Special Article: MD PTET has no way to escape but to implement the verdicts of IHC of dated 21-12-2011

 اسپیشل آڑٹیکل:  تجزیہ
[ اب ایم ڈی پی ٹی ای ٹی  کو اسلام آباد ھائی کوڑٹ  کے 21  دسمبر 2011 کے حکم پر لازمن تین ھفتوں میں من وعن عمل کرنا ھی  پڑے گا ورنہ توھین عدالت کی سزا بھگتنے کے لئۓ جیل جانا ھی پڑے گا]

میں نے ، 28 ستمبر 17 کو ، عارف صاحب کی ایم ڈی پی ٹی ای ٹی کے خلاف توھین عدالت کیس کی اسلام آباد  ھائی کوڑٹ مں 25  ستمبر17 کی  ھونے والی کاروائی  کی ، 27 ستمبر 17 کو جاری ھونے والی آڈر شیٹ  کو پڑھکر ، اپنا اس پر تبصرہ بعنوان " دیتے ھیں دھوکہ بازی گر کھلا " ,  لکھا تھا .یہ اس دن کا فیصلہ  مجھےآڈڑ شیٹس کے تین صفحات پر مشتمل تھا جسکے آخری صفحے پر معزز جج صاحب کے دستخط بھی تھے،    پڑھکر مجھے بہت دکھ ھوا تھا اور میں اس نتیجے پر پہنچا تھا کے یہ اس بات کی طرف جاتا ھے ، کے پی ٹی ای ٹی  والے چاھتے ھیں کے اسکو کسی بھی منتقی انجام تک نہ پہنچایا جائے اور اسکو ایسے dispute میں ڈال دیا جائے کے نہ انکے خلاف کوئی توھین عدالت کی کاروائی بھی نہ ھو اور نہ وہ کسی قسم کی ان پی ٹی سی ایل پنشنروں کو گورنمنٹ والی پنشن نہ دیں . یقینن میرا وہ تبصرہ ان حقائق پر مبنی تھا جو اس آڈر شیٹس بتاریخ 27 ستمبر 17،  پر لکھے ھوئے تھے  جسکی ۳ فوٹو کاپیاں  مجھے موصول ھوئیں تھیں میرے واٹس ایپس پر.  عدالت نے اس کے پیرا 2 میں لکھا تھا کے ریسپونڈنٹس کے وکیل یہ توجیح پیش کررھے ھیں کے چونکے سپریم کوڑٹ نے اپنے 17 مئی 17 کے انکی رویو اپیل کے فیصلے میں یہ حکم دیا ھے کے وہ پنشنرس جو وی ایس ایس لے کر ریٹائیر ھوے ھوئے ھیں ، جنھوں نے دھوکہ دھی سے ھائی کوڑٹوں سے اپنے حق میں فیصلے کرائے ھیں , جبکے وہ وی ایس ایس لنے کے بعد ان ھائی کوڑٹوں جانے کا حق کھو چکے تھے , اور ھائی کوڑٹوں نے اس بات کو مدنظر  نھیں رکھا اور انکے حق میں فیصلے دئیے ، لہزا پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل یعنی پٹیشنرس  ، سی پی سے کے سیکشن (2)12 کے تحت  انھی ھائی کوڑٹوں میں ایسے وی ایس ایس لے کر ریٹائرھونے کے خلاف کیسس کر سکتے ھیں ،  اسلۓ انھوں نے یہ کیسس کردئے ھیں اور جب تک انکا کوئی فیصلہ نہ ھوجائے , کسی کو بھی پنشن میں دیا ھوا حکومت کا انکریز نھیں دے سکتے. جبکے پیرا 3 میں عدالت نے یہ لکھا کے کے پٹیشنر کے وکیل نے اس بات سے اتفاق نہيں کیا اور کہا کے سپریم کوڑٹ کے حکم سے کہیں بھی یہ بات  نہيں  ظاہر ھوتی کے جو لوگ نارمل طریقے یعنی بغییر وی ایس ایس لئے ھوؤے ریٹائر ھوئے ھوں ، انکی پنشن میں گورنمنٹ والا انکریز نہ دیا جائے . اسکے بعد  . یہ بات آڈرشیٹ کے صفحہ ۲ پر لکھی تھی. اور اس کے بعد آخری صفحہ ۳ تھا جس میں جج صاحب  نے یہ لکھا تھا کے " کے اس درخواست کی اجازت دی جاتی ھے اس حد تک کے جو بھی اس میں قانونی اعتراضات اٹھائے گئے ھیں " اور اسکے بعد بالکل آخری پیرے میں جج صاحب نے اپنے دستخط سے پہلے یہ لکھا کے  متفرق درخواست یعنی جسکا نمبر C. M No 3818 of 2017 ھے اسکو کو اس ڈسپوزڈ آف کیا جاتا ھے صرف قانونی اعتراضات کی حد تک ".  تو میں نے اس سب باتوں سے یہ تاثر کیا کے ریسپونڈنٹس نے  شائید یہ ایک متفرق درخواست ڈال کر مجوزہ قانونی اعتراضات لگا کر اس بات کی کوشش کی کے یعنی وہ اعتراضات جسکا زکر عدالت نے اپنے اوپر پیرا 2 میں لکھ دیا تھا جو انکے وکیل نے اٹھایا تھا، اس بات کی کوشش کی کے کسی طرح اس توھین عدالت کے کیس سے خلاسی کی جائے اور معاملے  کو کھٹائی میں ڈال کر عدالت سے یہ حکم لے لیا جائے کے جب تک انکی اس متفرقہ درخواست پر فیصلہ نہ ھوجائے عدالت ان کے خلاف یہ توھین عدالت کی کاروائی  روک دے  اور انکو عدالت کے اس حکم پر بھی عمل نہ کرنا پڑے. مگر عدالت نے صرف اس حد تک اجازت دی -  اور کوئی اضافی حکم توھین عدالت کی کاروائی روکنے کا نھیں دیا . اسلئے مجھے اس بات کا دکھ پہنچا کے کاروائی کے دوران تو معزز جج صاحب نے انکو آئندہ پیشی پر ایک حلف نامہ جمع کرانے کا کہا  تھا کے وہ لکھ کر دیں کے انھوں نے عدالت کے دئے ھوے حکم کی مکمل تعمیل کردی گئی ھے[ یعنی اسی اسلام  آباد ھائی کوڑٹ کے اس 21 دسمبر 2011 کے اپنے یعنی محمد عارف ودیگر  وز فیڈریشن آف پاکستان، ایم ڈی پی ٹی ای ٹی اور دیگر کی پٹیشنس پر کے انکو گورنمنٹ والا انکریز پنشن میں بقایا جات سمیت دیا جائے  ] اور آڈرشیٹس میں اب کیا لکھا ھے.  