Article-25[PTCL ki Hut Dhermi aur Hakoomut ki be basi]

Article-25     
                        "پی ٹی سی ایل کی ھٹ دھرمی  اور حکومت کی بے بسی"

 نوٹ :- تمام پی ٹی سی ایل کے وہ ملازمین متوجہ ھوں جو پی ٹی سی ایل میں پی ٹی سی سےٹرانسفر ھوکر یکم جنوری 1996 کو پی ٹی سی ایل کا حصہ  یعنی پی ٹی سی ایل کے ملازمین بن گئے اور اب بھی ملازمت کا حصہ ھیں یا ریٹائر ھوچکے ھیں یا ملازمت کو خیرآباد کہے چکے ھوں. 

عزیز پی ٹی سی ایل کے ساتھیو
                                                      اسلام وعلیکم
جیسا کے شایئد آپلوگوں کے علم میں ھو یا نہ ھو کے حال ھی میں یعنی ۲۹ اگست کو محترم جناب معزز جناب سید منصور علی شاہ چیف جسٹس لاھور ھائی کوڑٹ  نے ، پی ٹی سی ایل لائینز سٹاف یونین کی رٹ پٹشن WP-25713/2016 ، جو فیڈرل گورنمنٹ اور پی ٹی سی ایل کے خلاف کی تھی اس میں   مسعود بھٹی کیس (2012SCMR152) میں   سپریم کوڑٹ کے تاریخی فیصلے کا حوالہ دیتے پی ٹی سی ایل کو یہ حکم دیا کے  "پی ٹی سی ایل لائینز سٹاف یونین کی جو درخواست جو  پی ٹی سی ایل 2016-06-02 کو ڈسپیچ کی گئی تھی اور جس پر اب تک عمل درآمد کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ نہیں کیا گیا اس لئے پی ٹی سی ایل کو یہ ڈائیریکٹ کیا جاتا ھے کے اس درخواست ( جسکی کاپی  اس پٹیشن کے  صفحہ 46  پر منسلک ھے) ایک مہینے کے اندر اندر فیصلہ کرے اور اس فیصلے کی کاپی اس پٹیشن کے ساتھ منسلک کی جائیے جو اگلی پیشی  یعنی 2016-10-04 میں پیش کی جائے." . . . اس فیصلے جناب محترم چیف جسٹس لاھور کا مسعود بھٹی کیس کا پہلے زکر کرنا  اور پھر یہ زکر بھی کرنا کے ان ملازمین کے ملازمت کے ٹرمز اینڈ کنڈیشنس ٹی اینڈ ٹی کے مینولز  میں بیان کئے گئے ھیں جو ٹیلی گراف و ٹیلی فون ڈیپاڑٹمنٹ حکومت پاکستان نے جاری کئے   [ آپ سب کی معلومات کے لئے یہ تمام مینول والیمز پاڑٹیشن سے پھلے گورنمنٹ آف انڈیا کے ایکٹ کے تحت بناۓ گئے تھے اور انکا نام تھا  پوسٹ اینڈ ٹیلیگراف مینول والیمز تھا . پاکستان بنے کے بعد پوسٹل ڈیپاڑٹمنٹ الگ ھوگیا اور ٹیلی گراف الگ . جس کا نام رکھا گیا ٹیلی گراف اینڈ ٹیلی فون ڈیپاڑٹمنٹ حکومت پاکستان . ان والیمز میں پوسٹل ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے والے گورنمنٹ ملازمین کے بھی ٹرمز اینڈ کنڈیشنس اور جو ٹیلی گراف اینڈ ٹیلیفون ڈیپاڑٹمنٹ میں کام کرنے ملازمین کے ٹرمز اینڈ کنڈیشنس درج ھیں . یہ جو مینول والیمز تھے جن ھر طرح کے رولز تھے .انکی تعداد کا 14 تھی .اور ھر والیم کی ایک  مکمل کتاب تھی جسطرح مجھے یاد  کے  P &T Manual Volume-10 ایک بہت ھی اھم والیم طرح تھا اس میں ٹیلیگراف اور ٹیلیفون کے محکمے کو چلانے کے لئے ہر طرح کے روالز آف بزنس تھے اور ڈویژنل انجینئر کے اختیارات اور پاور کے بارے میں تھا اسی طرح  P&T Manual Volume-11 جو مکمل ٹیلیفون کے متعلق تھا اس میں ٹیلیفون دینے کے قوانین وغیرہ تھے. اسطرح اکاؤنٹس کے بارے میں قوانین تھے جن کے والیمز کا نام Post  and Telegraphs Initial Account Code Volumes تھا .  اور انکو آئی ای سی Volume-I , II & III etc کہتے تھے. ایک اور بات بھی واضح کردوں کے ٹی اینڈ ٹی میں گورنمنٹ کے گریڈ 1 سے گریڈ15 ملازمین کی تقرری کا P&T Manual Volumes  دئے گۓ قوانین کے مطابق ھوتی تھی جبکے گریڈ 16  اور 17  میں تقرری  حکومت کے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ھوتی تھی . تاھم پی ٹی سی میں ، ٹی اینڈ کے ضم ھونے کے بعد،  پی ٹی سی میں  گریڈ 16 اور 17 میں تقرری  پی ٹی سی خود ھی  کرتی تھی اور ان پر ملازمت کے بعد انھی قوانین کا اطلاق ویسا ھی ھوتا تھا جو ایسے ملازمین کا ٹی اینڈ ٹی میں ھوتا تھا]. محترم چیف جسٹس لاھور ھائی کوڑٹ نے مزید لکھا کے کے یہ تمام قوانین گورنمنٹ پروٹیکٹ کئے ھوے ھیں [ یعنی جب ٹی اینڈ کے ملازمین کے یہ تمام سیکشن (1)9 پی ٹی سی ایکٹ 1991 کے تحت پروٹیکٹ ھوگۓ یعنی انپر انھی قوانین اور مراعات کا اطلاق ھوگا جو ٹی اینڈ ٹی میں تھا اسی طرح جب یہ تمام پی ٹی سی ایل میں 1996-01-01 کو سیکشن (2)35 اور سیکشن (2)36  آف پی ٹی ( ری آرگنائئزیشن) ایکٹ 1996 کے تحت  ٹرانسفر ھوئۓ تو ان پر انھیں قوانین اور مراعات کا اطلاق ھوگا جو انکو پی ٹی سی  اور ٹی اینڈ ٹی میں تھا . اسی بات کی تو تشریح سپریم کوڑٹ ن اپنے مسعود بھٹی کیس میں کی  اور کہا کے ایسے تمام ٹرانسفر ملازمین پر جو یکم جنوری 1996 کو پی ٹی سی ایل کا حصہ ھوگئے تھے پی ٹی سی کے پانچ حصوں میں تقسیم  ھونے کے بعد پی ٹی ( ری آرگنائئزیشن) ایکٹ 1996کے تحت جس میں ایک حصہ پی ٹی سی ایل نام کا تھا   ، تو پی ٹی سی کے  جو ملازمین ان حصوں میں ڈیمانڈ کے مطابق ٹرانسفر  ھونے کے بعد باقی رہ گئے تھے وہ سب کے سب پی ٹی سی ایل میں  یکم جنوری1996 کو  ٹرانسفر ھوگئے تھے   اور انھی  پر مسعود بھٹی کیس میں سپریم کوڑٹ کے فیصلے کے تحت تمام گورنمنٹ کے سرکاری قوانین ( Statutory Rules ) کا اطلاق ھوگا جو سول سرونٹس گورنمنٹ آف پاکستان  پر ھوتا ھے اور پی پی ٹی سی ایل کو اس بات کا بالکل اختیار یا پاور نہیں کے انکے ان سروس کے ٹرمز اینڈ کنڈیشنس  ( یہ تمام  ٹرمز اینڈ کنڈیشنس  سول سرونٹس  ایکٹ 1973 کی سیکشن3 سے سیکشن 22  میں درج ھوئی ھیں )  کسی قسم کی ایسی منفی تبدیلی کریں جن سے انکو نقصان ھو .بلکے اسکا اختیار تو حکومت کو بھی نہیں بلکے حکومت تو اسکی گارنٹر ھے کے آسکو اس میں ایسی کسی قسم کی تبدیلی نہ ھو  خاصکر انکے پینشن کے فوائید (Pension benefits ) کی. آپ سب لوگوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھنی ھوگی.اور اس بارے میں  مزید سپریم کوڑٹ نے پی ٹی سی ایل کی رویو پٹیشن خارج ھونے کے اپنے 16 مارچ  کے 2016 detail judgment میں بھی لکھا ھے اور اس بات کو اچھی طرح کلئیر کیا ھے کے یہ وہ پی ٹی سی ایل کے ملازمین ھیں  جو بالفاظ سول سرونٹ تو نہیں رہ سکتے پی ٹی سی ایل کے ملازمین کہلائیں گے لیکن کیونکے انکے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس جو سول سرونٹس  ایکٹ 1973 کی سیکشن3 سے سیکشن 22 میں  درج ھیں ، وہ تمام پی ٹی سی  ایکٹ 1991 اور پی ٹی ایکٹ 1996 کے تحت بروٹیکٹڈ  ھیں  اسلئے  یہ وہ Statutory rules ھیں تو یہ تمام ایسے ملازمین پی ٹی سی ایل میں انھی قوانین کے  تحت کام  کریں گے ] .  کچھ اسی طرح کے  فیصلے لاھور ھائی کوڑٹ نے خالد محمود کی رٹ پٹیشن نمبر22057/2016  اور 24جون 2016 کو اور سلمان رشید کی رٹ پٹیشن نمبر 27812/2016 کو سنائے تھے .یہ رٹ پٹیشنیيں انھوں ( خالد محمود اور سلمان رشید )  نے لاھور ھائی کوڑٹ میں President PTCL اور MD PTET کے خلاف داخل کی تھیں جب ان لوگوں ( President  PTCL  & MD PTET)  نے  خالد محمود اور سلمان رشید کی ان اپیلوں پر کوئی بھی فصلہ نھیں کیا جو انھوں نے مسعود بھٹی کیس کی روشنی اپنی پنشن بحال اور انکے واجبات کے لئے انکو کی تھیں .