Article-113[ regarding reply of GM PTET to MoITT on House of Sanete motion]

‏Attention      Attention     Attention

‏                      Article-113
تبصرہ
[ پی ٹی ای ٹی کی ھٹ دھرمی اور اسکے جی ایم کی بونگیاں]
عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو
اسلام وعلیکم
جیسا آپ سبکو معلوم ھے کے سینٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی فار آئی ٹی نے پی ٹی سی ایل پنشنروں کو گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن کو پی ٹی ای ٹی سے ادا کرانے کے لئیے ایک تین رکنی سب  کمیٹی کنوینئیر سینیٹر محترمہ روبینہ خالد صاحبہ  کی سربراہی میں قائیم کی تھی جسکے دیگر ممبرز سینیٹر محترم رحمان ملک صاحب اور سینیٹر کلثوم پروین صاحبہ تھیں ، اور آپ سب لوگ یہ بھی جانتے ھیں کے پی ٹی ای ٹی  نے سپریم کوڑٹ کے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے پر عمل صرف ان پٹیشنروں پنشرز پر  کیا جنھوں نے مقدمہ بازی کی تھی اور اسطرح ، انھوں عدالت  عظمی کے اس حکم پر اسکی روح کے مطابق عمل نہیں کیا جس کے حکم  صاف طور پر آخر میں لکھا  تھا “ اور پی ٹی ای ٹی ایسے ملازمین کو گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن دینے کے پابند ھیں” ۔ مزید یہ کے انھوں نے سپریم کوڑٹ کے حمید اختر نیازی کیس 1996SCMR1185 واضح کردہ اس  اصول اور قانون  کی بھی عمل داری نہیں کی  جس میں کہا گیا تھا کے “ایک سرکاری ملازم کے حق میں   ایف ایس ٹی یا سپریم کوڑٹ کے فیصلے کا فائیدہ جس نے مقدمہ بازی کی ھو ، ایسے تمام دیگر سرکاری ملازمین کو بھی پہنچے گا جنھوں نے یہ مقدمہ بازی کی ھو یا نہ کی ھو ،تو اس سپریم کوڑٹ کے واضح کردہ قانون اور اصول کے مطابق بھی اس ٹرسٹ نے سپریم کوڑٹ کے اس ۱۲ جون ۲۰۱۵ فیصلے کا فائیدہ ایسے  تمام اور پی ٹی سی ایل نان پٹیشنرز پی ٹی سی ایل پینشنرز تک بھی لازمن پہچانا تھا جو اس مقدمہ میں پاڑٹی نھیں تھے ۔ تو سٹینڈگ کمیٹی سینٹ کی اس سب کمیٹی نے اسی تناظر میں اپنی یہ اسپیشل رپوڑٹ مرتب کی۔ اور اس میں یہ تفصیل سے یہ بیان کیا کے کیوں بوڑڈ آف ٹرسٹیز پی ٹی سی ایل کے ان پنشنروں کو گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز یکم جولائی ۲۰۱۰ سے نھیں دے رھے جسکو یہ باقاعدہ یکم جنوری 1996 سے باقاعدہ گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن کے مطابق ادا کرتے  رھے تھے ۔ انھوں نے  یہ  گورنمنٹ پنشن انکریز یکم جولائی ۲۰۱۰ سے پی ٹی سی ایل کی نئی انتظامیہ  کے مفاد میں آکر دینا بند کردی ھے ۔ کیونکے اب یہ ٹرسٹ  پی ٹی سی ایل کے کے زیر اثر کام کررھا ھے اور جس مقصد کے لئیے اسکا قیام کیا گیا تھا وہ اس پھر گیا ھے اور یہ پی ٹی سی ایل والوں  ھاتوں کھلونا بن کر اسی کی مفاد میں کام کررھا ھے اور ان پی ٹی سی ایل پنشنروں کو انکے جائیز حق سے محروم کر رکھا ھےاور باوجود اعلی عدلیہ انکے اس عمل کو غیر قانونی دے چکی ھے۔ اسی اسپیشل رپوڑٹ اسکی سفارش کی گئی تمام ایسے پی ٹی سی ایل پنشنروں ان سب کو گورنمنٹ والی پنشن بمعہ  بقایا جات پی ٹی ای ٹی کی طرف سے فورن ادا کی جائیے۔  سب کمیٹی کی اس اسپیشل رپوڑٹ کو سینٹ کی منظوری کے لئیے 27 جنوری 2020 کو سینٹ کے اجلاس میں پیش کیا گیا۔اس سب کمیٹی کی کنوینیر محترمہ روبینہ خالدہ صاحبہ نے اس سینیٹ کے اجلاس   میں اس رپوڑٹ کے خدوخال اور پی ٹی ای ٹی کے منفی کردار کے بارے میں کھل کر بتایا کے کس غیر قانونی طریقے سے پی ٹی سی ایل کے ایسے پنشنروں کو، جنکا گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز لینا  ایک قانونی حق تھا، وہ یہ پنشن نہیں دے رہے۔ سینیٹر جناب رحمان ملک صاحب نے تو اس اس سپیشل رپوڑٹ کی حمایت میں بہت زبردست تقریر کی اور یہ ٹرسٹ جس ھٹ دھرمی کا مظاھرہ کررھاھے ، اسکی انھوں نے انکی سخت سرزنش کی ۔ حکومت وقت کی طرف سے سینیٹر اعظم سواتی نے بھی زبردست حمایت کی اور ٹرسٹ کو انکی گورنمنٹ والی پنشن فوری طور ادا کرنے کا کہا سینٹ ھاؤس نے اپنے 27جنوری 2020 کے اجلاس میں اسکی منظوری سینٹ کی بزنس رولز آف پروسیجر کنڈکٹ 196/3 کے تحت منظور کرلی۔ اس متعلقہ رولز کے تحت سینٹ ھاؤس سے اسکو اپنانے کے بعد متعلقہ منسٹری کو اسکو نافظ کرنے کا کہا جاتا ھےاور وہ اگر سینیٹ فیصلے کو نافظ نھیں کرتی تو وہ دو مہینے کے اندر اسکے وجوھات کے ساتھ بتائیے گی۔ اور اگر منسٹری ایسا کرنے میں ناکام ھو جاتی ھے تو ھاؤس آف سینٹ کا یہ فیصلہ اسپر واجب ھوجائیے گا۔تو ھاؤس آف سینیٹ کے اس فیصلے کو ، سیکٹری سینٹ کمیٹی اعظم خان نے  ۲۹ جنوری ۲۰۲۰ سب کمیٹی کی اسپیشل رپوڑٹ کی کاپی کے ساتھ سیکریٹری MoITT اسلام آباد کو بزریعہ خط بھیج دی [اس خط  کاپی دوبارہ آپ لوگوں کے لئیے نیچے پیسٹ کردی ھے ] اور پھر اسی منسٹری  یعنی MoITT کے سیکشن آفیسر ( کونسل ) اعزاز الحق نے ، سیکٹری MoITT کے حکم پر اس پر عملدرآمد کرنے کے لئیے ,  CEO PTCL اور MD  PTET اسلام آباد کوبھیج دیا کے اسپر 14 فروری 2020 تک عمل کرکے رپوڑٹ دی جائیے .  جی ایم پی ٹی ای ٹی نے ، بجائیے اس ھاؤس آف سینیٹ کے فیصلے پر عمل کرنے کے ایک بہت ھی بونگا سا reply بتاریخ 14 فروری 2020 , سیکشن آفیسر ( کونسل) MoIT اسلام آباد کو بھیج دیا۔اس رپوڑٹ کی ھی بہت ڈم کاپیاں  ملیں جن کو میں نے بڑی مشکل سے پڑھا ۔  پڑھکر غصہ بھی آیا اور ھنسی بھی آئی ۔ کیا بونگیاں ماری ھیں جناب جی ایم پی ٹی ای نے جسکا کوئی سر ھے نہ پیر ۔ اسکو تو چاھئیے تھا کے اس اسپیشل رپوڑٹ کی پیرا وائیز کمنٹ کرکے یعنی جواب دے کر اپنے معتراضات دلیل کے ساتھ پیش کرتا کے پی ٹی ای ٹی کیوں اس پر عمل کرنے سے قاصر ھے ۔اس  بونگی ، جی ایم پی ٹی ای ٹی کی   رپوڑٹ سے یہ ھی ظاھر ھوتا ھے کے پی ٹی ای ٹی  کا بوڑڈ آف ٹرسٹیز کسی صورت میں بھی ان پی ٹی سی ایل پنشنروں گورنمنٹ کی اعلان کردہ  پنشن  دینے کے لئیے ھرگز تیار  نہیں  چاھے انکا کا کچھ بھی کرلیا جائیے ۔ انکا مفاد پی ٹی سی ایل پنشنروں  کی کو گورنمنٹ والی پنشن دینا نہیں ھے جس کے لئیے اسکی یکم جنوری 1996 سے ، حکومت پاکستان نے اس ٹرسٹ کی پی ٹی [ ری آرگنئیزیشن ] ایکٹ 1996 کی کلاز 44 کے تحت تشکیل کی تھی اور اسی ایکٹ کی کلاز 45 کے مطابق ، 2 اپریل 1994 کو پی ٹی  سی   کے ساتھ ایک ٹرسٹ ڈیڈ کے زریعے  قائیم ھونے والے پنشن فنڈ کو اسی ٹرسٹ یعنی پی ٹی ای ٹی کو تقویض کیا گیا ۔ اور ٹرسٹ کو اس بات کا پابند کیا گیا وہ اسی پنشن فنڈ سے ٹی اینڈ ٹی میں ھی ریٹائیڑڈ ھونے  والے اور وھاں سے کارپوریشن اور کمپنی میں ریٹایڑڈ ھونے والے تمام ملازمین کو انکے حق کے مطابق گورنمنٹ کی ھی اعلان کردہ پنشن ادا کرے ۔ اس پنشن فنڈ اور کسی مد میں استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ٹرسٹ یکم جنوری 1996 سے لیکر 30 جون 2010 بلکل صحیح کام کررھا تھا۔  اس ٹرسٹ نے  بوڑڈ آف ٹرسٹیز کی منظوری سے یکم جولائی ۲۰۱۰ گورنمنٹ آف پاکستان کی سرکاری پینشنروں کی اعلان کردہ پنشن 2010-2011 کے لئے  اضافے 20% کی بجائیے اپنی طرف سے ، جسکا انکو کوئی بھی قانونی اختیار نھیں تھا ، 8%  سال 2010-2011 کے لئیے منظوری دی  اوراسکے بعد اسی طرح گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز کو پس پشت ڈالتے ھوئیے اپنی طرف سے کم پنشن انکریز  کی  دیتے چلے آرھے ھیں ۔ مجھے اس میں سب سے زیادہ قصور وار  گورنمنٹ آف پاکستان کی نمائیندگی کرنے واے وہ تین ممبر نظر آرھے کے  جو پی ٹی سی ایل کی تین اس بوڑڈ کے ممبروں کا ساتھ دیتے انکی طرف سے پیش کردہ کم انکریز پنشن  کو منظور کررھے تھے ۔ میں سمجھتا ھوں اگر یہ تین گورنمنٹ آف پاکستان کے تین ممبرز جن کا تعلق MoITT سے  ھے  اسکو منظور نہیں کرتے یعنی اسکے خلاف ووٹ دیتے تو ان بوڑڈ آف  ٹرسٹیز کی طرف سے پنشن انکریز میں کمی کی منظوری کبھی بھی نہیں ھوتی ۔ یہ سمجھ لینا چاھئیے کے اس بوڑڈ آف ٹرسٹیز کے کل چھ ممبرز ھوتے ھیں تین گورنمنٹ آف پاکستان کی طرف سے اور تین پی ٹی سی ایل کی طرف انھیں میں سے اسکا چئیرمین ھوتا ھے جسکا اجلاس میں اپنا  کاسٹنگ ووٹ نھیں ھوتا [ سیکشن (3)44 اور سیکشن  (2)47 آف پی ٹی ( ری ۔آرگنئیزیشن ) ایکٹ 1996 دیکھیں ] تو تین ممبرز جو گورنمنٹ آف پاکستان کی نمائیندگی کرتے ھیں اگر وہ پی ٹی سی ایل کے ممبروں کا ساتھ نہیں  دیں۔ اور ان کی ھاں میں ھاں نہ ملائیں  اور اپنا ووٹ پی ٹی سی ایل پنشنروں کے حق میں کاسٹ کرتے تو یہ نوبت آج تک نہ آتی ۔ مگر ان تیں گورنمنٹ کے ممبروں نے ھمیشہ اپنے ضمیر کا سودا کیا اور پی ٹی سی ایل سے اپنی زات کو فائیدہ پہنچانے کے لئیے ھمیشہ  پی ٹی سی ایل پنشنروں کے مفاد کے خلاف کام کیا ۔ جولائی ۲۰۱۰ سے بوڑڈ آف ٹرسٹی کا چئیرمین  پی ٹی سی ایل ای وی پی  (ایچ آر) مظھر حسین  جما ھوا ھے جبکے چئیر مین بوڑڈ آف ٹرسٹیز کے مدت تین سال ھوتی ھے مگر وہ ان گورنمنٹ آف پاکستان کی اس بوڑڈ آف ٹرسٹیز کے آشیرباد سے ابتک چئیرمین آف بوڑڈ آف ٹرسٹی کی کرسی  سے جڑا ھواھے ۔ یہ ایک بہت ھی چالاک اور شاطر شخض ھے اور وہ ایتصلات کمپنی کے ھی مفاد میں کام کرتا ھے ۔ کے ایتیصلات کمپنی کو زیادہ سے زیادہ فائیدہ ھو اور یہ پی ٹی سی ایل پنشنرز جائیں بھاڑ میں ۔ اسنے ان تین  گورنمنٹ کے ممبران کو خرید رکھا ھے اور انکو بہت ھی فیڈنگ کرتا ھے جب ھی اور جیسا یہ چاھتا ھے یہ ھی تین گورنمنٹ ممبران ویسا ھی کرتے ھیں  ۔ آپ لوگ خود ھی بتائیے اگر یہ تین گورنمنٹ کے ممبران انکا ساتھ نہ دیں تو بوڑڈ آف ٹرسٹیز کا کوئی بھی فیصلہ پی ٹی سی ایل پنشنروں کے خلاف منظور ھو سکتا ھے ؟؟؟؟ مگر  ھرسال اس بوڑڈ آف ٹرسٹیز [جسے BoT کہا جاتا ھے  ] کا اجلاس پی ٹی سی ایل پنشنروں کو پنشن انکریز دینے کے مسءلہ  پر ھوتا ھے تو یہ ضمیر فروش گورنمنٹ کے تینوں ممبرز ، پی ٹی سی ایل کے ممبران  کی طرف کم پنشن انکریز کے حق میں ھی ووٹ دیتے ھیں ۔ اس رپوڑٹ کے جواب میں  ایک جگہ  جی ایم پی ٹی ای ٹی BoT  کے اس کردار کے متعلق بتاتے ھیں جس سے نتیجہ یہ ھی نکلتا ھے چونکے پنشن میں گورنمنٹ والی انکریز کی منظوری ، BoT  نے نھیں دی اسلئیے اس اسپیشل کمیٹی کی سفارش پر ان پی ٹی سی ایل پنشنروں کو یہ گورنمنٹ کی پنشن انکریز نھیں دی جاسکتی  ۔ سب کمیٹی کی اسپیشل رپوڑٹ جسکو ھاؤس آف سینیٹ نے منظور کیا، اسکےپیرا “E”  میں اس ٹرسٹ کے متعلق یہ لکھا ھےکے “ٹرسٹ پی ٹی سی ایل کے دباؤ میں  کام کرتا ھے “ ، میری اس بات کی عمازی کررھا ھے جو میں نے اوپر بیان کیا ھے کے بوڑڈ ٹرسٹیز پی ٹی سی ایل پنشنرز کے مفاد میں کام نہیں کرتے جس کے لئیے گورنمنٹ پی ٹی سی ایل کی تشکیل کے ساتھ ساتھ یکم جنوری 1996 کو اس ٹرسٹ کی بھی تشکیل کی تھی  ۔ انکے اس کردار کے بارے سب کمیٹی کی اس اسپیشل رپوڑٹ پیرا  E کے سب پیراز  7 اور 8  میں مفصل بیان کیا گیا ھے [ اس پیرا E کی ھائیلئیٹڈ فوٹو کاپی نیچے پیسٹ کردی ھے ]۔ جناب  جی ایم پی ٹی ای ٹی کی اتنی ھمت نہیں ھوئی کے اسکے بارے میں  بھی کوئی اظہار کرتے اپنی اس بونگی 14 فروری کی ریپلائی رپوڑٹ میں  ??