میرے ذھین میں یہ بات آئی کے پہلے بھی کئی عدالتوں کے کیسس کی کاروائی کے دوران جب favourable remarks ، معزز جج حضرات کی جانب سے دئے گئے کسی کے حق میں مگر جو اس دن کی آڈرشیٹس نکلتی تھیں وہ اسکا بالکل الٹ ھوتی تھیں. مثلن آپ کو یاد ھوگا کے 2 مارچ 2017  کو راجہ ریاض کی سپریم کوڑٹ میں  ولید ارشاد  پریزیڈنٹ پی ٹی سی ایل کے خلاف   توھین عدالت کے کیس کی کاروائی کے دوران ، جیسا وھاں اس دن کی کاروائی دیکھ کر  کئی ایسے پی ٹی سی ایل کے دوستوں نے مجھے اور بہت سے لوگوں کو بتایا تھا خوشی سے ، کے آج راجہ ریاض کے حق میں محترم جناب چیف جسٹس ثاقب نثارصاحب نے بہت اچھی بات کہی جو انھوں نے پی ٹی سی  ایل والوں سے کہا کے وہ اس کے  یعنی راجہ ریاض کے وہ تمام گورنمنٹ والے بقایا جات ، جو وہ کلیم کرتاے دے دیں اور اگر انکی رویو پٹیشن کا فیصلہ انکے یعنی پی ٹی سی ایل کے حق میں آتا ھے تو اس سے واپس لے لیں . اور پھر یہ بھی پی ٹی سی ایل والوں کے اس اعتراض پر کہا کے،  وہ پی ٹی سی ایل کا مکان خالی نہیں کررھا ھے، تو محترم چیف جسٹس صاحب نے کہا ھم اسکا آڈر کردیں گے کےکے وہ مکان ایک ماہ کے اندر خالی کردے . جو کچھ یہ کہا گیا تھا بڑی ھی خوش آئندہ بات تھی  .ھم سب لوگ بڑے خوش ھوگئے تھے کے چلو ایک کے حق میں تو اچھا فیصلہ ھوگیا . مگر ھوا کیا آرڈر شیٹ پر اسکے خلاف فیصلہ آیا نہ صرفاسکی دی گئی توھین عدالت کی درخواست پر کاروآئی روک دی گئی بلکہ اس پر  مزید کاروائی پی ٹی سی ایل رویو پٹیشن کے فیصلے سے مشروط کردی کہا گیا کے راجہ ریاض کی توھین عدالت کیس کی شنوائی اس فیصلے کے بعد ، یعنی انکی رویو پٹیشن کے فیصلے کے بعد ھی ھوگی [ جسکا فیصلہ 17 مئی 17 کو آیا اور انکی رویو پٹیشن خارج ھوگئی ]  اور ساتھ ہی راجہ ریاض کو ڈیڑھ ماہ میں پی ٹی سی ایل کا مکان خالی کرنے کا حکم بھی دے دیا جو راجہ ریاض کا حصہ تھا اور نہ ھی پہلے ایسی کبھی کوئی درخواست پی ٹی سی ایل کی طرف سے آئی تھی اور یہاں عدالت نے ٹرائیل کوڑٹ  کا کام کیا جبکے وہ سب سے بڑی اپیلنٹ کوڑٹ تھی . اور جبکے اس مکان کے بارے میں ، بقول راجہ ریاض کے اسکا مکان والا کیس پی ٹی سی ایل کے خلاف پہلے ھی سے سول کوڑٹ اسلام آباد میں چل رھا تھا . ھم سب کو اس اور ایسے فیصلے پر دکھ ھوا .مجھے تو خیر بہت دکھ ھوا جسکی بابت اسکی اس دن کی کاروئی دیکھنے والوں نے بتایا تھا وہ اسکے بلکل بر عکس نکلا . میں نے اسی پر میں نے اپنے دکھ کا اظہار کرتے ھوئے 6 مارچ 17  بعنوان  ‎کےخوشی سے مر نا جاتے جو یہ اعتبار ھوتا ؟؟؟؟؟؟ ایک تبصرہ لکھا، جو آج بھی میر بلاگ سائٹ پر مارچ 17 کے مہینے میں لکھے ھوئے آڑٹیکلز میں موجود ھے. تو اسی طرح کا رد عمل مجھ کو اس کیس کی ، یعنی عارف صاحب کی توھین عدالت کی کیس کی ۲۵ ستمبر کی مجھے بھیجی ھوئی آڈر شیٹس کی صرف تین  صفحات کی فوٹو کاپیاں پڑھ کر دینا پڑا ، جبکے حقیقتن میں اکے چارصفحات ھونے چاھئے تھے یعنی پیرا 4 اور پیرا 5 والے کا صفحہ 3 جوشائید غلطی  سے مس ھوگیا تھا اور مجھے نھیں بھیجا جس میں حقیقی  کوڑٹ کا آڈر تھا جو میں کل اپنے رومن انگلشن میں بیان کرچکا ھوں . اگر مجھے سب صفحات کی کاپیاں یعنی چاروں  آڈر شیٹس کے صفحات کی کاپیاں مل جاتی تو میرا ردعمل وہ نہ ھوتا ،  جو اس دن ھوا ،جسکی وجہ سے میں آپ سب لوگوں سے تہے دل سےمعزرت خواہ ھوں .ف
