Re-publication of Article -78


نوٹ:- میرا ایک اور نہایت اھم آڑٹیکل -78 آپ سب کے لئیے  جو میں نے 21 فروری 2019 کو تحریر کیا تھا اور فیس بک اور اپنے بلاگ سائیٹ پر اپلوڈ کیا تھا۔ ضرور غور سے پڑھیں ۔شکریہ

(طارق)

16th December 2024


Article-78

موضوع :- پی ٹی  سی ایل  کی موجودہ انتظامیہ  کا ، پی پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے ٹرانسفڑڈ ملازمین  , جو سرکاری قوانین ( Statuory Rules) کے   تحت کام کررھے تھے ، انکو ۲۰۰۸ سے لے کر ابتک  وی  ایس ایس پیکجز آفر کرکے  ملازمت سے  پنشن اور بغیر پنشن کے فارغ کرنے کا عمل  بدنیتی  پر مشتمل تھا اور   بادئینظر میں بلکل غیر قانونی  تھا


عزیز پی ٹی سی ایل  ساتھیو 

اسلام و علیکم 


ھو سکتا ھے آپ لوگ میرا اوپر لکھا ھوا  عنوان پڑھکر شائید حیران ھو گئیے ھوں کے یہ میں کیا کہہ رھا ھوں انکا  یہ اقدام  سراسر غیر قانونی تھا کیونکے انکو سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں نئی 2006 میں  شامل کی گئی کلاز (A)11 کے تحت اس عمل کا کوئی بھی قانونی اختیار ھی نھیں تھا۔ بلکے انکا یہ عمل سراسر بدنیتی پر مشتمل تھا ۔ جیسا کے آپ سب ھی لوگ  شائید جانتے ھوں کے پی ٹی سی ایل میں  ، پی ٹی سی  سے یکم جنوری 1996  کو ٹرانسفر ھوکر آنے والے ملازمین کو جن کو پی ٹی سی ایکٹ 1991 کی کلاز (2)9 اور پی ٹی ( ری -آرگنائیزیشن ) ایکٹ 1996 کی کلاز ز (2)35 اور (b),(a) 36 کی رو سے پروٹیکشن حاصل تھا جسکی وجہ سے انپر پی ٹی سی ایل میں ماسوائیے گورنمنٹ کے سرکاری قوانین ( Statuory rules)  کے اور کوئی بھی قوانین استعمال کیا جاسکے ۔ یاد رھے سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں دئیے گئے ھوئیے سروس ٹرمز اینڈ کنزدیشنس میں اسطرح کا کوئی بھی قانون نھیں ھے کے سرکاری ملازم کو گولڈن شیک ھینڈ یا وی ایس ایس دے کر فارغ کیا جاسکے سول سرونٹ کو والینٹری ریٹائیڑمنٹ صرف اس سول سرونٹ کی  درخواست پر اسوقت دیا جا سکتا  ھے فل پنشن بینیفٹ کے ساتھ، جب اسکی کوالیفائیڈ  سروس ۲۰ سال یا اس سے زیادہ ھو [ ملاحظہ ھو سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی کلاز(i)(1)13 ] سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کے ان تمام قوانین  کی تشریح سپریم کوڑٹ نے اپنے 7 اکتوبر 2011  مسعود بھٹی اور دیگر بنام فیڈریشن آف پاکستان اور دیگران  [2012SCMR152]  کیس میں کرتے ھوئیے یہ قرار دیا تھا کے “ کارپوریشن سے جوملازمین  یکم جنوری 1996 کو کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھوکر اسکے کے ملازم بن گئیے تھے ، انپر کمپنی میں گورنمنٹ آف پاکستان کے  سرکاری قوانین (Statuory rules) ھی استعمال ھونگے  .اور پی ٹی سی ایل کو  اسکا بلکل اختیار نہیں وہ اپنے ان ملازمین کی ، جو پہلے کاپوریشن کے ملازم تھے انکی سروس اینڈ ٹرمز میں کوئی بھی ایسی منفی تبدیلی  کریں جن سے انکو فائیدہ نہ ھو ۔ بلکے حکومت بھی  پی ٹی ( ری -آرگنائیزیشن ) ایکٹ 1996 کی کلاز 35 کے تحت انکی سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں کسی ایسی منفی نہ تبدیلی کرنے کی پابندی ھے جن سے انکو فائیدہ نہ ھو۔وہ تو اس کی گارنٹر ھے جس میں انکے پنشن  benefits   بھی شامل ھیں۔یہاں یہ  واضح کیا جاتا ھے کے  سرکاری قوانین (Statuory rules)  کا مطلب   وہ قوانین بھی  ھوتے ھیں  جو حکومت نے  سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی کلاز 25 میں  اسکو دئیے گئیے ھوئے  اختیارات کے تحت   سول سرونٹ ایکٹ کے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس جو “سیکشن 3 سے لے کر سیکشن 22 “  ھیں اسکو  مدنظر رکھتے  ھوئیے بنائیے ۔ جیسے سول سرونٹ ( ای اینڈ  ای ) رولز 1973,  سول سرونٹ ( اپایٹمنٹ، ٹرانسفر، پروموشن  ) رولز، اور سول سرونٹ سینیاڑٹی رولز وغیرہ وغیرہ۔


