفڑڈ ھوکر کارپوریشن میں آئیے تھے ایک وہ جو سول سرونٹ تھے دوسرے وہ جو ورک مین تھے اور تیسرے وہ جو نہ ورک مین تھے اور نہ ھی سول سرونٹ ۔ جس پر محترم چیف جسٹس صاحب نے فرمایا تھا کے وہ اگلی پیشی پر ان کٹیگریز کے ملازمین کی لسٹ مہیا کریں ۔ اور ساتھ ریسپونڈنٹس کے وکلاء کو یہ بھی کہا تھا کے آپ کیسے ثابت کریں گے کے ورکمین کٹیگری کے ملازمین سول سرونٹ تھے نہ کے ورک مین ۔ اور انھوں نے یہ بھی کہا تھا کے اسکو ثابت کرنے کے لئیے آپ کو جیسے ماؤنٹ ایورسٹ کا پہاڑ سرکنا ھوگا یعنی ایک بیحد مشکل کام ھوگا اس سلسلے میں اپنے آڑٹیکل 148 اور انگلش آڑٹیکل 149 میں تفصیلی طور قانونی جواز کے ساتھ بتا چکا ھوں کے گورمنٹ آف پاکستان کے ٹیلیگراف اینڈ ٹیلیفون ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے والے تمام ریگولر ملازمین بحیثیت سرکاری ملازم ھونے کے ، ریٹائیرمنٹ پر پنشن لینے کے مکمل اور قانونی حقدار تھے اور جو ایسے ملازمین جو صرف آؤوٹ ڈور ڈیوٹیاں انجام دے رھے تھے صرف انپر ورک مین کمپنسیشن ایکٹ 1923 کا ھی اطلاق ھوتا تھا تاکے انکو دوران ڈیوٹی کسی بھی حادثے کی وجہ سے ، زخمی ، اعضا کو نقصان یا موت ھونے کی صورت میں معاوضہ لینے کا بھی حق مل جائیے ۔ انپر اس گورمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کابھی ساتھ ساتھ اطلاق ھوتا تھا اور جب یہ تمام ٹی اینڈ ٹی میں کام کرنے تمام سرکاری ملازمین پی ٹی سی ایکٹ 1991 کی شق 9 کے تحت ٹرانسفڑڈ ھوکر دسمبر 1991 میں کارپوریشن میں آئیے تو ان کے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس پر انھیں قوانین کا اطلاق ھوتا تھا جو انکے کارپوریشن میں ٹرانسفڑڈ ھونے سے فورن پہلے یعنی ٹی اینڈ ٹی میں تھا اور بعد میں جب یہ سب ملازمین اور بشمول وہ ملازمین جو کارپوریشن میں ریگولر بھرتی ھوئیے تھے[ کارپوریشن کے اپنے تو کوئی قوانین نہیں تھے اور کارپوریشن نے انھیں قوانین کو اپنایا ھوا تھا جو ٹی اینڈ ٹی میں لاگو تھے تا وقتیکے کارپوریشن کے اپنے کوئی قوانین نہیں بن جاتے ]
کاپوریشن سے کمپنی یعنی پی ٹی سی ایل میں ، پی ٹی ( ری آرگنائیزیشن ) ایکٹ 1996 کی شق 35 اور شق 36 کے تحت ٹرانسفڑڈ ھوئیے ، تو کمپنی میں بھی انپر وھی ٹی اینڈ ٹی والے قوانین کا تحفظ تھا ۔ اسلئیے ان قوانین کی وجہ سے ان تمام ٹرانسفڑڈ ملازمین کو ریٹائیڑڈ ھونے کے کے بعد گورمنٹ کی ھی اعلان کردہ پنشن لینے کا قانونی حق تھا ۔ جسمیں سے گریڈ 1 سے لے کر گریڈ 15 تک کے ملازمین کو پنشن دینے کی مخالفت انکے وکیل انور شاھد باجواہ صاحب یہ کہہ کر کررھے تھے کے جو ملازمین سول سرونٹ کی کٹیگری میں نھیں تھے بلکے ورک مین ھیں ، وہ گورمنٹ کی اس پنشن کے حقدار نھیں ۔ اور ادکی وجہ جو انھوں نے بتائی کے یہ سارے ورک مین کٹیگری کے تھے اسلئے ان کو گورمنٹ والی پنشن نہیں دی جاسکتی