ھوا یوں میرا یہ تبصرہ  تین صفحات کے  آڈرشیٹس کے پڑھکر جو میں نے نے اپنے واٹس ایپس کے دوستوں کو  بھیجے تھے ،  مجھے میرے محترم دوست ریٹائڑد جنرل منیجر نور محمد اخند صاحب نے  اسی شام مغرب کی نماز کے بعد، واٹس پر فون کرکے بتایا   کے  تین آڈرشیٹ کے صفحات کو تفصیل سےپڑھنے کے بعد تسلسل نہں بن پارہا تھا اور انکو ایسا لگ رھا ھے کے شائد اور بھی پیراز ھوں جسکا کا ایک صفحہ مس ھوگیا ھے . تو انھوں نے مجھے یہ مزید بتایا کے انھوں نے اس سلسلے میں جب  عارف صاحب ( جنھوں نے توھین عدالت کا یہ کیس کیا ھے)  سے بات کی تو انھو ں نے بتایا کے کے آجکا فیصلہ بہت ھی پازیٹو ھے  اور آڈر شیٹ کے صفحہ نمبر ۳  پیرا 5 & 4 میں عدالت نے بڑے واضح طور پر انکے حق میں بات کہی ھے. اخند صاحب کی یہ بات سن کر میں نے فورن اپنے اور واٹس آپس میں آۓ ھوئے اس دن کے اور  تمام میسجز کو پھر چیک کرنا شروع کردیا  کے مبادہ کسی اور نے مکمل آڑڈر شیٹس کی کاپیاں  نہ بھیج دیں ھوں .  جلدی ھی مجھے توقیر صاحب کی طرف سے آئے میسجز میں سے یہ چاروں صفحات آڈر شیٹس کی فوٹو کاپیا ں مل گئیں .   اور جب میں نے   آڑڈرشیٹس  کے تمام صفحات کو ترتیب وار بڑے غور اور تفصیل سے  پڑھا اور خاصکر صفحہ تین پر پیراز 5 & 4  بڑے غور سے پڑھے ، تو میں خوشی سے اچھل پڑا اور  دل میں کہا کے یہ ایم ڈی  پی ٹی ای ٹی اب تو اب بیٹا مارا ھی ،گیا اب تو اسکو ھرحال میں اسی عدالت کا ۲۱ دسمبر ۲۰۱۱  والا پی ٹی سی ایل کے نارمل  طریقے سے ریٹائڑڈ ھونے والوں  پنشنرس کو گورنمنٹ کا پنشن انکريز یکم جولائی ۲۰۰۹ سے  ابتک کے بقایا جات سمیت اور  تین ہفتے کے اندر اندر دینا ھی پڑيں گے  ورنہ اسکے خلاف  توھین عدالت کی کاروا ئی یقینن شروع ھوجائیگی  ور اسکو زیادہ زیادہ چھ ماہ قید اور نوکری سے ڈس مس لازمن ھونا ھی  پڑےگا ، اگر یہ اب بھی عداتی حکم پر عمل نہیں کرتا  . اب آپ سب لوگ یقینن میری اس بات کو پڑھکر سوچ میں پڑ گئیے ھونگے  کے یہ بات میں اتنے وثوق سےکیوں کررھا ھوں .  اور میں ایسی باتیں پی ٹی ای ٹی کے ایم ڈی کے خلاف کس ثبوت اور بنیاد پرکررھا رھا ھوں ، جب میں آگے چل کر تفصیل سے اس بارے میں لکھوں گا تو مجھے قوی امید ھے کے آپ سب لوگ بھی میری اس بات سے ضرور بضرور متفق ھونگے انشاللہ, صرف وہ لوگ متفق نہیں ھونگے جو منفی سوچ رکھتے ھیں اور جو صرف اپنی ھی کہی باتوں  کی سپرمیسی چاھتے ھیں اور کسی اور کی صحیح باتوں اور دلیلوں کو  ھرگز نہیں مانتے اور جنکا شیوہ صرف مخالفت برائے مخالفت ھی ھوتا ھے.

  میں پہلے آپ سبکی خدمت میں اس آڈرشیٹس میں لکھی ھوئی عدالتی کاروائی  بیان کرکے اور اسی کی بنیاد پر ،  یہ  بات ثابت کروں گا کے انکا مطلب صرف  اور صرف یہ ھے کے  "ایم ڈی  پی ٹی ای ٹی تین ھفتے کے اند اندر یہ گورنمنٹ کے دئے ھوئے پنشن انکریز  ادا اوراب تک کے بقایا جات  ان پی ٹی سی ایل کے پنشنروں کو ادا کردیں جو نارمل طریقے سے ریٹائڑڈ ھوئے ھوں اور اسکی وجہ بھی  ضرور حلف نامے پر بیان کریں ، کے انھوں نے ابتک یہ واجبات دینے سے کیوں انکار کیا،  ورنہ انکے خلاف توھین عدالت کی کاروائی شروع کردی جائیگی.

   اس 25 ستمبر 2017 کی عدالتی کاروائی کی آڈر شیٹس کے پہلے صفحے پر پیرا نمبر 1 پر محترم جج صاحب نے نے پہلے یہ بات واضح کی کے  کیس کرنے والے پٹیشنرس    پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن  کے ملازمین تھے جنھوں نے وی ایس ایس کے بینفٹس لینے کا آپشن قبول نہں کیااوریہ سروس سے پنشن والے حقدار بنیفٹس لے کر ریٹائر ھوئے ( مطلب یہ کے انکی سروس سے ریٹائرمنٹ نارمل طریقے سے ھوئی ) . اور اس عدالت  کے 2011-12-21  فیصلے کے مطابق جو انکی رٹ پٹیشن نمبر WP N0 148 of 2011  واضح طور یہ کہا گیا تھاکے  "  ان وجوھات کی بنا پرجو اوپر بیان کئے گئے ھیں ، یہ چاروں آئینی درخواستیں اس بنیاد پر قبول کی جاتی ھیں اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کو یہ حکم دیا جاتا ھے کے پٹیشنرس کو پینشن گورنمنٹ کے دئے ھوئے انکریز کے مطابق تمام بقایا جات سمیت دی جائے اگر کوئی واجب