Article-111 [ regarding dismissal all old new cases relating to vss pcl pensioners with and without pension by IHC ]

‏Attention:PTCL VSS Non Pensioners

‏Article-111

‏Update of Case WP-2114/2016 Ghulam  Sarwar &etc Vs FOP & etc
‏Heard today the 20th Feb 2020

آج بتاریخ ۲۰فروری ۲۰۲۰ بروز جمعرات ، اسلام آباد ھائی کواڑٹ میں محترم جناب جسٹس میاں گل  حسن اورنگ زیب کی  عدالت می یہ کیس اور ایسے وی ایس ایس والوں کے کیسس کے ساتھ لگا ۔ اور یہ کیس ۲۸ فروری ۲۰۱۸ سے محفوظ تھا ۔ محترم جج صاحب  نے یہ کیس بھی اور تمام سارے وی ایس ایس کیسوں سب ایک ساتھ ڈسمس کردیا ۔ مطلب جو بھی وی ایس ایس کیسز کسی بھی نوعیت کے تھے اور   ان محترم جج  صاجب کے پاس لگے تھے وہ تمام کے تمام ڈسمس کردئیے گئیے ۔ ایسا معلوم ھوتا ھے محترم جج صاحب نے اتنے سارے پرانے اور نئیے کیسسز،  شائید  بغیر پڑھے ھوئیے کے کس نوعیت کے یہ کیسسز ھیں ایک ٹیکنیکل بنیاد پر خارج کردئیے ۔ جس ٹیکنیکل بنیاد پر سب کے سب خارج گئیے کے نہ رھے بانس اور نہ بجے بانسری ، وہ میں نے اس مضمون کے آخر میں بیان کرنے ھیں ۔ مجھے تو پی ٹی سی ایل کی طرف سے بھی کوئی اندرونی گیم ھی نظر آرھا ھے جو انھوں نے کھیلا ھے ۔ کیونکے اگر یہ فیصلے وی ایس ایس والوں کے حق میں ھو جاتے،  جسکی بہت ھی قوی امید تھی ، تو ان پی ٹی سی ایل والوں کی ماں نہ مر جاتی  ۔ وہ پہلے ھی حقدار ریگولر ریٹائیڑڈ پی ٹی سی ایل پنشنروں کو گورنمنٹ کی پنشن دینے سے کترا رھے ھیں وھاں وی ایس ایس والے اور اگر آجاتے جنکو سرے سے پنشن دی ھی نہیں حق ھونے کے باوجود تو ، انکا کیا حال ھوتا؟؟؟؟
مجھے ان محترم جج کے اس فیصلے سے کوئی حیرانی تو نہیں ھوئی مگر دکھ اور افسوس ضرور ھوا ۔ میں یہ بات وکیل صاحب کو بہت پہلے بتا چکا تھا کے ان جج صاحب سے مجھے کوئی اچھی توقع نہیں ھے۔ کیوں ؟ اسکی وجہ میں آگے چل کر بیان کرونگا۔
 یہ مزکورہ  کیس تو یہ تھا کے وی ایس ایس ۲۰۰۸  لے کر ریٹائیڑڈ ھونے والے پی ٹی سی ایل ملازمین کو  دس سال یا اس سے زیادہ کوالیفائیڈ سروس ھونے کے باجود پنشن کیوں نھیں دی گئی ۔ کس قانون کے تحت پی ٹی سی ایل نے پنشن لینے کی مدت ، یعنی کوالیفائیڈ سروس دس سال سے بیس سال کردی جبکے انکو گورنمنٹ کے اس قوانین کو انکے نقصان کے لئیے تبدیل کرنے کا کوئی بھی قانونی اختیار نہیں تھا [گورنمنٹ سروس ریگولیشن  کی کلاز 474AA کے تحت دس سال کی کوالیفائیڈ  سروس  یا اس سے زیادہ پر ، ایک سرکاری  ملازم ریٹائیڑڈ ھونے پر پنشن کا حقدار بن جاتا ھے چاھے اسے سزا کے طور پر جبری ھی کیوں نہ ریٹائیڑڈ  کیا جائیے ۔  