Republication of Article -165 dated 17th March 2024

  عزیز ساتھیو پٹیشنروں ۔ اسلام وعلیکم جیسا کے آپ سب لوگ جانتے ھیں کے ھمارے خلاف کیسسس جو پی ٹی وی ٹی اورپی ٹی  سی ایل نے اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے ۲نومبر ۲۰۲۱ کے اس فیصلے کے خلاف دائر کی تھیں جو ھمارے حق میں آیا تھا۔ خدا خدا کرکے اب اسکی ھئیرنگ 13 دسمبر 2024 کو ھورھی ھے۔ انھوں نے کیا کیسسس کیئے ، اس سلسلے میں نے 17 مارچ  2024 کو یہ آڑٹیکل 165 لکھا اور اس میں ChatGPT کی مدد سے پوائینٹ ٹو پوائینٹ  جواب دیا۔ آپ ساتھیوں سے درخواست ھے کے اسکو آپ لوگ دوبارا ضرور پڑھیں ۔اور ساتھ اپنے معزز وکلاء سے بھی درخواست ھے وہ بھی ضرور پڑھیں ۔ ھو سکتا ھے انکو اس سے بھی کافی مدد مل جائیے اور انکو بحث کرنے میں آسانی ھو ۔شکریہ

نیازمند

محمد طارق اظہر

ریٹائیڑڈ جنرل منیجر (آپس) پی ٹی سی ایل

۱۱ دسمبر ۲۰۲۴


Re publication  of Article-165

پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کے وکیل شاھد انور باجوہ کی بدحواسیاں. . . . انکی  کی جانب سے سی پی ایل اے میں اٹھائے گئے غیر حقیقت مندانہ سوالوں کا جواب  ، ChatGPT کی مدد سے پوائنٹ ٹو پوائنٹ 


عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو

اسلام وعلیکم

پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل نے ھمارے حق میں آئیے ھوئیے اسلا م آباد ھائی کوڑٹ کے ڈویژن بینچ کے 2 نومبر 2021 فیصلے کے خلاف دو سو ل پٹیشنیں ( CPLAs 6023 &6095/2021) دائیر کی تھیں ۔ اس میں انکے وکیل   شاھد انور باجوہ بجائیے اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے ھمارے حق میں آئیے ھوئی اس  فیصلے کے خلاف کوئی اعتراض اٹھاتے اور پر عمل نہ کرنے کا کوئی  جواز پیش کرتے     انھوں نے  ایسے دو قانونی نکات اٹھادئیے    جس سے انکا مقصد  صرف یہ ھے کے کسی طرح  عدالت ان کے ان   دو قانونی نکات کوئی  ٹھوس اور مثبت جواب دے تاکے  ، پی ٹی سی ایل میں کام کرنے  والے تمام سابقہ ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین اور ریٹائڑڈ ھونے والے ملازمین  ان مراعات سے محروم ھوسکیں جو  گورمنٹ اپنے  سرکاری ملازمین اور ریٹئیڑڈ ملازمین کو تنخواھوں، پنشن میں اضافے جات  کی مد میں دینے کا اعلان کرتی رھتی ھے   اور پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی  کو بھی وھی گورمنٹ کی اعلان کردہ مراعات  ، کمبنی میں کا کرنے والے سابقہ ٹی اینڈ ٹی ملازمین  اور ریٹائیڑڈ ملازمین کو  دینا پڑتی تھیں ۔  پی ٹی سی ایل نے   انکو یکم جولائی 2005 سے گورمنٹ کی اعلان کردہ  تنخواھون میں اضافے جات دینا  بند  کردیں اور پی ٹی ای ٹی نے  یکم جولائی 2010    سے  گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن میں اضافہ جات  دینا بند کردیں  اور اپنی طرف سے اس میں دینا شروع کردیں  جو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن اضافے جات سے بہت کم ھے ۔ 