ھے" . اسکے پیرا نمبر 2  میں معزز جج صاحب نے یہ تحریر کیا کے پی ٹی ای ٹی کے وکیل نے اس بات کو تسلیم   کیا کے جو اس عدالت کا فیصلہ ۲۱دسمبر ۲۰۱۱ کو آیا تھا اسکے خلاف انکی اپیل سپریم کوڑٹ نے ڈس مس کردی تھی اور بعد میں  سپریم کورٹ نے 2017-5-17 کو اسکے خلاف  ریو پٹیشن بھی مسترد کردی تھی انکے وکیل نے مزید دلائل دیتے ھو کہا تھا کے جب تک ،  سپریم کوڑٹ کے حکم کے تحت سیکشن (2))12 سی پی سی 1908 کے تحت ، اس عدالت مں دی گئی  ھوئی درخواست پر ہ عدالت کوئی فیصلہ نہیں دے دیتی ، اسوقت تک یہ مناسب نہ ھوگا کے اس موجودہ  معاملے پر  کوئی اور مزید کاروائی کی جائے .   اسکے بعد معزز جج صاحب نے پیرا نمبر 3  میں لکھا کے , دوسری طرف  یعنی پٹیشنر کے وکیل کا یہ کہنا  تھا کے سپریم کوڑٹ نے جو ڈائریکشنس دی تھیں وہ ان ملازمین کے لئے تھیں ، جنھوں نے وی ایس ایس کی سکیم آپٹ کیا اوراس کے بینیفٹس لئے . مزید انکے وکیل نے اس بات پر زور دے کر کہا کے سپریم کوڑٹ نے  کوئی بھی اس قسم کی ڈائریکشن،  ان ملازمین کے لئے پاس نہيں کی تھیں ، جنھوں نے وی ایس ایس کو آپٹ نھیں کیا اور جو سروس سے  ریٹائر ھوگئے ( یعنی نارمل ریٹائرمنٹ لی ) اسلئے وہ پینشنس benefits کے حقدارھيں. پھر معزز جج صاحب پیرا 4  میں  اپنی رائے دیتے ھوئے یہ تحریر کرتے ھیں   کے سپریم کوڑٹ کے  2017-5-17 کا آڈر جو Cr RP 68//2015 ( اسکا مطاب رویو پٹیشن کی درخواست پر)  پر آیا ، یہ بات ظاھر کرتا ھے کے جو بات پٹیشنر کے وکیل نے کہی ھے وہ صحیح ھے .سپریم کوڑٹ  کی ڈائریکشن صرف ان ملازمین کی حد تک تھی جنھوں نے وی ایس ایس کے فائدے حاصل کئیے.  مزید یہ کے  پٹیشنر کے وکیل کے ان دلائل میں بھی بڑا وزن ھے ، کے جو ملازمین سروس سے ریٹائیر ( یعنی نارمل ریٹائیر)  ھوۓ ھیں اور انھوں نے وی ایس ایس کو آپٹ نھیں کیا، انکے کے حق میں آیا ھوا اس عدالت کا 21 دسمبر 2011 کا فیصلہ اب  فائنل شکل اختیار کرچکا ھے . پھر معزز جج صاحب ،   پیرا نمبر 5   میں ایک طرح کا اپنا حکم دیتے ھوئے  یہ  تحریر کرتے ھیں کے جو کچھ اوپر بیان کیا گیا ھے اسکی روشنی میں یہ مناسب ھوگا کے ایک موقع ریسپونڈنٹس ( یعنی ایم ڈی پی ٹی ای ٹی اور دیگر حضرات  جو توھین عدالت کے مر تکب ھوئے ھیں)  اپنے اپنے حلف نامے داخل کرنے کا دیا جائے،  جس میں وہ اس بات کی وضاحت کریں کے کیوں  ان لوگوں کے  خلاف کاروائی ( یعنی توھین عدالت کی کاروائی)  شروع  نہیں  کی جائے جنھوں نے اس عدالت  کے 21 دسمبر 2011 کے حکم پر عمل کرنے سے انکار کیا  ، جو  پٹیش  نمبر W. P No 148 of 2011  کے فیصلے میں دیا گیا تھا , جو ان ملازمین کے لئے تھا جنھوں نے  وی ایس اس کو آپٹ نھیں کیا تھا ،اسلئےوہ ان پنشن کے بینیفٹس کے حقدار تھے. پیرا 6  میں  اس کیس کو دوبارہ  تین ھفتوں بعد ری لسٹ کرنے کو کہا . اور پیرا 7 اور آخری پیرا 8 وھی ھيں جنکا میں تزکرہ،    اوپر شروع میں  پہلے ھی کر ھی چکا ھوں.
تجزیہ:-
پیرا 4 میں عدالت نے اس بات کی وضاحت کردی ھے کے اس عدالت کا  ، ۲۱دسمبر ۲۰۱۱ کو دیا ھوا فیصلہ جو ان پی ٹی سی ایل کے ملازمین کے حق میں کیا گیا  فیصلہ ، جو سروس سے ریٹائر ھوئے  بغیر کسی   وی ایس ایس کے benefits لئے ھوئے، اب فائینل ھوگیا ھے .اس سے عدالت کا مطلب یہ ھے کے جو بھی اسکے خلاف اپیليں اور رویو اپیلیں پی ٹی ای ٹی نے کیں تھیں ، وہ سب سب کی سب خارج ھوگئیں اور اب اس فیصلے پر ،پی ٹی ای ٹی کو سوائے عمل کرنے کے اور کوئی چارہ نہیں . یاد رھے ۲۰۱۱ میں انھی محمد عارف صاحب ( یعنی جنھوں نے یہ contempt of court کیاھے ) نے،  جو ریٹآئڑڈ ڈی جی پی ٹی سی ایل  تھے ، انھوں نے ،  33 ایسے پی ٹی سی ایل کے ريٹائڑڈ آفیسران کے ساتھ مل کر  فیڈریشن آف پاکستان ،  ایم ڈی پی ٹی ای ٹی  اور اختر علی جو اسوقت پی ٹی ا ٹی کے جنرل منیجر (C&A) تھے ، اکے  خلاف یہ رٹ پٹیشن   جسکا نمبر 148/2011 تھا اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں داخل کی تھی . انھوں نے یہ رٹ پٹیشن پی ٹی ای کےاس 11ستمبر 2010 لیٹر کے خلاف داخل کی تھی جس میں پی ٹی ای ٹی تمام پاکستان کے پوسٹ ماسٹرس کو لکھا تھا کے ان پی ٹی سی ایل کے پنشنروں کو نہ تو وہ پنشن کا انکريز دیا جائے جو گورنمنٹ پاکستان نے اپنے سول ملازمین پنشنروں کو یکم جولائی 2010 سے دیا ھے( جو 15% تھا)  اور نہ ھی وہ میڈیکل الاؤنسس جو یکم جولائی 2010 سے  گورنمنٹ نے اپنے سول ملآزمین پنشنروں کو دینا شروع کیا ھے ، جب تک کے اسکی approval انکو پی ٹی ای ٹی کی صرف سے نہ آئے .  