اور جب اسکی کوالیفائیڈ  سروس بیس سال ھو جاتی ھے تو وہ فل پنشن بینیفٹس کے ساتھ ریٹائیڑمنٹ لینے کا حقدار بن جاتا ھے ( اب یہ الگ بات ھے اسکی درخواست پراسکو متعلقہ ڈیپاڑٹمنٹ ریٹائیڑڈ کرے یا نہ کرے )۔ جبکے دس سال کی کوالیفائیڈ  سروس یا اس سے زیادہ پر مگر بیس سال سے کم کوالیفائیڈ  سروس پر وہ ریٹائیڑمنٹ لینے کا حقدار نھیں ھوتا۔ اس فرق کو خوب اچھی طرح سمجھ لیں۔ ساٹھ سال کی عمر میں وہ خود بخود ریٹائیڑڈ ھو جاتا ھے فل پنشن بینیفٹس کے ساتھ ۔ لیکن اگر ساٹھ سال کی عمر کو  ھونے کے باوجود اسکی کوالیفائیڈ  سروس   نو سال چھ ماہ سے کم ھو تو اسکو پنشن نہیں ملے گی ۔ ھاں اگر کسی کی سروس ریٹائیڑمنٹ پر نو سال چھ ماہ یا اس سے زیادہ ھو تو اسکی کولیفائیڈ سروس خودبخود  دس سال ھی کاؤنٹ کی جائیےگی ]۔
محترم جج صاحب  نے اگر ایسا ھی فیصلہ کرنا تھا تو آج سے دوسال پہلے ھی کردیتے یعنی ۲۸ فروری ۲۰۱۸ کو فیصلہ محفوظ کردینے کے ایک ماہ میں ھی کر دیتے تو ابتک یہ کیس سپریم کوڑٹ کے مراحل سے بھی گزر چکا ھوتا اور یہ قوی امید ھوتی کے فیصلہ یقینن ایسے بغیر پنشن لینے والوں کے حق میں ھی ھو گا ۔ کیونکے ابھی حال ھی میں ، سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے ۳ اپریل   ۲۰۱۸ کو UBL  بنک  اور دیگر بنکوں کے رویو کیسس
‏CRP -70/2018 اور اسی طرح کی دیگر CRPs  میں یہ بات کلئیر کردی تھی کے “انھوں کے نے اپنے ۱۳ فروری ۲۰۱۸ کے اس کیس کے آڑڈڑ میں ان 10 اکتوبر 1997 کو  ، بنک سے اسٹاف میں کمی کرنے کے لئیے نکالے ھوئیے 5416  ملازمین ، جن کی کوالیفائیڈ  سروس دس سال ھو چکی تھی ، انکو پنشن دینے کا حکم دیا تھا. جس سے یہ ظاھر ھوتا ھے کے دس سال کی کوالیفائیڈ  سروس پر یا اسکے بعد  کسی وجہ سے بھی ریٹائیڑڈ  کئے ھوئیے سرکاری ملازم اور فوت ھونے کی صورت میں اسکے spouse کو پنشن ملے گی ۔ یاد رھے بنکوں میں فیڈرل گورنمنٹ کے ایک حکم کے تحت گورنمنٹ کے ھی پنشن رولز لاگو ھیں ۔ یہاں پی ٹی سی ایلُ  نے غیر قانونی اور غیر اختیاری طور  وی ایس ایس ۲۰۰۸ لینے والوں کے لئیے ،  گورنمنٹ کے کم ازکم پنشن کے حق کی کوالیفائیڈ سروس دس سال سے بڑھا کر بیس سال کردی جسکی  ایسے ھزاروں  وی ایس ایس لینے والوں کو پنشن سے محروم کردیا۔   جنکی کوالیفائیڈ سروس بیس سال سے زرا سی بھی کم تھی ۔ ایسے تمام پی ٹی سی ایل ملازمین کو  پی ٹی سی ایکٹ 1991 کی کلاز (2)9 اور پی ٹی ( ری -آرگنائیزیشن ) ایکٹ 1996 کی کلاز ز (2)35 اور (b),(a) 36 کی رو سے دس سال یا اس سے زیادہ کوالیفائیڈ  سروس پر پنشن لینے کا قانونی حق حاصل تھا ۔ کیونکے  جب ایسے پی ٹی سی ایل ملازمین یکم جنوری 1996 کو پی ٹی سی سے ٹرانسفر ھوکر پی ٹی سی ایل میں  آئیے انکو مندرجہ بالا مزکورہ قانون کے تحت پروٹیکشن حاصل تھا اور پی ٹی سی ایل  ماسوائیے گورنمنٹ کے سرکاری قوانین ( Statuory rules)  کے انپر کوئی بھی اپنے قوانین استعمال   کرنے کی مجاز نہیں تھی