ابھی تک بہت سے پی ٹی سی ایل ساتھیوں میں اس بارے میں ابہام پایا جاتا ھے جو بقول شاھد انور باجواہ سول سرونٹ نہ ھونے کی اس کٹیگری میں آتے ھیں ۔ حالانکے میں اپنی ان آڑٹیکلز میں ثبوتوں کے ساتھ یہ بات واضح کرچکا ھوں کے کے انور شاھد باجواہ صاحب کی یہ بات بلکل غلط ھے ۔ انکو یہ بات شائید معلوم نھیں یا وہ جاان بوجھ کر یہ بات چھپا رھے ھیں کے ٹی اینڈ ٹی میں صرف آؤٹ ڈور ڈیوٹی انجام دینے والوں کو ورک مین ، ورکمین کمپنسیشن ایکٹ 1923 کے تحت گردانہ گیا تھا تاکے انکو ڈیوٹی کے دوران کسی حادثے کی وجہ سے نقصان پہچنے پر معاضہ مل سکے. رھا انکو گورمنٹ والی پنشن ملنے کا ریٹائرمنٹ پر یا ڈیوٹی کے دوران انتقال پر چاھے طبعی ھو یا حادثاتی ، پنشن انکا حق بطور سرکاری ملازم , لازمی تھا۔ تو ایسے تمان لوگ کسی بھی غلط فہمی میں مبتلا نہ ھوں اور کسی بھی قسم کی مایوسی کا شکار ھوں ۔ میں ایک بار پھر انکو مختصرن سمجھانا چاھتا ھوں ۔ اللہ کرے انکو میری بات سمجھ میں آجائیے آمین!
گورمنٹ ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے والے ملازمین کو سرکاری ملازمین کہا جاتا ھے اور انکو ریٹائیرمنٹ پر پنشن دینے کا قانون جسکو The Pensions Act 1871 کہتے ھیں یہ ایکٹ
اگست 1871 کو آیا تھا [ اسکی کاپیاں نیچے پیسٹ کردی ھیں ]اور پورے ھندوستان میں فیڈرل گورمنٹ ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے کرنے والے ریگولر ملازمین کو ریٹائیرمنٹ پر ماھانہ پنشن گورمنٹ کے خزانے سے دینے کے اصول واضح کئیے گئیے تھے ۔ اس میں یہ بتایا گیا تھا کے ریٹائیرمنٹ پر پنشنُ لینا ، ایک ریٹائڑڈ ملازم کا بنیادی حق تصور ھوگا ۔ اور اس پنشن دینے کے خلاف کوئی بھی عدالت کسی طرح کا بھی کوئی بھی مقدمہ سننے کی مجاز نہیں ۔ اسی ایکٹ میں کمیوٹیشن دینے کا بھ بتایا گیا تھا ۔ اس ایکٹ میں گورمنٹ سے مراد فیڈرل گورمنٹ تھا لیکن اسی ایکٹ میں یہ بھی باور کرادیا کے صوبائی گورمنٹ بھی اپنے سرکاری ملازمین کو پنشن دینے کے لئیے قوانین بنا سکتی ھیں ۔ 14 اگست 1947 کو پاکستان بنے کے بعد یہ پنشن ایکٹ 1871 پورے پاکستان میں نافظ کردیا گیا ۔ گورمنٹ کے پوسٹل اینڈ ٹیلگراف سروس ڈیپاڑٹمنٹ کا وجود متحدہ ھندوستان میں 1898 کو ھوا اور اس میں کام کرنے والے تمام ملازمین سرکاری ملازمین کہلائے اور اسطرح اس پنشن ایکٹ 1871 کے تحت وہ بھی ریٹائیرمنٹ پر پنشن کے حقدار ٹہرے اور انکو باقاعدہ ریٹارمنٹ کے بعد پنشن کا ملنا جاری تھا ۔ پاکستان بنے کے بعد اس ڈیپاڑٹمنٹ کا جو حصہ پاکستان میں آیا پاکستان پوسٹل اینڈ ٹیلیگراف ڈیپارٹمنٹ کہلایا اور بعد 1964 میں اس میں سے پوسٹل سروس کے ڈیپاڑٹمنٹ کو منہا کر کے ٹیلیفون سروس دینا والا ڈیپاڑٹمنٹ مرج کردیا گیا اور یوں گورمنٹ آف پاکستان ٹیلی گراف اینڈ ٹیلی فون ڈیپاڑٹمنٹ بن گیا جسکو شاڑٹ میں ٹی اینڈ ٹی ( T&T) ڈیپاڑٹمنٹ کہتے ھیں اور یہاں پر سارے کام کرنے والے ملازمین سرکاری ملازمین کہلائیے جاتے تھے اور وہ اسلئیے ریٹائیرمنٹ پر گورمنٹ کی طرف سے پنشن کی ادئیگی کے حقدار تھے ۔ کام کے دوران زخمی یا موت کی صورت میں معاوضہ دینے کا قانون 1923 میں رائیج ھوا جسکو The Workmen's Compensation Act 1923 کہتے ھیں جسکے تحت ورکمین یا ورکر کو کام کے دوران زخمی ، اعضا کو نقصان پہنچنے یا موت کی موت صورت میں معاوضہ تعین کرکے دیا جاتا ھے موت کی صورت میں صرف معاوضہ دیا جاتا تھا پنشن دینے کا تصور نھیں تھا ۔ لیکن جو ورکمین ، سرکاری ملازم بھی ھوتے تھےانکو ھی پنشن دی جاتی تھی ۔ اس ورکمین معاوضہ ایکٹ 1923 پوسٹل اینڈ ٹیلیگراف سروس میں صرف آؤٹ ڈور کام کرنے والے سرکاری ملازمین کو ھی ورک مین کی تعریف میں لایا گیا کیونکے بیرونی کام میں اچانک حادثات ھونے کا زیادہ احتمال ھوتا ھے ۔ تو اسطرح ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ میں جو سرکاری ملازمین یعنی آؤٹ ڈور ڈیوٹی انجام دے رھے تھے وہ ھی سرکاری ملازمین ورک مین کی تعریف میں آتے تھے ناکے تمام انڈور کام کرنے والے والے سرکاری ملازمین ۔ تو آؤٹ ڈور کام کرنے والے ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین کو کسی حادثہ کی صورت میں اگر وہ کسی اعضا سے محروم ھونے کی وجہ سے disable ھونا پڑتا تھا یا انکی اسکی وجہ سے موت ھوجاتی تو انکو اس ایکٹ 1923 کے تحت معاوضہ دیا جاتا اور بحیثیت سرکاری ملازمین سکو invalid pension یا Faimly Pension دی جاتی ۔ جبکے اگر یہ صورت حال انڈور کام کرنے والے سرکاری ملازمین پر ھوتی تو انکو معاوضہ نھیں دیا جاتا صرف سرکاری ملازم کے ناطے پنشن ھی دی جاتی ۔ سول سرونٹ ایکٹ 1973 , 20 ستمبر 1973 کو نافظ ھوا اسکے تحت فیڈرل گورمنٹ ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے والے تمام سرکاری ملازمین بشمول وہ ملازمین بھی جو ڈیفینس ڈیپاڑٹمنٹ میں
سول ورکس کرتے تھے ، انکو سب سول سرونٹ کی تعریف میں لایا گیا ماسوائیے ان ملازمین کے جو کسی صوبائی گورمنٹ ڈیپاڑٹمنٹ میں ملازم ھوئیے اور ڈیپوٹیشن میں فیڈرل گورمنٹ ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کررھے ھوں ، وہ جو کنٹریکٹ پر بھرتی ھوکر گورمنٹ ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کررھے ھوں یا جو فیکٹری ایکٹ 1934 یا ورکمین ایکٹ 1923 کے میں دی گئی تعریف میں آتے ھوں ۔ اب چونکے صرف ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کے آؤٹ ڈور فیلڈ میں کام کرنے والے گورمنٹ کے سرکاری ملازمین ھی اس ورکمین کی تعریف میں آتے تھے اسلئیے یہ سول سرونٹ نھیں کہلائیے جاسکتے ۔ لیکن ریٹائیرمنٹ پر انکو پنشن بحیثیت سرکاری ملازم کے ریٹائیڑڈ ھونے کی وجہ سے دی جارھی تھی ۔ جو سول سرونٹ ایکٹ۔ 1973 کے آنے سے پہلے ھی شروع سے ھی دی جارھی تھی ۔ تو یہ کیسے بات مان لی جائیے کے یہ ملازم چونکے ورکمین کی تعریف میں آتے ھیں تو یہ پنشن کے حقدار نھیں ۔ جہاں تک فیکٹری ایکٹ 1934 کا تعلق ھے اسمیں دی گئی ورک مین کی تعریف میں کوئی ٹی اینڈ کا ملازم شامل نھیں ھے۔
اکثر لوگوں کے زھین میں یہ بات ھے پنشن کا حقدار وھی ھوسکتا ھے جو سول سرونٹ ھو ۔ یہ سب غلط ھے۔ گورمنٹ کے ایسے بہت سے سے ادارے ھیں ھیں جسمیں کام کرنے والے ملازم سول سرونٹ کی تعریف میں نھیں آتے , تو کیا ان ملازمین کو ریٹائیرمنٹ کے بعد پنشن نہیں ملتی ؟۔ مثلاً پولیس ، گورمنٹ کارپوریشنس ، عدالتیں وغیرہ وغیرہ ۔ اب تو بعض پرائیویٹ کمپنیاں ، کارپوریشنس بھی اپنے ریٹئیڑڈ ملازمین کو پنشن دیتی ھیں اور انکے اپنے بنائیے ھوئیے قانون ھیں ۔ جو کچھ میں نے اوپر بیان کیا ھے ، اسکی بابت میں اپنے آڑٹیکل 148 میں تفصیلی وضاحت دے چکا ھوں ۔ جسمیں یہ بتایا تھا اسٹیبلشمنٹ ڈویژن گورمنٹ آف پاکستان راولپنڈی نے اپنے یکم جنوری 1989 کے اپنے اس یو او نوٹ یعنی
U.O No 3/2/78-R, 2 Dated 1-1-1989
کے زریعے ڈائیریکٹر جنرل ٹی ایڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کو انکے یہ کلئر کردیا تھا ، انکے اس لیٹر کے جواب میں جسکا عنوان مندرجہ زیل تھا میں
"Clarification Civil Servant Act 1973 , Factories Act 134 and Workmen Compensation Act 1923
کے ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کے آؤٹ ڈور میں کام کرنے والے ھی ملازم صرف ھی کمپنسیشن ایکٹ 1923 کے تحت ورکر یا ورک مین کے ضمرے میں آتے ھیں یہ سول سرونٹ نہیں کہلائیے جاسکتے لیکن سرکاری ملازمین کی حیثیت سے وہ ان تمام مراعات کے حقدار ھوتے ھیں جو گورمنٹ اپنے سرکاری ملازمین کو دیتی ھے ۔ انکو کام کے دوران حادثاتی موت پر نہ صرف انکی فیملی کو کمپنسیشن ایکٹ 1923 کے تحت معاوضہ بھی دیا جاتا ھے بلکے سرکاری ملازم ھونے کے ناطے انکی فیملی کو ، فیملی پنشن بھی ملتیبھے ۔
میں سمجھتا ھوں کے 27 جولائی 2021 کو ھونے والی پیشی پر ریسپونڈنٹس کے وکلاء صرف اسی بات کو عدالت میں صحیح طریقے سے واضح کردیں تو چیف جسٹس صاحب یقینن مطمئین ھوجائیں گے ۔ اور جو شوشا انکے وکیل انور شاھد باجواہ صاحب نے چھوڑا ھے اسکو رد کردیں گے ۔ انشاللہ
واسلام
طارق
راولپنڈی
۲۵ جولائی ۲۰۲۱
ورکمین کمپنسیشن ایکٹ 1923 کی کاپی دیکھنے کے لئے یہاں کلک کریں
Comments