تو  پی ٹی ای ٹی اسی لیٹر کو چیلنج کیا گیا تھا جو کے غیرقانونی تھااور یہ رٹ پٹیشن داخل کی  کہا گیا تھا کے وہ تمام پنشنری benefits   انکریز  جو حکومت پاکستان نے اپنے سرکاری ملازمین پنشنرس کو یکم جولائی 2010  [اپنے نوٹیفیکیشن , جو 5th جولائی 2010  کو جاری کیا گیا اور جسکا اطلاق یکم جولائی 2010 سے  ھوا ] سے دئیے ھیں انکو واپس کیا جائے. جب پی ٹی ای نے اس بارے میں اپنا نوٹیفیکیشن جو 27 جنوری 2011 کو جای کیا گیا جس میں پی ٹی ای ٹی نے پنشن انکریز بجائے گورنمنٹ کے یکم جولائی 2010 سے دئے ھوئے 15% سے کم کرکے 8%  کردیا ، تو اس پی ٹی ای ٹی کے 27 جنوری 2011 کے غیر قانونی نوٹیفیکیشن کو بھی چیلنج کردیا اور عدالت ان کی استدعا قبول کرکے  انکو ،انکی  آریجنل پٹیشن کو ammend کرنے کی اجازت دے دی . اسکا فیصلہ پھر پٹیشنرس  کے حق میں 21 دسمبر 2011 کو آیا .یہ فیصلہ ، اسوقت کے اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے چیف جسٹس محترم جناب  اقبال حمید الرحمان نے لکھا [  جناب  اقبال حمید الرحمان صاحب بعد میں سپریم کوڑٹ کے جج بن گئے اور وہ اس دو رکنی بینچ کا حصہ بھی تھے جنھوں نےراجہ ریاض کے حق میں جولائی 2015  کو فیصلہ دیا اور وہ فیصلہ بھی جج سپریم کوڑٹ جناب  اقبال حمید الرحمان صاحب  نے ھی تحریر کیا تھا اور جسکے خلاف پی ٹی سی کی رویو پٹیشن بھی اگست 2015 میں خارج ھوگئی تھی ]. اس 21 دسمبر 2011 کے فیصلے میں  یہ پٹیشن  قبول کرکے عدالت اپنے فیصلے میں لکھا تھا " پی ٹی ای ٹی کو یہ حکم دیا جاتا ھے پیشنروں کو پنشن وغیرہ حکومت کے دئیے پنشن میں اضافے کے مابق ان واجبات کے ساتھ اگر واجب ھوں . "  عدالت ن جو یہاں لفظ etc یعنی وغیرہ وغیرہ جو لکھا ھے ، اسکامطلب جو پنشن بینیفٹس جو حکومت نےاس پینشن انکریز کے ساتھ یکم جولائ 2010 سے دئے ھیں . تو پی ٹی ای ٹی کو نہ صرف پنشنس میں یکم جولآ ئی 2010 سے دیا ھاآضافہ بتدریج ھرسال یکم جولائی سےبڑھے ھوئے گورنمنٹ کے پنشن انکریز بلکے یکم جولائی2010 سے جو میڈیکل
الا ؤنسس  اور اسکے ابتک کے واجبات بھی لازمن دینے پڑيں گے. اس میں کسی قسم کی تبدیلی کی  کوئی بھی گنجائیش نہیں .کیونکے  یکم جولائی۲۰۱۰ سے  میڈیکل الاؤنسس  کا لگنا اور پنشن انکریز کا ھونا ، اور اسکا پی ٹی ای ٹی کا  نہيں دینا، اب دینا   ھی  پڑے گا کیونکے  یہ ان  دونوں  کو تو   آریجنل رٹ پٹیشن میں چیلنج جو کیا گیا تھا اور جسکو دینے کا  یہ  عدالتی حکم 2011-12-21 کو جاری ھوا اور جس پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے یہ توہین عدالت کا کیس ایم ڈی پی ٹی ای ٹی کے خلاف کیا گیا. اسلئے اب پی ٹی ای ٹی کو یکم جولائی  ۲۰۱۰سے نہ صرف پنشن انکریز جسکا حکومت نے اعلان کیا تھا ، بلکے میڈیکل الاؤنس بھی دینا پڑے گا جو حکومت نے سول ملازمین پنشنروں کو یکم جولائی سے دے رھی ھے جو  BPS1-15 گریڈ میں ریٹائڑڈ ھونے والے ملازمین کی Pension drawn کا 25% ھے اور BPS 16-22 کا 20% ، جسکو فریز کردیا گیا تھا یعنی اگر ھر سال پنشن میں اضافہ ھوگا مگر اس میڈیکل الاؤنس میں نھیں ھوگا.  لیکن یکم جولائی 2015 سے اس میڈیکل الاؤنس میں بھی 25% اضافہ کرکے اسکو پھر فریز کردیا گیا یعنی پنشن میں جب بھی اضافہ کیا جائے گا یہ کل میڈیکل الاؤنس جو یکم جولائی2015 سے ھوگیا تھا وھی رھے گا تا وقت اس میں کوئی حکومت پھر انکریز نہ کرے.