ان لوگوں کو بھی VSS-2008 بغیر پنشن کے کے فارغ کردیا تھا جبکے یہ لوگ بوجہ دس سال یا اس سے زیادہ کوالیفائی سروس ھونے کے گورنمنٹ قوانین کے تحت پی ٹی سی ایل سے ریٹائرمنٹ کے وقت پنشن لنے کے قانونی حقدار تھے , کیونکے مسعود بھٹی کیس میں ، سپرم کوڑٹ کے حکم کی روشنی میں انپر سرکاری قوانین کا اطلاق ھوتا  تھا اور اسکے تحت  پی ٹی سی ایل کو یہ کسی قسم کا زرا سا بھی قانونی اختیار یا پاور  نہیں تھا کے وہ انکی گورنمنٹ کی طے کردہ سرکاری قانون کے تحت پنشن لینے کی مدت میں دس سال سے بیس سال کا اضافہ کرکے انکو پنشن کے حق سے محروم کریں اور انکومعاشی نقصان پہنچائیں اور انکو انکے بنیادی حق سے محروم رکھيں.لاھور ھائی کوڑٹ نے صرف اپنے حکم میں یہ کہا کے ان کی جو ایسی انکی  درخواستیں پی ٹی سی ایل کے پاس پینڈنگ پڑی ھوئی ھیں ان پر فیصلہ کرکے ، انکی اتنی مدت میں،عدالت کے اس حکم کی کاپی انکو(Respondents)  ملنے کے اتنی مدت میں فیصلہ کريں . خالد محمود کے کیس میں انکو چار ھفتے دئیے اور سلمان رشید کیس میں اٹھ ھفتے دئیےاور یہ مدتیں اس تاریخ سے شمار ھوگیں جس دن سے یہ فیصلے اپنی الگ الگ تاریخوں میں سناۓ گیا  تھا 
 ویسے پاک ٹیلی کا لائینز سٹاف یونین ( Non CBA) نے، یہ ایک زبردست کام  (جو اوپر بیان کیا گیا ھے) ،  ایسے تمام پی ٹی سی ایل کے ملازمین کے لئے کیا جو مسعود بھٹی کیس کے ضمرے ، کے تحت ان گورنمنٹ کے سرکاری ملازم کے کیٹیگری میں آتے ھیں جن کا پی ٹی سی ایل میں پر سرکاری قوانین  Statutory Rules کا اطلاق ھوتاھے چاھے یہ ملازمین  اب بھی اس کا حصہ ھوں اور پی ٹی سی ایل میں  اب بھی کام کررھے ھوں یا ریٹائر ھوچکے ھوں. پاک ٹیلی کا لائینز سٹاف یونین نے پہلے تو پی ٹی سی ایل کے پریزیڈنٹ کو ایک اپیل بھیجی جو پی ٹی سی ایل کو 2 جون 16 کو ڈسپیچ کی گئی جسکا زکر چف جسٹس لاھور ھائیکوڑٹ نے کیا جسکی تفصیل میں اوپر پیرے یں لکھ چکا ہوں .یقینن اس اپیل میں یہ ھی لکھا ھوگا کے سپریم کوڑٹ کے مسعود بھٹی کیس کے فیصلے کی روشنی میں ایسی کیٹیگری میں کام کرنے والے اور ریٹا ئیڑڈ ملازمین کو وھی مراعات ، تنخواہ، الاؤنسس اور پنشن وغیرہ  اس وقت سے دی جائیے جب سے اسکو غیر قانونی طور پر دینا بند کردیاھے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ ان ملازمین کے حق کے لئیے کوڑٹ کا دروآزہ کھٹکھٹانےمیں حق بجانب ھوں گے ، اور جب ایک ماہ تک بھی کوئی جواب یاکوئی مثبت ایکشن/ فیصلہ پی ٹی سی ایل کی جانب سے  نہیں آیا، تو انھوں نے  یعنی پاک ٹیلی کا لائینز سٹاف یونین نے یہ رٹ پیشن نمبر 25713/2016  W.P ، لاھور ھائی کو ڑٹ میں داخل کرائی جس پر جناب محترم چیف جسٹس لاھور نے 29 اگست 16 کو یہ حکم لکھوایا،  جو میں اوپر بیان کرچکاھوں .اب ظاھر بات ھے جب 2016-10-04   کو کیس لگے گا ، تو عدالت  پہلے دیکھے گی کے پاک ٹیلی کا لائینز سٹاف یونین کی انکو جمع کرائی ھوئی اپیل پر ، پی ٹی سی ایل  نے کیا ایکشن لیا ، لیا بھی ھے یا نہیں؟؟؟  اگر لیا ھے تو کیا لیاھے ؟. ظاھر بات ھے اگر کوئی مثبت  فیصلہ اکر لیا ھوگا تو تو وہ مسعود بھٹی کیس یعنی 2012SCMR152 میں درج کئے فیصلے کے مطابق ھونا چاھئیے اگر نھیں لیا یا منفی  لیا تو وہ توھین عدالت کے زمرے میں آجائے گا تو ھائی کوڑٹ انکو یعنی پریزیڈنٹ پی ٹی سی ایل کے خلاف توھین عدالت کی کاروائی شروع کردے گی اور اس پر عمل در آمد کرا کے رہے گی. یہ 2016-10-4 کو لگا تھا مگر پی ٹی سی ایل نے 2016-10-24 تک کا جواب دینے کے لئے اور ٹائم مانگلیا
 مزید آپ لوگوں کے علم کے لئے, 17 مئی 2016 کو اسلام آباد ھائی کوڑٹ نے چار Non CBA یونینز یعنی ۱) پاک ٹیلی کام لیبر یونین راولپنڈی ۲)پاک ٹیلی کام سٹاف یونین راولپنڈی ۳) پی ٹی سی ایل مزدور یونین اسلام آباد اور ۴) پاک ٹیلی کام لائینز  یونیٹی کراچی کی رٹ پٹیش  نمبر W. P. 2684/2012 ، جو پی ٹی  سی ایل اسلام آباد  ، فیڈریشن آف پاکستان اسلام آباد اور پرائیو یٹائیزیشن کمیشن اسلام آباد کے خلاف تھیں، اپنے حکم میں  میں اسلام آباد ھائی کوڑٹ نے ایسے تمام پی ٹی س ایل کے ملازمین جن پر مسعود بھٹی کیس میں سپریم کوڑٹ کے فیصلے کے مطابق حکومت پاکستان کے سول سرونٹ والے سرکاری قوانین  پی ٹی سی ایل میں ھوتے ھیں انکو وھی حکومت پاکستان والے سول سرونٹ والے مراعات ، تنخواہ ، پنشن دی جائیں. اور اپنے حکم میں یہ بھی کہا کے جو مجودہ  سی بی اے یونین پی ٹی سی ایل میں کام کررھی ے وہ غیر قانونی ھے  اسلئے کے موجودہ سی بی اے (ضیااید دین والی پاکستان ایمپلائی یونیٹی  ) اسوقت غیر قانونی ھے کیونکے اسکی مدت تین سال سے کہیں زیادہ ھے  (کیونکے کوئی بھی سی بی اے یونین , ریفرینڈم کے بعد زیادہ سے تین سال تک سی بی اے رہ سکتی ھیں اور پھر  RTU یعنی Registrar Trade Union کو Secret Balloting کے زریعے ریفرینڈم   کرانا پڑتاھے اور ریفرینڈم کرانے کے بعد نئی سی بی اے  کا اعلان کرنا پڑتا ھے جو دوسال تک کام کرتی ھے اور صرف ایک سال مزیدRTU کی منظوری سے سی بے اے کے طور پر کام کرسکتی ھے .باوجود اور نان سی بی اے یونینز پی ٹی سی ایل  کی طرف سے ریفرینڈم کرانے کی درخواست دینے کے باوجود RTU نے اب تک پی ٹی سی ایل میں ان لوگوں کی ملی بھگت سے اب تک ریفرینڈم نہیں کرایا اوراور نئی سی بی اے یونین کا انتخاب نہیں کیا  یہ موجودہ سی بی اے غیر قانونی طور پر برا جمان ھے اور پی ٹی سی ایل کی انتظامیہ مل کر کوئی ایسا عمل نہیں کرھی ھے جن سے پی ٹی سی ایل کے ایسےملازمین کو فائدہ ھو جو ابھی تک پی ٹی سی ایل کا حصہ ھیں  . اس  غیر قانونی  CBA کو پی ٹی سی ایل انتظامیہ نے کھا پلا کر اپنے ساتھ ملایا ھوا ھے اور جبھی تو یہ لوگ ان مراعات کی بات نھیں کرتے  جو بطور سرکاری ملازمین ان لوگوں کو دینا چاھئی جو دینا پی ٹی سی ایل کا قانونی حق بنتا ھے. دوسری نان سی بی اے یونینز نے  RTU کو ریفرنڈم کرانے کے لئے درخواستیں دے رکھی ھیں جو انکا قانونی حق ھے کیونکے موجودہ سی بی اے کے دن کب کے پورے ھوجکے ھیں مگر چونکے RTU بھی  خوب کھایا پیا ھے اور  ان کے ساتھ ملا ھوا ھے تو وہ یہ جان بوجھ کر ریفرنڈم نھیں کرارھا ھے) اسلئے عدالت نے RTU کو یہ حکم دیا ھے کے جو اسکے پاس دوسری نان سی بی اے کی درخواستیں ( یعنی  ریفرنڈم کرانے کے لئیے) pending پڑی ھیں ان پر پر ۱۵ دن کے اندر اندر Section-19(2 ) of Industrial Act 2012  کے تحت فیصلہ کیا جائے اور سیکرٹ ووٹ کے ذریے پی ٹی سی ایل میں CBA  یونین کا چناؤ کیا جائے مگر لگتا ھے عدالت کے اس فیصلے پر ابھی تک عمل نہيں کیا گیا.ظاھر ھے RTU والے کیسے کرتے انکا اپنا مفاد ھے پی ٹی سی ایل نے انکو اپنے ساتھ ملایا ھوا ھے اسلئے وہ نہیں چاھتے کے کوئی اور یونین آۓ .اس موجودہ غیر قانونی سی بی اے کو انھوں نے بہت کھلا پلا کر اپنے ساتھ ملایا ھوا ھے اور یہ بیغیرت لوگ اپنے زاتی مفاد کی خاطر تمام ایس پی ٹی سی ایل کے ملازمین کا ، جو اب تک کام کررھے ھيں انکا استحصال کررھے ھيں اور ساتھ اپنا پیٹ بھررھے ھیں.