ایڈوکیٹ شاھد انور باجواہ کا خیال ھے اگر ان سوالوں کے جواب انکے حق میں آگئیے، تو انکو گورمنٹ والی ھی مراعات دینے کا مسعلہ ھمیشہ کے لئیے ختم ھو جائیے گا اور یہ لوگ کمپنی کی ھی اعلان کردہ تنخواھیں اور پنشن لینے کا حقدار رھیں گے ۔ میں سمجھتا ھوں یہ  انکی سب خام خیالی ھے   ۔ یہ بلکل  ناممکن  ھے ۔ اگر آپ سپریم کوڑٹ ان ٹرانسفڑڈ ملازمین کے حق میں آئیے   ان مندرجہ ذیل سپریم کوڑٹ  فیصلو ں کو یکجا کرکے  اور سب کا خلاصہ اور مقصد اخز کریں یعنی انکا   

1. Masood Bhattie & Others vs FoP & others in 2012 SCMR 152

2. PTCL & PTET vs Masood Bhattie & others in 2016 SCMR 1362

3. PTCL & PTET vs Muhammad Arif & others in 2015 SCMR 1472

4. Muhammad Riaz vs PTCL & others in 2015 SCMR 1783

 تو  آپ سب پر یہ بات  آپ روز روشن کی طرح عیاں ھوجائیے گی کے 

" یکم جنوری 1996 کو کارپوریشن  سے کمپنی میں  ٹرانسفڑڈ ھونے والے ملازمین  کمپنی کے ملازم کہلائیں گے مگر ان پر گورمنٹ سول سرونٹ 

ایکٹ  1973 والے ھی قوانین ھی لاگو ھوں  گے ، جو انکے ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ  سے کاپوریشن ٹرانسفڑڈ ھونے سے فورن پہلے تھے جو  گورمنٹ کے  اس اس ایکٹ یعنی سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں دئیے گئیے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کے  سیکشن 3 سے لیکر سیکشن 22 تک  میں ھیں ۔ انکی voilation پر ، ان ٹرانسفڑڈ ملازمین کو اختیا ر ھوگا کے وہ متعلقہ ھائی کوڑٹوں سے آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت رجوع کریں ( جیسا کے  گورمنٹ کے سول سرونٹ کو حق ھے)۔ اور مزید یہ کے کمپنی اور نہ ھی گورمنٹ کو اس کا اختیار ھوگا کے وہ ان قوانین  میں  کوئی ایسی منفی تبدیلی کریں جن سے ان ملازمین کو فائیدہ نہ ھو ۔ تاھم کپمنی اور حکومت انکے فائیدے کے لئیے قوانین  بنا سکتے  ھیں ۔ کمپنی  انکو وھی تتنخواہ دینے کی پابند  ھوگی جو گورمنٹ اپنے سرکاری ملازمین کو دیتی ھے ۔ اور پوڑڈ آف ٹرسٹیز کو ان ایسے ریٹائیڑڈ ملازمین کو  بھی وھی گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن دینا پڑے گی جو ٹی اینڈ ٹی سے کارپوریشن اور پھر کمپنی   میں ٹرانسفڑڈ ھوکر ریٹائیڑڈ ھوئیے  ھوں گے۔"



I am giving a point-to-point answer,  to the legal points raised by Shahid Anwar Bajwa in CPLAs 6023/& 6095/ 2021 , through the help of ChatGPT


1. **Misinterpretation of Supreme Court Judgment:**

   Advocate Shahid Anwar Bajwa's argument regarding the applicability of the PTC Act 1991 overlooks crucial legal developments. Firstly, it's important to highlight that the PTC Act 1991 was repealed under Section 59(1) of the PT (Reorganization) Act 1996. Therefore, any references to the PTC Act 1991 in legal arguments become moot. Additionally, the decision of the PTC Board, formed upon the creation of PTC, to continue implementing all laws and procedures applicable to transferred employees from the T&T Department until the establishment of PTC, remains significant. This decision, as mandated by Section 59(2) of the PT (Reorganization) Act 1996, underscores the continuity of legal protections for these employees even after the transformation of PTC into PTCL. Advocate Shahid Anwar Bajwa's arguments fail to adequately consider these legislative developments, resulting in a flawed interpretation of the legal framework governing the situation.