سپریم کوڑٹ نے پی ٹی سی ایل کی مسعود بھٹی  کیس کے خلاف کی گئی رویو پٹیشن 19 فروری 2016 کو ایک شاڑٹ آڑڈڑ کے زریعے خارج کی اور اسکے  16 مارچ 2016 کے  کو جاری کئی ھوئیے اپنے تفصیلی فیصلے [2016SCMR1362] کے پیرا 6  کے آخر میں یہ بات برملا واضح کردی تھی  "کے  پہلے کارپوریشن اور  پھر کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھونے والے یہ ملازمین اگرچہ سول سرونٹ تو نھیں رھے لیکن کاپوریشن میں پی ٹی سی  ایکٹ 1991 کی کلاز (2)9  اور پی ٹی ( ری -آرگنائیزیشن ) ایکٹ 1996 کی کلاز ز (2)35 اور (b),(a) 36  کی پروٹیکشن کی وجہ سے انپر سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں دی گئیں سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کی “سیکشن 3 سے 22  “ میں دئیے گئیے سرکاری قوانین  ھی استعمال ھوں گے اور  اس میں کسی قسم کسی خلاف ورزی ،  ایسے ٹرانسفڑڈ ملازمین کو یہ آئینی حق دیتی  ھےکے وہ اسکے خلاف ھائی کوڑٹ سے رجوع کریں۔ لیکن پی ٹی سی ایل کی نئی انتظامیہ نے اسی سول سرونٹ ایکٹ کی کلاز “11A “ [ یہ ایک  نئی کلاز ھے ، جو 2001 میں سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں  سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کی کلاز   "11" میں شامل کی گئی ھے اور  جسکا عنوان  Absorption of Civil Servant rendered Surplus " ہے، ایک آڑڈیننس نمبر XX  کے زریعے 14 اپریل 2001 کو اس ایکٹ میں insert کی گئی اس میں یہ بتایا گیا ھے  اگر کسی گورنمنٹ ادارے  کے سرکاری ملازمین سرپلس ھوجائیں ، کسی بھی وجہ سے  تو انکو کسطرح دوسری جگہوں ، پوسٹوں  میں کیسے کھپایا جائیے گا] کی خلاف ورزی  کرتے ھوئیے ، 2007 میں ایسے پی ٹی سی ایل میں کا م کرنے والے ھزاروں سرکاری  ٹرانسفڑڈ ملازمین کو جن میں اکثریت، ٹیلیفون آپریٹرز،وائیرمینز، کلینرز، ٹیلی کام ٹیکنیشینس،چپراسی اور دیگر ایسے چھوٹے ملازمین وغیرہ وغیرہ کی تھی انکو  پہلے سرپلس قرار دیا پھر  ان سبکو پولز  بناکر اس  میں ٹرانسفر کیا اور انکے مختلف گریڈ وائیز پول بناکر ان میں کھپادیا اور پھر انسبکو Not Needed قرار دے کر اور انکو نام نہاد وی ایس ایس پیکج آفر کیا اور اسکو زبردستی قبول کرنے پر مجبور کیا جو ایک ریکاڑڈ ھے اور انکو وی ایس ایس دیکر چلتا کردیا ۔ ان میں سے بیشتر یعنی تقریبن ۲۰۰۰۰ لگ بھگ ایسے سرپلس ملازمین  تھے جنکو پنشن دئیے بغیر  ھی فارغ کردیا جنکی کوالیفائیڈ سروس بیس سال سے زرا سی بھی کم تھی .[ جو  گورنمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی ٹرمز اینڈ کلاز (1)19 کی بھی کھلی خلاف ورزی  بھی تھی کیونکے اس کلاز (1)19 کے تحت جو سرکاری ملازم ریٹائیڑڈ ھوگا اس کو پنشن یا گریجویٹی دی جائیگی۔جبکے گورنمنٹ کے سول سروس ریگولیشن کی کلاز 474AA کے تحت  پنشن لینے کی کم از کم مدت دس سال یا اس سے زیادہ کی کوالیفائیڈ سروس ھے۔].  یہ ایک حقیقت ایک بہت ھی بڑا ظلم تھا ۔پی ٹی سی ایل  نے  اپنے تئیں ریٹائیڑمنٹ پر پنشن دینے کے کے لئیے گورنمنٹ کی مقرر کردہ کم از کم کوالیفائیڈ مدت ملازمت کو دس سال سے بڑھا کر بیس سال کردیا۔ پی ٹی سی ایل کا یہ اقدام گورنمنٹ کے پنشن رولز میں تبدیلی کرکے  پنشن لینے کی مدت کم از  کم دس سال سے بڑھا کرل بیس سال کرنا بزات خود کرنا ،جنکو کو پی ٹی ( ری -آرگنائیزیشن ) ایکٹ 1996 کی کلاز ز (2)35 اور (b),(a) 36 میں دیا گیا پروٹیکشن حاصل تھا،  ایک نہایت غیر قانونی عمل تھا کیونکے یہ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی کلاز (2)3 کی  صریحاً  خلاف ورزی تھی  کیونکے اسکے تحت کسی بھی سرکاری ملازمین سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس اسکی مرضی کے خلاف تبدیل نہیں کئے جا سکتے جن اس کو نقصان پہنچے۔مگر پی ٹی سی ایل کی اس نئی انتظامیہ نے ایسے پی ٹی سی ایل  ھزاروں وی ایس ایس آپٹ کرنےوالے پی ٹی سی ایل ملازمین صرف اس وجہ سے پنش سے محروم دیا جنکی کوالیفائیڈ سروس  انکی بنائی ھوئی کوالیفائیڈ سروس بیس سال سے زرا سی بھی کم تھی ۔ جبکے حقیقتن ایسے ملازمین گورنمنٹ پنشن کے قانونی طور پر مستحق تھے کیونکے ان سبکی کوالیفائیڈ سروس دس سال سے  بھی زیادہ تھی۔  پی ٹی سی ایل نے نہ صرف یہ اقدام کرکے سرونٹ ایکٹ 1973 کی ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کی کلاز (2)3 کی   نہ صرف خلاف ورزی کی بلکے  عدالت عظمی کے ان احکامات کی بھی خلاف ورزی کی جو اسنے 7 اکتوبر 2011  میں  مسعود بھٹی اور دیگر بنام فیڈریشن آف پاکستان اور دیگران  [2012SCMR152] میں دیا تھا اسکی کی بھی کی۔[ اس میں کہا گیا ھے “ پی ٹی سی ایل کو انکے سروس اینڈ ٹرمز میں کسی بھی منفی تبدیلی  کا اختیار  نھیں ھوگا جن سے انکو نقصان پہنچے اور گورنمنٹ کو بھی کو بھی اس  بات  کی ممانعت  ھے بلکے گورنمنٹ تو اس  کی گارنٹر ھوگی جس میں انکے پنشن اور اسکے  benefits   بھی شامل ھیں۔]۔  ان ظالموں نے یہ ھی نھیں کیا بلکہ  انھوں نے دوران ملازمت میڈیکل طور پر ان  ملازمین کو بھی بغیر پنشن (جسکو invalid pension کہتے ھیں) دئیے ھوئیے فارغ کردیا جن کی میڈیکل ان فٹ ھونے کے وقت کوالیفائیڈ سروس ملازمت  بیس سال  سے زرا سا بھی کم تھی۔