جناب جی ایم  پی ٹی ای ٹی اپنے اس جواب کا آغاز اپنے 27 نومبر2020  کی اس بارے میں بھیجی ھوئی رپوڑٹ کے تسلسل سے کیا جو  سیکریٹری  MoITT اور پریزیڈنٹ اینڈ سی ای او  پی ٹی سی ایل کو بھیجی کی گئی تھی ۔ انھوں نے اس  رپوڑٹ کے پیرا 1 میں سپریم کوڑٹ نے۱۲ جون ۲۰۱۵ فیصلے ک متعلق بیان کیا لیکن پھر دوسرے پیرے میں یہ لکھا کے سپریم کوڑٹ نے ان وی ایس ایس لینے والے ملازمین کے سٹیٹس کے بارے کے بارے کچھ نہیں کہا جو اپنے آپ کو سول سرونٹ کلیمُ کرتے ھیں ۔جناب جی ایم پی ٹی ای ٹی صاحب نے شائید اس ۱۲ جون ۲۰۱۵ کا پورا تفصیلی فیصلہ ٹھیک سے نہیں پڑھا جس کے پیرا 18 میں عدالت نے صاف طور پر لکھا ھے کے “انکے وکیل نے وی ایس ایس کے بارے میں سوال اٹھایا تھا جو انھوں نے اس سٹیج پر غور کرنے سے انکار دیا تھا کیونکے انکے مد نظر ٹیلی کمیونیکیشن ایپملائیز کو گورنمنٹ کی پنشن دینے کا معاملہ تھا
 جو ٹی اینڈ ٹی سے کارپوریشن اور پھر کارپوریشن سے کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھوکر ریٹائیڑڈ ھوگئیےتھےاور انکو ٹرسٹ نے انکے حق کے مطابق جیسا کے اس ایکٹ 1996 کی سیکشن 46  کی سب سیکشن (1) اور (d)  پنشن دینے کی پابند تھی”۔عدالت عظمی نے تو اپنے اس حکم میں ایسے  تمام “ریٹائیڑڈ”  ھونے والے تمام ملازمین کو گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن دینے کا ٹرسٹ کو حکم دیا تھا ۔ اب یہ لوگ کیسے ریٹائیڑڈ ، ھوۓ ھوں اسکے متعلق عدالت نے کہیں نھیں لکھا ۔ اب چاھے ایسے پنشنرز جبری ریٹائیڑڈ ھوئیے ، پری میچور ریٹائیڑڈ ھوئیے ، گولڈن شیک ھینڈ لے کر ریٹائیڑڈ ھوئیے یا وفات پا گئیے ھوں وغیرہ وغیرہ  سبکو گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز دینے کا ٹرسٹ کو حکم دیا تھا ۔ اور کہیں بھی یہ بات نھیں لکھی کے جو لوگ اسطرح ریٹائیڑڈ یعنی وی ایس ایس لے کر انکو یہ گورنمنٹ پنشن نہ دی جائیے ۔ یہ فیصلہ تین رکنی سپریم کوڑٹ بینچ کے ممبران نے دیا تھا جس کو پھر اور تین رکنی بینچ کے ممبران نے ھی انکی رویو پٹیشن اس 12جون 2015 کے فیصلے کے خلاف 17 مئی 2017  کو ڈسمس کرکے اس 12 جون 2015 کے عدالت عظمی کے فیصلے امر بنادیا ۔  تو جناب جی ایم پی ٹی صاحب آپ کو عدالت کا یہ تفصیلی آڑڈڑ پہلے آنکھیں کھول کر پہلے پڑھ لینا چاھئیے تھا اور اسکے بعد ھی کچھ لکھناچاھئیے تھا تھا۔