پیرا 5  میں ، اسی پیرا 4 کی روشنی میں عدالت نے یہ حکم پاس کیا کے " یہ بہتر ھوگا کے ریسپونڈنٹس (یعنی ایم ڈی پی ٹی ای ٹی اور دیگران )کو یہ موقع دیا جائے کے وہ  حلفیہ بیان ھر ایک الگ الگ یہ لکھ کردے کے کیوں  انکے خلاف توھین عدالت کی کاروائی  خلاف  شروع نہ کی جائے،  جنھوں نے اس عدالت کے 21 دسمبر 2011 کے فیصلے پر عمل کرنے سے انکار کیا ، جو  اس عدالت نے رٹ پٹیشن  (WP -148/2011 )پر  ان ملازمین کے حق میں دیا گیا تھا،  جنھوں نے والینٹری سپیریشن سکیم قبول نھيں کی  اسلئے وہ  پینشنری بینیفنٹس کے حقدار ھیں ." اور پیرا 6  میں اس کیس کو دوبارہ تین ھفتوں کے بعد لگانے کا حکم دیا ھے . تو عدالت کے اس فیصلے سے عدالت کے اس حکم کا تعین ھوگیا " کے آگر ایم ڈی پی ٹی ای ٹی اور دیگران نے عدالت کے 21 دسمبر 2011 کے احکامات پر عمل نہيں کیا (یعنی ان پی ٹی سی ایل پنشنروں  کی پنشن  میں گورنمنٹ والا انکریز اور میڈیکل الاؤنسن  یکم جولائی 2010 سے نہ دیا ) آور ساتھ اسکی وجوھات بھی بیان نہ کیں, کے  کیوں   انھوں نے اس پر  عمل کرنے سے انکار کیا ، تو ان کے خلاف توھین عدالت کی کاروائی بغیر کسی اور  مزید نوٹس دئے ھوئے شروع ھوجائے گی . جس کے نتیجے میں ایم ڈی پی ٹی ای ٹی اور دیگران کو ،جنکے خلاف یہ توھین عدالت کا کیس کیا گیا ھے ، انکو زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کی قید کی سزا ھوسکتی ھے . اور اگر پی ٹی ایم ڈی کو اور دیگران آفیسران کو ، ایک گھنٹے کی بھی سزاۓ قید ھوگئ تو وہ  سب مجرم بن جائیں گے اور نوکری سے فورن کسی اور کاروائی کے برطرف یعنی ڈس مس ھوجائيں گے . پھر اور پھر کبھی   بھی  انکو اپنی پنشن بھی نہيں مل سکے گی ، جوں پی ٹی سی ایل کے پنشنروں کو انکی جائز پنشن گورنمنٹ والی ، دینے سے انکاری تھے .  کیونکے نوکری سے dismissal  ملازمین کو پنشن قانون کے مطابق کبھی نہیں ملتی .لگتا تو یہ ھی ھے کے یہ لوگ اپنی ھی لٹیا خود ڈبونے پر تلے ھؤوے  ھیں . اس سے بچنے کے لئے صرف انھیں فورن نہ صرف عدالت کے 21 دسمبر 2011 کے احکامات پر  تین ھفتے کے اندر اندر تعمیل کرنی ھے  ،  اور حلف نامہ پر لکھ کردینا ھوگا اور اس میں  اس عزر کی معافی بھی عدالت سے مانگنی ھوگی  کے کیوں انھوں نے عدالت کے21 دسمبر 2011 کےاس حکم کو ماننے سے انکار کیا . اب   یہ اب صرف عدالت پر منحصر کے وہ انکو معاف کردیتی ھے یا کچھ نہ کچھ سزا ضرور دیتی  ھے. میرا تو ایم ڈی پی ٹی ای ٹی  کو یہی مخلصانہ مشورہ ھے کے وہ فورن کاروائی کرتے ھوئے عدالت کا 21 دسمبر 2011 کا حکم بجا لائیں اور عدالت سے اس پر غیر مشروط معافی مانگیں کے کیوں انھوں نے پہلے یہ  عدالتی حکم ماننے سے انکار کیا اور اسکی کیا وجوھات تھيں .وہ یہ بات ضرور ذھین نشین کرلیں کے اگر انھوں نےمعافی نہ مانگی اور صرف  اس 21 دسمبر 2011 کے حکم پر عمل کرلیا، پھر بھی انکی خلاصی مشکل ھوگی . یہ میرے علم میں ھے کے ایم ڈی پی ٹی ای ٹی اکیلے کچھ نھیں کرسکتا اور اسکو بوڑڈ آف ٹرسٹی کے حکم کی ھی پیروی کرنی پڑتی ھے . تو انکو چاھئیے کے یہ مسعلہ فورن بوڑڈ آف ٹرسٹی کو پیش کریں اور ایک انکا ھنگامی اجلاس بلوائیں اور انکی approval  لے کر ایسے تمام پی ٹی سی ایل کے پنشنروں میں یکم جولائی سے گورنمنٹ والا انکریز فکس کریں اور اب تک جو بھی گورنمنٹ سال با سال دیتی رھی  یعنی یکم جولائی 2017 تک اسکے مطابق انکی رننگ پینشن فکس کریں اور یکم جولائی 2010 سے اسکے تمام واجبات اپنی دی ھوئی پنشن کی رقم سے منہا کرکے یکم جولآئی2017 تک کی آدا کریں اور وہ میڈیکل الاؤنس  کی رقم بھی جو حکومت پاکستان نے اپنے سول پنشنرز کی پنشن کے ساتھ یکم جولائی 2010 سے لگا کر فریز کردی تھی وہ بقایاجات اور پھر اسی میڈیکل الاؤنس میں یکم جولائی 2015 سے اضافہ کیا گیا تھا یعنی 25% ، اس کو ملا کر میڈیکل الاؤنس کے تمام بقایا جات یکم جولائی 2010 سے یکم جولآئی 2017 تک کے اداکریں اور ساتھ ساتھ ایسے مرحوم پنشنروں کی بيواؤں کو ایک تو انکے مرحوم شوھروں کے یہ واجبات اور پھر جو ان بیواؤں کی پینشن میں جو انکریز کیا ھے وہ ، اکے واجبات یکم جولائی 2010 سے اگر وہ اس تاریخ سے پھلے  بیوہ ھوگئی ھوں یا اس تاریخ سے جب وہ یکم جولائی 2010 کو یا اسکے بعد بیوہ ھوگئیں ھوں ، انکی پنشن میں اضافہ کی رقم کے ساتھ انکی مرحوم شوھروں کی پنشن کے واجبات ،اگر