Article -100[ Regarding Important PTCL Pensioners Cases to be Heard on 21st August 2019 in HSCP ]
“۲۱اگست ۲۰۱۹ کو سپریم کوڑٹ میں ھونے والے کیسس ں میں سے دو کیسوں کے متعلق آگاھی”
عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو
اسلام وعلیکم
کل ۲۱ اگست ۲۰۱۹ سپریم کوڑٹ میں پی ٹی سی ایل پنشنروں کے کیسس کی شنوائی متوقع ھے جو سپریم کوڑٹ کے دو معزز ججز جسٹس گلزار احمد اور جسٹس سجاد علی شاہ سماعت کرینگے ۔ مجھ سے بہت سے پی ٹی سی ایل ساتھی معلوم کررھے ھیں اس کی بابت اور اسکا کیا نتیجہ نکلے گا۔ میں اپنی رائیے بتادوں مجھے کوئی اچھی توقعات بلکل نہیں ۔ اسکے بارے میں تفصیل سے آگے بیان کروں گا ۔ پہلے آپ سب دعا کریں کے ان کیسس کی شنوائی کل ھوجائیے اور مزید اسکی ملتوی(adjournment ) نہ ھو۔ تمام لوگ تو یہ ھی توقعات کر رھے ھیں کے محترم جج جسٹس گلزار صاحب کے ھوتے ھوئیے ، جن کی ھمدرد یاں ھمیشہ اپنے دوست پی ٹی سی ایل کے وکیل شاھد باجوہ کے ساتھ ھی ھوتی ھیں پھر اسکو کسی نہ کسی بہانے ملتوی ( adjourned) کردیں گے میں اس کے متعلق تو کوئی prediction تو نہیں دے سکتا اور نہ اس پر بات تو متفق نہیں ھو سکتا کے محترم جج جسٹس گلزار صاحب کی ساری ھمدرد یاں پی ٹی سی ایل کے اور پی ٹی ای ٹی کے ساتھ ھیں صرف اس وجہ سے کے وہ اپنے ھی ۱۲ جون ۲۰۱۵ پی ٹی سی ایل پنشنروں کے حق میں لکھے ھوئیے فیصلے پر اسطرح سے عمل درآمد نہ کراسکے جس طرح کے انھوں پی ٹی ای ٹی جو حکم دیا تھا اور جس کی تائید و توثیق اسی کیس کی ھئیرنگ کرنے والے دو معزز ججز نے بھی کی تھی ۔ عدالت عظمی نے اب تک جو بھی پی ٹی سی ایل میں کام کرنے والے سابقہ ٹی اینڈ ٹی اور پی ٹی سی میں کام کرنے والے ملازمین آر پنشنرز چاھے وہ ٹی اینڈ ٹی ، یا کارپوریشن یا کمپنی یعنی پی ٹی سی ایل میں ریٹائیڑڈ ھوئیے ھوں ، پی ٹی سی ایل کے فیصلے کئیے وہ ھمیشہ قانون کے مطابق کئیے انھیں کے حق میں کئیے ۔ لیکن عدالت عظمی اپنے ایک ایسے یعنی 12 جون 2015 کے فیصلے کو اسکی روح کے مطابق اس پر عمل درآمد کرانے کے ناکام رھی ھے اور اسکا سارا الزام سپریم کوڑٹ کے معزز جج محترم جج جسٹس گلزار صاحب کی طرف جاتا ھے جو انھوں اپنے دوست سابقہ سندھ ھائی کوڑٹ جج پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے وکیل محترم شاھد باجوہ سے دوستی کی وجہ سے ، انکی ایما پر کیا ۔15 فروری 2018 کو ریسپوںڈںٹس صادق علی اور
نسیم وہرہ ( بحیثیت سیکٹری ٹیلیکام پنشنر ایسوسی ایشن) کی طرف سے دائیر کئیے ھوئیے توھین عدالت کیسس ( کریمنل اپیلز 53/2015 اور 54/2015) پر صرف نارمل ریٹائیڑڈ پی ٹی سی ایل پنشنرز پٹیشنرز کو گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز دینے کا حکم دے کر انکی یہ تو ھیں عدالت کی درخواستیں ڈسپوزڈ آف کردیں یعنی خارج کردیں ۔ یہ دو معزز ججز کا فیصلہ متنازعہ اور عدالتی زبان میں ultra-vires یعنی ناقابل عمل تھا ۔ میرا خیال تھا کے کے صادق علی اور نسیم وہرہ اس ultra-vires فیصلے کے خلاف فورن سپریم کوڑٹ میں رویو پٹیشن دائیر کریں گے مگر میرے خیال میں انھوں نے بہت زبردست غلطی کی ان دونوں نے پھر توھین عدالت کے کیسس کردئیے صادق علی نے مظہر حسین کے خلاف کیا جسکا نمبر Crl.O.P-8/2018ھے ( یہ انھوں نے مظہر حسین کے خلاف اسلئی کیا گیا کے اسنے بحیثیت چیئرمین پی ٹی ای اٹی کے بوڑڈ آف ٹرسٹی سپریم کوڑٹ کے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ھوئیے پی ٹی سی ایل پنشنروں کی پنشن میں یکم جولائی 2017 سے پنشنرز انکریز کا جو نوٹیفیکیشن نکالا وہ گورنمنٹ کے اعلان کے مطابق نھیں تھا ) اور جو نسیم وہرہ نے ( بحیثیت سیکٹری ٹیلیکام پنشنرس ایسوسی ایشن) توھین عدالت کا کیس کیا جسکا نمبر Crl.O.P-28/2018 ھے وہ انھوں نے ایم ڈی پی ٹی ای ٹی حامد فاروق اور دیگران کے خلاف کیا ھے کے انھوں نے انکے نارملی ریٹائیڑڈ پی ٹی سی ایل پینشنرز پٹیشنرز پٹیشنروں 15 فروری 2018 کے فیصلے کے مطابق گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز نہ دے کر توھین عدالت کی ۔ ان کیسز کی پہلی شنوائی 19 اپریل 2018 انھی دو معزز جج ممبران کے بینچ کے سامنے ھوئی جنھوں نے
15 فروری 2018 کا فیصلہ دیا تھا یعنی محترم معزز جج جناب جسٹس گلزار احمد صاحب اور اور محترم معزز جج جناب جسٹس قاضی فیض عیسے صاحب نے ۔ حسن اتفاق سے میں بھی اس ھئیرنگ کے دوران کمرہ عدالت میں موجود تھا ، زندگی میں پہلی مرتبہ سپریم کوڑٹ اسلام آباد میں کاروائی دیکھنے گیا اور اسکے بعد میں نے توبہ کر لی کے میں ان پی ٹی سی ایل پٹیشنر کے کیسس کی کاروائی سننے کے لئیے کبھی آئندہ اس عدالت میں نہیں جاؤں گا ۔ جو حالات اور کیفیت میں نے پی ٹی سی ایل پٹیشنروں کے وکیلوں کے دیکھے الحفیظ الامان ۔ مجھے انکا کوئی بھی وکیل سنجیدہ نظر نہیں آیا جو انکے کیسس میں دلچسپی لے اور عدالت عظمی کو اپنے دلائیل سے convince کرے ۔ جو کچھ اس دن عدالت میں میں میں نے دیکھا اسکی روداد، اس دن کے اپنے important note اور 23 اپریل کے آڑٹیکل ۔53 بعنوان “ کسس سے دوستی کریں ۔۔ کس سی منصفی چاھیں” تحریر کردئیے ھیں اب اب یہ دونوں کو جمیل نستالیق اردو فونٹس میں تبدیل کرکے ، میں نے نیچے پیسٹ کردئیے ھیں ۔ چاھیں تو یہ پڑھ لیں ، خود ھی آپ سب لوگ آشکارا ھو جائیں گے ۔ اب وھی کیسس سوا سال کے بعد کل لگ رھے ھییں دو معزز ججز جسٹس گلزار احمد اور جسٹس سجاد علی شاہ کے سامنے ۔ یہ اب کیوں لگیں اگر اسکی رواداد لکھنے بیٹھ گیا تو یہ مضمون کافی طویل ھوجائیے گا اور آپ لوگ پڑھنے سے کترائیں گے ۔ پی ٹی سی ایل پنشنروں کے نہایت اھم کیسس لگے ھیں میں اسوقت صرف دو اھم کیسس ، جناب صادق علی اور نسیم وہرہ کے توھین عدالت کے کیسس کے بارے میں آپ کو بتا رھا ھوں۔ جیسا میں اوپر بیان کرچکا ھوں کے ان کیسوں کے اچھے رزلٹ کا آپ لوگ امید نہ رکھیں ۔ صادق علی کے مظہر حسین کے خلاف توھین عدالت کے کیس میں پہلے عدالت انکے وکیل سے یہ استفسار کر سکتی ھے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کو اس عدالت نے پی ٹی سی ایل پنشنروں کو گورنمنٹ والی پنشن دینے کا حکم دیا تو کیا انھوں اب اس حکم کا یہ نوٹیفیکیشن یکم جولائی 2017 سے گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز کے بجائیے اپنی طے کردہ پنشن دینے کا نوٹیفیکیشن نکالا اگر انھوں نے یہ عمل توھین عدالت کا ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے کے فورن بعد بھی یکم جولائی ۲۰۱۵ سے جاری رکھا تو اس وقت ھی انکے خلاف یہ کیسس کیوں نہیں کئیے یا جب سے اسکی خلاف ورزی کی ۔ تو اس طرح یہ صادق علی کا توھین عدالت کا کیس کھٹائی میں پڑ سکتا ھے ۔ رھا نسیم وہرہ کے توھین عدالت کے کیس کا تواسکے خارج ھونے کے 90% چانسز ھیں اسکی وجہ یہ ھے کے نسیم وہرہ صاحب ۱۲ جون ۲۰۱۵ والے فیصلے والے کیس میں کیسے ریسپونڈنٹ بن گئیے جبکے ان کے حق میں کسی بھی ھائی کوڑٹ نے فیصلہ نہیں دیا کیونکے انھوں نے ایسا کیس ھی نھیں کیا تھا تو کیسے پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی نے انکو ریسپونڈنٹ بنادیا ۔ جبکے اور جو ریسپونڈنس تھے ان سب کے حق میں اور پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کے خلاف ھائی کوڑٹوں نے فیصلے دئیے تھے ۔ مثلاً صادق علی کے کیس رٹ پٹیشن نمبر 762/2011 اور مرحوم یوسف آفریدی کے کیس رٹ پٹیشن نمبر2657/2012 میں انکو گورنمنٹ آف پاکستان کی اعلان کردہ پنشن انکریز کا حکم پی ٹی ای ٹی کو پشاور ھائی کوڑٹ نے 3 جولائی 2014 کو دیا تھا جسکے خلاف ھی پی ٹی ای ٹی نے سپریم کوڑٹ میں اپیل کی تھے جو ۱۲ جون ۲۰۱۵کو سپریم کوڑٹ نے ڈسمس کردی تھی ۔ پشاور ھائی کوڑٹ کی طرح کا کوئی آڈڑ نسیم وھرہ صاحب نے کسی بھی ھائی کوڑٹ سے حاصل نہیں کیا تھا تو پی ٹی ای ٹی نے کیسے انکے خلاف اپیل کردی اور کیسے سپریم کوڑٹ نے انکو ریسپونڈنٹ بنادیا ۔ اسی وجہ سے سپریم کوڑٹ شائید انکی یہ تو ھیں عدالت کی درخواست خارج کردے ۔
میں نے ان سب سے گزارش کی تھی کے وہ ۱۵ فروری ۲۰۱۸ کے دو رکنی بینچ ممبرز کے Controversial فیصلے کے خلاف تیس دن کے اندر اندر رویو پٹیشن داخل کردیں ۔ اسکا فیصلہ انکے حق میں آنے کی ۱۰۰% امید تھی کیونکے دو ججز حضرات کو اس کا کوئی اختیا ر ھی نھیں کے وہ ۱۲ جون ۲۰۱۵ تین رکنی بینچ کے فیصلے میں کوئی ترمیم کریں جسکی رویو پٹیشن بھی 17 مئیی2017 کو مزید تین رکنی بینچ نے بھی خارج بھی کردی تھی ۔
اب کل کسطرح سے انکے وکیل plead کرتے ھیں یہ تو کل ھی معلوم ھو گا مگر ھم کو کوئی اچھی توقعات نھہیں رکھنی چاھئیں ۔ بہت ممکن ھے کے ان سب کیسس کی ھئیرنگ ھی کل نہ ھو اور کہیں بہت ھی ضعیف معزز پی ٹی سی ایل کے وکیل خالد انور کے کراچی سے اپنی بیماری کی وجہ سے نہ کی وجہ سے پھر غیر معینہ مدت کے لئیے ملتوی نہ ھو جائیے۔
واسلام
محمد طارق اظہر
ریٹائیڑڈ جنرل منیجر( آپس) پی ٹی سی ایل
راولپنڈی
۲۰۔ اگست ۲۰۱۹
Comments