اس سے پہلے میں اپنے مندرجہ بالا موضوع کی طرف مزید ں میں یہ بات آپکے علم میں آجائیے کے یہ ظالم پی ٹی سی ایل انتظامیہ کسطرح  پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے گورنمنٹ کے ٹرانسفڑڈ ملازمین اور پنشنرس کے ساتھ کسطرح ظالمانہ سوتیلی ماں والا سلوک کررھی ھے اور کوئی انکو پوچھنے والا نہیں۔ عدالتیں خاموش جکومت بیحس۔ چند دن پہلے مجھے ایک فون نمبر 2041880-0323 سے  ایک کال موصول ھوئی  ۔ جو کراچی ملیر سے کسی مسز فہیم اختر  کی تھی۔  انھوں نے مجھے روتے ھوئیے بتایا کے انکے شوھر فہیم اختر جو  جولائی 1988 میں ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ میں بھرتی ھوئیے تھے ۔جب وہ گاڑڈن ٹیلیفون ایکسچینج کراچی میں بطور انجینئیرنگ سپروائیزر کام کررھے تھے انکو  نومبر 2007 میں سروس کے دوران فالج کا اٹیک ھوا اور اور وہ چلنے پھرنے اور بولنے سے معزور ھوگئیے اور سروس کرنے سے نہ رھے تو انکو بجائیے انکو میڈیکلی ان فٹ قرار دےinvalid pension  دے کر ریٹائیڑڈ کرتے مگر   پی ٹی سی ایل انتظامیہ ان کے شوھر زبردستی وی ایس ایس لینے پر مجبور کیا اور بغیر پنشن کے  16 فروری 2008 سےریٹائیڑڈ کردیا۔ انھوں نے مجھے بتایا کے انکے شوھر کا پہلے پنشن اور میڈیکل دے ریٹائیڑڈ کرنے کا کیس تیار کیا گیا۔ لیکن بعد میں یہ کہہ کر کے میرے شوھر کی کوالیفائیڈ سروس صرف انیس سال سات ماہ ھے یعنی بیس سال سے کم اس لئیے پنشن نہیں دی جا سکتی ۔ اب نہ انکے معزور شوھر کو نہ تو کوئی پنشن مل رھی اور نہ ھی میڈیکل کی کوئی سہولت۔ [ گورنمنٹ کے پنشن قوانین کے تحت اگر سرکاری ملازم کی ایسی کسی بھی ریٹائیڑمنٹ پر  کی صورت میں  کوالیفائیڈ سروس  دس سال سے بھی کم ھو اور نو سال چھ مہینے یا اس زیادہ تو پنشن دینے کے لئے اس کی  کولیفائیڈ سروس  خود بخود دس سال تصور ھوگی [Sectin 423(1) of CSR ]اور اگر نو سال چھ مہینے سے کم ھو اور نو سال یا اس سے زیادہ،  تو مجاز اتھاڑٹی ایک سال کے پیریڈ کو condone کرکے پنشن دینے کا حکم دے سکتی [Section 423(2)(a) of CSR] ۔  پی ٹی سی ایل کی ظالم  انتظامیہ نے    سروس کے دوران میڈیکلی ان فٹ  ھونے والے  فہیم اختر سپروائیزر گاڑڈن  ٹاؤن ایکسچینج  کراچی  وی ایس ایس زبردستی دے کر کے تم ناکارہ ھو گئیے ھو یہ وی ایس ایس قبول کرو اور ھماری  جان چھوڑو اور اس طرح سے ریٹائیڑڈ کردیا اور نہ پنشن دی اور نہ میڈیکل سہولت ریٹائیڑمنٹ کے بعد بھی۔  ظالموں نے یہاں گورنمنٹ کا دیا ھوا یہ اصول اور قانون تک نہ اپنایا کے اگر کسی کی کوالیفائیڈ سروس  ریٹائیڑمنٹ کے دوران چھ ماہ یا اس سے کم کم ھوگی تو اسکی کوالیفائیڈ سروس آٹومیٹک پنشن کے لئیے کاؤنٹ ھوگی۔ مگر ان زلیلوں نے صرف  اپنے بنائیے ھوئیے غیر قانونی  پنشن  لینے کی کم ازکم کولیفائیڈ بیس سال  کی سروس میں تین ماہ کی کمی کے باوجود بھی پنشن نہیں دی۔بہت ظلم کیا اسوقت فحیم اختر صاحب کوالیفائیڈ سروس صرف انیس سال اور  سات ماہ کے قریب تھی اور بیس سال سے کم ۔مجھے مسز فہیم اختر کا فون کرنے کی وجہ ، مجھ سے صرف یہ معلوم کرنا تھا کے اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں ان نان پینشرس پٹیشنرس کیس کا کیا بنا [یعنی اس کیس نمبر WP-2114/2016 کا۔ جنکو وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائیڑڈ کردیا گیا تھا اور پنشن اس لئیے نھیں دی کیونکے انکی کوالیفائیڈ سروس دس سال دے تو کہیں زیادہ تھی مگر پی ٹی سی ایل کے اپنے بنائیے ھوئے قانون سے یعنی بیس سال سے کم تھی ۔ میری ھی ایما پر بلوچستان کے پی ٹی سی ایل وی ایس ایس آپٹ کرنے والے ریٹائیڑڈ ملازمین ، غلام سرور اور ان کے ساتھیوں نے جن کو بغیر پنشن دئیے گئیے وی ایس ایس ۲۰۰۸ میں ریٹائیڑڈ کردیا گیا تھا  اس کی بابت تفصیل سے میں اپنے پچھلے آڑٹیکلوں میں تفصیل سے بتا چکا ھوں] ۔تو ان محترمہ کو میں نے بتایا کے اس کیس کی ھئیرنگ تو مکمل ھوچکی ھے مگر اس کا فیصلہ ابھی تک محفوظ ھی ھے ۔ تو انھوں نے مجھ سے کہا کے کیا انکے شوھر اس میں پٹیشنر نہیں  بن سکتے ھیں۔ تو میں نے انکو بتایا کے اب تو نہیں اس لئیے کے کیس کی کاروائی تو مکمل ھوچکی ھے ۔ان سے میں نے کہا کے وہ پریشان نہ ھوں ۔ اس کیس کا فیصلہ نان پینشنرز کے حق میں ھی انشاللہ آئیگا اور مجھے اللہ کی زات پر مکمل امید اور بھروسہ ھے کے عدالت پی ٹی سی ایل کے اس اقدام کو غیر قانون قرار دے دیگی جس میں انھوں نے حکومت کے بنائیے ھوئیے پنشن قوانین میں ترمیم کرکے  پنشن لینے کے لئی کم ازکم مدت ملازمت میں اضافہ دس سال سے بیس سال کردیا ۔ اس فیصلے کا اطلاق تمام ایسے نان پٹیشنرس پر بھی  ھوگا اور آپکے شوھر کو بھی اسکا فائیدہ لازمن ھوگا۔ اس پر وہ بہت گرویدہ ھو کر رونے لگیں اور انھوں نے مجھے بتایا وہ لوگ آجکل بیحد کسمپرسی کے دن گزار رھے ھیں اور مزید وہ کچھ بتایا جو میں اوپر بیان کر چکا ھوں کے انھوں نے شوھر بستر پر  بیمار پڑے رھتے ھیں اور بولنے سے بلکل معزور ھے۔ انھوں نے مجھے یہ بی بتایا کے وہ نہ جانے کتنی اپیلیں ۔ جی ایم ایچ آر پی ٹی  سی ایل کراچی کو کرچکی ھیں مگر بے سود ۔ انھوں نے مجھے بتایا کے انکے شوھر کچھ کرنے کے قابل نہیں جب ھی  تو وہ خودمجھے فون کرکے یہ سب کچھ بتا رھی ھیں ۔ مجھے ان کی دکھ بھری داستان سن کر بیحد دلی تکلیف ھوئی ۔ اور سوچنے لگا انکی مدد کیسے کی جا سکتی ھے کے انکے شوھر کی پنشن  بحال ھو جائیے ۔ میں اگر کراچی ھوتا تو خود انکے گھر ملیر پہنچ جاتا اور ان  کے سے مزید معلومات لیکر اور انکے متعلقہ دستاویزات دیکھ کر انسے عدالت میں کیس کرواتا۔میں نے اس سلسلے میں اپنے پرانے دوست مظفر اقبال ریٹائیڑڈ ڈپٹی جنرل منیجر فائینس پی ٹی سی ایل  جو میرے ساتھ جب میں ڈپٹی جنرل منیجر ایس ٹی آر ون تھا، بطور اکاؤنٹنٹ کام کرچکے ھیں، انسے رابطہ کیا اور انکو یہ سب کچھ بتایا اور کہا وہ خود اس فیملی سے پہلے رابطہ کرکے حالات معلوم کریں اور دیکھیں کسطرح انکی قانونی مدد کی جا سکتی ھے ۔ مظفر اقبال صاحب نے انسے فورن رابطہ کیا اور انسے مزید معلومات کرکے مجھے بتایا کے انکا رابطہ انکے بیٹے سے ھوا ۔انھوں نے بتایا کے فون تو ایسا لگتا تھا فہیم اختر صاحب نے ھی اٹھایا تھا کیونکے انسے آواز نھیں نکل رھی تھی صرف آں آں کی آوازیں آرھی تھیں۔ بحر حال فہیم اختر صاحب کے سے بیٹے بات ھوئی اسنے انکو بتایا کے وہ ملیر میں ایک کرا ئیے کے مکان میں رھتے ھیں انھوں نے بہت کوششیں کیں کے ابو کو پنشن مل جائیے مگر کچھ بھی نہیں ھوا۔ وہ لوگ بیحد نامسائید اور پریشانی کی زندگی گزار رھے ھیں ۔۔ میں نے مظفر اقبال کو بتایا کے کیوں نا انکی طرف سے اگر  عدالت میں کیس کیا جائیے جسکے وکیل کے اخراجات ھم دونوں یعنی میں اور مظفر اقبال  برداشت کریں ، وہ ٹھیک تو رھے گا مگر عدالت میں اسے کیسز کے فیصلے جلدی نھیں آتے اور اس میں ایک طویل عرصہ لگ جاتا ھے تو  بہت ھی عرصہ لگے گا۔ میں نے مظفر اقبال کو بتایا کے میں   انکو ایک اپیل بنام چیف جسٹس پاکستان ھیومن ریسورسز سیل  سپریم کوڑٹ اسلام آباد کا ڈرافٹ فہیم اختر صاحب کی طرف  سے بناکر بھیجتا ھوں وہ  اسکو انسے دستخط کرواکر یا اگر وہ دستخط کے قابل نہیں تو انکے انگوٹھے کا نشان  لگوا کر اسےھیومن رائیٹ سیل  سپریم کوڑٹ اسلام آباد TCS کے زریعے بھجوادیں-[ میں نےاسی طرح سے دوبیواؤں کا کیس  سابق چیف جسٹس ظہیر جمالی کو ھیوم رائیٹ سیل بھجوائیے تھے۔ ان بیواؤں کی کم پنشن سیکشن کی گئ تھی جو گورنمنٹ کے مطابق نہ تھی اور   جب ھیومن رائیٹ سیل   نے پی ٹی ای ٹی سے اسکا جواب مانگا گیا تو انھوں صرف یہ لکھ کر ھیومن رائیٹ سیل کو جواب دیا ،کے  چونکہ یہ matter ابھی  subjudice ھے یعنی عدالت میں کیس چل رھا ھے تو ابھی کچھ نھیں کرسکتے۔اسکی کاپیاں ان اپیل کرنے والی بیواؤں کو بھی بھجوائیں تھیں ۔مجھے انھی میں سے ایک بیواہ نے یہ کاپی بھیجی تھی].

