Article-133[Regarding delaying tactics of PTCL & PTET in implementing of HSCP and HC orders]

‏Article-133 بکرے کی ماں کب تک خیر منائیگی. . . . اور ایک دفعہ پھر انٹرا کوڑٹ کیسس کی شنوائی اب ملتوی ھوگئی ؟؟؟؟ عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو اسلام و علیکم میں نے 16 دسمبر 2020 کے نوٹ میں اپنے دوست جناب رسول خان ریٹائیڑڈ جنرل منیجر کی طرف سے دیا ھوا ، اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں انٹرا کوڑٹ اپیلوں کی شنوائی کے بارے میں اپڈیٹڈ میسیج پیسٹ کیا تھا ۔ انکے مطابق کل کوئی ھئیرنگ کی کاروائی نہ ھوسکی کیونکے بہت سے گروپوں کے وکلاء غیر حاظر تھے ، اور بہت سے گروپوں کے وکلاء مقرر نھیں تھے ۔ تو کاروائی صرف غیر حاضر وکلاء کو نوٹسس دینے کے احکامات دینےتک اور جن گروپس کے وکلاء نامینیٹ نھیں ھوئیے تھے انکو نامینیٹ کرنے تک ھی محدود رھی اور پھر اسکو عدالتی چھٹیوں کے بعد 10 فروری 2021 تک کے لئیے ملتوی کردیا گیا ۔ میں نے اس بارے میں اپنے ریمارکس میں یہ لکھا تھا “اب یہ ھوتا رھے گا ھر کاروائی ، جو مجھے خدشہ ھے ، کسی نہ کسی وجہ سے ملتوی ھوتی رھے گی “۔ کچھ لوگوں نے میسیج دیا کے یہ جو ان کیسس پر کاروائی ملتوی ھورھی ھے اس میں عدالت کا قصور کوئی نھیں ۔ بجا فرمایا ان لوگوں نے ۔ میں نے کب یہ لکھا کے اس میں عدالت کا قصور ھے ۔ 17 ۱پریل سے 22 اپریل 2020 تک یہ کیسس پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے وکلاء کی طرف سے دائیر کئےگئیے اب تک صرف ایک 26 نومبر 2020 کی ھئیرنگ محترم معزز جج جسٹس عامر فاروق کی علالت کی وجہ سے ملتوی ھوئی ھے جبکے اس سے پہلے کی تین یا چار انکے وکلاء کی طرف سے سرد مہری کی وجہ سے ھوئی . ایک ھئیرنگ تو انکے وکیل شاھد انور باجواہ کے سپریم کوڑٹ میں مصروفیات کی وجہ سے ھوئی ۔ پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی نے الگ الگ 35 پٹیشنوں کے خلاف یہ انٹرا کوڑٹس اپیل دائیر کی ھیں پی ٹی ای ٹی کے اور پی ٹی سی ایل کے وکلاء نے پہلے ھی شروع سے کوشش کی کے انکو ان انٹرا کوڑٹ اپیلیں دائیر کرنے کی وجہ سے سٹے آڑڈڑ مل جائیے تاکے وہ 3 مارچ 2020 کے عدالتی فیصلے کے مطابق انکو پنشن اور میڈیکل الاؤنس دینے کی مد میں جو عدالت عالیہ نے احکامات دئیے ھیں ، اس پر عمل نہ کریں ۔ جسکو اسوقت کے بینچ کے سربراہ معزز چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سختی سے مسترد کردیا، جن سے انکو بہت ھی مایوسی ھوئی ۔ پٹیشنروں نے انکے خلاف اسی عدالت میں توھین عدالت کے کیسس کردئیے ۔ جب 4 نومبر 2020 بعد یہ انٹرا کوڑٹ کیسس کسی دوسرے دو معزز ججوں یعنی جسٹس عامر فاروق اور جسٹس کے بینچ میں لگائیے گئیے تو انکے وکلاء نے عدالت سے درخواست کی کے ریسپونڈنٹس کی طرف سے انکے خلاف دائیر کئیے ھوئیے توھین عدالت کے کیسس کی کاروئی پر حکم امتنائی دیا جائیے جسکی ھئیرنگ کل 5 نومبر 2020 کو ھونے والی ھے، تو عدالت کے ڈبل بینچ نے اس پر اسوقت تک عملدرآمد روک دیا جب تک انٹرا کوڑٹوں کی اپیلیں نھیں سنی جاتیں ۔ تو اسطرح انھوں نے کان دوسری جانب سے پکڑ کر اپنے آپ کو 3 مارچ 2020 کے عدالتی احکامات پر عمل کرانے سے ممبُرا کرالیا ۔ کیونکے اگر وہ اس پر عمل نھیں کریں گے تو انکے خلاف توھین عدالت کی کاروائی نھیں ھوسکتی ۔ اب صورت حال یہ ھے کے جب تک انکی انٹرا کوڑٹ اپیلوں پر کوئی کاروائی نھیں کی جاتی اور یہ جب تک زیر سماعت رھتی ھیں ، پی ٹی سی ایل پینشنرس پٹیشنرس کی دائیر کردہ توھین عدالت کے کیسوں کی شنوائی بلکل نھیں ھوسکتی ۔ تو ظاھر ھے اب پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے وکلاء کی پوری کوشش تو اب یہ ھی ھوگی کے کسی نہ کسی طرح ان انٹرا کوڑٹ کیسس کی شوائی نہ ھو اور ظاھر ھے یہ لوگ ھر وہ حربہ استعمال کریں گے جن سے انکی انٹرا کوڑٹ کیسوں پر شنوائی جتنی بھی ڈیلے ھوسکتی ھے وہ ھو ۔ بادئیانظر میں دیکھا جائیے ان انٹرا کوڑٹ اپیلوں کی کوئی تک بنتی ھی نہ تھی کیونکے سنگل بینچ کے جج محترم میاں گل اورنگزیب کے ان فیصلوں کی بنیاد معزز سپریم کوڑٹ کے مندرجہ زیل آڑڈڑ تھے جو پی ٹی سی ایل ملازمین اور پنشنرز کے حق میں دئیے گئیے تھے، محترم جج صاحب نے انھی عدالت عظمی فیصلوں کو ریفرنسس بنا کر ، رسول خان صاحب کی پٹیشن 523/2012 پر ایک تفصیلی فیصلہ لکھا اور پھر اس میں اس پٹیشن کے ساتھ کلب کی ھوئی تقریبن 34 پٹیشنوں کو بھی ڈسپوزڈ کرتے ھوئیے انکیprayers کے مطابق گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریزز یا میڈیکل الاؤنس یا دیگر الاؤنسس کے بقایا جات کو 15 دن کے اندر اندر دینے کا حکم دیا تھا۔ ‏1. PTCL vs Masood Bhattie (2016SCMR1362), ‏2. PTET vs Muhammad Arif ( 2015SCMR1472) ‏3. Muhammad Riaz vs Federation of Pakistan ‏( 2015SCMR1783) یاد دھانی کے لئیے بتایا جاتا ھے کہ ‏PTCL vs ‏Masood Bhattie (2016SCMR1362کے فیصلے جو پانچ رکنی بینچ نے 19 فروری 2016 کو دیا تھا ، اس میں پی ٹی سی ایل کی طرف سے 7 اکتوبر 2011 کے سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ کے اس فیصلے یعنی ۲۰۱۲ ایس سی ایم آر ۱۵۲ خلاف دائیر کردہ رویو پٹیشن مسترد کردی تھی جو انھوں نے مسعود بھٹی ، نصیرالدین غوری اور دلآویز اپیلنٹس کے حق میں دیا تھا کے کارپوریشن کے وہ تمام ملازمین جو یکم جنوری 1996 کو کارپوریشن سے ٹرانسفڑڈ ھوکر پی ٹی سی ایل کا حصہ بن گئیے تھے ان پر گورمنٹ کے سرکاری قوانین ھی استعمال ھونگے اور پی ٹی سی ایل یا حکومت کو کوئی بھی اس بات کا اختیار حاصل نھیں ھوگا وہ انکے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشن کے قوانین میں ایسی منفی تبدیلی کریں جس انکو فائیدہ نہ ھو ۔ 