7 اکتوبر 2011 کو سپریم کوڑٹ نے مسعود بھٹی کیس  2012SCMR152 میں اسکو کنفرم کردیا اور یہ لکھ دیا  کے پی ٹی سی ایل ایسے ٹرانسفڑڈ ملازمین کے کسی بھی قانون میں ایسی منفی تبدیلی نہیں  کر سکتی جن سے انکو فائیدہ نہ ھو ۔ لیکن پی ٹی سی ایل کی ظالم انتظامیہ نے پنشن لینے کے حقدار ھونے کے لئے کوالیفائیڈ سروس 20 سال کردی جو انکا ایک نہایت غیر قانونی اقدام تھا اور سپریم کوڑٹ کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی تھی۔  
یہ کیس   غلام سرور ابڑو صاحب نے اپنے اور دیگر ساٹھ ساتھیوں کے ساتھ کوئیٹہ سے آکر اسلام آباد  ھائی کوڑٹ میں 31 مئی 2016 کو داخل کیا تھا  کے یہ پی ٹی سی ایل کا اقدام دس سال کی کولیفائیڈ سروس کو بیس سال کرنا ایک غیر قانونی اقدام تھا اسکو ختم کیا جائیے  اور اس قانون کی بنیاد پر انکو وی ایس ایس ۲۰۰۸ میں ریٹائیڑڈ دس سال یا اس سے زیادہ کوالیفائیڈ  سروس ھونے کی وجہ پپنشن دی جائیے ، اس وقت سے جب سے انھیں ۲۰۰۸ میں وی ایس ایس دے بغیر پنشن دے کر ریٹائیڑڈ کیا گیا ہے۔
یاد رکھیں ھر اس ادارے ، کارپوریشن یا کمپنی  میں جو اپنے ملازمین کو  ریٹائیرمنٹ پر پنشن دینے کے پابند ھیں اور انھوں نے پنشن دینے کے اپنے قوانین بنائیے ھیں  ان سب نے پنشن دینے کے لئیے کم ازکم کوالیفائیڈ سروس دس سال  رکھی ھے ۔ جیسے پی ٹی وی ، ریڈیو پاکستان اور پی آئ اے وغیرہ وغیرہ ۔ ھندوستاں میں بھی یہ ھی سرکاری ملازموں کو پنشن دینے کے لئیے کم ازکم کولیفائیڈ سروس دس سال ھی ھے ۔
مجھے لگتا ھے کے محترم جج صاحب نے اس کیس کو پوری طرح یا تو پڑھا نھیں یا اتنے عرصے محفوظ رکھنے کے بعد وہ پوائینس ھی بھول گئیے ھوں ۔ وہ تو کبھی بھی کوئی نوٹ  ھئیرنگ کے دوران شادر و نادر لیتے تھے۔ یہ بات مجھے وکیل صاحب نے بتائی تھی۔
جیسا اوپر میں نے بتایا ھے کے یہ رٹ پٹیشن جسکا نمبر [ 2114/2016 ] ھے جو بتاریخ 31 مئی 2016 کو داخل کی گئی تھی ۔ اسکی  ھئیرنگ کا آغاز مارچ 2017 کو ھوا ۔ مارچ 2017 میں ایک دن مجھے وکیل صاحب نے بتایا پی ٹی سی ایل کے وکیل یہ کہہ رھےھیں  کے جو لوگ کارپوریشن میں بھرتی ھوئیے تھے انپر گورنمنٹ  آف پاکستان کے رولز استعمال نھیں ھو سکتے انپر کارپوریشن کے رولز استعمالُ ھونگے ۔ میں نے وکیل صاحب کو بتایا ایسا نہیں کیونکے کاپوریشن یعنی پی ٹی سی میں گورنمنٹ کے ٹی اینڈ ٹی ھی والے رولز استعمال ھوتے تھے اسلئیے جو لوگ کارپوریشن میں بھرتی ھوئیے ان پر بھی گورنمنٹ رولز استعمال ھوتے تھے ۔ وکیل صاحب نے یہ بات جج صاحب کو بتادی ۔ انکے وکیل نہ مانے اسپر وکیل صاحب نے کہا کے اگر یہ کہتے ھیں جو لوگ کارپوریشن میں بھرتی ھوئیے ، تو ایسے کارپوریشن کے رولز لاگو ھوتے تھے تو اسکا کا کوئی نوٹیفیکیشن ھی لا کر دکھادیں ۔ وکیل صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کے اگر انھوں نے کوئی اسطرح کا کاپوریشن کا نوٹیفیکیشن  دکھا دیا تو وہ یہ کیس واپس لے لیں گے۔
12 یا 13 اپریل 2017 کو وکیل صاحب نے مجھے فون پر بتایا کے پی ٹی سی ایل  والوں نے ھماری پٹیشن پر اپنا جواب داخل کیا ھے اور جج صاحب نے اسکا rebutter ، اپریل  کی 17 تاریخ تک مانگا ھے آپ مجھے فورن بناکر ای میل کردیں ۔ میں ان دنوں اپنے بھتیجے کی شادی کی تیاریوں میں کچھ مصروف تھا ۔ جلد یہ نہ بنا سکا ۔ ۔16 1پریل بروز اتوار میں بھتیجے کے نکاح کی  تقریب میں لاھور چلا گیا ۔ جاتی ھوئیے راستے میں دو دفعہ وکیل صاحب کا فون آیا کے مجھے ھر حال میں صبح rebutter  جمع کراناھے ۔ میں نے انسے کہا آپ بے فکر رھیں یہ صبح تک آپکو مل جائےگا ۔ رات ۱۰ بجے میں لاھور سے واپس آیا اور نماز وغیرہ پڑھکر یہ لیب ٹاپ  پر بنانے بیٹھ گیا اور علیصبح مکمل کرکے وکیل  صاحب کو ای میل کردیا ۔ جو انھوں نے اسی دن یعنی 17 اپریل کو جمع کرادیا۔ وکیل صاحب نے بتایا کے کیس کی ھئیرنگ مکمل ھوگئی ھے اب اگلی تاریخ پر اسکا فیصلہ ھی انشاللہ آئیگا ۔ 12 جون 2017 کو یہ کیس لگا ۔ ھمارا خیال تھا کے آج فیصلہ آئیگا ۔ مگر یہ کیا ؟؟؟ محترم جج صاحب نے بتایا کے ابھی وہ فیصلہ مکمل نہیں لکھ سکے اب انشاللہ 27 ستمبر 2017 کو اسکا عدالتی چھٹیوں کے بعد فیصلہ سنائیں گے ۔  ھم  لوگ کافی اطمینان سے تھے کے ھمارا کیس کافی  سٹرونگ ھے اسلئیے فیصلہ ھمارے ھی حق میں آئیگا  یعنی وی ایس نان پینشنرز کے حق میں انشااللہ۔ چلیں جی 27 ستمبر 2017 بھی آگیا ۔ اور یہ کیس  یعنی WP-2114/2016  عدالت میں لگ گیا ۔ مگر یہ کیا ھوا ؟؟؟؟ ۔ محترم جج صاحب نے بجائیے فیصلہ سنانے کے پی ٹی سی ایل کے وکیل کی درخواست پر  انکو دوبارہ orguments دینے کو کہا ۔ بجائیے وہ وکیل اس پر اپنے orguments شروع کرتے ان وکیل نے ٹائیم مانگ لیا اور جج صاحب نے اسکو ایک ھفتے کا ٹائیم دے دیا ۔ جب ایک ھفتے بعد یہ کیس دوبارا لگا لیکن پی ٹی سی ایل کے وکیل اپنے orguments نہیں شروع کرسکے اور پھر ٹائیم مانگ لیا ۔ محترم جج صاحب نے پھر انکو ایک ماہ کا ٹائیم دے دیا  ۔ اور  اسطرح اس کیس کی دوبارہ سے ھئیرنگ شروع ھوئی ۔
