Article-132[ Regarding reference of Raja Riaz case]
Article-132
عنوان :- پی ٹی سی ایل ریٹائیڑڈ ملازم راجہ ریاض کو عدالتی حکم کے مطابق گورمنٹ والی تنخواہ، پنشن اور میڈیکل الاؤنس دینے کا معاملہ
عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو
اسلام علیکم
کہا جارھا ھے کے کے راجہ ریاض کو عدالتی حکم کے مطابق گورمنٹ والی تنخواہ، پنشن اور میڈیکل الاؤنس ادا کردی گئی ھے ۔ اس خبرمیب صداقت معلوم ھوتی ھے کیونکے ایک تو مختلف کارنرس سے یہ خبر برابر آرھی ھے اور دوسرے راجہ ریاض کی طرف سے ابتک اسکی تردید بھی نھیں آئی ھے ۔ راجہ ریاض پہلے ھمیشہ ایسی خبروں کی ھمیشہ سختی سے تردید کرتے آئیے ھیں بلکے بڑے ھی ناراض ھوتے ھیں کے لوگ انکے کیس اور انکو پیمنٹ کرنے کے متعلق دلچسپی لیتے ھیں ۔ انھوں نے یہ کیس کیا اور جیتا بھی تو کیوں دوسرے لوگ انکے اس کیس سے فائیدہ اٹھانے کی کوشش کرررھے ھیں ۔ انھوں نے اپنے اس کیس کے فیصلے سے دوسرے اپنے ایسے ساتھیوں کو فائیدہ پہنچانے میں بلکل تعاون نہیں کیا بلکے انکی بہت لوگوں سے اس بات پر منہ ماری ھوئی کے وہ کیوں اس کے حق میں آئیے ھوئیے معزز سپریم کوڑٹ کے فیصلے سے فائیدہ اٹھانے کی کوشش کررھے ھیں ۔ خود میں نے ایک ای میل کے زریعے اس سے اسکے بابت تفصیلات معلوم کرنے کی کوشش کی تاکے میں انسے کچھ معلومات لے کر اور ایسے لوگوں کو گائیڈ کرسکوں ۔ مگر انھوں مجھے میری اس ای میل کا بہت تلخ جواب دیا جسکا مجھے بہت دکھ ھوا ۔ انکو میں نے یہ بتایا جب عدالت عظمی کا کوئی بھی فائینل فیصلہ آتا ھے تو وہ پبلک پراپڑٹی بن جاتا ھے اب دوسرے بھی اس کیس کے ریفرنس یعنی نظیر بنا کر فائیدہ اٹھا سکتے ھیں ۔ یہ ھی عدالتوں میں ھمیشہ ھوتا ھے دوسرے کیسس کے ریفرنسس کی بنیاد پر ، اگر اسکے متعلق ھو ، فیصلے کئیے جاتے ھیں ۔ تو انکا یہ کہنا میرے کیسس کے فیصلے کی بنیاد پر کوئی اور فائیدہ نھیں اٹھا سکتا چہ معنی دارد۔
27 اکتوبر 2017 انکے اس توھین عدالت کے کیس Crl. Org Petition # 63/2015 جسمیں پی ٹی سی ایل کو راجہ ریاض 6 جولائی 2015 کے حکم [ 2015SCMR1783] کے مطابق گورمنٹ والی تنخواہ اور پنشن ادا کرنے کو کہا تھا اور ساتھ یہ بھی لکھا تھا کے انکے وکیل شاھد باجواہ کا یہ کہنا ھے کے اسکو مثال ( precedence) نہ بنایا جائیے ۔ جس پر اور پی ٹی سی ایل ملازمین اور پنشنرز میں کافی تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی کے وہ راجہ ریاض کیس کے ریفرنس سے کیس نھیں کرسکتے تاکے اس سے فائدہ اٹھایا جائیے ۔ میں انکی اس تشویش کو مد نظر رکھتے ھوئیے فورن “ clarification “ کے عنوان سے 30 اکتوبر 2017 کو ایک نوٹ لکھ کر اپنے فیس بک کے پیج پر پیسٹ کردیا [ میں وھی نوٹ اور عدالتی آڑڈڑ کی 27 اکتوبر کی نوٹ شیٹ دوبارہ نیچے پوسٹ کررھا ھوں ] ۔ اس میں نے انکو یہ باور کرایا تھا کے کے وہ راجہ ریاض کو گورمنٹ والی تنخواہ اور پنشن عدالتی احکامات کو دوسرے کیسسز کے لئیے ، مثال نہ بنانے کا حکم نھیں دیا تھا یہ تو عدالت نے اپنے فیصلے کے پیرا 3 میں صرف پی ٹی سی ایل کے وکیل شاھد انور باجواہ کا سٹیٹمنٹ کا لکھا تھا کے انھوں نے کہا تھا کے راجہ ریاض کو گورمنٹ والی تنخواہ اور پنشن دے دی جائیے گی مگر کسی اور کیسس میں اسکو مثال بناکر۔ مگر عدالت نے جو پیرا 4 میں ، راجہ ریاض کو انکے وکیل شاھد انور باجواہ کی طرف سے دی گئی سٹیٹمنٹ کے مطابق راجہ ریا ض کو گورمنٹ والی تنخواہ اور پنشن دینے کا حکم دیا مگر یہ کہیں حکم نھیں دیا کے اسکو کسی اور کیسس کے لئیے مثال نہ بنایا جائیے [ میں نے 27 اکتوبر 2017 کے اس توھین عدالت کے کیس میں دئیے گئیے احکامات کی آڑڈڑ شیٹ کی کاپی نیچے پیسٹ کردی ھے ۔ اور یہ پیراز ھائی لائیٹ کردئیے ھیں ] ۔
اگر اس کیس کو مثال نہ بنانے کی بات ھوتی تو اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے معزز سابق جج شوکت عزیز اس راجہ ریاض کیس کا ریفرنس [یعنی محمد ریاض بنام فیڈریشن آف پاکستان اور دیگران جو 2015 ایس سی ایم آر 1783 میں درج ھے جو 6 جولائی کو دی گیا تھا اور جسکے خلاف انکی رویو پٹیشن بھی 8 اگست 2015 میں خارج ھوگئی تھی ] دے کر کبھی بھی کے پی کے کی پی ٹی سی ایل کے ملازمین نور ولی اور دیگران کو انکی پٹیشن نمبر 1875/2016 کو نہ قبول کرتے اور انکو 15 دن کے اندر گورمنٹ والی تنخواہ دینے کا حکم نہ دیتے ۔ اس فیصلے خلاف انکی انٹرا کوڑٹ اپیل ICA-34/2017 17 دسمبر 2018 کو بھی خارج ھو گئی ۔ اب انھوں نے اسکے خلاف اپیل سپریم کوڑٹ میں کردی ھے جو ابھی تک پینڈنگ ھے، اس پر تو ابھی تک شائید ایک ھئیرنگ بھی نھیں ھوئی۔ میں نے انکے ان احکامت کی نوٹ شیٹ کے پہلے صفحے جس میں prayers لکھیں ھیں اور اسکا operative part جو آخری پیرے13 میں دیا گیا ھے وہ بھی نیچے پیٹ کردئیے ھیں ۔ اور جو اس میں حکم عدالت نے صادر کیا ھے میں اسکا ترجمعہ پیش کررھا ھوں ۔ آپ یہ ترجمعہ پڑھکر اس بات پر غور کریں کے کسطرح اس اسلام آباد ھائی کوڑٹ نے صاف طور پر راجہ ریاض والے اس کیس کا زکر کیا ھے اور اسی کیس کے ریفرنس کی وجہ ان پی ٹی سی ایل کے چار ملازمین کو گورمنٹ والی تنخواہ ، 15 دن کے اندر ادا کرنے کا حکم دیا۔
ترجمعہ
“۱۳. جو کچھ اوپر بیان کیا گیا ھے اس وجہ دے یہ پٹیشن منظور کی جاتی ھے ۔ اور ریسپونڈنٹس کو یہ ڈائیریکٹ کیا جاتا ھے کے وہ پٹیشنروں کو وھی بینفٹس دیں جو انھوں نے اسی طرح کے برابری اشخاص کو ، معزز سپریم کوڑٹ کے محمد ریاض بنام فیڈریشن آف پاکستان اور دیگران 2015SCMR1783 جو فائنل شکل اختیار کرچکا ھے ، دئیے گئیے ھوئیے حکم میں دیا تھا ۔ اس ججمنٹ کے وصول ھونے پر اس پر ضرور ۱۵ دن کے اندر اندر عمل کریں “
میں نے نومبر 2017 نے کو اسکے بارے میں ایک بیحد تفصیلی آڑٹیکل ۔46 لکھا تھا جو 15 نومبر 2017 فیس بک پر پیسٹ کردیا تھا ۔ یہ آڑٹیکل بعنوان Article-46 [ PTCL aur PTET ki hut dhermi...SC k hukem per Umar na kurna] میری بلاگ سائیٹ [ tariqazhar.blogspot.com ] , November 2017 میں پوسٹ کردہ آڑٹیکلز میں موجود ھے ۔
واسلام