ایک موٹی سی بات ھے پتہ نہیں کیوں  پی ٹی سی ایل ے سمجھ میں نہیں آتی کے  پی ٹی سی سے جو ملازمین ٹرانسفر ھوکر یکم جنوری 1996کو پی ٹی سی ایل  میں آۓ وہ ایک طرح کے  گورنمنٹ والے سرکاری ملازم ھیں اسکے ملازم نہیں جو انپر اپنا حکم چلاۓ جب چاھے کسی کو نکال دے ، کھڈے لائین لگادے، ویٹنگ پر گھر بھیجدے  تنخواہ کم دے ، الاؤنس نہ دے پنشن دے یا نہ دے یا کم کردے، زرا زرا سی بات پر شو کاز نوٹس  دے وغیرہ وغیرہ .  چونکے یہ سب سرکاری ملازم کے زمرے میں آتے ھیں تو انکے ساتھ ٹریٹمنٹ بھی سرکاری ملازموں جیسا ھی ھوناچاھئے. پھر یہ کیوں پی ٹی سی ایل  آئیں بائیں شآئیں کررھی ھے کیوں ان ملازمین کو انکا حق نہیں دے رھی کیوں بے حسی کا مظاھرہ کررھی ھے کیا اسکو اب بھی کوئی شک شبہ ھے کے یہ سرکاری ملازمین کےزمرے میں نہیں آتے تو اسکی بنیاد کیا ھے؟. یہ تو کمپنی کے ملازم تو بن سکتے ھی نہیں کیونکے انکا سرکاری سٹیٹس  پی ٹی سی ایکٹ 991 اور 
پی ٹی ری آرگنائیزیشن ایکٹ 1996 کے تحت پروٹیکٹڈ ھے.  انکا سٹیٹس  مسعود بھٹی کیس میں  ، سپریم کوڑٹ کے فیصلے کے مطابق گورنمنٹ سول سرونٹ کا ھی ھے ،اگرچہ انکو ھم سول سرونٹ تو نھیں کہہ سکتے مگر پی ٹی سی ایل میں  ان پر سول سرونٹ والے Statutory Rules ھی استعمال ھوتے ھیں،  سپریم کوڑٹ کا یہ فیصلہ جو اب ایک حقیقت بن چکا ھے اور ایک قانونی شکل اختیارکے  کر چکا ھے ،  چونکے انکا سٹیٹس ایک طرح کا گورنمنٹ آف پاکستان کے سرکاری ملازمین کاھے اسلئے  وہ پی ٹی س ایل میں اسی مراعات , تنخواہ، اور پنشن  کے مستحق ھیں جو گورنمنٹ آف پاکستان اپنے سرکاری ملازمین کو دیتی ھے  .  پی ٹی سی ایل اس میں اضافہ تو کرسکتی ھے مگر کمی یا ختم بلکل نھیں کر سکتی اسکا اسکو بالکل قانونی اختیار نہیں ھے. بلکہ حکومت پاکستان بھی ایسا نہیں کرسکتی اور وہ تو اس بات کی گارنٹر ھے کے انکے ان حقوق میں خاصکر پنشن  اور اسکے کے فوآئید پر ، پی ٹی سی ایل  کوئی بھی ایسی منفی تبدیلی نہ کرسکے جس سے  انکو نقصان ھو اور آکر کسی مرحلے پر پی ٹی سی ایل دیوالیہ ھوجاتی ھے تو حکومت انکو خود پنشن ادا کرے گی . پی ٹی سی ایل ان سرکاری ملازمین کے  خلاف تو اپنے قوانین کے تحت کوئی بھی ایکشن نھیں لے سکتی. مثلن اس نے انکے خلاف کوئی بھی انضباتی کاروائی کرنی ھو تو  اسکو  گورنمنٹ کے قانون Civil Servant (E&D) Rules 1973 کے تحت ھی کرنا پڑے گی  ناکہ اپنے کمپنی کے بونگے قانون کے مطابق جس کا نہ کوئی سر ھے اور نہ کوئی پیر . یہ اب تک ریکاڑڈ ھے ( مسعود پھٹی کیس میں سپرکم کوڑٹ کا فیصلہ آنے کے بعد ) جب بھی اس نے کسی کے خلاف اپنے قانون کے تحت انضباتی کاروائی کرنے کی کوشش کی ، وہ فورن عدالت میں چلا گیااور پہلے فورن سٹے لےلیا اور اور بعد میں مکمل ریلیف اور عدالت پی ٹی سی ایل  یہ ھی ھمیشہ کہتی ھے "آگر انکے خلاف کوئی ایکشن لینا ھے تو انکے ھی گورنمنٹ  کےسرکاری قوانین کے تحت لیں". اگر پی ٹی سی ایل اپنے قانون کے تحت کاروائی کرکے کسی کو نوکری سے برطرف کردیتی ھے تو متاثرہ عدالت کے ذریعے اپنے آ کو بحال کرالیتا ھے اور اس میں عدالت ایسے متاثرہ شخص کو بحال کرتے ھوئے دوبارہ سرکاری قانون کے تحت Denove Enquiry کا حکم دیتی ھے جیسا فیض الرحمان (انکو پی ٹی سی ایل اپنے قوانین کے تحت ایکشن لے کر جبری نوکری سے ریٹائیر کردیا تھا. جبکے انکے خلاف Civil Servants (E&D)Rules 1973 کے تحت ایکشن لینا چاھئیے تھا )  کے کیس میں ھوا جسکو اسلام آباد ھائی کوڑٹ نے بحال کیا اور Denove Enquiry  کا حکم دیا .پی ٹی سی ایل نے اسکے خلاف سپریم کوڑٹ میں اپیل  (CP-717 /2013) کی وہاں اسکی سبکی ھوئی اور اسکی اپیل خارج ھوئی بھر پی ٹی سی ایل نے اسکی رویو پٹیشن داخل کی وھاں اسکی پھر سبکی ھوئی اور رویو پٹیشن (CRP-253/2013 )  خارج ھوئی اور ٹھیک ٹھاک انپر جوتے پڑے . سپرم کوڑٹ نے پی ٹی سی ایل کو سختی سے حکم دیا کے کے جو آڈر اسلام آباد ھائی کوڑٹ نے دیا ھے ، اس پر اسکی روح کے مطابق عمل کیا جائے . آئین اسلامی جمھوریہ پاکستان کے مطابق ھر ایک کو عدالت عالیہ کا حکم ماننے کا حکم ھے اس کوئی بھی چی چراں چوں نھیں کرسکتا چاھے وہ کتنا ھی بڑا ادارہ کیوں نہ ھو یا کتنا بڑا ھے شخص سر براہ وغیرہ وغیرہ. مگر یہ پی ٹی سی ایل والے اپنے آپکو کیا  سمجھتے ھیں جو اتنے بے حس ھیں ٹس سے مس نہیں ھوتے . 