تیسرے پیرے میں جی ایم پی ٹی صاحب فرماتے ھیں ایک نئی ڈیولپمنٹ ھوئی سپریم کوڑٹ کے پانچ رکنی بینچ نے 19 فروری 2016 کے فیصلے میں جو اب 2016SCMR1362 میں درج ھے یہ  تحریر کیا ھے کے “ یہ تمام ملازمین اوپر بیان کی گئی پرویژن کے زریعے جن سے یہ پہلے کارپوریشن میں ٹرانسفر ھوئیے تو یہ کارپوریشن کے ملازم کہلائیں اور پھر جب یہ کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھوئیے تو یہ کمپنی کے مکان بن گئیے اور مزید سول سرونٹ نہیں رھے ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟؟جی ایم پی ٹی صاحب نے صرف اتنی سی اس عدالتی فیصلے کی بات لکھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی چونکے یہ اب سول سرونٹ نہیں رھے اسلئیے یہ گورنمنٹ کی پنشن لینے کے حقدار نھیں ۔ انھوں نے سپریم کوڑٹ کی عدالتی تحریر ادھوری  بیان کی۔ اسکی مثال ایسی ھے کے کوئی مسلمان اپنے دوسرے مسلمان کو لاعلمی میں  یہ بات کہے کے اللہ نے قرآن میں فرمایا ھے کے “نماز کے پاس مت جاؤ “ اسلئیے نماز پڑھنا ضروری نہیں ۔ یعنی اس دوسرے مسلمان کو ادھوری بات بتا کر مس گائیڈ کرے جبکے قرآن شریف میں یہ لکھا ھے “نماز کے قریب نہ جاؤ جب تم نشے میں ھو “۔ تو اسی طرح جی ایم پی ٹی صاحب مس گائیڈ کررھے ھیں ۔ جبکے عدالت نے اپنے اس حکم کے آگے لکھا ھے ۔ ۔ ۔ “مگر ایسے ملازمین پر گورنمنٹ سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں دئیے گئیے سروس ٹرمز کے سیکشن 3 سے سیکشن 22 تک کے قوانین استعمال  ھونگے۔ اور اگر پی ٹی سی ایل ان قوانین کی کوئی خلاف ورزی کرتی ھے  تو ایسے ملازمین کو ھائی کوڑٹوں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی شق 199 کے تحت رجوع کرنے کرنے کا اختیار حاصل ھے ۔ اب یہ لوگ انکو پنشن انکے حق سے کم دے رھے ھیں تو یہ کیا انھوں نے عدالت سے رجوع کرکے کیا غلط کیا ھے اور عدالت عظمی نے حکم دیا ھے تو یہ کیوں اس پر عمل نہیں  کررھے اور توھین عدالت کررھے ھیں- جی ایم پی ٹی صاحب کو اس پر بھی غور کرنا چاھئیے اور خواہ مخواہ عدالتی حکم کو توڑ موڑ کر پیش کرکے یہ جواز پیدا کررھے ھیں کے وہ انکو گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن اسلئیے نھیں دے رھے کے یو تو سول سرونٹ ھے ھی نھیں عدالتی اس 19 فروری 2016 کے مطابق جی ایم پی ٹی صاحب نے اپنے پیرا چار سے لے کر پیرا 11 بہت ھی  عدالت میں پی ٹی سی کے ایسے  پی ٹی سی ایل ملازمین اور پنشنرز  اور اور اپنی طرف سے اعلی عدالتوں دائیر کئیے گئیے کیسوں کے متعلق بتا کر اس بات کی کوشش کی یہ میٹر ابھی تک prejudice  ھے اسلئیے عدالتی فیصلوں پر عمل کرنا مشکل ھے ۔ ایسی کوئی بات نہیں ۔ جو میٹر ڈسپیویٹڈ تھا اس پر عدالت عظمی کا فیصلہ ۱۲ جون ۲۰۱۵ کو آگیا ہے اور پی ٹی سی ایل  کی ساری اپیلیں اور اسکے خلاف رویو پٹیشنیں بھی خارج ھوچکی ھیں اور پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی اس پر عمل بھی کرچکے ھیں اور صرف ان فیصلوں کا فائیدہ انکو پہنچایا ما سوائیے وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھونے پٹیشنروں کے جنھوں نے انکے خلاف توھین عدالت کے کیسسز کر رکھے ھیں ۔ڈپٹی جرنل منیجر پی ٹی ای ٹی نے پیرا 12 میں  اس یکم 1996 کی کلاز
‏(a)(2)46 کا ریفرنس دے کر یہ بتانے کی کوشش کی انکے بوڑڈ آف ٹرسٹیز کو یہ اختیار  حاصل ھے کے کے وہ اس رقم دینے کا تعین کرے جو ان ٹیلی کمیونیکیشن ایپملائیز کے پینشن بینیفٹ دینے متعلق ھے ۔ حضور والا یہ بلکل ٹھیک ھے اسکا مطلب یہ ھے ۔ کے یہ ریٹائیڑڈ ملازمین جو بھی پنشن لے رھے ھیں اس میں اور مزید بینیفٹ دینے کے لئیے رقم کا تعین کیا جاسکتا ھے یا نہیں جس طرح گورنمنٹ آف پاکستان نے یکم جولائی 2010 سے اپنے ریٹائیڑڈ سرکاری ملازمین کو اس پنشن کے ساتھ میڈیکل الاؤنس کا بینیفٹ دیا جو انکی پنشن کا 5% سے شروع ھوتا ھے ۔ اس طرح کا تو کوئی بینیفٹ اس بوڑڈ آف ٹرسٹیز نے نہیں دیا ۔ اس ایکٹ کی  بوڑڈ آف ٹرسٹیز کے Function and Power of Trustکی کلاز(1)(d)46 میں یہ کہیں نہیں کہا گیا کے یہ بوڑڈ آف ٹرسٹیز ان ریٹائیڑڈ ٹیلی کمیونیکیشن ایپملائیز کی پنشن میں کمی کرسکتے ھیں بلکے اسی میں یہ کہا گیا ھے کے ( ٹرسٹ) ٹیلی کمیونیکیشن ایپملائیز کو ان کے حق تک کی پنشن دینے کی پابند ھے “۔ مطلب جو بھی اسکی پنشن اسکے گریڈ کے حق لحاظ سے بنتی ھو وہ اسی کو دینی پڑے گی ۔ اس  کا اعادہ سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ میں 12 جون کے اپنے تفصیلی فیصلے میں اسی کلاز(1)(d)46 کو بھی quote کیا ھے[دیکھئیے اس فیصلے کا پیرا 18 اور صفحہ 18] اور یہ لکھا کے
“That the board of trustees of the trust shall make the provision for payment of the pension to the telecommunication employees to the extent of their entitlement.”