محمد طارق اظہر
راولپنڈی
۱۳ دسمبر ۲۰۲
Attention . . Attention . . Attention
Clarification
نوٹ: راجہ ریاض کے توھین عدالت کیس کا تحریری
فیصلہ 27 اکتوبر کو عدالت نے جاری کردیا ( دوبارہ نیچے پیسٹ ھے ) جو آپ سب لوگوں کو اپنے اس فیصلے پر تجزئے کے ساتھ میں نے بھیج دیا . اس فیصلے کے صفحہ تین پر عدالت نے ان 714 حاظر ملازمین کیں درخواستیں خارج کردیں جو راجہ ریاض کیس میں پاڑٹی بننا چاھتے تھے .عدالت نے اسکے وجوھات بھی لکھے ھیں . جس سے اور تمام لوگ پریشان ھوگئے اور یہ مطلب لے رھے ھیں کے اسکا فائدہ صرف اب راجہ ریاض کو ھی ھوگا جبکے اسی کوئی بھی بات نھيں .یہ بات عدالت نے خود بھی بیان کردی ھے .اسلئے میں ایسے لوگوں کی پریشانی کو مدنظر رکھتے ھوئے اسی پر اپنا یہ تفصیلی تجزیہ دے رھاھوں آپ سب لوگ اسکو بڑے اعتماد سے غور سے پڑھیں اور بالکل بھی پریشان نہ ھوں. اس سلسلے میں اپنا ایک آڑٹیکل 46 " راجہ ریاض کے فیصلے کے ثمرات " کے عنوان سے پہلے ھی لکھ رھا ھوں اور آپ لوگوں کی پریشانی دیکھتے ھوئے اسی میں سے میں نے یہ تجزیہ اٹھایا ھے کیونکے ابھی وہ آڑٹیکل 46 مکمل نہیں ھواھے.
واسلام
طارق
30-10-2017
"اب اسکا تحریری فیصلہ بھی کل جاری ھوگیا جو میں نے موصول ھوتے ھی اپنے نوٹ کے ساتھ اپنے فیس بک، واٹس ایپس ، میسنجر اور اپنی بلاگ سائیٹ پر اپلوڈ کردیا . میں نے اس فیصلے کا بخوبی جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچا کے سپریم کوڑٹ نے من و عن بالکل قانون کے مطابق راجہ ریاض کی اپیل کے مطابق فیصلہ کیا اور کوئی اور ایسی بات نہیں لکھی جس سے کنفیوژن یا ابہام پیدا ھو اور اس طرح کی اور جو توھین عدالت کی درخواستیں عدالت نے ڈسپوزڈ کردیں اور لکھدیا کے چونکے پی ٹی سی ایل نے راجہ ریاض کا matter کو settle کردیا اسلئے وہ یہ ضروری نہیں سمجھتے کے ان درخواستوں پر الگ سے فیصلہ کیا جائے اسلئے انھوں نے وہ تمام درخواستیں disposed off کردیں. اسکا کیا مطلب نکلتا ھے وہ یہ ہی نکلتا ھے کے چونکے راجہ ریاض کو پی ٹی سی ایل نے اسکو گورنمنٹ کے مطابق تنخواہ اور پنشن دینے کی undertaking دے دی ھے اسلئے اسی طرح اور ان سب کو جنھوں نے راجہ ریاض جیسے ھی درخواستیں گورنمنٹ والی تنخواہ اور پنشن دینے کے لئے دیں ھیں ، ان سبکو بھی وھی دینے کی پابند ھے اسلئے عدالت نے ضروری نھیں سمجھا کے ھر ایک ایسی درخواست پر کوئی الگ الگ فیصلہ کیا جائے . لیکن جو درخواست ، 714 پی ٹی سی ایل کے حاظر ملازمین کو ، ایڈوکیٹ سردار لطیف کھوسہ صاحب نے ، راجہ ریاض کے توھین عدالت کیس یعنی 63/2015 کے ساتھ بطور پاڑٹیز شامل کرنے کے لئے عدالت سے استدعا کےلئیے دائیر کی تھی ، وہ عدالت نے مسترد کدی اور مسترد کرنے کا یہ جواز دیا چونکے یہ توھین عدالت کا کیس راجہ ریاض نے دائر کیا اور یہ انھوں نے اپنے حق میں آئے ھوئے ، سپریم کوڑٹ کے اس فیصلے بنا پر کیا جو اسنے یعنی سپریم کوڑٹ نے راجہ ریاض کی سول پٹیشن 797/2015 پر 6 جولائی 2015 کو سنایا تھا اور اس سول پٹیشن میں یعنی