اب تو سپریم کوڑٹ نے محمد ریاض کے کیس جو 2015SCMR1738 میں رپوڑٹ ھے اور یہ حکم دیا ھے کے  اسسٹنٹ ڈائریکٹر گریڈ 17 محمد ریاض  جو پی ٹی سی ایل میں سرکاری ملازمین کی کٹیگری میں آتے ھیں  انکو پی ٹی سی ایل سے ريٹائرمنٹ (جو ۲۰۱۲-۲۰۱۳ میں ھوئی) پر وھی گورنمنٹ والی پنشن , تنخواہ اور ایل پی آر انکیشمنٹ [یاد رھے حکومت پاکستان نے یکم جولائی ۲۰۱۲ سرکاری ملازمین کی دیٹآئرمنٹ پر انکی ایل پی آر کی انکیشمنٹ کی  رقم بجاۓ 180 دن کی تنخواہ کے بجاۓ360 دن کی کردی ھے]  ڈیمانڈ کردی تھی اور پی ٹی سی ایل والے ریاض صاحب کو 180 دن کی تنخواہ وہ بھی کمپنی کے مطابق دے رھے تھے  اور پنشن بھی جسکو لینے سے  ریاض صاحب نے انکار کردیا تھا اور ان پی ٹی سی ایل پر کیس کردیا تھا اور جیت بھی گئے  اور پی ٹی سی ایل کی اسکے خلاف رویو بھی  خارج ھوگئی تھی . پھر ریاض صاحب نے پی ٹی سی ایل کے خلاف توھین عدالت کا کیس کردیا .مگر پی ٹی سی ایل والے اپنی طرف سے  بنانے والے واجبات ریاض صاحب کو دینے پر مصر ھیں اور ریاض صاحب گورنمنٹ والے واجبات لینے پر مصر ھیں جو انھوں نے گورنمنٹ کے مطابق بنائے ھیں  Revised govt scales کے مطابق جو پی ٹی سی ایل نے انکی پی ٹی سی ایل کی سروس کے کے دوران انکو نہیں دئے تھے اور پنشن بھی پی ٹی سی ایل نے revised govt scales کے مطابق  گورنمنٹ والی نہیں بنائی تھی  جو پی ٹی سی ایل  والے ھٹ دھرمی اور بے شرمی کے ساتھ انکو دینے سے مسلسل انکار ھیں . ابھی حال ھی میں یعنی ۲۲ ستمبر کی ریاض صاحب کی توھین شنوائی کیس  میں جہا ن محترم ظہیر جمالی چیف جسٹس ان پی ٹی سی ایل والوں  کی ہٹ دھرمی پر کے وہ ریاض صاحب کو انکی وہ رقم نہیں دے دھے جسکا حکم سپریم کوڑٹ نے اپنے انکی سول اپیل نمبر 797/2015 پر  یکم جولائی 2015 کی hearing کے بعد دیا تھا جسکے خلاف پی ٹی سی ایل کی سول رویو پٹیشن 482/2015 بھی سپرم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے 18 اگست 2015 کو خارج کی تھی، اپنی کافی برھمی کا پی ٹی سی ایل کی لیگل پر اظہار کیا اور  ریاض صاحب کا بنایا ھو کلیم اور پی ٹی سی ایل کا ریاض صاحب دینے والا کلیم Accountant General of Pakistan یعنی AGPR کو verify  کے لئے بھیج دیا. اب ظاہر بات ھے کے  AGPR تو گورنمنٹ کی اپنے سرکاری ملازموں کو دینے والی تنخواہوں اور پنشنوں کے لحاظ سے verify  کرے گا اور اپنی رپوڑٹ سپریم کوڑٹ کو پیش کرے گا اور پھر اگلی پیشی میں سپریم کوڑٹ AGPR کی verify کی ھوئی واجبات کی رقم ،ریاض صاحب کو دینے کے لئے ایک مقررہ پیريڈ میں دینے کے لئے ،  پی ٹی سی ایل  حکم جاری کرے گی اور پھر اگر یہ واجبات جیسا کے سپریم کوڑٹ کا حکم ھوگا، نہ دینے کی صورت میں ان پی ٹی سی ایل والوں کو سخت نتائیج بھگتنا ھوں گے.
جب سے پی ٹی سی ایل وجود میں آئی تھی یعنی یکم جنوری 1996 اور جو پی ٹی سی کام کرنے والے ملازمین اس میں ضم ھوگئے تھے اور جو پی ٹی سی ایل میں یکم جنوری 1996 کے بعد  باقاعدہ ریگولر گورنمنٹ والے قوانین کے تحت بھرتی ھوۓ ان سب پر گورنمنٹ کے سرکاری قوانین کا برابر اطلاق ھو رھا تھا انکی تنخواہ، الاؤنسس پنشن وغیرہ اسطرح مل رہاتھااور اسی طریقے سے ان میں اضافہ ھورھا تھا جس طرح ایک سول سرونٹ یعنی سرکاری ملازم گورنمنٹ آف پاکستان کا ھورھا تھا وھی رولز استعمال ھورھے جو سول سرونٹس پر ھورھے تھے اسکی وجہ یہ تھی ان سب ملازمین کو پی ٹی سی ایکٹ 1991 اور پی ٹی  ري آرگنائیزیشن ایکٹ 1996 کے تحت پروٹیکشن تھی یعنی جو رولز ان پر ٹی اینڈ ٹی میں میں استعمال ھورھے تھے اور بعد میں ان پر وھی  پی ٹی سی میں یہ ھی رولز استعمال ھورھے جو بعد میں ان لوگوں کے پی ٹی سی ایل میں آجانے ے بعد بھی ھورھے تھے .یہ تو بعد میں سپریم کوڑٹ نے اپنے 7 اکتوبر 2011 میں مسعود بھٹی کیس (جو 2012SCMR152 ) میں ایک حد لگادی کے جو پی ٹی سی کے ملازمین یکم جنوری1996 سے پی ٹی سی ال کے ملازمین بن چکے ھونگے انھی پر گورنمنٹ کے سرکاری قوانین  یعنی Statutory Rules کااطلاق ھوگا اور پی ٹی سی ایل کو انکے گورنمنٹ کے دئے ھوے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں کسی بھی ایسی منفی تبدیلی کا اختیار نہ ھوگا جس سے انکو نقصان ھو خاصکر پینشن کے بینیفٹس .تاھم جو ملازمین   پی ٹی سی امیں یکم جنوری 1996 کے بعد ملازم ھوۓ ھونگے وہ کمپنی پی ٹی سی ایل کے ملازم تصور ھونگے اور انپر انھی کے قوانین کا اطلاق ھوگا.  یکم جولائی 2005 سے  پی ٹی سی ایل نے ان ملازمین کی تنخواہ کے سکیل revise نھیں کئے جس طرح حکومت پاکستان نے اپنے سول ملازمین کے کئے تھے . جون 2006 میں پی ٹی س ایل کی پرائویٹائزیشن ھوگئی اور 26 % شئیر خریدنے کے باعث ایتصلات ، ایک یو اے ای کے ٹیلی کام کمپنی کو   کو اسکی مینیجمنٹ مل گئی . انھوں نے رآئٹ سائیزنگ کے تحت ملازمین کو کم کرنے اور نکالنے کا کام شروع کیا جس میں اپنے پرانے ٹی اینڈ ٹی کے لوگوں نے ساتھ دیا اور انسے غلط بیانی کرتے ھوئے تقریبن بیس ھزار سے زیادہ پی ٹی سی ایل میں یکم جنوری 1996 کو آۓ ھوۓ ان ملازمین کو زبردستی دھونس اور ڈرا کر  بغیر پنشن وی ایس ایس مارچ 2008 میں لینے  پر مجبور کیا . ان ایسے  تمام لوگوں کو جن کی پی ٹی سی ایل میں کوالیفائنگ سروس پیس سال سے کم تھی  انکو پنشن بھی نھیں دی جو سرا سر نہ صرف زیادتی تھی بلکے غیر قانونی عمل تھا . کیونکے سرکاری ملازم کو بغیر پنشن یا گریجویٹی کے ریٹآئر نھیں کیا جاسکتا سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی سیکشن(1)19  کے قانون کے تحت. اور دوسرے یہ کے پی ٹی سی ایل کو یا اسکے بوڑڈ کو کسی قسم کا یہ قانونی اختیار ھی نھیں تھا کے ایسے لوگوں کی پنشن لینے کی مدت میں  جو کم از کم دس سال کی کوالیفائنگ سروس ھے، اس میں اضافہ کریں  جیسا انھوں نے دس سے سے بیس سال کیا اور ان لوگوں جنکی یہ بیس سال سروس سے کم تھی انکو پنشن نہ دینے کی شرط لگائی اور پھر انکو زبردستی  وی ایس ایس بغیر پنشن کے  لنے پر مجبور کیا ورنہ کون چاھے گا وہ بغیر پنشن کے ریٹائیر ھو؟؟. شائید یہ پی ٹی سی ایل والے یہ بات  بھول گئے تھے یہ تو سرکاری ملازم ھیں انکو تو پنشن یا گریجویٹی  کے بغیر تو ریٹآئر ھی نھیں کیا جاسکتا [سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی سیکشن(1)19 ] اگر ایسے کسی ملازم کو جبری بھی سزا کے طور پر ریٹائیر کرنا ھو ، تب بھی پنشن دینا پڑتی ھے بشرطیکہ اسکی کوالیفائنگ سروس دس سال یا اس زیادہ ھو چکی ھو.اور دوسرے یہ پی ٹی سی ایل نے انکو پنشن لینے کا حق بیس سال کی کوالیفائنگ سروس پر دیا جب کے سیکشن  Section474-AA of Govt Service Rules کے تحت یہ کم آز کم مدت پنشن لینے مدت دس سال کی کوالیفائنگ سروس ھونی چاھئے.کوئی ان پی ٹی سی ایل سے تو پوچھے  کے بھئی تم کو کس نے اختیار دیا تھا کے تم سرکاری ملازمین کی پنشن لینے کی مدت میں اضافہ کرو اور گورنمنٹ کے قانون کو تبدیل کرو .تمھاری یہ ھمت؟؟؟. اور دوسرے یہ کے پی ٹی سی ایل کو تو بلکل بھی پی ٹی سی ایکٹ 1991کی سیکشن (1)9 کے تحت اور پی ٹی  ري آرگنائیزیشن ایکٹ1996 کی سیکشن (2)36  کے تحت بھی  اس بات کا اختیار نہیں کے وہ انکے سروس کے ٹرمز اینڈ کنڈیشن کے کسی بھی قوانین کی ایسی تبدیلی کریں اسی باتکو سپریم کوڑٹ نے مسعود بھٹی کیس کے فیصلے بہت اچھی طرح لکھا ھے کے "PTCL has no power to alter the terms and conditions of such category of PTCL employees for their disadvantages even government is also debbared to do so