وی ایس ایس پٹیشنرز کے وکیل سے بھی جج صاحب نے کہا وہ بھی orguments شروع کریں ۔ تو ھمارے وکیل صاحب نے فرمایا کے وہ تو دے چکے ھیں ھر طرح سے مگر پھر  محترم جج صاحب کے حکم پر  انھوں نے بھی دوبارہ orguments شروع کردئیے۔
غالبن یہ نومبر 2017 کا مہینہ اور دن اتوار کا۔ تھا ، پٹیشنر ملک اعجاز صاحب اور کچھ دوسرے اس کیس کے پٹیشنر میرے گھرگلریز  راولپنڈی میں گجرات سے آئے صبح کے وقت اور مجھ سے کہا کے وکیل صاحب بتا رھے ھیں جج موصوف یہ فرما رھے ھیں کے کم ازکم کوالیفائیڈ سروس بیس سال ھی ھوتی ھے نا کے دس سال ۔ آپ  ساتھ چلیں اور وکیل  صاحب کو convince کریں تاکے وہ جج  صاحب کو بھی    Convince کرسکیں ۔ وہ اپنے ساتھ سروس بک بھی لائیے تھے جس پر دس سال کی  کوالیفائنگ سروس کے ٹھپے لگے ھوئیے تھے ۔ خیر ھم اسلام آباد وکیل  صاحب کے پاس راول گاڑڈن پہنچے جہاں وکیل صاحب  ھمارا انتظار کر رھے تھے ۔ انکو پہلے وہ سروس بک دس سالہ  کولیفائیڈ سروس verificatin کے ٹھپے دکھائیں کے دیکھیں دس سال  کی کوالیفائنگ سروس کی verification  ڈائیریکٹر اکاؤنٹ لاھور کرانی پڑتی ھے تاکے دس سال کی کوالیفائیڈ سروس پر اسکو جبری بھی ریٹائیڑڈ کیا جاتا ھے تو اسکو پنشن ملسکے ۔ پھر میں نے انکو ایک چاڑٹ دکھلایا کے کوالیفائنگ  سروس کا آغاز دس سال سے شروع ھوتا ھے  اور تیس سال کی کوالیفائنگ سروس پر ختم ھوتا جسکے مطابق ۱۰ سال سے ھرسال  کی بنیاد پر پنشن کیلکولیشن کے لئیے  کس fraction سے ضرب دی جائیے گی ۔ مثلاً اگر ایک سرکاری ملازم کو دس سال کی کوالیفائنگ سورس پر ریٹائیڑڈ کردیا جاتا یا وہ فوت ھو جاتا ھے اسکو کیا پنش یا اسکی فوتگی کی صورت میں اسکی بیوہ یا جو بھی اسکا حقیقی وارث ھو اسکو کیا پنشن ملے گی اور جو گیارا یا بارا سال یا سے زیادہ  میں ریٹائیڑڈ ھو اسکو کیا ملے گی وغیرہ وغیرہ ۔ ۳۰سال کی کوالیفائنگ سے زیادہ  والوں  ۳۰ سال کی ھی کیلکولیشن کے مطابق پنشن ملے گی  [ میں اس چاڑٹ کی کاپی آپ لوگوں کی آگاھی کے لئیے نیچے پیسٹ کردی ہے ۔ ضرور غور فرمائیں]۔
محترم جج صاحب کے اس استفسار پر کے بیس سال ھی کوالیفائنگ سروس بیس سال ھی ھے ۔ میں نے یہ بات  وکیل صاحب کو کلئیر کردی ۔ کے پری میچور ریٹائیرمنٹ لینے کے لئیے کوالیفائنگ سروس کا بیس سال یا اس سے زیادہ ھونا لازمی ہے ۔جب ایک سرکاری ملازم بیس سال یا اس سے زیادہ کی کوالیفائنگ سروس کو پہنچتا ھے تو اسکو ریٹائیرمنٹ لینے کا حق مل جاتا ھے اور وہ ریٹائیرمنٹ  لے س اور جو گیارا یا بارا سال یا سے زیادہ  میں ریٹائیڑڈ ھو اسکو کیا ملے گی وغیرہ وغیرہ ۔ ۳۰سال کی کوالیفائنگ سے زیادہ  والوں  ۳۰ سال کی ھی کیلکولیشن کے مطابق پنشن ملے گی  [ میں اس چاڑٹ کی کاپی آپ لوگوں کی آگاھی کے لئیے نیچے پیسٹ کردی ہے ۔ ضرور غور فرمائیں]۔