بنتے ھوں تو وہ بھی ان بیواؤں کوادا کریں . [یاد رھے حکومت پاکستان نے یکم جولائی 2010 سے تمام بیوائوں کی پنشن میں ، انکے مرحوم شوھروں کی نیٹ پنشن کا 75%  ادا کرنے کا یکم جولآئی  2010 سے ادا کرنے کا حکم دیا ھے اسلئےکے اس سے پھلے  مرحوم پنشنر کی بیوہ کو اپنے مرحوم شوھر کی نیٹ پنشن ک 50% ملتا تھا تو اس طرح ھر اس بیوہ کو جو یکم جولائی 2010 سے پھلے   اپنے  مرحوم شوھر کی نیٹ  پنشن کا 50%  لے رھی تھیں ان میں 25% کا اضافہ یکم جولائی 2010 سے ھوگا بغیر کوئی arrears  دئیے بغیر اور جو یکم جولآئی اور اسکے بعد بیوہ ھوئی ھونگی ان سب کو اپنے شوھر کی نیٹ پنشن کا 75% ملے گا.  یہ پی ٹی ای ٹی کیے ظالم لوگ ان بیواؤں صرف 50% ھی اپنے شوھروں کی نیٹ پنشن کا دے رھیں ھیں . اور گورنمنٹ والا انکریز یکم جولائی2010   نہيں دے رھے ھیں . تو ایم ڈی پی ٹی ای ٹی صاجب اس بات کاخیال ضرور رکھیں یہ نہ ھو ان بیواؤں کو بھول جائیں اور عدالت کیے حکم کی روح کے مطابق مکمل عمل نہ کریں. ورنہ انکی خیر نہ ھوگی کیونکے اسطرح کا بیواؤں کے ساتھ ناروہ سلوک ، عدالت کے 21 دسمبر 2011 کے حکم کی  سختی سے حکم عدولی تصور ھوگی]. اگر پی ٹی ای ٹی کے بوڑڈ آف ٹرسٹی ایسی کوئی approval دینے سے انکار کریں تو ایم ڈی صاحب کو چاھئے کے خود ھی اس عدالتی حکم کا جواز بناکر خود ھی یہ احکامات جاری کردیں ایسا کرنے سے نہ انکو سزا ھو سکتی ھے اور نہ انکی نوکری جاسکتی ھے. اگر ادارہ انکے خلاف کوئی ایکشن لینے کی کوششش کرتا ھے ، تو انکو فورن ھی عدالت سے رجوع کرنا ھوگا  اور اسکو یہ بتانا ھوگا کے انھوں نے تو عدالت کے حکم کی تعمیل کی اور یہ لوگ انکے خلاف  اس بات پر تادیبی کاروائی کررھے ھیں .تو یقینن اس سلسلے میں عدالت انکی ضرورمدد کرے گی. یہ سب میرا انکو ایک بیحد مخلصانہ مشورہ ھے.  اگر انھوں نے عدالت میں صرف معافی مانگتے ھوؤۓ یہ جواز کیا ، پی ٹی ای ٹی کے پاس اتنی رقم نھیں و انکو  مکمل پنشن ھی دے سکیں اور ساتھ نہ دینے کی معافی بھی مانگیں ، تو جب بھی کبھی بھی عدالت انکو معاف نہیں کرے گی اور انکولازمن سزا بھی ملے گی آور انکو نوکری سے نکال د یا جاۓگا .اور پھر یہ ہی حکم عدالت کو حکومت پاکستان کو جاری کرنا ھوگا جوکے گارنٹر ھے خاصکر پنشن دینے کے معاملے میں ،  کے وہ پنشن کی رقم خود مہیا کرے پی ٹی ای ٹی کو ان پنشنروں کو دینے کے لئے یا خود یہ رقم اے پنشنروں کو ادا کرے اور  ادا نہ کرنے کی صورت میں،  ۰حکومت کے خلاف بھی توھین عدالت کا نوٹس جاری ھوسکتا ھے اور اسکے سربراہ کو برطرف کرنا،  محض پانچ منٹ کی سزائے قید پر ، ھماری عدالتوں کے لئے کو ئی بڑی بات نھیں. یاد رھے جب ریلوے میں پنشن کی رقم نہ ھونے کی وجہ سے کرآئسس بڑھا تھا زرداری کی حکومت کے دوران ، تو حکومت پاکستان نے ھی ایسے تمام ریلوے ملازمین پنشنروں کو خود پنشن دینا شروع کی تھی اور شائید ابتک حکومت ھی ادا کررھی ھے.
 وی ایس ایس لے کر ریٹائرمنٹ لینے والے کچھ دوستوں کا خیال ھے کے کے جو فیصلہ اسلام ھائی کوڑٹ نے اپنے 21 دسمبر 2011 نے نارمل طریقے سے بغیر کسی وی ایس ایس کو اپنائے ھوئے پنشنروں کے حق میں دیا ھے ، اسلئے شائید انکو وہ گورنمنٹ والا پنشن انکریز نہ ملے جو ان نارمل طریقے سے ریٹائر ھونے والے پنشنروں کو ملے گا . نھیں ایسی کوئیی بات نھیں یہ کیس چونکے پی ٹی سی ایل کے 34سینئرز پنشنرز نے 2011 میں کیا تھا، جو بغییر کوئی وی ایس ایس اپناۓ ھوئے نارمل طریقے سے ریٹائر ھؤوے تھے تو ظاھرھے عدالت کو ایسا ھی لکھنا پڑےگا . اور دوسرے یہ کے سپریم کوڑٹ نے اپنے 2017-05-17کے حکم میں صرف ایک ڈائریکشن ھی تو دی ھے ، پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کو ، کے اگر وہ یہ سمجھتے ھیں کے وی ایس ایس لے کر ریٹائر ھونے والوں نے ،اپنے کیسس ھائی کوڑٹوں میں دھوکے سے داخل کرکے ، جسکے وہ مجاز نھیں تھے،  کوئی ریلیف اور فائدہ حاصل کرلیا ھے تو وہ انکے کے خلاف انھیں ھائی کوڑٹوں میں سی پی سی کی شق (2)12 کے تحت کاروائی  کرنے کی درخواست کرسکتےھیں . عدالت نے  یہ نھیں کہا یا یہ لکھا کے جب تک انکے کیسس ھائی کوڑٹوں میں ھونگے اور جب تک اسپرکوئی فیصلہ نھیں آجاتا ، ایسے وی ایس ایس لےکر ریٹائڑڈ ھونے والوں کو گورنمنٹ کا انکریز نہ دیا جائے . دراصل عدالت ایسا حکم دے ھی نھی سکتی تھی ورنہ انکو ،انکی رویو پٹیشن کو قبول کرنا پڑتی اور اپنے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کےحکم میں ترمیم کرنی پڑتی جبکے انھوں نے انکی وہ رویو پٹیشن خارج کردی اور ۱۲ جون ۲۰۱۵ کو دیا ھوا فیصلہ فائنل ھوگیا[ میں نے اس بارے میں اپنا ایک طویل آڑٹیکل نمبر 42 بعنوان " وی ایس ایس لے کر ریٹائر ھونے والوں کو پریشان ھونے کی ضرورت نھیں " لکھا تھا اس میں تمام قانونی پہلوں پر روشنی ڈال کر میں نے یہ ثابت کیا تھا کے کے پی ٹی ای ٹی ان لوگوں کو کسی بھی طرح سے قانونن گورنمنٹ پنشن انکریز روکنے کی مجاز نہیں .