پٹیشن نمبر 797/2015 میں کوئی بھی یعنی 714 حاظر سروس ملازمین میں سے کوئی بھی بطور پاڑٹیز شامل نہیں تھا ، تو پھر اس توھین عدالت کیس، یعنی جو راجہ ریاض نے داخل کیاھے اور جسکی proceeding ھورھی ھے یعنی 63/2015 کی ، اس میں ان سب 714 حاظر ملازمین کو اس میں میں پاڑٹی بنانے کا سوال ھی پیدا ھی نہیں ھوتا، اور اب جبکے پی ٹی سی ایل نے راجہ ریاض کا مسعلہ settle کردیا اسکے نتیجے یہ درخواست ( جو ایڈوکیٹ سردار لطیف کھوسہ نے ان 714 حاظر ملازمین کی کیس میں شامل کرنے کے لئے داخل کی تھی) اسکو خارج کیا جاتا ھے مگر اور ساتھ یہ واضح کردیا اس درخواست کو خارج کرنے کا مقصد منفی (adverse) نہ لیا جائے جو ان درخوستگان کے حقوق متاثر کرسکے اگر کوئی ھوں. . . میں سمجھتا ھوں یہ بات عدالت نے بہت ھی اھم کی ھے . اگر یہ بات عدالت نہ لکھتی تو یہ ھی سمجھا جاتا کے عدالت نے ان 714 حاظر ملازمین کو وہ مراعات پی ٹی سی ایل سے دلونے کا انکار کردیا ھے جو مراعات گورنمنٹ والی ، اب راجہ ریا ض کو دینے کا پی ٹی سی ایل نے وعدہ کیا ھے اورعدالت نے یہ دینے کے لئے پی ٹی سی ایل و پندرہ دن کا وقت دیا ھے . چھوٹا منہ اور بڑی بات میں یہ سمجھتا ھوں کے ایڈوکیٹ سردار لطیف کھوسہ کو اس قسم کی درخواست نہیں لگانی چاھئے تھی کے ان 714 حاظر ملازمین کو بھی راجہ ریاض کیس میں پاڑٹی بنایا جائے. بلکے انکو ایک الگ سے ان سب 714 کی طرف سے یہ اپیل کرنی چاھئے تھی اور صرف اور صرف یہ بات لکھنی چاھئیے تھی کہ " درخواستگان یعنی appellants کا تعلق اسی کٹیگری کے پی ٹی سی ایل کے ملازمین سے ھے جس کٹیگری میں راجہ محمد ریاض تھے اور appellants کا بھی وھی issue ھے جو راجہ محمد ریاض کا تھا اور جسکے کے لئے اس معزز عدالت نے اسکی اس اپیل پر جسکا نمبر 797/2015 تھا ، اسکے حق میں 6 جولائی 2015 کو فیصلہ سناتے ھوئے پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کو یہ حکم دیا کے اسکو, یعنی راجہ ریاض کو تنخواہ اور پنشن میں گورنمنٹ کے اعلان کردہ انکریزز دئیے جائیں . تو ان appellants کو بھی یہ ھی مراعات دینے کا اپنے اس عدالتی حکم کی رو سے جو 1996SCMR1185 میں درج ھے ، اسکے ریفرنس سے دیا جائے. اگر میری بات معنیں جلدی نہیں کریں . ان 714 پی ٹی سی ایل کے حاظر ملازمین کو اب یہ چاھئے کے ابھی پندرہ دن زرا ٹہر جائیں دیکھیں پی ٹی سی ایل وعدہ کے مطابق سپریم کوڑٹ کا حکم مانتے ھوئیے راجہ ریاض کو مکمل payment جیسا کے AGPR نے calculate کی ھے اور جسکا زکرےبھی عدالت نے اپنے اس 27 اکتوبر -17 کے حکم میں دیا ھے ، اسکوکرتے ھیں یا نھیں اور ان اور تمام ایسے لوگوں کو بھی جو اس مقدمہ سازی یعنی litigation کا حصہ تھے بھی یا نہیں تھے، جو پہلے راجہ ریاض نےکیا تھا . ان سبکو میرا مشورہ یہ ھی ھے کے وہ صرف ایک مہینہ اور ٹہر جائیں اور پھر ھی اپیل کریں یا ڈائریکٹ توھین عدالت کا کیس بنائیں سپریم کورٹ میں ، اس عدالتی حکم کی ، حکم کی عدولی پر جسکا اوپر زکر کرچکا ھوں یعنی 1996SCMR1185.