محترم جج صاحب کے اس استفسار پر کے بیس سال ھی کوالیفائنگ سروس بیس سال ھی ھے ۔ میں نے یہ بات  وکیل صاحب کو کلئیر کردی ۔ کے پری میچور ریٹائیرمنٹ لینے کے لئیے کوالیفائنگ سروس کا بیس سال یا اس سے زیادہ ھونا لازمی ہے ۔جب ایک سرکاری ملازم بیس سال یا اس سے زیادہ کی کوالیفائنگ سروس کو پہنچتا ھے تو اسکو ریٹائیرمنٹ لینے کا حق مل جاتا ھے اور وہ ریٹائیرمنٹ  لے سکتا ھے جسکو پری میچور ریٹائیرمنٹ کہتے ھیں ۔ وکیل صاحب  بھی میری ان باتوں سے قائیل  ھوگئیے اور انھوں نے سب کچھ جج صاحب  کو بتانے کا وعدہ کیا۔ میں نے اسوقت وکیل صاحب کو یہ بھی کہا کے مجھے ان جج صاحب پر اعتماد نہیں رھا۔ مجھے نہیں لگتا یہ پٹیشنروں کے حق میں اچھا فیصلہ کریں گے۔  بہتر یہ ہے آپ جج تبدیل کرنے کی درخواست دیں ۔ مگر وکیل صاحب راضی نہ ھوئیے اور کہا نہیں یہ جج والیئے سوات کے بھانجے ھیں اور بڑے ایماندار ہیں ۔ میں نے ان سے یہ بھی گزارش کی اس کیس کو ڈبل بینچ میں چلانے کی درخواست دیں   تاکے خلاف فیصلہ آنے کی صورت میں پٹیشنرس ڈائیریکٹ سپریم کوڑٹ میں  اپیل کر سکیں بجائیے انٹرا کوڑٹ اپیل کرنے کے۔ لیکن وکیل صاحب اس پر بھی راضی نہیں ھوئیے ۔ اور میں چپ ھو گیا اور کیا کرتا۔
آخر دوبارہ اس کیس کی ھئیرنگ فروری 2018 میں مکملُ ھو گئی اورجج صاحب  اسپر فیصلہ ۲۸ فروری ۲۰۱۸ کو محفوظ کردیا۔ جسکو انھوں نے 14 مارچ 2019 کو ،  حاظر اور بعد میں داخل ھونے والے وی ایس ایس اور ریگولر ریٹائیڑڈ ھونے والے پی ٹی سی ایل ملازمین پٹیشنروں کیسوں کے ساتھ کلب کردیا ۔ جو کافی تعداد میں تھے۔ بجائیے وہ اس کیس پر ، جو ۲۸ فروری ۲۰۱۸ کو محفوظ کیا گیا تھا فیصلہ سناتے ۔ انھوں نے اور کیسس کی ھئیرنگ شروع کردی اور آج ۲۰ فروری ۲۰۲۰ وی ایس ایس والوں کے کیسس ریگولر یعنی نارملی ریٹائیڑڈ ھونے والے پی ٹی سی ایل پنشنروں کے کیسس سے الگ کردیا اور تمام وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھونے والے پی ٹی سی ایل  چاھے وہ پنشنرز ھوں یا نان پنشنرز ھوں اڑا دئیے ۔ انکا یہ طرز عمل وی ایس ایس پٹیشنرس کے ساتھ ، میری سمجھ سے بالاتر ھے ۔ وی ایس ایس نان پنشنروں کا کیس جنکو دس سال یاس زیادہ کوالیفائنگ سروس کی با پر پنشن نہیں دی گئی بہت ہی strong تھا ۔ اسکی پٹیشن میں نے ھی تیار کی  تھی اور اس میں میں نے سپریم کوڑٹ کے مسعود بھٹی کیسس اور اسی طرح کے دیگر کیسس کے ریفرنسس دے کر ثابت کیا تھا ۔ پی ٹی سی ایل کو یہ بلکل بھی  قانونی اختیار نھیں تھا کسی بھی بیس سال سے کم اور دس سال یا اس سے زیادہ کوالیفائنگ سروس رکھنے والے پی ٹی سی ایل کام کرنے والے ٹی اینڈ ٹی اور پی ٹی سی ایل کے ملازمین کو ریٹائیرمنٹ پر چاھے کسی طرح  بھی دی جائیے، پنشن کے قانونی حق سے محروم کیا جائیے ۔ جبکےپہلے  پی ٹی سی ایل 1998-1997  میں وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھونے والوں کو یہ پنشن دے چکی ھے جنکی کوالیفائنگ سروس دس سال یا اس سے زیادہ تھی مگر اب ۲۰۰۸ میں نہیں دے رھی۔ یہ  سراسر discrimination ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے  آئین کی شق 4 اور 27 کے بھی بلکل خلاف ھے ۔
جیسا میں نے اوپر بیان کیا ھے کے لگتا یہ ھے کے محترم جج موصوف نے یہ پٹیشنیں پڑھی ہی نہیں اور کسی ٹیکنیکل بنیاد پر تمام تمام وی ایس والوں کی پٹیشنیں ڈسمس کردیں ۔وہ کیا ٹیکنیکل بنیاد ھوسکتا ہے ؟؟؟ جہاں تک میں سمجھتا ھوں کے محترم جج صاحب ، جناب ایڈوکیٹ خالد انور صاحب کے ان دلائیل سےمتاثر نظر آئیے  جو انھوں نے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے کے خلاف پی ٹی سی ایل کی رویو پٹیشن پر پیروی کرتے ھوۓ 17 مئی 2017 کو  دئیے تھے “  کہُ جو پی ٹی سی ایل ملازمین وی ایس ایس لے کر دیٹائیڑڈ ھوئیے تھے انکے سروس ٹرمز تبدیل ھو گئیے اور کمپنی کے ملازم بن گئیے تھے اور انکو اپنے grievances دور کرنے کے لئیے کسی بھی ھائی کوڑٹ سے رجوع کرنے کا اختیا ر نہیں رھا ۔[ حالانکے نہ تو کسی بھی کیس میں سپریم کوڑٹ نے کوئی ایسا حکم جاری کیا ھے اور نہ ھی وی ایس ایس لینے کی شرائیط میں یہُ لکھا تھا کے جو پی ٹی سی ایل ملازم وی ایس ایس لے گا  اس کے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس تبدیل ھو جائیں گے اور اسے کمپنی کا ملازم کہا جائیے گا اور اسکو کسی صورت میں ھی  سرکاری ملازمین کی طرح اپنے grievances دور کرنے کے لئیے ھائی کوڑٹوں کو آئین کے آڑٹیکل ۱۹۹ کے تحت رجوع کرنے کا اختیار نہیں ھوگا]۔  میرا ذاتی خیال ھے جج صاحب نے شائید اسی بنا تمام وی ایس ایس والوں کی پٹیشنیں بیک جنبش  قلم اسی ٹیکنیکل بنیاد پر اڑا دئیے جے ان وی ایس ایس والوں کو ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرنے کا اختیار ھی نہیں تھا ۔ لہازا ڈسمس ۔
خیر دیکھتے ھیں ۔ وہ ان کو ڈسمس کرنے کی وجہ کیا پیش کرتے ھیں ۔ یہ تو مفصل فیصلہ آنے پر ھی معلوم ھوگا۔ کب یہ مفصل فیصلہ آئیے گا ۔ اللہ ھی جانے۔