اسی بات کو مد نظر رکھتے ھوئے ، جب سپریم کورٹ نے 19فروری 2016 کو پی ٹی سی ایل کی مسعود بھٹی کیس کے خلاف ،انکی روو پٹیشن خارج کی جس کی رو سے سے مسعود بھٹی کیس سپریم کوڑٹ میں ان پی ٹی سی ایل میں يکم جنوری 1996 کو پی ٹی سی سے آنے والے ملازمین کو سول سرونٹ کا سٹیٹیس دیا یعنی انپر پی ٹی سی ایل میں سرکاری قوانین  ھی استعمال  ھونگے اور پی ٹی سی ایل کو انکی گورنمنٹ کے سروس کے ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کو منفی تبدیلی کرنے کا بالکل اختیار نہ ھوگا جس سے انکو  نقصان ھو، میں نے ایسے ان تمام پی ٹی سی ایل کے وی ایس ایس 2008 میں ریٹائیڑڈ ھونے والے نان پنشنرز کو motivate کرنے کے لئے   22 فروری 2016 سے انکے لئےاردو میں آڑٹیکلز لکھنے شروع کئے[  یہ تمام آڑٹیکلز میری بلاگز سائیٹ پر اب بھی موجود ھیں آپ بھی کو اس سائیٹ یعنی  tariqazhar.blogspot.com  پر دیکھ اور پڑھ سکتے ھيں]  فیس بک میں پنشنرس پیج پر اپ لوڈ کرائے اور جن کامیرے  پاس ای میل ایڈرس تھا انکو بھجواۓ.انکو اس میں  نے انکو یہ آگاہ کیا کے انکو اب اپنا حق اور اپنی پنشن بحال کرانے کے لئے کیا کرنا ھوگا .میں نے اپنی پوری کوشش کی کے میری یہ آگاھی ان سب تک پھنچ جائے اور وہ یہ اپنا حق لنے کے لئے کیا کرنا چاھئے. اس سلسلے میں ، میں نے انکو بتایا کے انکو اپنا حق لینے کے لئے اب  ان کو کیا کیا کرنا پڑے گا
۱) سب سے پہلے ان سبکو زاتی طور پر President PTCL اور MD PTET  کو اپیل کرنی پڑے گی اور انکو یہ پھلے بتانا پڑے گا ک  سپریم کوڑٹ کا مسعود بھٹی کیس میں فیصلے (جو ۱۹ فروی 16 میں پی ٹی سی ایل کی رویو پٹیشن خارج ھونےکے بعد اب ایک قانون بن چکا ھے)  کی روشنی ھماری پی ٹی سی ایل میں ایک سرکاری ملازم کی حيثیت تھی اور ھم کو بغیر پنشن کے ریٹائیرکردیا (جو غیر قانونی اقدام تھا) تو اس فیصلے کی رو سے ھماری پنشن اسی دن سے بحال کی جائے( میں اوپر کے پیرے میں بتا چکا ھوں کے کے کیوں سرکاری ملازم کو بغیر پنشن کے ریٹآئر نہیں کیا جاسکتا)  جس دن سے ھم کو وی ایس ایس ۲۰۰۸ میں پینشن کے بغیر غیر قانونی طور پر ریٹائیرکیا گیا تھااور اس پنشن کی بحالی کے بعد سے ابتک کے تمام واجبات حکومت پاکستان کی سرکاری ملازمین پنشنرس  کے مطابق ادا کئے جائیں اور اگر ایسا پندرہ دن کے اندر اندر نہ کیا گیا تو ھمیں اپنے قانونی حق کےلئے عدالت کا دروازہ . میں نے اس اپیل کا ڈرافٹ بعنوان Appeal/Notice  تیار کیا جو نہ میں نے ایسے تمام پی ٹی سی ایل کے ساتھیوں نہ صرف ای میل بھی کی جن کے ای میل ایڈرس میرے پاس اسوقت موجود تھے انکو بھجوایا.( اس اپیل کا ڈرافٹ اب بھی میری بلاگ سائیٹ یعنی tariqazhar. blogspot. com میں Article-14 میں موجود ھے )
۲) پھر انکو یہ باور کرایا کے انکو یہ اپیل متعلقہ اشخاض کو رجسٹڑڈ اے ڈی یا ٹی سی ایس کے زریعے بھیجنا اور اسکا بھی ریکاڑڈ رکھنا ھوگا کے کس نے کب اور کس دن وصول کی تاکے اس اسکی سروس کی رپوڑٹ معہ رسیدات ، کوڑٹ میں کیس کرتے وقت رٹ پٹیشن کے ساتھ لگانی پڑے گی بمع اور دستاویزات کے . تاکے کوڑٹ یہ یہ اپنا اطمینان کرلے کے متعلقہ پٹیشنر نے کوڑٹ کا دروازہ اس وقت کھٹکھٹایا جب وہ پی ٹی سی ایل (respondent ) سے مایوس ھو گیا جو اسکی داد رسی نہیں کررھے.ان سبکو  یہ بھی باور کرایا گیا کے وہ رٹ پٹیشن ، نوٹس کی مدت یعنی پندرہ دن کے ختم ھونے کے بعد ھی داخل کی جائے .
بحرحال جن جن کو میرا یہ پیغام پہنچا ان سب نے ، اللہ کا شکر ھے اسی طرح عمل کرتے ھؤے پہلے اپیلیں اسی طرح بھیجیں . اور میری اطلاع کے مطابق مئی 2016 تک تقریبن سات ھزار سے زیادہ ایسی اپیليں پی ٹی سی ایل ھیڈ کواٹرز اسلام آباد  اورایم ڈی  پی ٹی ای ٹی  کے آفس اسلام آباد پہنچ چکیں تھیں .پی ٹی سی ایل ھيڈ کوارٹر نے تو یہ کیا یہ اپیليں  بجائے اس پر کوئی فیصلہ کرنےکے کیونکے یہ President PTCL کے نام تھیں  ، انکوان  متعلقہ پی ٹی سی ایل کے یونٹس میں بھجوادیا گیا جہاں یہ لوگ پی ٹی سی ایل میں ریٹائرمنٹ سے پہلے کام کیا کرتےتھے. اور جب ان اپیل نوٹس پیریڈ کوئی جواب نہیں آیا تو ان میں سے کچھ لوگوں نے ھائی کوڑٹس میں رٹ پٹیشناں داخل کرنا شروع کیں . میں نے ان سب کو ایک مشورہ یہ بھی دیا تھا کے ویسے ھر ایک اپنے پنے صوبے کی ھائی کوڑٹ میں  کیس داخل کرسکتا ھے لیکن یہ ان کے لئے بہتر ھے چاھے وہ  کسی بھی صوبے کا  ھوں  وہ فیڈرل کوڑٹ یعنی اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں  ھی کیس کریں .اسکی ایک وجہ تو یہ ھے کے پی ٹی سی ایل ھیڈکواٹر اور  ایم ڈی پی ٹی ای ٹی کا آفس اسلام آبا میں ھیں ، یہ نیو کوڑٹ ھے  اس کا دائرہ کار صرف اسلام آباد تک محدود ھے اور وھی کیس یہا ں پر داخل کئے جاتے ھيں جس میں کسی ایک  پآڑٹی کا تعلق اسلام آباد  سے ھونا ضروری ھے جبکے اور صوبوں کی ھآئی کوڑٹوں دونوں پاڑٹیوں کا تعلق اسی صوبے سے ھونا  ضروری  ھے . اور ویسے بی اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں اتنا زیادہ کیسو کا رش نہیں ھوتا جتنا اور صوبوں کی ھائی کوڑٹوں میں اکثر ھوتا ھے . بحرحال کافی لوگوں نے میرے اس مشورے پرعمل کیا اور اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں رٹ پٹیشنیں داخل کیں سب سے زیادہ کوئٹہ اور ديگر بلوچستان کے شہروں  اور دور دراز  علاقے سے ایسے پی ٹی سی ایل سے وی ایس میں بغیر پنشن میں ریٹائیر ھونے والے ملازمین آۓ اور انھوں نے رٹ پٹیشنیں داخل  کیں اسکے علاوہ پشاور، لاھور، جہلم، وزیر آباد اور گجرات سے ایسے لوگ اسلام آباد آۓ اور اپنے اپنے کیس اسلام آباد ھآئی کوڑٹ میں داخل کئے . ان سب کی رٹ پٹیشنیں شنوآئی کے لئے اسلام آباد ھائی کوڑٹ کو نے  جون 16 میں منظور کرلیں اور پی ٹی سی ایل کو دو ھفتوں جواب داخل کرنےکا حکم دیا . سب سے پہلے نصیر آباد  بلوچستان سے غلام سرور ابڑو (جو بزات خود  بلوچستان ھائی کوڑٹ کے ایک وکیل بھی ھیں اور پی ٹی سی ایل کے ۲۰۰۸ میں وی ایس ایس میں بغیر پنشن کے ریٹائڑڈ آفیشیل بھی )  اپنے ایسے بہت سے ایسے ساتھیوں کے ساتھ اسلام آباد آۓ اور پہلے مجھ سے ملاقات کی .