اور یہ سپریم کوڑٹ کی رولنگ کیا ھے. ھمارے بیشتر لوگوں کو اس کے بارے میں صحیح پتہ نھیں . دراصل سپریم کوڑ ٹ نے یہ رولنگ جب دی جب ایک سرکاری ملازم نے سپریم کوڑٹ میں یہ اپیل کی کے اسکے ساتھی ملازم کو ، سپریم کوڑٹ نے اسکی درخواست پر اسکو ریٹآئرمنٹ پر اسکو ایک اضافی اسکے گریڈ کے انکریمنٹ کے مطابق ، ایک انکریمنٹ دینے کا حکم دیا کیونکے ایک تو اپنے گریڈ کے maximum stage پر تھا اور دوسرے جس سال وہ ریٹائر ھوا وہ چھ ماہ کی سروس پوری کرچکا تھا ، اب چونکے اسکا مسعلہ بھی بلکل اسی ساتھی سول ملازم جیسا ھی ھے اسلئے اسے بھی دینے کا حکم دیا جائے . اور اس نے اپنی درخواست میں یہ بھی لکھاکے وہ جب اپنے ڈیپاڑٹمنٹ سے ویسا ھی انکریمنٹ مانگتا ھےتو وہ لوگ بجائے اسکو دینے کے یہ کہتےھیں کے وہ بھی سپریم کوڑٹ میں کیس کرے اور اس سے ایسا ھی حکم لے تو وہ اسکو بھی دے دینگے .تو پھر یہ سپرکم کوڑٹ نے یہ رولنگ " حمید اخٹر بنام سیکٹری اسٹیبلشمنٹ گورنمنٹ آف پاکستان جو 1996SCMR1185میں درج ھے " ، پاس کی جو دو سپریم کوڑٹ کے مرحوم سابق چیف جسٹسس جناب محترم سعیدالزمان صدیقی اور محترم اجمل میاں نے 24 اپریل 1996 کو دی . جو ایک سنگ میل ھے . جب اس قسم کا کوئی فیصلہ سپریم کوڑٹ کسی سول ملازم کے حق میں کرتی ھے جو کیس کرتا ھے تو اورں ایسے سب کو فائدہ دینے کے لئے حکومت ھمیشہ نوٹیفیکیشن نکالتی ھے [ بحرحال اس پر مزید تبصرہ حکومت کے اسطرح کے نوٹیفیکیشن کے بارے میں آخر میں دوں گا. اسی طرح کے نوٹیفیکیشن کی ایک کاپی میں اپنے اس آڑٹیکل کے اختام پر پیسٹ کررھا ھوں ] . وہ رولنگ کیا ھے .وہ میں آپ لوگوں کی خدمت میں انگلش اور اسکے اردو ترجمعے کے ساتھ پیش کرر رھا ھوں ملاحظہ فرمائیں
" Hameed Akhtar Niazi vs. Secretary Establishment Division" (1996 SCMR 1185)"
میں موجود ھے ، جس میں سپریم کوڑٹ نے یہ رولنگ دی تھی
"Appeal to Service Tribunal or Supreme
Court---Effect---If the Service Tribunal or Supreme Court decides a point of law relating to the terms of service of a civil servant which covers not only the case of civil servant who litigated, but also of other civil servants, who may have not taken any legal proceedings, in
such a case, the dictates and rule of good governance demand that the benefit of such judgment by Service Tribunal/Supreme Court be extended to other civil servants, who may not be parties to the litigation instead of compelling them to approach tire Service Tribunal or any other forum. "
اسکا اردو ترجمہ
"فیڈرل سروس ٹروینل یا سپریم کوڑٹ کسی ایک ایسے قانونی نقطے جو سول سرونٹ کے سروس ٹرمز اور کنڈیشنس کے متعلق ھو جو نہ صرف اس سول سرونٹ سے تعلق رکھتاھو جس نے litigate( مقدمہ سازی) کیا ھو بلکے وھی ایسے دوسرے سول سرونٹس کا بھی مسعلہ ھو ، تو اس سول سرونٹ ( یعنی جس نے مقدمہ کیا ) کے حق میں آنے والے فائدہ ، ان دوسرے ایسے سول سرونٹس تک بھی بڑھایا جائے جو اس مقدمہ بازی ( litigation) کا حصہ ھوں یا نہ ھوں، بجائے انکو مجبور کیا جائے کے وہ بھی عدالت سے مقدمہ بازی کریں یا اور مناسب فورم کی طرف رجوع کریں".
Comments