19 فروری 2016 کے اس فیصلے میں سپریم کوڑٹ نے مزید یہ واضح کیا تھا کے ایسے یہ ملازمین تو سول سرونٹ تو نھیں کہلائیں گے مگر ان پر سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس سیکشن 3 سے سیکشن 22 دئیے گئیے قوانین ھی استعمال ھونگے اور اگر پی ٹی سی ایل ان قوانین کی خلاف ورزی کریں تو پی ٹی سی ایل کے ان سے متاثرہ ملازمین کو اختیار ھوگا کے وہ اپنے grievances دور کرنے کے لئیے ھائی کوڑٹوں سے آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت رجوع کریں۔ یہ بات یاد رکھنی چاھئیے کے سول سول سرونٹس یعنی گورمنٹ کے سرکاری ملازمین کو ھی صرف یہ اختیار حاصل ھے ۔ معزز سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ کا 12 جون 2015 کا فیصلہ ‏ PTET vs Muhammad Arif ( 2015SCMR1472) پی ٹی سی ایل پنشنروں کو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن دینے سے متعلق تھا ، وہ فیصلہ 7 اکتوبر 2011 کو مسعود بھٹی اور دیگران کے حق میں یعنی ۲۰۱۲ ایس سی ایم آر ۱۵۲ کیس ( جسکے خلاف انکی رویو پٹیشن 19 فروری 2016 کو خارج ھوگئی جسکا زکر اوپر کیا جا چکا ھے ) کی مرھونے منت تھا جسکے خلاف انکی رویو پٹیشن بھی 17 مئی 2017 کو مسترد کردی گئی تھی کیس اور راجہ ریاض کے حق میں دو رکنی سپریم کوڑٹ بینچ کا 6 جولائی 2015 والا فیصلہ جو Muhammad Riaz vs Federation of Pakistan ( 2015SCMR1783) میں درج ھے یہ اسی 12 جون 2015 کے فیصلے کی بنیاد ہر دیا گیا تھا یعنی سپریم کوڑٹ کے دو معزز ججوں نے اس 12 جون 2015 کے فیصلے کو ریفرنس بتایا تھا ۔ اسکے خلاف بھی پی ٹی ای ٹی کی رویو پٹیشن بھی ، سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے 8 اگست 2015 کو مسترد کردی تھی جس کے سربراہ اسوقت سابق چیف جسٹس محترم جج جسٹس آصف سعید خان کھوسہ صاحب تھے ( جو اسوقت چیف جسٹس نھیں تھے)۔ اور پھر یہ جو یہ تین مارچ 2020 کو اسلام ھائی کوڑٹ کے سنگل بینچ کے ججز نے پی ٹی سی ایل پنشنرس پٹیشنرس کے حق میں جو یہ فیصلے دئیے وہ ان تینوں عدات عظمی کے فیصلوں کے ریفرنسس سے دئیے ۔ تو انکا ان فیصلوں کے کے خلاف یہ انٹرا کوڑٹ اپیل دائیر کرنا سپریم کوڑٹ کے ان فیصلوں کی نفی ھے جنکے خلاف انکی رویو پٹیشنیں بھی خارج ھو چکی ھیں۔ قانون یہ ھے کے ھائی کوڑٹ کے سنگل بینچ کے فیصلے کے خلاف اسی ھائی کوڑٹ میں انٹرا کوڑٹ اپیل دائیر کی جاتی ھیں جسکو ڈبل بینچ کے ججز حضرات سنتے ھیں اور ھاں اگر ابتدائی فیصلہ پہلے ھی ھائی کوڑٹ کے ڈبل بینچ نے کیا ھوا تو اسکے خلاف اپیلیں ڈائیریکٹ سپریم کوڑٹ میں کی جاتی ھیں ۔ سنگل بینچ کے ھائی کوڑٹ کے فیصلے کیخلاف جو انٹرا کوڑٹ اپیل کی جاتی ھیں وہ اسی سنگل بینچ کے ھی فیصلے پر اعتراض اور اس میں نقص نکال کر کی جاتی ھیں ۔ مگر ۳ مارچ ۲۰۲۰ کے ان سنگل بینچ کے فیصلوں کے خلاف ھو انٹرا کوڑٹ اپیلیں کی گئیں اس میں ایسا نھیں تھا ۔ چاھے وہ پی ٹی ای ٹی کی یا پی ٹی سی ایل کے وکلاء کی طرف سے دائیر کی گئی ھوں ، اس میں انھوں نے وھی پرانی کہانی دھرائی جو یہ ری ویو اپیلوں میں بیان کرچکے ھیں کے یہ تو سرکاری ملازم نھیں یہ تو کمپنی کے ملازم ھیں انکا کوئی بھی حق نھیں بنتا گورمنٹ والی پنشن یا تنخواہ لینے کا وغیرہ وغیرہ کا ۔ یہ میرے علم میں جب آیا جب میں نے اور ساتھی پٹیشنروں کی طرف ڈالی ھوئی پٹیشن 4588/2018 پر فیصلے کے خلاف انکی دائر کردہ انٹرا کوڑٹ اپیل 98/2020 پر انکا موقف پڑھا ۔ میں نے تو اپنی پٹیشن میں صرف ان سے یہ استدعا کی تھی کے ھم پٹیشنروں کو وھی پنشن انکریزز دئیے جائیں جو انھوں نے 15 فروری 2018 سپریم کوڑٹ کے احکامات کے تحت ، 345 پٹیشنروں کو ادا کئیے ھیں۔ اور میں نے کسی اور گورمنٹ الاؤنس کی ڈیمانڈ نھیں کی تھی ۔ پی ٹی ای ٹی انکے خلاف انٹرا کوڑٹ اپیل کی تھی جنھوں نے گورمنٹ پنش انکریز اور انکے ساتھ کسی اور الاؤنس دینے کی استدعا کی تھی اور پی ٹی سی ایل نے انکے خلاف انٹرا کوڑٹ اپیلیں کی تھیں جنھوں نے گورمنٹ کے اعلان کردہ پنشن کے ساتھ میڈیکل الاؤنسس دینے کی prayers کی تھی ۔ حیرت انگیز طور پر پی ٹی سی ایل نے ھماری پٹیشن نمبر 4588/2018 پر دئیے گئیے فیصلے کا خلاف بھی انٹرا کوڑٹ اپیل 149/2020 کردی جبکے ھم اس میڈیکل الاؤنس دینے کی prayer کی ھی نہیں کی تھی جسکی ادا کرانے کی زمہ داری پی ٹی سی ایل کی تھی ۔ پی ٹی سی ایل کی یہ انٹرا کوڑٹ اپیل 149/2020 پی ٹی ای ٹی کی طرف سے دائیر کردہ انٹرا کوڑٹ اپیل 98/2020 کی ditto copy نظر آتی تھی ۔ اب انکی ان بدحواسیوں پر کیا کہا جائیے ؟؟ پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے وکلاء کا یہ وطیرہ رھا ھے کے وہ جب بھی کلائینٹس کے خلاف آئیے فیصلوں کے خلاف ھائی کوڑٹ میں یا سپریم کوڑٹ میں اپیلیں دائیر کرتے ھیں تو پہلے فورن اس پر سٹے لینے کی کوشش کرتے ھیں ، جو انکو کبھی بھی عمومن نہیں ملتا اور وہ پھر اس پر عدالتی کاروائی کو مختلف حیلے بہانے سے زیادہ سے زیادہ طول دینے کی کوشش کرتے ھیں تاکے اسکے بہانے اپنے خلاف اور کیسس کی کاروائی پر اثر انداز ھوں یہ کہہ کر “ جی وہ تو ھمارے اسطرح کی کیسس میں ھائی کوڑٹ یا سپریم کوڑٹ میں اپیلیں پینڈنگ پڑی ھیں جب تک ان ہر کوئی فیصلہ نھیں آتا ، اس پر کاروائی روک دی جائیے “۔ ۲۱ دسمبر ۲۰۱۱ کو جب جب محمد عارف صاحب اور دیگران کی اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں دائیر دہ پٹیشن [ WP-148/2011] کا فیصلہ انکے حق میں آیا تو اور عدالت نے انکو گورمنٹ کی اعلان کردہ ھی پنشن انکریزز اور اسکے بقایا جات ادا کرنے کا حکم دیا تو انھوں نے فورن اسکے خلاف انٹرا کوڑٹ اپیل کردی جس پر ڈبل بینچ کا فیصلہ 17 مارچ 2014 میں یعنی تقریبن ڈھائی سال کے بعد آیا اور انکی انٹرا کوڑٹ اپیل خارج کردی گئی ۔ انھوں نے مختلف حیلوں بہانے سے اس پر ھونے والی کاروائی کو طول سے طول دینے کی کوشش کی ۔ اپنے اس انٹرا کوڑٹ اپیل کے لئیے انھوں نے ایڈوکیٹ بیرسٹر اعتزاز حسین کو ایک خطیر رقم کی فیس ، جو کہا جاتا ھے کے ڈیڑھ کڑوڑ روپے کے لگ بھگ تھی ، انگیج کیا ۔ بیرسٹر اعتزاز حسین ، سب جانتے ھیں کے ان کیسس کی کاروائی کو بہت طول دینے کی کوشش کرتے ھیں جن پر انکا گمان انکے حق میں فیصلہ، نہ آنے پر ھوتا ھے ۔ کیونکے انکو اس پر سٹے ملا نھیں تھا ۔ تو جب انھوں نے اس 21 دسمبر 2011 والے فیصلے پر عمل نھیں کیا ، تو عارف صاحب نے انکے خلاف توھین عدالت کا کیس بھی کردیا جو کچھوے کی چال چلتا رھا ۔ انکی انٹرا کوڑٹ اپیل خارج ھوجانے کے بعد بھی انکے اس توھین عدالت کے کیس پینڈنگ ھی رھا ۔ اور بعد میں اس کیس کی ھئیرنگ کرنے والے جج محترم جسٹس اطہر من اللہ نے اس پر کاروائی کو انکی سپریم کوڑٹ میں ، ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے کے خلاف رویو پٹیشن پر فیصلہ آنے تک مؤخر کردیا۔ جو عدالتی قانون اور اصول کے خلاف تھا عدالتی فیصلے پر عمل کرنے کو صرف اس وقت روکا جاسکتا جب اس پر حکم امتنائی ملا ھو ، ورنہ نھیں ۔ یہاں یہ بات قابل زکر ھے کے جب انھوں نے سپریم کوڑٹ کے مسعود بھٹی اور 2 دیگران کے کیس جس پر فیصلہ جو 7 اکتوبر 2011 کو آیا تھا یعنی 2012SCMR152 کے مطابق جو ایک اپیلنٹ نصیر الدین غوری کو ایک مہینے کے اندر بقایا جات اور پروموشن دینے , پر اس بنا پر عمل نھیں کیا کے انھوں نے اس فیصلے کے خلاف رویو پٹیش کر رکھی ھے . تو اس نصیرالدین غوری کی توھین عدالت کیس ‏[ Cr. Org Petition #09/2012 ] کے تین رکنی بینچ کے معزز سربراہ سابق محترم چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری انکے وکیل منیر پراچہ پر بیحد برھم ھوئیے کے کس قانون کے تحت انھوں نے رویو پٹیشن کی آڑ میں نصیر الدین غور عدالتی حکم کے مطابق ایک ماہ کے اندر پیمنٹ کی نہ تو ادائیگی کی گئی اور نہ ھی اسے پروموٹ کیا ۔ محترم چیف جسٹس صاحب نے ان سے یہ بھی استفصار کیا کے انھوں نے ابتک اس رویو پٹیشن کی جلد شنوائی اور سٹے لینے کے لئیے درخواست کیوں نھیں دی ؟. انھوں نے اس دن مزید عدالتی کاروائی جمعہ کی نماز کے بعد تک ، یہ حکم دے کر ملتوی کردی کے ، اپیلنٹ نصیرالدین غوری پر عدالتی احکامات کے مطابق عمل کرکے رپوڑٹ دی جائیے ۔ یہ توھین عدالت کا کیس 10 اگست 2012 بروز جمعہ کی صبح سنا جارھا تھا۔ اسوقت عدات میں تمام توھین عدالت کے مرتکبان حاضر تھے جسمیں اسوقت کے فیڈرل سیکریٹری منسٹری انفارمیشن اینڈ ٹیکنولوجی جناب فاروق اعوان صاحب بھی شامل تھے . عدالت عظمی کا یہ حکم سن کر ان سبکی بولتی بند ھوگئیں اور منہ پر ہوائیاں اُڑنے لگیں ۔ اسوقت تک دن کے ۱۲ بجچکےتھے اور جمعہ کی وجہ سے پی ٹی دی ایل ھیڈ کواڑٹر بھی جلدی بند ھوگیا تھا ۔ یہ لوگ نصیرالدین کو لے کر بھاگم بھاگ پی ٹی سی ایل ھیڈ کواڑٹر پہنچے اسے کھلوایا اور جتنی اماؤنٹ کا نصیرالدین نے انکو چیک بنوانے کا کہا انھوں نے تیار کیا جو شائید چار لاکھ پچھتر ھزار روپے یا اس سے کچھ زیادہ کا تھا ۔ پھر وہ یہ چیک لے کر دوبارہ سپریم کوڑٹ پہنچے اور عدالتی کاروائی شروع ھوئی ۔ انکے وکیل منیر پراچہ صاحب نے عدالت کے سامنے پہلے معافی مانگی اور پھر یہ چیک نصیر الدین کو دیا اور پروموشن دینے کے متعلق بتایا کے وہ چونکے گریڈ 17 سے گریڈ 18 پروموشن ڈی پی سی کے زریعے دیا جاتا ھے تو اسلئیے ایک مہینے کے اندر یہ دے دیا جائیے گا [ جھاں تک میری اطلاع ھے اس بیچارے کا اب تک پروموشن نھیں ھوا]۔ عدالت نے اس بنا پر تو یہ توھین عدالت کا کیس ڈسپوزڈ آف کردیا اور اپنے فیصلے میں صاف صاف لکھا کے یہ لوگ سخت توھین عدالت کے مرتکب ھو رھے تھے لیکن انکی طرف سے معافی اور عدالتی فیصلے پر عمل کرنے کی بنا یہ کیس ڈسپوزڈ آف کیا جاتا ھے[ میں نے اس فیصلے کی فوٹو کاپی نیچے لگادی ھے]۔ یہ لوگ اب تک مگر وھی روش اختیار کئیے ھوئیے ھیں ۔ کیونکے انکا سامنا دوبارا سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری جسے ججوں سے نھیں ھوا ھے ۔ انکی کوشش یہ ھی ھوتی ھے کے اپنی رائیر کردہ ھوئی ھائی کوڑٹ میں انٹرا کوڑٹ اپیلوں یا سپریم کوڑٹوں دائیر کردہ اپیلوں یا رویو اپیلوں کی شنوائیوں پر جتنی سست روی ھو کی جائیے وہ بہتر ھے تاکے انکے خلاف عدالتی احکامات پر انکو عمل نہ کرنے کا کوئی جواز مل سکے ۔ کیونکے وہ یہ سمجھتے ھیں اب کسی ھائی کوڑٹ یا سپریم کوڑٹ میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری جیسے ججز نھیں ھیں - لیکن آخر کب تک بکرے کی ماں خیر منائیےگی کیونکے انشاللہ جلد ھی چند ایسے دبنگ ججز ضرور آجائیں گے جو انسے ان عدالتی احکامات پر جو پی ٹی سی ایل پنشنرز اور پی ٹی سی ایل ملازمین کے حقوق کے مطابق ھیں ، ضرور سختی سے عمل کرائیں گے ۔ اللہ کے ھاں دیر ھے اندھیر نھیں ۔ تو اسلئیے ھم کو اللہ کی زات سے بلکل مایوس نھیں ھونا چاھئیے ۔ اور اپنی کوشش جاری رکھنی چاھئیں اور انکے خلاف جسقدر بھی ھو سکے کیسس پر کیسس کرنے چاھئیں ۔ ایک بات تمام پی ٹی سی ایل کے ملازمین اور پنشنروں کو یاد رکھنی چاھئیے کے جو فیصلے عدات عظمی نے انکے حق میں کئیے ھیں انکے خلاف انکی رویو پٹیشنیں بھی خارج ھو چکی ھیں اور یہ لوگ ان فیصلوں پر عمل بھی کرچکے ھیں جیسے انھوں نے 343 پی ٹی سی ایل پنشنروں کو گورمنٹ کی اعلان کردہ پنشن ادا کردی اور راجہ ریا ض کو گورمنٹ والی تنخواہ اور پنشن اور دیگر الاؤنسس بھی دے دئیے تو باقیوں کو دینے میں اب کیا قباحت یہ تو انکو لازمن ایک دن دینا ھی پڑیں گے چاھے کیونکے آئین کا آڑٹیکل 4 بھی یہ ھی کہتا کسی کو بھی قانون کے لحاظ سے تفریق کرنے کی اجازت نھیں جب ایک کو ایک قانون کے تحت مراعات ملتی ھیں تو دوسرے کو بھی اسی قانون کے تحت وھی مراعات ملنی چاھئیں یہ پتھر پر لکیر ھے چاھے یہ کتننی ایسی ریشہ دوانیاں کرکے انکا حق روکنے کی کوشش کریں مگر انکو یہ انکا حق ایک دن لازمن دینا ھی پڑے گا انشاللہ - واسلام محمد طارق اظہر راولپنڈی 22 -12-2020

Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]