میں چاھتا ھوں کے فہیم اختر صاحب کو پنشن دلانے کی کوششوں میں سی بی اے یونین والے سامنے آئیں اور اپنے ایک ریٹائیڑڈ ساتھی سپروائیزر کی مدد کریں اور اسکا کیس این آئی آر سی میں لے کر جائیں۔ انکا کیس بیحد مضبوط  ھے بس تھوڑی سی محنت اور ایک اچھا وکیل کرنے کی ضرورت  ھے۔ اور کوئی پی ٹی سی ایل کے حاظر یا ریٹائیڑڈ ملازم انکی قانونی مدد کرنا چاھیں یا وہ لوگ جن کا کچھ نہ کچھ ایسا پی ٹی سی ایل میں اثر رسوخ ھے ، وہ بھی سامنے آئیں اور انکی مدد کریں اور انکو انکی جائیز پنشن دلوانے میں کوشش کریں ۔یہ بہت نیک کا م ھے ایک  بولنے سے معزور اور صاحب فراش شخض کی مدد کریں اور ثواب کمائیں۔انکی بیگم کا فون نمبر جہاں سے مجھے فون آیاتھا اور اوپر بھی تحریر کرچکا ھوں جو 2041880-0323 ھے۔ 


اب میں دوبارہ اپنے موضوع کی طرف آتا ھوں جیسا کے آپسبکو معلوم ھے پی ٹی سی ایل نے 7 اکتوبر 2011 کو مسعود بھٹی یس میں دئیے گئیے ھوئیے فیصلے خلاف  نومبر 2011 رویو اپیل داخل کی جو پانچ سپریم کوڑٹ کے معزز ججز حضرات کے بنچ جسکے سربراہ سابق چیف جسٹس انور ظھیر جمالی تھے، 19 فروری 2016  کو خارج کر دی یہ فیصلہ 2016SCMR1362 میں درج ھے۔ اسکے پیرا 6 کے آخر میں جو صفحہ 8 پر درج ھے , عدالت عظمی نے صاف طور پر تحریر کیا ھے “ پہلے کارپوریشن اور بعد میں کمپنی میں ٹرانسفر ھونے ملازمین اگرچہ سول سرونٹس تو نہ رھے لیکن جو انکی سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس سول سرونٹ ایکٹ 1973 سیکشنس  میں 3  سے 22 تک دی گئیں ھیں وہ  پی ٹی سی  ایکٹ 1991 کی کلاز (2)9  اور پی ٹی ( ری -آرگنائیزیشن ) ایکٹ 1996 کی کلاز ز (2)35 اور (b),(a) 36  کی وجہ سے انکے لئی پروٹیکٹڈ ھیں اورسرکاری  بنیادی قانونی ھیں [ یعنی ان ٹرانسفڑڈ ملازمین پر بھی یہ گورنمنٹ کے سرکاری بنیادی ھی قوانین لاگو ھوں گے بیشک وہ سول سرونٹ نہیں ھیں۔ میں نے  یہ صفحہ اور تحریر بھی ھائی لائیٹ کردی ھے ۔ نیچے پیسٹ ھے]۔ انکی خلاف ورزی (Violation ) پر یہ ملازمین ھائی کوڑٹ  سے آئین کے آڑٹیکل کی کلاز ۱۹۹  کے تحت رجوع کرسکتے ھیں لیکن اس کے برعکس پی ٹی سی ایل کی نئی انتظامیہ نے جان بوجھ کر ان ملازمین کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک کیا اور ان پر کمپنی کے بنائیے ھوئیے قوانین تھوپے اور ان پر لاگو ھونے والے گورنمنٹ کے سرکاری قوانین (statutory rules) کو بلکل ھی نظر انداز کیا اور ایسے پی ٹی سی ایل ملازمین جو انکے  اپنے بنائیے قوانین سے بری طرح متاثر ھوئے تھے ، اس لا علمی کی وجہ سے ھائی کوڑٹس سے رجوع نہ کرسکے- اور جنھوں نے رجوع کیا وہ ھائی کوڑٹوں سے ریلیف جاصل کرنے میں کامیاب ھو گئے۔