ان سب کو میں نے یہ مشورہ کو تو یہ دیا  کے وہ لوگ اپنی رٹ پٹیشن صرف پہلے یہ پوائنٹ اٹھائیں اور کوئی نھیں کے  " جب مسعود بھٹی کیس کے خلاف پی ٹی سی ایل کی رویو پٹیشن  سپرم کوڑٹ  پانچ ممبرز محترم ججز نے 19فروری 16 کو اپنے شاڑٹ آڈرکے تحت خارج کیں جس کا تفصیلی فیصلہ 16 مارچ 16 کو آیا،  تو ھم نیں President PTCL  اور MD PTET کو اپیلیں کیں(جسکا یہ ریکاڑڈ یہ موجود ھے) کے ھماری  وہ پنشنس بحال کریں جو 2008 میں ھم کو وی ایس ایس میں ریٹائر ھوتے وقت نھیں دی تھیں اور اب جبکے پی ٹی سی ایل کی رویو پٹیشن مسعود بھٹی کیس میں معزز سپریم کوڑٹ نے اپنے19فروری 16کو اپنے شآڑٹ آڈر میں خارج کی اور  16مارچ 16کو اسکا تفصیلی فیصلہ دیا. اسکے بعد سے اب یہ فیصلہ ایک قانونی شکل اختیار کرچکا ھے اسکی رو سے ھمارا پی ٹی سی ایل میں سٹیٹس ایک طرح کا سرکاری ملازمین کاھے تو جو رٹآئرمنٹ  پنشن لینے کا ایک سرکاری ملازم کا حق ھوتاھے پر ھمکو پنشن نھیں دی اسکو اسی تاریخ سے بحال کرنے کا جب سے ھمکو ریٹائرکیا گیا ، اسی تاریخ سےدی جاۓ اور اسکے ابتک کے تمام اسکے بقایا جات"   .[ایسا یہ مشورہ اسلئے دینا پڑا کے اگر ان لوگوں نے کہیں یہ رٹ پٹیشن لکھا کے "۲۰۰۸ انکو کو بغیر پنشن کے ریٹآئیر کیا"، تو کہیں انکی رٹ ٹائم باڑڈ نہ ھوجائے ] اور ظاہربات ھے  جب کوڑٹ انسے صرف یہ پوچھے گی کے ان لوگوں کی پنشن کیوں بحال کی جا رھی اور پی ٹی سی ایل والے اسکا کوئی تو جواب تو ديں گے اور یہ کہیں گے کےانکا اقدام صحیح تھا. اسلئے میں نے پی ٹی سی ایل کے ایسے ھی جواب کو مد نظر رکھتے ھوۓ یہ رٹ پٹیشنیں ڈرافٹ کی تھیں  . ایک ان پی ٹی سی ایل کے ان ملازمین کے لئے جو ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئے  تھے اور دوسری انکی جو پی ٹی سی میں   ريگولر بھرتی  ھوئے تھےاور  پھریہ تمام پی ٹی سی ایل  میں  یکم جنوری 1996 کوٹرانسفر ھوکر پی ٹی سی ایل کے ملازمین بن گئۓ تھے . جن پر مسعود بھٹی کیس میں،  سپریم کوڑٹ کے فیصلے کے مطابق حکومت کے سرکاری قوانین لاگو ھوتے ھیں   . [ان رٹ پٹیشنوں کے ڈرافٹس اب بھی میری بلاگ سائیٹ tariqazhar.blogspot.com  میں Article15 & 16 میں موجود ھیں  ] . اور یہ تاکید ضرور کی اسکی اپنے وکلا۶ سے ضرور vetting کرانا ھوگا تاکے انکو بھی پورے کیس کی حقیقت معلوم  ھوجائے اور اس ڈرافٹ میں قانونی پہلوں کو مدنظر رکھتے ھوئے کچھ اور  مزید جمع یاتفریق  کرنا چاھیں ضرور کریں  مگر اس ڈرافٹ کی  ditto copy عدالت میں پیش نہ کریں. 
جیسا کے میں نے آپ لوگوں کو اوپر کے پیرے میں راجہ ریاض کے کیس کے بارے میں بتایا تھا.کے سپریم کوڑٹ نےانکے حق میں دئے ھوۓ اپنے یکم جولائی 2015 کے فیصلے ، [جو 2015SCMR1738 میں درج ھے] میں دیا گیا ھوا یہ فیصلہ تمام ایسے ھی ( راجہ ریاض جیسا) کٹیگری کے ان تمام پی ٹی سی ایل کے کے ریگولر ملازمین پر لاگو ھوگا ، یعنی جو یکم جنوری 1996سے پی ٹی سی سے پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفر ھوکر ،  پی ٹی سی ایل کے ملازمین بن چکے تھے اور جن پر ، مسعود بھٹی کیس (جو 2012SCMR152 میں درج ھے) کے اس  فیصلے کے  تحت کے  اس   کٹیگری کے تمام پی ٹی سی ایل کے ملازمین پر گورنمنٹ کے سرکاری قوانین (statutory rules) استعمال ھونگے اور پی ٹی سی ایل کو انمیں کسی بھی قسم کا یہ اختیار نہیں ھے کے وہ ان ملازمین کے گورنمنٹ سروس کرنے کے حقوق وشرائط میں کسی کی ایسی منفی تبدیلی کریں جس سے ان پی ٹی سی ایل میں گورنمنٹ سروس کرنے کے والے ایسے ملازمین  کے حقوق اور شرائط میں کسی قسم کا نقصان ھو جس میں انکے پنشن اور اسکی  آفادیت بھی شامل ھے یعنی انکو pension benefits  میں کوئی نقصان ھو.اور اسکی گارنٹر حکومت پاکستان ھے. اب اس  راجہ ریاض کے حق میں آۓ ھوۓ اس کا اطلاق نہ صرف راجہ ریاض پر ھوگا بلکے ایسی ھی کٹیگری کے ان تمام پی ٹی سی ایل کے ملازمین پر ھوگا چاھے وہ فلوقت پی ٹی سی ایل کا بھی حصہ ھوں یعنی اب بھی پی ٹی سی آجکل  کام کررھے ھوں یا حصہ نہ بھی ھوں یعنی ریٹائر ھوچکے ھوں یہ کسی اور وجہ سے پی ٹی سی ایل چھوڑ چکے ھوں وغیرہ وغیرہ .یہ تمام ملازمین اپنے ان تمام گورنمنٹ والے ان تمام واجبات لینے کا حق رکھتے ھیں  [جو پی ٹی سی ایل نے جان بوجھکر انکو دینا ختم کردیا تھا اور اپنی طرف سے گورمنٹ سے کم دے رھے تھے جس سے ایسے تمام ملازمین بیحد مالی نقصان ھورھا تھا جو صرا صر نہ صرف سخت ناانصافی بلکے پی ٹی سی ایکٹ 1991کی کلاز (1)9 اور پی ٹی ایکٹ 1996 کی کلازز (2)35 ، (1)36 & 2 کی خلاف ورذی بھی تھی ، جس کے پرو ٹیکشن کے تحت یہ ملازمین پی ٹی سی ایل میں کام ررھے ھیں یا کررے تھے بلکے مسعود بھٹی کیس میں سپریم کوڑٹ کے احکامات کی بھی خلاف ورزی بھی  تھی]    کیونکے سپریم کوڑٹ آف پاکستان کی یہ رولنگ ھے جو 1996SCMR1186  میں درج ھے  "کے کسی سرکاری ملازم کے حق میں دیۓ گئے فیصلے کا اطلاق ایسے تمام سرکاری ملازمین پر بھی ھوگا جنکا مسءلہ بھی ویسا ھی ھو جیسا ایسے اس سرکاری ملآزم کا ھو جسکے حق میں یہ فیصلہ اسکے litigation میں جانے کی وجہ سے  آیا ھو ، چاھے اور ایسے ھی مسءلہ رکھنے والے ملازمین ایسی  کیسی litigation کا حصہ ھوں یا نہ ھوں. "
میں نے اپنے اسی پیرے میں یہ بھی لکھا ھے کے جب ۲۲ستمبر کو سپریم کوڑٹ میں راجہ ریاض کی پی ٹی سی ایل کے خلاف جب توھین عدالت کی کاروائی شروع ھوئی جسکی سربراھی جناب چیف جسٹس ظہیر جمالی صاحب کرھے تھے .عدالت اس بات پر برھم بھی ھوئی کے پی ٹی سی ایل اسکےیعنی راجہ ریاض  بقایا جات کیوں نہیں دے رھی . جبکے پی ٹی سی ایل  اپنے بناۓ ھوۓ واجبات دینے پر مصر تھی جو حکومت کے اپنے ایسے سرکاری ملازموں  کو دئے ھیں،  اس سے کم تھے. تو عدالت نے یہ فیصلہ کیا کے پہلے یہ طے کیا کے دیکھا جائے کونسے واجبات ٹھیک ھیں جو حکومت والے واجبات سے مطابقت رکھتے ھوں اسلئے دونوں کے بناۓ ھوۓ واجبات کو AGPR کو بھجوادیا جو اسکی صحیح تصدیق کریگا اور عدالتی کاروئی دو ھفتوں کے لئے معطل کردی گئی.یاد رھے کے AGPR ایسا حکومت پاکستان  کا ادارہ ھے  جو تمام وفاقی سرکاری ملازموں تنخواہ ، پنشن اور تمام ایسے واجبات ادا کرتاھے جسکی منظوری حکومت پاکستان ھر سال وفاقی بجٹ میں دیتی ھے. صوبوں کے اپنے اپنے AGPR ھیں جو یہ ھی کام  اپنے صوبے کے سرکاری ملازمین کے لئے کرتے ھيں. جس وقت یہ آڑٹیکل میرے زیر تحریر تھا مجھے ۱۱ اکتوبر کو جاب محمود اسلم صاحب  ڈپٹی سیکرٹری  ٹی پی اے( یہ پنشنرس ایسوسی ایشن پی ٹی سی ایل پنشنرز کے حقوق کے لئے کام کررھی ھے) کا یہ مندرجہ زیل ایس ایم ایس ملا جو آپ لوگوں کے زیر نظر ھے. [جسکو ماننے سے راجہ ریاض صاحب بالکل انکاری ھیں بلکے بیحد ناراض ھیں اور انکا کہنا ھے کے ابھی تک کوئی بھی calculations ابھی تک AGPR نے نہیں کی ھیں اور یہ جھوٹ ھے جبکے اسلم صاحب اسکو کو کنفرم کررھے ھیں کیونکے انھوں خود یہ دیکھی ھیں]
Dear PTCL Pensioners AoA,
As you know, honorable, Suprem Court (SC) had earlier advised AGPR to calculaue Pension and other payable dues in Raja Riaz case according to Govt Rules. AGPR accordingly has completed the calculations. As per very reliable sources, there is big difference between AGPR & PTCL calculations.Figures as per PTCL calculations are as under :
Commotation = Rs. 10,00000/-
Pension Rs. 34,000/P.M
            Where              
 Calculation Made by AGPR :
Commotation =
Rs. 17,00000/-
Pension Rs. 55,000/ P. M.