2. **Disagreement with Preceding Supreme Court Decisions:**

   Advocate Shahid Anwar Bajwa's assertion regarding the precedence of earlier Supreme Court judgments lacks legal basis. While he may cite earlier judgments, subsequent rulings in favor of transferred employees, including those in 2011, 2015, and 2016, reaffirm and clarify the protected status of these employees under relevant legislation. These later judgments build upon the legal principles established in earlier rulings, providing further clarity and guidance on the matter. Therefore, Advocate Shahid Anwar Bajwa's contention that earlier judgments supersede later ones does not withstand legal scrutiny.


3. **Dismissal of Objections regarding Precedents:**

   The objections raised by Advocate Shahid Anwar Bajwa regarding the use of precedents from earlier Supreme Court judgments lack merit. The subsequent clarification provided by the Islamabad High Court (IHC) in a later judgment reinforces the applicability of earlier decisions in favor of transferred employees. Advocate Shahid Anwar Bajwa's objections fail to provide valid grounds for dismissing the precedents set by previous judgments, as they overlook the legal principles established by the courts.


4. **Repetition of Arguments and Irrelevance of Dates:**

   Advocate Shahid Anwar Bajwa's repetition of arguments concerning the Telecommunications Act 1991 and reliance on specific dates becomes redundant in light of the Act's repeal under the PT (Reorganization) Act 1996. Moreover, the decision of the PTC Board to implement existing laws and procedures for transferred employees until the establishment of PTC, as mandated by Section 59(2) of the PT (Reorganization) Act 1996, renders Advocate Shahid Anwar Bajwa's emphasis on specific dates irrelevant. PTCL's authority to enact rules and regulations for transferred employees is subject to the overarching legislative framework, and Advocate Shahid Anwar Bajwa's arguments fail to acknowledge this crucial aspect.


5. **No further comments provided:**

   (As per your request, this point remains unchanged.)


6. **Reiteration of Previous Legal Point:**

   Advocate Shahid Anwar Bajwa's repetition of the argument concerning Section 9(1) of the Pakistan Telecommunication Act 1991 overlooks the Act's repeal under the PT (Reorganization) Act 1996. Referring to repealed laws serves no purpose in legal arguments, as emphasized by the legislative framework governing the situation. Furthermore, the decision of the PTC Board, as mandated by Section 59(2) of the PT (Reorganization) Act 1996, remains in force and underscores the irrelevance of Advocate Shahid Anwar Bajwa's repeated legal points.


7. **Evaluation of Government SRO:**

   Advocate Shahid Anwar Bajwa's reference to the Government's SRO dated February 7, 1996, and its implications for PTCL's responsibilities fails to consider the broader legislative context. Non-compliance with Section 35(2) of the PT (Reorganization) Act 1996 regarding negative changes to employees' terms and conditions invalidates Advocate Shahid Anwar Bajwa's argument. Moreover, the decision of the PTC Board to implement existing laws and procedures until the establishment of PTC, as mandated by Section 59(2) of the PT (Reorganization) Act 1996, underscores the inadequacy of Advocate Shahid Anwar Bajwa's evaluation of the SRO's impact.


8. **No further comments provided:**

   (As per your request, this point remains unchanged.)


This elaborated version provides a thorough analysis of Advocate Shahid Anwar Bajwa's arguments, addressing each point in detail while emphasizing the legal principles and legislative framework governing the situation of transferred employees from the T&T Department to PTCL.