تو جناب ڈپٹی جنرل منیجر پی ٹی ای ٹی صاحب جب عدالت کے  ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے اس فیصلے کے مطابق  بوڑڈ آف ٹرسٹیز  نے  ان تمام 343 پی ٹی سی ایل پٹیشنرز کو گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز بمعہ بقایا جات  ادا کردی تھیں تو دوسرے تمام نان پٹیشنرز پینشنرز  کو یہ گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز سپریم کوڑٹ کے ھی متعین کردہ اصول اور قانون کے مطابق ادا  کرنے میں کیا قباحت ھے۔ کیا آپ لوگ سخت توھین عدالت کے مرتکب نہیں ھورھےھیں ۔
ڈپٹی جنرل منیجر  پی ٹی ای ٹی کو چاھئیے تھا کے وہ اپنی اس بونگے جواب کی بجائیے  سب کمیٹی کی اس اسپیشل رپوڑٹ پر پیرا وائیز دلائیل اور قانون کے ساتھ جواب دیتے کے وہ کیوں یہ پیمنٹ کرنا نھیں چاھتے ۔ ادھر سیکریٹری  MoITT کوڈپٹی جنرل پی ٹی ای ٹی  کو اس رپوڑٹ کو فورن مسترد کردینا چاھئیے اور بوڑڈ آف ٹرسٹیز  میں اپنے منسٹری  کے تین ممبران کو سختی سے حکم دینا چاھئیے کے وہ بوڑڈ کے اجلاس میں ان تمام پی ٹی سی ایل پنشنروں کو سپریم کوڑٹ کے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے کے مطابق عمل کرنے کی قرارداد پر اپنا ووٹ کاسٹ کریں اور پی ٹی سی  ایل کے ممبروں کا ساتھ نہ دیں ھو جو ایسی قرارداد مسترد کرانا چاھتے ھیں ۔   اگر سیکریٹری  MoITT نے اس ڈپٹی جنرل پی ٹی ای ٹی کی اس رپوڑٹ کو جواز بنا کر سینٹ کی منظور کردہ سب کمیٹی کی اسپیشل رپوڑٹ کے مطابق ان پی ٹی سی ایل پنشنروں کو گورنمنٹ والی پنشن انکریزز دینے سے انکار کردیتے ھیں تو میں سمجھوں گا انسے بڑا بے وقوف آدمی کوئی نہ ھوگا ۔ اور ایسا انکو اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مارنے کے مترادف ھوگا۔ کیونکے  ھاؤس آف سینٹ انکے خلاف توھین سینٹ پر سخت قسم کا ایکشن بھی لے سکتا ھے ۔ انکو اگر اس ھاؤس آف سینٹ کی منظور کردہ رپوڑٹ پر عمل نہیں کرنا تو اس پر عمل نہ کرنے کی وجوھات کو دو مہینے کے سینٹ کے بزنس اور پروسیجر رولز 2022 کے قانون 196/3 کے تحت بتانا ھوں گی اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے اور دو مہینہ کا وقت گزر جاتا ھے تو ھاؤس آف سینٹ کا یہ حکم ان  پر بائینڈنگ ھوجائیۓ گا۔
 میں سمجھتا ھوں بوڑڈ آف ٹرسٹیز نے اپنی اگر یہ ھٹ دھرمی برقرار رکھی اور MoITT بھی کچھ کر نہ سکے اور خاموشی برقرار رکھی , سینٹ کو حکومت سے پی ٹی ای ٹی کے بوڑڈ آف ٹرسٹی کا  پی ٹی سی ایل پنشنروں پنشن دینے کے کردار سرے ھی سے ختم کرانا پڑے گا اور اس بوڑڈ آف ٹرسٹیز کو تحلیل کرنے کے لئیے اور انکا سارا کام  پنشن فنڈ کے سمیت اے جی پی آڑ کے حوالے کرنے کے لئیے  پی ٹی ( ری ۔آرگنائیزیشن ) ایکٹ 1996 میں  ترمیمات کرانا پڑیں گی۔ کیونکے ان بوڑڈ آف ٹرسٹیز کی ھٹ دھرمی کے باعث یہ صرف یہ ھی حل رہ گیا ھے ۔آخر اے جی پی آر تمام گورنمنٹ ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے سول سرکاری ملازمین کو تنخواہ اور ریٹائیڑڈ سرکاری ملازمین کو پنشن ادا کرنے کا کام سرانجام دیتا ھی ھے ۔ اور ھم سب پی ٹی سی ایل پنشنروں کو اس بوڑڈ آف ٹرسٹیز کو تحلیل کرنے اور
 اے جی پی آر کو انکا تمام کام حوالے کرنے کے لئے اس ایکٹ 1996 میں ترمیمات کرنے کے لئیے زبردست کوششیں کرنی پڑیں گی  ۔جب ھی اس
پی ٹی ای ٹی  کا دماغ درست ھو گا۔اور نہ رھے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔
واسلام
محمد طارق اظہر
راولپنڈی
26-02-2020

Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]