The great leader Quai-e-Azam Muhammad Ąļį Jinnah
بانی پاکستان قائید اعظم محمد علی جناح . . . . ایک ھمہ گیر عظیم شخصیت
آج ، ۲۵ دسمبر 2020 ھے .یعنی وہ عظیم دن جب آج سے 142 سال پہلے وہ ھمہ گیر اور عظیم شخصیت اس دنیا میں تشریف لائی جس نے اس بر صغیر کا نقشہ ھی بدل ڈالا اور ایک ایسے اسلامی ملک پاکستان کی تخلیق کرادی جہاں پر لاکھوں مسلمان انگریزوں کی غلامی چھٹکارا پاکر ایک آسان فضا میں سانس لے سکیں اور مزید ھندؤں کی غلامی سے آزاد رھیں - قوم سے بچھڑے اس عظیم ھستی کو بھتر سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ھے لیکن اسکے باوجود محسن عظیم ھستی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی یاد کی معطر خوشبو ہر پاکستانی کے دل میں زندہ ہے۔ جو ھمیشہ رھے گی
قائد اعظم محمد علی جناح کا اہل پاکستان پر احسان عظیم ہے کہ انہوں برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک آزاد ، خودمختار ریاست کے قیام کے لئے بھر پور جدوجہد کی، اور اپنی ساری زندگی اسی جدوجہد میں وقف کردی ۔قائد اعظم محمد علی جناح ایک عہد آفرین شخصیت، عظیم قانون دان، بااصول سیاستدان اور بلند پایہ مدبر تھے، ان میں غیر معمولی قوت عمل اور غیر متزلزل غرم، ارادے کی پختگی کے علاوہ بے پناہ صبر و تحمل اور استقامت و استقلال تھا۔ انہوں نے اپنی اٹل قوت ارادی، دانشورانہ صلاحیتوں، گہرے مدبرانہ فہم و ادراک اور انتہائی مضبوط فولادی اعصاب اور انتھک محنت سے مسلمانان پاک و ہند کے گلے سے صدیوں کی غلاموں کا طوق ہمیشہ کے لئے اتارا اور مسلمانوں کو حصول پاکستان کے مقاصد سے آگاہ کر کے انہیں آزادی کی جدوجہد میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کی راہ پر راغب کیا۔جس کے نتیجے میں برصغیر کے مسلمان مسلم لیگ کے جھنڈے تلے یکجا ہوئے۔
مولانا حسرت علی موہانی فرماتے کہ وہ پاکستان بننے سے پہلے قائداعظم سے ملنے کے لیے ان کی رہائش گاہ پر پہنچے تو ملازم نے معذرت کی وہ کسی اہم کام میں مشغول ہیں اور وہ اس وقت ان سے نہیں مل سکتے۔ اس دوران انہوں نے مغرب کی نماز گھر کے باہر لان میں ادا کی اور اس کے بعد ٹہلنے لگے۔ اسی دوران وہ کوٹھی کے برآمدوں میں گھومنے ہوئے ایک کمرے کے پاس سے گزرے تو انہیں ایسا لگا کہ قائد کسی سے گفتگو کر رہے ہیں۔ مولانا حسرت موہانی فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ’’اندر کمرے میں فرش پر مصلیٰ بچھا ہوا تھا۔ اور قائداعظم باری تعالیٰ کے حضور مسلمانوں کی فلاح و بہبود ، حصول آزادی، اتحاد، تنظیم اور پاکستان کے قیام کے لئے گڑگڑا کر التجا کر رہے تھے‘‘ ۔
قائد اعظم کی دعا اور بھر پور جدوجہد کی بدولت آخر کارتحریک آزادی رنگ لائی اور انگریزوں کو ہندو مسلم علیحدہ قومیت یعنی دو قومی نظریہ تسلیم کرنا پڑا ۔ اور 3 جون 1947ء کو ہندوستان کے آخری وائسرائے اور گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے آل انڈیا ریڈیو سے تقسیم ہند کے منصوبے کا اعلان کیا۔ جبکہ یہ ایک امر حقیقی ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی طرف سے شروع کی جانے والی جدوجہد آزادی کے مختلف مراحل پر کسی بھی مسلمان رہنما کو اپنی قوم کی طرف سے اطاعت شعاری کا وہ جذبہ اور مظاہرہ نصیب نہیں ہوا جو بابائے قوم کو حصول پاکستان کے لیے کی جانے والی بے لوث اور شبانہ روز جدوجہد کے دوران میسر آیا۔