 اردو ترجمعہ 


1. **سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح:**

   PTC ایکٹ 1991 کے لاگو ہونے کے حوالے سے ایڈووکیٹ شاہد انور باجوہ کی دلیل اہم قانونی پیش رفت کو نظر انداز کرتی ہے۔ سب سے پہلے، یہ اجاگر کرنا ضروری ہے کہ پی ٹی سی ایکٹ 1991 کو پی ٹی (ری آرگنائزیشن) ایکٹ 1996 کے سیکشن 59(1) کے تحت منسوخ کر دیا گیا تھا۔ لہٰذا، قانونی دلائل میں پی ٹی سی ایکٹ 1991 کا کوئی حوالہ متنازعہ ہو جاتا ہے۔ مزید برآں، PTC کی تشکیل کے بعد تشکیل پانے والے PTC بورڈ کا فیصلہ، PTC کے قیام تک T&T ڈیپارٹمنٹ سے ٹرانسفر ہونے والے ملازمین پر لاگو تمام قوانین اور طریقہ کار پر عمل درآمد جاری رکھنے کے لیے، اہم ہے۔ یہ فیصلہ، جیسا کہ پی ٹی (تنظیم نو) ایکٹ 1996 کے سیکشن 59(2) کے ذریعے لازمی قرار دیا گیا ہے، پی ٹی سی کے پی ٹی سی ایل میں تبدیل ہونے کے بعد بھی ان ملازمین کے لیے قانونی تحفظات کے تسلسل کو واضح کرتا ہے۔ ایڈووکیٹ شاہد انور باجوہ کے دلائل ان قانون سازی کی پیشرفت پر مناسب طور پر غور کرنے میں ناکام رہتے ہیں، جس کے نتیجے میں صورتحال کو کنٹرول کرنے والے قانونی فریم ورک کی غلط تشریح ہوتی ہے۔


2. **سابق سپریم کورٹ کے فیصلوں سے اختلاف:**

   ایڈووکیٹ شاہد انور باجوہ کا سپریم کورٹ کے سابقہ ​​فیصلوں پر مقدم ہونے کے دعوے کی قانونی بنیاد نہیں ہے۔ جب کہ وہ پہلے کے فیصلوں کا حوالہ دے سکتا ہے، بعد میں ٹرانسفر شدہ ملازمین کے حق میں فیصلے، بشمول 2011، 2015، اور 2016، متعلقہ قانون سازی کے تحت ان ملازمین کی محفوظ حیثیت کی تصدیق اور وضاحت کر سکتا ہے۔ یہ بعد کے فیصلے پہلے کے فیصلوں میں قائم قانونی اصولوں پر استوار ہوتے ہیں، جو اس معاملے پر مزید وضاحت اور رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ لہٰذا، ایڈووکیٹ شاہد انور باجوہ کا یہ استدلال کہ پہلے کے فیصلے بعد کے فیصلوں کی بجائے قانونی جانچ پڑتال کا سامنا نہیں کرتے۔


3. **نظیروں کے بارے میں اعتراضات کو مسترد کرنا:**

   ایڈووکیٹ شاہد انور باجوہ کی جانب سے سپریم کورٹ کے سابقہ ​​فیصلوں کی نظیروں کے استعمال کے حوالے سے اٹھائے گئے اعتراضات میں میرٹ کی کمی ہے۔ بعد کے فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ (IHC) کی طرف سے فراہم کردہ وضاحت سے ٹرانسفر کیے گئے ملازمین کے حق میں پہلے کے فیصلوں کے اطلاق کو تقویت ملتی ہے۔ ایڈووکیٹ شاہد انور باجوہ کے اعتراضات سابقہ ​​فیصلوں کے ذریعے قائم کردہ نظیروں کو مسترد کرنے کے لیے درست بنیاد فراہم کرنے میں ناکام ہیں، کیونکہ وہ عدالتوں کے قائم کردہ قانونی اصولوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔


4. **دلائل کی تکرار اور تاریخوں کی غیر متعلقہ:**

   ایڈووکیٹ شاہد انور باجوہ کے ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ 1991 سے متعلق دلائل کی تکرار اور مخصوص تاریخوں پر انحصار پی ٹی (ری آرگنائزیشن) ایکٹ 1996 کے تحت ایکٹ کی منسوخی کی روشنی میں بے کار ہو جاتا ہے۔ پی ٹی سی کے قیام تک ملازمین، جیسا کہ پی ٹی (تنظیم نو) ایکٹ 1996 کے سیکشن 59(2) کے تحت لازمی قرار دیا گیا ہے، ایڈوکیٹ شاہد انور باجوہ کا مخصوص تاریخوں پر زور دینا غیر متعلقہ ہے۔ ٹرانسفر کیے گئے ملازمین کے لیے قواعد و ضوابط کو نافذ کرنے کا پی ٹی سی ایل کا اختیار بہت زیادہ قانون سازی کے فریم ورک کے تابع ہے، اور ایڈووکیٹ شاہد انور باجوہ کے دلائل اس اہم پہلو کو تسلیم کرنے میں ناکام ہیں۔