(Including Medical Allowance) 
Raja Riaz was Retired in 2015 as A D (B-17) 
Regards
M H Aslam
Dy Secretary General
T P A
اب آپ لوگوں کو اس خبر سے اندازہ ھوگیا ھوگا کے سپرکم کوڑٹ نے راجہ ریاض کیس میں اسکی اپیل محمد ریاض بنام فیڈریشن آف پاکستان جسکا نمبر CP-797/2015 تھا اور جو اب سپریم کے فیصلوں کی لا بک میں 2015SCMR2015 کے نام ریفرنس کے لئے درج ھے اور جسے خلاف پی ٹی سی ایل کی رویو پٹیشن نمبر CRP-482/2015 تھا وہ بھی 18اگست 2015 کو خارج ھوچکی ھے اور راجہ ریاض کے حق میں دیا گیا سپریم کوڑٹ کا یا فیصلہ امر ھوکر اب ایک قانون کی شکل اختیار کرچکا ھے جسکے تحت پی ٹی سی ایل کام کرنے والے تمام وہ  ٹی اینڈ ٹی  ریگولر سرکاری ملازمین اور پی ٹی سی میں بھی ٹی اینڈ ٹی کے قوانین کے تحت ریگولر ملازم ھونے والے یہ  تمام ملازمین جو یکم جنوری  1996کو پی ٹی سی سے ٹرانسفر ھوکر پی ٹی سی ایل کے ملازمین بن چکے تھے اور جن پر مسعود بھٹی کیس (2012SCMR152) کے تحت  فیڈرل گورنمنٹ کے سرکاری ملازمین پر استعمال ھونے والے ھی  تمام سرکاری قوانین( Satauory Rules) کا پی ٹی سی ایل ميں اطلاق ھوگا اور انکو وھی تنخواہ ،مراعات،پنشن دی جائیگی  اور اس میں جب جب فیڈرل گورنمنٹ کوئی اضافہ کرے گی یا کسی اور ایسے مزید قوانین  جن سے اسکے ایسے تمام سرکاری ملازمین کو  جب جب فائیدہ پہنچے تو اسی طرح پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی [جسکو صرف پی ٹی ٹی سی ایل کے ایسے سرکاری ملازمین  کو حکومت پاکستان مقرر کردہ پنشن اور اسمیں جو بھی اضافہ حکومت کرتی رھے یا ایسے مزید قوانین گاھے بگاھے بناتی رھے( جیسے حکومت نے یہ قانون بنایا کے گر بیوہ پنشنر فوت ھوجائے تو اسکی ایک بیوہ بیٹی اسی بیوہ کی پنشن لینے کا حقدار ھوگی جب تک وہ دوسری شادی نہ کرلے .یہ قانون ۱۹۸۳ میں بنایا گیا ،پھر یکم جولائی ۲۰۱۵ سے قانون بنایا گیا کے اگر بیوہ بیٹی نہ ھو مگر ایک طلاق یافتہ بیٹی ھو جو طلاق کے بعد اپنے خاندان میں رہ رھی  ھویعنی اسکی کفالت اسکی  پہلے اسکے مرحوم  سرکاری ملازم باپ کررھےھوں اور اسکے بعد بیوہ ماں، تو ایسی طلاق یافتہ بیٹی  اپنے بیوہ ماں کے انتقال چاھے کبھی ھوچکاھو  تو اس طلاق یافتہ بیٹی کو چاھے اسکی طلاق کبھی ھوچکی ھو مگر اسکو اپنی بیوہ ماں کی پنشن یکم جولائی ۲۰۱۵ سے ھی ملے گی یا اس دن سے یعنی ۳۰جون ۲۰۱۵ کے بعد جب اسکی طلاق قانونن کنفرم ھو چکی ھوجاۓ.اسی طرح حکومت نے یکم جولائی ۲۰۱۰ ایک بیوہ کی پنشن اپنے مرحوم سرکاری ملازم شوہر کی کی پنشن کا 75% مقرر کی جب کے اس سے پہلے یہ 50% تھی. اسی طرح حکومتنے تمام سرکاری پنشنروں کو یکم جولائ ۲۰۱۰ سے میڈیکل 20% اور 25% دئےماہانہ  پنشن کی مناسبت سے دئےجانے کا اعلان بھی  کیا اور اسکو فریز کردیا یعنی وھی میڈیکل الاؤنس جو جس کسی پنشنر کا یکم جولائ ۲۰۱۰ فکس ھوا تھا وھی پنشن کے ساتھ باقاعدہ ملتا رھے گا اور اسکے بعد جو بھی حکومت سالانہ پنشن بڑھائی گی اسکا اثر اس یکم جولائ ۲۰۱۰    سے مقرر کردہ میڈیکل الاؤنس پر  نھیں پڑے گا وہ وھیں رھیں جو یکم جولائ ۲۰۱۰کو مقرر ھوۓ تھے جبکے  پنشن بڑھتی رھے گيں. تو ان حکومت کے سرکاری ملازمین کی بیواؤں کے بارے میں مزید مراعت کو مدنظر رکھتے ھوئۓ ایسی ان تمام  پی ٹی سی ایل کے ملازمین (جو سرکاری ملازمین کے زمرے میں آتے ھيں) کی بیواؤں کو اپنی اپنی پنشن کو چیک کرنا ھوگا اور حکومت پاکستان کے مطابق انکی پنشن نہ ھوئئ تو ان سب کو پی ٹی سی ایل اتھاڑٹی سے اپنے حق کے لئے پہلے اپیل کرنی ھوگی اور نہ دینے پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانہ ھوگا.
کل ۳۱ اکتوبر کو راجہ ریاض کیس کی شنوائی تھی جس میں سپریم کوڑٹ نے اپنے اس حکم کے مطابق AGPR سے راجہ ریاض کی گورنمنٹ کے مطابق تنخواہ اور پنشن کی calculation کی رپوڑٹ پر فیصلہ سنانا تھا مگر راجہ ریاض اور انکے وکیل  حاضر نہ ھوسکے جس پر معزز عدالت نے برھمی کا اظہار کیا اور کیس کو adjourned کردیا اور کوئی دوسری تاریخ بھی نہيں دی .اب کیس کب لگتا ھے خدا ھی جانے بحرحال راجہ ریاض کی کوتاھی کی وجہ اسی کا کیس اب delay ھوگیا.
چونکے راجہ ریاض کے کیس میں سپریم کوڑٹ میں دیا گیا ھوا فیصلہ ایسے تمام پی ٹی سی ایل کے ملازمین  کے لئے بڑی اھمیت کا حامل ھے جو اسی کٹکيگری کے ملازمین میں آتے ھیں جس کٹیگری میں راجہ ریاض صاحب ھیں [ظاھر ھے وہ تمام پی ٹی سی ایل کے ملازمین جو یکم جنوری 1996 کو پی ٹی سی سے ٹرانسفرھوکر پی ٹی سی ایل کے ملازمین ھو چکے تھے انکا سٹیٹس ایک طرح کا گورنمنٹ کے سول سرکاری ملازمین کا ھے مسعود بھٹی کیس میں سپریم  کوڑٹ کے فیصلے کے مطابق (جسکا زکر اوپر کرچکا ھوں) ] 
تو ایسے تمام اور ملازمین کو بھی اس سے فائیدہ پہنچے گا.چونکے راجہ ریاض (پٹیشن میں محمد ریاض نام درج ھے] کے کیس میں میں سپریم کوڑٹ نے معزز جج صاجبان یہ فیصلہ دیا ھے [جو 6 جولائی 2015  کو سنایا گیا ھے جبکے پٹیشن نمبر Civil Petition No 797/2015 ھے.  راجہ ریاض نے یہ پٹشن اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں اپنے خلاف دئے گئے فیصلے کے خلاف دائر کی تھی جسکا نمبر تھا W.P 127/2015]
8. In the above perspective, taking in to consideration the judgment of three member bench of this Court delivered in C.Ps No 565 to 568/2014 etc wherein the subject matter of the instant position has already stood adjudicated and decided in favour of transferred employees, we convert this petition into appeal and allow the same while setting aside the impugned judgement,and it is held that the case of transferred employees in C.Ps No 565 to 568/2014 etc therefore, the petitioner is entitled to payment of increase in pay and pension as announced by the Government from time to time.