شیکسپیئر نے کہا تھا، ’کچھ لو گ پیدا ہی عظیم ہوتے ہیں اور کچھ لوگ اپنے کاموں سے خود کو عظیم بنا لیتے ہیں‘۔ اگر یہ بات قائد اعظم محمد علی جناح کے لیے کہی جائے تو غلط نہیں ہوگی۔
’جناح آف پاکستان‘ کے مصنف پروفیسر اسٹینلے لکھتے ہیں، ’بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں اور ایسے لوگ تو اور بھی کم ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیتے ہیں اور ایسا تو کوئی کوئی ہوتا ہے جو ایک نئی مملکت قائم کر دے۔ محمد علی جناح ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے بیک وقت تینوں کارنامے کر دِکھائے‘۔
قائد اعظم ایک سحر انگیز شخصیت کے مالک تھے ۔آپ کی شخصیت سے صرف برِصغیرکے مسلمان اورہندوہی نہیں بلکہ انگریز تک متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ ہمارے محسن اور قوم کے لیے رول ماڈل ہیں۔ زندہ قومیں اپنے محسنوں کو نہیں بھولتیں۔ انہیں نہ صرف ہمیشہ یادرکھتی ہیں، بلکہ ان کے اصولوں پر عمل بھی کرتی ہیں۔قائد اعظم، زندگی کے کسی بھی معیار کے حوالے سے ایک اہم شخصیت تھے، ان کی کثیرالجہت خصوصیات کی حامل شخصیت نے زندگی کے کئی شعبوں میں بہت سی کامیابیاں سمیٹیں۔ یقیناً تاریخ ِ برصغیر میں کئی ایسے کردار تھے، جنھوں نے کئی کارنامے سر انجام دیے۔ قائد اعظم برِصغیر کے ایک بڑے قانون دان، ہندو مسلم اتحاد کے سفیر،آئین پسندی کا رجحان رکھنے والے، ایک ممتاز پارلیمانی لیڈر،اعلیٰ ترین سیاستدان، ایک ناقابل شکست حریت پسند سپاہی، متحرک مسلمان رہنما، سیاسی حکمت عملی جیسے اوصاف کی درخشاں مثال اور اپنے عہد کےعظیم قوم سازوں میں سب سے ممتاز رہنما تھے۔
قائد اعظم کی قانونی علمیت، قابلیت اور صلاحیت تمام حیثیتوں میں ہمارےسامنے موجود ہے۔ ان کی قانونی قابلیت کے نہ صرف قانون دان بلکہ دوسرے شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے حضرات بھی معترف ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے پروگرام میں،سر اسٹافورڈ کرپس نے قائد اعظم کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہاتھا، ’محمد علی جناح، بھارتی وکلاء میں سے ایک بہت زیادہ قابل وکیل اوربہترین آئین ساز(آئین پسند) تھے‘۔
مہاتما گاندھی نے لارڈبرکن ہیڈ کو لکھے گئے خطوط میں قائد اعظم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ،’مسٹر جناح اور سرتاج بہادر سپرو بھارت کے دو ہوشیار ترین وکیل ہیں‘۔
قائد اعظم کی طلسماتی شخصیت کا طرز عمل آئین پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہے، جس کا اعتراف ہمارے سامنے ان تمام حوالوں سے آتا ہے۔ آپ بڑے مدلل انداز میں پاکستان کی جدوجہد مختلف صورتوں میں زیربحث لائے اور ثابت کیا کہ پر امن آئینی جدوجہد ہی سب سے بہتر اور درست راستہ ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمہ گیر شخصیت تاریخ میں روشنی کے مینار سے تعبیر کیے جانے کے لائق ہے۔ ان کی جدجہد اور اصول پسندی نے تاریخ کے دھارے کا رُخ بدل کر رکھ دیا ہے۔ عزم مصمم، استقلال اور جرأت مندی ان کے اوصاف میں شامل تھی، جس نے انہیں اس قدر توانا کیا کہ اُس دور کی سب سے بڑی سپر پاور اپنی ضد اورہٹ دھرمی سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئی۔ قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت نے اسلامی نظریاتی مملکت کا احساس برصغیر کے مسلمانوں میں اس طرح جاگزیں کیا کہ ان کے دلائل کے سامنے کوئی نہ ٹھہر سکا۔