پی ٹی سی ایل کی اس ایتصلات والی جابر 26% شئیر ھولڈر والی انتظامیہ نے کبھی بھی ان پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے ٹرانسفڑڈ ملازمین کے مفادات کا خیال نہ رکھا جیسا کے ایکٹ 1996 اور ان سے ھونے والے شئیر ایگریمنٹ میں کہا گیا ھے۔ انھوں نے ان ملازمین پر لاگو ھونے والے گورنمنٹ کے قوانین یعنی Statuory rules کی دھجیاں بکھیر دیں اور کوئی بھی انکو پوچھنے والا نہیں۔ انھوں نے سول سرونٹ ایکٹ کی اس نئی کلاز (a)11 کی خلاف ورزی کرتے ھوئے جو ایسے ملازمین  میں  والےسرپلس  ھونے ملازمین ملازمین کو بجائیے absorb  کرنے کے انکے پول بنا دئیے جیسا اوپر بیان کرچکا ھوں اور ان کو وی ایس ایس اپنی مرتب شرائط کے ساتھ انکو آفر کیا جس میں  پنشن دینے کے لئے کم از کم کوالیفائیڈ سروس بیس سال کردی  اور سبز باغ دیکھا کر  اور دھونس اور دھمکی دے کر تقریبن بیس ھزار سرکاری ملازم کا سٹیٹس رکھنے والے ملازمین بغیر پنشن دئیے ھوئے فارغ کردیا جنکی کوالیفائیڈ سروس بیس سال سے زرا سی بھی کم تھی  ، انھیں بھی پنشن دئیے بغیر فارغ کردیا ۔ ان بیس ھزار کو بغیر پنشن کے فارغ کرنا اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ھے کے ان بیس ھزار سرکاری سٹیٹس رکھنے والے ملازمین کو بغیر کسی تادیبی کاروائی کے نوکریوں سے برطرف کردیا گیا ھو کیونکےسول سرونٹ ایکٹ 1973 کی کلاز (3)19  کے تحت جو سرکاری ملازم کو نوکری سے برطرف ھوگا اسکو پنشن دی جائیگی ۔ تاھم ایسے برطرف ملازمین کو گورنمنٹ compassionate allowance بھی سیکشن کرسکتی ھے  [ ستم ظریفی ملاحظہ فرمائین کے ان پیس ھزار نان وی ایس ایس پنشنرس کو ایک تو پنشن نھیں دی اور کوئی compassionate allowance بھی نہیں دیا گیا]۔ ان بیس ھزار ملازمین کو وی ایس ایس دیکر کرکے اور  پنشن نہ دے کر پی ٹی ی ٹی نے  سول سرونٹ ایکٹ کی کلاز (1)19 کی بھی خلاف ورزی کی کیونکے اس میں کہا گیا ھے جو سول سرونٹ ریٹائیڑڈ ھو گا اسکو پنشن یا گریجویٹی دی جائیگی۔پی ٹی سی ایل اور پٹی ای ٹی کا یہ طرز عمل ان نان پنشنرس وی ایس ایس ریٹائریز پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے ٹرانسفڑڈ ملازمین کے ساتھ ، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آڑٹیکل 4 کی بھی سخت ترین خلاف ورزی ھے  