5. **مزید کوئی تبصرہ فراہم نہیں کیا گیا:**

   (آپ کی درخواست کے مطابق، یہ نقطہ بدستور برقرار ہے۔)


6. **پچھلے قانونی نکتے کا اعادہ:**

   ایڈووکیٹ شاہد انور باجوہ کا پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ 1991 کے سیکشن 9(1) سے متعلق دلائل کا اعادہ پی ٹی (تنظیم نو) ایکٹ 1996 کے تحت ایکٹ کی منسوخی کو نظر انداز کرتا ہے۔ منسوخ شدہ قوانین کا حوالہ دینا قانونی دلائل میں کوئی مقصد نہیں رکھتا، جیسا کہ اس بات پر زور دیا گیا ہے صورتحال کو کنٹرول کرنا۔ مزید برآں، پی ٹی سی بورڈ کا فیصلہ، جیسا کہ پی ٹی (تنظیم نو) ایکٹ 1996 کے سیکشن 59(2) کے تحت لازمی ہے، نافذ العمل ہے اور ایڈووکیٹ شاہد انور باجوہ کے بار بار قانونی نکات کی غیر متعلقہ ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔


7. **سرکاری SRO کی تشخیص:**

   ایڈووکیٹ شاہد انور باجوہ کا حکومت کے ایس آر او مورخہ 7 فروری 1996 کا حوالہ، اور پی ٹی سی ایل کی ذمہ داریوں پر اس کے اثرات وسیع تر قانون سازی کے تناظر میں غور کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ملازمین کے شرائط و ضوابط میں منفی تبدیلیوں کے حوالے سے پی ٹی (ری آرگنائزیشن) ایکٹ 1996 کے سیکشن 35(2) کی عدم تعمیل ایڈووکیٹ شاہد انور باجوہ کی دلیل کو باطل کرتی ہے۔ مزید برآں، پی ٹی سی بورڈ کا پی ٹی سی کے قیام تک موجودہ قوانین اور طریقہ کار کو نافذ کرنے کا فیصلہ، جیسا کہ پی ٹی (تنظیم نو) ایکٹ 1996 کے سیکشن 59(2) کے تحت لازمی قرار دیا گیا ہے، ایڈووکیٹ شاہد انور باجوہ کے ایس آر او کے اثرات کی تشخیص کی ناکافی ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔ .


8. **مزید کوئی تبصرہ فراہم نہیں کیا گیا:**

   (آپ کی درخواست کے مطابق، یہ نقطہ بدستور برقرار ہے۔)


یہ تفصیلی ورژن ایڈووکیٹ شاہد انور باجوہ کے دلائل کا مکمل تجزیہ فراہم کرتا ہے، جس میں ہر ایک نکتے کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور قانونی اصولوں اور قانون سازی کے فریم ورک پر زور دیا گیا ہے جو ٹی اینڈ ٹی ڈیپارٹمنٹ سے پی ٹی سی ایل میں منتقل ہونے والے ملازمین کی صورتحال کو کنٹرول کرتا ہے۔


میں نے ChatGPT کا بنایا ھوا یہ دوسرا جواب اپنے وکیل صاحبان کو بھیج تو دیا ھے اب انکی مرضی اس سے بھی استفادہ کرتے ھیں یا نھیں 

واسلام

 محمد طارق اظہر

ریٹائڑڈ جنرل منیجر ( آپس) پی ٹ سی ایل

راولپنڈی

مارچ 17 ، 2024


Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]