پاکستان کے قیام کو 70سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن ذرا رُک کر ماضی کے ان دریچوں سے روشنی حاصل کریں، جن پر عمل پیرا ہو کر قائد اعظم نے اپنی زندگی گزار دی۔ انہوں نے جس نظریۂ حیات کو اختیار کیا، اس کے بنیادی فلسفے اور اعتقاد کو خوب اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔ ان کےعقائد ٹھوس تھے، وہ وقتی ترجیحات کے قائل نہ تھے، جس کی بدولت ان کے یہاں زندگی کا صحیح روپ درآیا تھا۔ وہ انتہائی ہوشیار، بیدار مغز اور اصول پرست تھے۔ انہوں نے اس امر کو سمجھ لیا تھا کہ مسلمان ہونے کے ناطے حق و باطل دونوں سے رشتہ استوار نہیں رکھا جاسکتا۔
قائد اعظم محمد علی جناح برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کے نہایت خوش لباس اور نفیس انسان تھے۔ جہاں مؤرخین نے ان کی سیاسی بصیرت کو موضوع بنایا، وہیں جزوی طور پر اس امر کا اعتراف بھی کیا ہے کہ قائداعظم کی خوش پوشاکی بھی ان کی شخصیت کا ایک ایسا جزو تھی، جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
قیام پاکستان کے صرف ایک سال ایک ماہ بعد بانی پاکستان رحلت فرماء گئیے .ان کی وفات ایک ایسا قومی المیہ ہے جس کے اثرات آج تک محسوس کئے جا رہے ہیں، کیونکہ قیام پاکستان کے بعد قوم کو درپیش سنگین مسائل کے حل اور اندرونی و بیرونی سازشوں سے نمٹنے کیلئے قائداعظم کی رہنمائی کی اشد ضرورت تھی۔ بھارت کی اثاثوں کی تقسیم میں ریشہ دوانیوں، باؤنڈری کمیشن کی غیرمنصفانہ کارروائیوں (جن کے نتیجے میں کشمیر کے تنازعہ نے جنم لیا) اور دیگر ناگزیر حالات کی وجہ سے ملکی آئین کی تدوین اور ملک کی مختلف اکائیوں کے مابین بنیادی معاملات پر اتفاق رائے کے حصول میں جو تاخیر ہوئی وہ قائد کی وفات کی وجہ سے مزید الجھ گئے۔ قائداعظم کی زندگی میں نہ تو سول اور خاکی بیوروکریسی کو جمہوری اداروں اور سیاسی نظام میں دخل اندازی کا موقع ملتا اور نہ ملک کے مختلف سیاسی و مذہبی طبقات اور جغرافیائی اکائیوں میں اختلاف کی خلیج گہری ہوتی، کیونکہ قوم کے بھرپور اعتماداحترام اور عقیدت کے علاہ خداداد بصیرت کی وجہ سے قائد اعظم نہ صرف اتحاد و یکجہتی کی علامت تھے بلکہ مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت سے بھی مالامال تھے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قائداعظم کے بتائے ہوئے اصول و ضوابط پر سختی سے عمل پیرا ہو کر وطن عزیز کی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار ادا کریں تا کہ ہمارا یہ پیارا ملک معاشی ترقی و استحکام حاصل کر کے وہ مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے جس کا خواب شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے دیکھا تھا ، اور جس کی تکمیل کے لئے مسلمانوں کے عظیم رہنما قائد اعظم محمد علی جناح نے جدوجہد کی تھی۔
(طارق)
Comments