اس لئیے اب وقت کا تقاضا ھے کے تمام ایسے ٹرانسفڑڈ پی ٹی سی ایل ملازمین جنھوں وی ایس لیا ھے ،  بالعموم اور  وہ جو بغیر پنشن لئیے ریٹائیڑڈ  کردئیے گئیے وہ بلخصوص ۔ وہ پی ٹی سی ایل کی  سول سرونٹ ایکٹ 1973  کی مزکورہ کلازز کی خلاف ورزی خاص طور پر کلاز (A)11 خلاف ورزی پر۔ انکو جو  ایس ایس آفر کیا وہ پی ٹی سی ایل کا  نہ صرف غیر قانونی اقدام بلکے توھین عدالت بھی تھا اور پھر انکو پنشن نہ دے کر اس  ایکٹ کی (1)19 کی  نہ صرف خلاف ورزی کی بلکے آئین پاکستان کی کلاز 4 کی بھی شدید خلاف ورزی کی۔ کیونکے انھوں نے ھزاروں ایسے وی ایس ایس آپٹیز کو بغیر پنشن کے فارغ کردیا نہ انکا  کوئی قصور نھیں تھا اور نہ انکے خلاف کوئی تادیبی کاروائی ھوئی تھی کیونکے اسی ایکٹ کی کلاز (3)19 پنشن انھی سرکاری ملازمین کو نھیں دی جاتی جنکو سروس سے dismiss یا remove کردیا جاتا ھے ۔ تو کیا ان بیس ھزار کا کوئی قصور تھا کے جنکو بغیر کسی تادیبی کاروائی کے نوکری سے برطرف کردیا گیا اور جب ھی انکو پنشن سے محروم کردیا گیا-


میں چاھتا ھوں ایسے تمام وی ایس ایس لینے والے  پی ٹی سی ایل ملازمین جو کارپوریشن سے یکم جنوریی 1996  کو ٹرانسفڑڈ ھوکر پی ٹی سی ایل میں آئیے اور اسکے ملازمین بن گئیے تھ ،ھائی کوڑٹ سے  فورن رجوع کریں ۔ اس رجوع کرنے کی بنیاد، عدالت عظمی کا 19 فروری 2016  میں دیا گیا فیصلہ  جو پی ٹی سی ایل کی رویو اپیل خارج کرنے کے  فیصلے2016SCMR1362 میں درج ھے۔ اسکے پیرا 6 کے آخر میں جو صفحہ 8 پر  ھے کے “ پہلے کارپوریشن اور بعد میں کمپنی میں ٹرانسفر ھونے ملازمین اگرچہ سول سرونٹس تو نہ رھے لیکن جو انکی سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس سول سرونٹ ایکٹ 1973 سیکشنس  میں 3  سے 22 تک دی گئیں ھیں وہ  پی ٹی سی  ایکٹ 1991 کی کلاز (2)9  اور پی ٹی ( ری -آرگنائیزیشن ) ایکٹ 1996 کی کلاز ز (2)35 اور (b),(a) 36  کی وجہ سے انکے لئی پروٹیکٹڈ ھیں اورسرکاری  بنیادی قانونی ھیں ۔انکی خلاف ورزی (Violation ) پر یہ ملازمین ھائی کوڑٹ  سے آئین کے آڑٹیکل کی کلاز ۱۹۹  کے تحت رجوع کرسکتے ھیں  ۔ اس سلسلے میں انکو کسی اچھے اور قابل وکیل کو انگیج کرنا پڑے گا جو بک نہ جائیے۔ اگر سو یا دوسو ایسے وی ایس ایس لینے والے گروپس بن کر یہ کیس کریں جس میں  وی ایس ایس نان پنشنرس کا الگ گروپ ھو نا چاھئیے ۔ اتحاد میں برکت ھے فیصلہ انھیں کے حق میں جائیے گا کیونکے ھائی کوڑٹ سپریم کوڑٹ کے حکم کے تو خلاف نہیں جا سکتی ۔ یقینن وہ ان ایسے تمام وی ایس ایس پیکجز کو جو 2008-2007 سے لے کر ابتک ،کمپنی میں کام کرنے والے ٹرانسفڑڈ ملازمین کو آفڑڈ کئیے گئیے تھے ، انکو ضرور غیر قانونی قرار دے گی جو سول سرونٹ ایکٹ کی کلاز (A)11 خلاف ورزی کرتے ھوئیے دئیے گئیے تھے اور بغیر پنشن کے ریٹائیڑمنٹ کو بھی سراسر ظالمانہ اور غیر قانونی قرار دے گی  کیونکے اس میں  بھی سول سرونٹ ایکٹ  1973 کی کلاز 19 کی  خلاف ورزی کی گئی ھے۔ یہ ضرور ھے جب عدالت ان وی ایس ایس کو غیر قانونی قرار دے گی وہ ساتھ ھی ان سبکو واپس اسی تاریخ سے انکی نوکری پر بحال کرنے کا حکم بھی دے سکتی ھے اس شرط پر وہ اس تمام وی ایس ایس پیکج میں دینے ولی رقم اور اگر انکو پنشن دی ھے اسکی ابتک ادا کی جانی والی رقم واپس کردیں ۔ اس سورت میں نوکری پر بحال ھونے پر انکو انکی نارمل ریٹائیڑمنٹ کی تاریخ تک تمام تنخواہوں کے واجبات اور ریٹائیڑمنٹ کے بعد پنشن کے واجبات ملیں گے  پنشن کے واجبات  اس سورت میں ملیں گے اگر انکی ریٹائیڑمنٹ کی تاریخ ایسے عدالتی فیصلے سے پہلے ھی گزر چکی ھو۔ ایسی سورت میں تو نان پنشنرس وی ایس ایس لینے والوں کو کافی فائیدہ ھوگا کیوں کے انکو وھی  رقم واپس ادا کرنی ھوگی جو وی ایس پیکج قبول کرنے کی وجہ سے ملی تھ۔ جہاں تک 1997 -1998 میں وی ایس ایس لینے والوں کا معاملہ  ھے ۔عدالتی فیصلے کا اثر ایسے وی ای ایس لینے والوں پر نہیں پڑے گا کیونکے یہ مزکورہ کلاز  (A)11 کو  سول سرونٹ ایکٹ 2006 شاملُ کیا گیا تھا جس کے متعلق بھی اوپر بتا چکا ھوں۔ وکیل کو سمجھانے کے لئیے یہ میرا آڑٹیکل ھی کافی ھوگا وہ خود اسکو پڑھکر پٹیشن یا ریفرنس تیار کر لیں گے۔اگر مزید کچھ اسکے علاوہ معلومات چاھئیں ھوں تو میں حاظر ھوں۔