                                                                Sd/- Ijaz Ahmed Cheudhary J
                                                                 Sd/- Iqbal Hameedur Rehman J
یاد رھے جس سپریم کوڑٹ کے فیصلے کا زکر سپریم کوڑٹ نے راجہ ریاض کے فیصلے میں کیا ھے یعنیC.Ps No 565 to 568/2014 یہ وھی فیصلہ جو سپریم کوڑٹ نے 12جون 2015 پی ٹی سی ایل کے کے پنشنرز کے حق میں دیا تھا اور انکی پنشن گورنمنٹ کے اعلان کردہ اضافے کے مطابق دینے کو کہا تھا اور سپریم کوڑٹ نے راجہ ریاض کے کیس میں اسی فیصلے کو بنیاد بناتے ھوۓ دیا.اگرچہ پی ٹی سی ایل نے اس 12جون 2015 کے خلاف ایک رویو پٹیشن داخل کر رکھی ھے جو ابھی تک سپریم کوڑٹ میں زیر سماعت ھے جبکے پی ٹی سی ایل نے راجہ ریاض کے حق میں سپریم کوڑٹ آئۓ ھؤے اس 6 جولائی 2015 جو روو پٹیشن داخل کی تھی وہ اگست 2015 میں خارج ھوگئی . یعنی جس فیصلے کی بنیاد  سپریم کوڑٹ کا 12جون 2015 کا پی ٹی سی ایل پنشنروں کے حق میں دیا ھوا فیصلہ تھا تو اس بات کی قوی امید ھے اور اس میں کسی قسم کا شک بھی نھيں ھونا چاھئے کے اس  12جون 2015 فیصلے کے خلاف پی ٹی سی ایل کی رویو پٹیشن خارج نہ ھو. 
راجہ ریاض صاحب کو شائید یہ زعم ھے کے انکے حق میں دیا گیا ھوا فیصلہ unique  ھے .ایسی بات ھرگز نہیں انکے حق دیا گیا فیصلہ،  پی ٹی سی ایل کے 34 ان پی ٹی سی ایل کے پنشنروں حق میں 12جون 2015 میں آئے سپریم کوڑٹ کے فیصلے کا مرھون منت ھے اسلئے راجہ ریاض صاحب کو اس بات کی زیادہ پریشانی نہیں ھونی چاھئے کے انکے حق میں آۓ ھوۓ فیصلے میں اور ایسے لوگ دلچسپی لے رھے ھيں. جو شائید راجہ ریاض صاحب نہیں چاھتے کے انکے کیس کی وجہ سے اور ایسے پی ٹی سی ایل کے ایسے ملازمین اور پنشنرس فائیدہ اٹھائیں جو اس کیس کا حصہ نہیں تھے. یہ نہیں ھوسکتا. راجہ ریاض کے کیس میں دیا گیا ھوا فیصلہ اب پبلک پراپڑٹی بن چکا ھے اور سپریم کوڑٹ کی رولنگ کے تحت جسکا زکر اوپر کرچکا ھوں اسکا فائدہ ھر ایسے پی ٹی سی ایل کے ایسے ملازمین کو ملے گا جنکا ایشو راجہ ریاض جیسا ھے ظاھر ھے ایسے کٹیگری کے تمام پی ٹی سی ایل کے ملازمین چاھے وہ اسوقت بھی پی ٹی سی ایل کا حصہ ھییں یا نہ ھیں وہ پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ایٹی سے اپنے وہ تمام واجبات تنخواہ کے اور اگر ریٹائر ھوچکے ھيں تو جبتک وہ پی ٹی سی ایل کا حصہ تھے اسوقت تک کے گورنمنٹ کے دئے ھوے اپنے سرکاری ملازمین کو مراعات تنخواہ الاؤنسس وغیرہ وغیرہ اور پنشن اور اس میں ھر سال دیا گیا ھوا اضافہ ، اور دیا گیا ھوا میڈیکل الاؤنس اور اس میں اضافہ وغیرہ  قانونی طور پر کلیم کرنے کا اختیار رکھتے ھیں اور گر پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی ٹی نہ دیں اور ھٹ دھرمی دکھائیں تو ایسےتمام لوگ عدالت کے زریعے , سپریم کوڑٹ کی راجہ ریاض کیس میں اس دی گئی رولنگ کے تحت ، یہ اپنے تمام قانونی واجبات لے سکتے ھیں . کیونکے یہ انکا قانونی حق ھے.
اب آپ سب لوگوں کو یعنی وہ پی ٹی سی ایل کے ملازمین جو مسعود بھٹی کیس میں سپریم کوڑٹ کے دئے گئے فیصلے کے تحت سول ملازمین کے سٹیٹس والی کٹیگری میں آتے ھیں چاھے وہ اب بھی پی ٹیسی ایل کا حصہ ھیں یا نہ ھیں ان سبکو انفرادی طور پر پھلے اپنا اپنا کلیم تیار کرنا ھوگا یعنی جو ایسے لوگ ابھی تک پی ٹی سی ایل میں کام کررھے ھیں انکو ان تمام تنخواھوں ،الاؤنسوں کے واجبات کلیم کرنے ھوں گے جو حکومت پاکستان نے تو اپنے سرکاری ملازمین کو دئے مگر پی ٹی سی ایل نے ابتک نھیں دئے .اور  پی ٹی سی ایل پنشنرز ، ریٹائرمنٹ کی تاریخ تک وہ ایسے تمام مراعات کے حقدار تھے وہ اور اس  پنشن  کے جو حکومت پاکستان کے ملازمین  پنشنرز کی طرح  اور اس میں حکومت پاکستان کے ھر سال اضافے کی شرح کے مطابق جو پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی نے نہں دئے . ایک بات آپ سب لوگ یاد رکھیں اے پی ٹی سی ایل نے 2005-07-01 سے جو اضافہ تنخواھوں او مزید الاؤنسس کا حکومت نے  اپنے سرکاری ملازمین سے دیا تھا وہ پی ٹی سی ایل نے اسی طرح کا دینا بند کردیا تھا اور اسی طرح جو لوگ  2005-07-01 کو یا اسکے بعد ریٹائر ھوئے تھے انکی پنشن پر بھی اثر پڑا کیونکے کے انکے last pay گورنمنٹ کے سرکاری ملازمین کی نسبت سے کم فکس ھوئي . اور پی ٹی ای ٹی نے 2010-07-01 سے پنشن میں سالانہ اضافے کی شرح حکومت کے سرکاری پنشنروں کی نسبت کم کردی اور صرف سالانہ 8% اضافہ رکھا ھواھے جو ابتک یہ ھی چلتا آرہا ھے . اس کلیم کا speciman  میں یہاں attach کرھاھوں. پھر ایک اپیل تیار کرنی ھوگی (اسکا بھیspeciman یہاں attach کرھاھوں) . تو اس اپیل کے ساتھ یہ اپنا بنایا ھوا کلیم attach کرکے بھیجنا ھوگا . کیسے؟؟؟؟؟  یہ سب آپکو اسکے  speciman میں لکھا ھوا ملے گا. اور اگر وہ کوئی جواب ھی نہ ديں مقرر کردہ وقت تک یا یہ کلیم دینے سے انکار کرں تو اس صورت میں آپکو ھا ئی کوڑٹ سے رجوع کرنا ھوگا.کیسے ؟؟؟؟ اسے لئے بھی میں نے رٹ پٹیشن کا ڈرافٹ تیارکیا ھے جو ٹی اینڈ ٹی  میں ریگولر بھرتی ھونے والوں اور پی ٹی سی میں بھرتی ھون والوں کے لئیے الگ الگ ھیں. یہ تمام ڈرافٹس میری بلاگ میں بھی Article-26 سے Article-29 میں بھی موجود ھیں یعنی tariqazhar.blogspot.com پر کلک کرکے پڑھ اور ڈاؤن لوڈ بھی کرسکتے ھیں
آخر میں ایک بات عرض کرنا چاھتاھوں کے اس آڑٹیکل 25 کی تحریر کا آغاز میں نے یکم ستمبر16 سے کیا تھا مگر اپنی گو نگو مصروفیات کے باعث آج 3 نومبر16 کو مکمل کرسکا اور اس دوران جو بھی پیشرفت اور واقعات  کوڑٹ وغیرہ میں کیسس میں ھوئے اسکو بھی زیر تحریر لے آیا تاکے آپلوگ آشکارا رھیں . جو مشورہ آپ سب لوگوں کو آپ سبکے فائیدے کے لئے دیا اس میں کسی قم کا مشورہ اور چاھئیے تو آپ مجھ سے میرے سیل نمبر 8249598-0300 یا میرے ای میل     azhar.tariq@gmail.com کے زریعے رابطہ کرسکتے ھیں
واسلام
محمد طارق اظہر
ریٹائیڑڈ جنرل منیجر پی ٹی سی ایل 
ایس ٹی آر حیدرآباد
3 نومبر


--
Sent from Rawalpindi Pakistan via iPad

Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]