یقینن یہ تمام وی ایس ایس لے ریٹائیڑڈ والوں کے لئیے چاھے انکو پنشن ملی ھو یا نہیں ، ایک بری خبر ھے ، مگر انکو مایوس نہیں ھونا چاھئیے ۔ مایوسی کفر ھے ۔اللہ پر بھروسہ رکھنا چاھئیے اسکے ھاں دیر تو ضرور ھے پر اندھیر تو نہیں ۔ اب اس فیصلہ کے خلاف انٹرا اپیل کرنی ھوگی یا ڈائیریکٹ سپریم کوڑٹ میں ۔ میں زاتی طور پر یہ سمجھتا ھوں کے اگر انکی پٹیشنیں اس بنیاد پر خارج کی گئیں کے یہ لوگ وی ایس ایس لینے کے  کمپنی کے ملازم بن گئیے تھے اسلئیے انکو ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرنے بالکل اختیار نھیں ، تو یہ ڈائیریکٹ سپریم کوڑٹ میں آئینی پٹیشن کریں کیونکے  سپریم کوڑٹ کے  نے مسعود بھٹی کیس 2012SMR152 میں ایسا کوئی بھی حکم نہیں دیا گیا تھا کے اگر “ اپیلنٹس  وی ایس ایس لے ریٹائیڑڈ ھونگے ان پر گورنمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت بننے والے  statutory rules  اطلاق نہیں ھوگا اور وہ ختم ھو جائیے گا اور وہ کمپنی کے ملازم بن جائیں گے اور وہ اپنے grievances کے لئیےوئ گئی کوڑٹوں سے رجوع نہیں کر سکیں گے “ ۔ مگر سپریم کوڑٹ نے ایسا کوئی بھی اسمیں حکم نہیں دیا ۔ بلکے یہ ضرور لکھا ھے کے پی ٹی سی ایل کو یہ بلکل بھی اختیار نھیں کے ایسے ملازمین  سروس ٹرمز میں کوئی ایسی منفی تبدیلی کریں جن سے انکو فائیدہ نہ ھو ۔ تو پھر اگر یہ کی ھے تو پی ٹی سی ایل نے کسطرح اور کس قانون کے تحت کی ؟؟؟؟ اور دس سال کوالیفئنگ سروس پنشن لینے کے لئی بیس سال میں تبدیل کردی ۔ یہ ایسی منفی تبدیلی کیسے کردی کے جو وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھوگا اسکے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس تبدیل ھو جائیں گے اور وہ کمپنی کا ملازم بن جائیے گا اور اسکا ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرنے کا اختیار ختم ھو جائیے گا ۔ لیکن پی ٹی سی ایل نے تو وی ایس ایس آفر لیٹرز ایسی کوئی کی شرائط نہیں لکھی تھی اور نہ کسی قسم کا وی ایس ایس لینے والوں سے اس کی بابت اقرار نامہ یا کسی قسم کا ایگریمنٹ کیا تھا ۔
ضروری ھے تمام ایسے وی ایس ایس لینے والے ابھی سے تیاری رکھیں اور ان کیسس کے لئیے جو وکیل کریں وہ بہت بہترین  اور ماہر ھونا چاھئیے  جو آئینی اور سروس رولز میں بہت تجربہ رکھتا ھو ۔ اگر ایسے لوگ اس بارے میرا تعاون اور آئینی  پٹیشن  کے بارے میں میری رائیے لینا چاھیں تو ضرور لیں  ۔ مجھے بیحد خوشی ھوگی ۔
واسلام
محمد طارق اظہر
ریٹائیڑڈ جنرل منیجر( آپس) پی ٹی سی ایل
راولپنڈی
 ۲۰ فروری ۲۰۲۰

Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]