آخر میں ایک بات کہنا چاھتا ھوں ھو سکتا ھو آپ لوگ یہ سوچ رھے ھوں کے میں آپ لوگوں کو کیس کرنے کی نصیحت کررھا ھوں اور خود نہیں کررھا۔ میں ضرور یہ کیس کرتا اور ایک لمحے کی بھی دیر نہ کرتا اگر میں وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑ ھوا ھوتا۔ میں تو وی ایس ایس کے بہت ھی خلاف تھا۔ اسکے نہ لینے کی وجہ سے میں زیر عتاب رھا اور ریٹائیڑمنٹ سے پہلے کے چار سال میں سے تین سال on waiting رھا آخری سال میں نے LPR لے لیُُُ تھی اور 14 جنوری 2012 میں نارمل  طریقے 60 سال کی عمر میں ریٹائیڑڈ  ھوا۔ جب میں جی ایم فون حیدرآباد تھا ، 26 دسمبر 2007 کو on waiting بھیج دیا گیا جب وی ایس ایس 2008 کا process مکمل ھوگیاتھا۔ پھر مجھے خود انھوں نے جنرل منیجر چرن مینیجمنٹ کراچی  17 جنوری 2009 میں لگا دیا اور وھاں سے، 9 ستمبر 2009 کو پھر مجھے on waiting بھیج دیا۔ پھر میں کینیڈا ، LPR کی درخواست دے کر چلاگیا اور کنیڈا ھی میں اکتوبر 2010 میں مجھے ای میل پر میری  ایک سال کی LPR پر  جانے  اور 14جنوری 2012 سے جانے کا نوٹیفیکیشن ملا۔ 

اوپر آڑٹیکل میں جو کچھ میں نے لکھا قانون کے مطابق لکھا اور جو آپلوگوں کو suggestion دی وہ قانون کے مطابق دی پھر بھی میرا آپلوگوں کو یہ ھی مشورہ ھے کے آپ لوگ اپنی تسلی کے خاطر ، اگر چاھیں ، انھی اوپر دئیے گئیے ھوئیے ٹھوس دلائل ،کسی اچھے  بہترین تجربہ کار آئینیی  اور سروس میٹرز کے ماھر وکیل کو دکھا کر  اس سے   مشورہ کرسکتے ھیں ۔ اگر آپ لوگ چاھیں گے تو میں اسکی آئینی پٹیشن کا ڈرافٹ بھی بنواکر بھیج سکتا ھوں جو آپ اپنے وکیل کو دکھا کر صحیح طریقے پٹیشن تیار کروا سکتے ھیں ۔ شکریہ

واسلام

محمد طارق اظہر

ریٹائیڑڈ جنرل منیجر ( آپس) پی ٹی سی ایل 

راولپنڈی

سیل نمبر 0314-9525902

۲۱فروری ۲۰۱۹

Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]