یہ آڑٹیکل اب بھی میری بلاگ سائٹ یعنی  tariqazhar.blogspot.com پر موجود ھے] . میں ان سب کو ایک بات اوریاد دلانا چاھتاھوں کے صادق علی صاحب جو وی ایس ایس لے کر ریٹائر ھوئے تھے انھوں نے 2012 میں پشاور ھائی کوڑٹ میں گورنمنٹ والی پنشن انکریز کےلئے کیس کیا تھا انکی رٹ پٹیشن کا نمبر W.P 762/2012  تھا اور اسی طرح مرحوم یوسف آفریدی سابقہ جی ایم پی ٹی ی ایل پشاور تھے انھوں نے بھی  پشاور ھائی کوڑٹ میں ، 2012 میں اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد اسی گورنمنٹ والی پنشن انکریز دینے کے لئے اور جو پی ٹی ای ٹی نے غیر قانونی طور پر New Pension  Rules -2012 بنائے تھے اسکو بھی چیلنج کیا تھا . انکی رٹ پٹیشن کا نمبر WP-2657/2012 تھا جو ایم ڈی پی ٹی ای ٹی اور فیڈریشن آف پاکستان کے خلاف تھا ، کیا تھا جسکا فیصلہ 3 جولائی 2014 کو پشاور ھائی کوڑٹ نے انکے حق میں دیا او پی ٹی ای ٹی کو انکو گورنمنٹ کے اعلان کردہ پنشن انکريز دینے کا حکم دیا اور ساتھ ھی ان نئے پی ٹی ای ٹی کے پنشن رولز -2012 کو صرف ان پی ٹی سی ایل کے ملازمین تک کے لئے محدود کردیا جنھوں نے "یکم جنوری 1996" کے بعدھی  پی ٹی سی ایل کی ملازمت اختیار کی تھی اور جو "یکم جنوری 1996 " کو پی ٹی سی سے ٹرانسفر ھوکر پی ٹی سی ایل کے ملازم ھوگئے تھے ، اکے لئے وھی گورنمنٹ کے پرانے پینشنس رولزبرقرار رکھے .پشاور ھائی کوڑٹ نےاسی فیصلے کی روشنی میں صا دق علی صاحب کی رٹ پٹیشن نمبر 762/2012پر بھی یہ ھی فیصلہ 3 جولائی 2014 او سنایا[ اسکی فوٹوکاپی پیسٹ کررھاھوں]  پی ٹی سی ایل اورپی ٹی ٹی ای ٹی نے ان فیصلوں کے خلاف  سپریم کوڑٹ میں اپیلیں کردیں جو اس نے ۱۲جون ۲۰۱۵ میں اپن مین فیصلے کے ساتھ خارج کردیں اور بعد میں اسکی رویو پٹیشن اپنے 17 مئی17 کے مین فیصلے کے ساتھ خارج کردی گئیں. صادق علی صاحب نے ، ۱۲جون ۲۰۱۵ میں انکی یہ پشاور ھائی کوڑٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل خارج ھونےکے بعد ، پی ٹی ای ٹی کے خلاف توھین عدالت کا کیس سپریم کوڑٹ میں کردیا جو ابھی تک چل رھا ھے.ایک بڑی اھم بات آپ لوگوں کے گوش گزار کرنا چاھتا ھوں جس سے آپ لوگوں کو یہ یقین پختہ ھوجائے گا کے سپریم کوڑٹ نے ایسا کوئی حکم نھیں دیا جس سے یہ بات ثابت ھوکے وی ایس ایس لے کر ریٹائرمنٹ ھونے والے پنشنرس کو گورنمنٹ کا انکریز نھیں دیا جائے . تو جب 14 جون 2017 کو یہ صادق علی والا توھین عدالت کا کیس سپریم کوڑٹ میں لگا [جسکا نمبر Crl 53 of 2015 ھے اسکی آڈرشیٹ فوٹو کاپی  نیچے پیسٹ کی ھے] تو عدالت نے صادق صاحب سے یہ تو نہیں کہا کے "جناب آپ تو وی ایس ایس لے کر ریٹائیرھوئے ھیں  آپ کاتو یہ توھین عدالت کا کیس تو بنتا ھی نھیں ".  عدالت نے یہ بات بلکل نہیں کی بلکے جب انکے وکیل شاھد باجوہ نے کوڑٹ کو یہ بات بتائی کے توھین عدالت کا کیس کرنے والا خود ایک وی ایس ایس ریٹائری ھے جب بھی کوڑٹ نے کوئی ذرا سابھی ایسا ریمارکس  یا اشارہ تک بھی دیا ھو جس سے یہ ظاھر بھی ھو کے کوڑٹ  یہ بات سمجھتی ھو کے انکو پنشن میں گورنمنٹ والی پینشن انکریز لینے کا حق نہیں ھے . بلکے کوڑٹ نے انکو 60  دن کے اندر لسٹیں بنانے کا حکم دے کر ، عدالت کی چھٹیوں کےبعد یہ کیس لگانے حکم دیا .اب دیکھنا یہ توھین عدالت کا کیس صادق علی کی طرف سے ، اب کب لگتا ھے.
اسلام آباد ھائی کوڑٹ نے یہ محمد عارف صاحب والا توھین عدالت کا کیس تین ھفتوں کے بعد ری لسٹ کرنے کوکہا ھے اب دیکھنا یہ کب ری لسٹ ھوتاھے اور کب لگتا ھے  اور اب لگتا بھی ھے یا نہیں . عدالت لگنے پر اب کیا ایکشن لیتی ھے یا پھر کچھ ٹائیم دے دیتی ھے .یا یہ کیس ، اب تاریخ پہ تاریخ کی نظر ھوتا رھتاھے یا نھیں ،یہ تو اب خدا ھی کو معلوم ھے ھم سب بس دعا ھی کرسکتے ھیں کے یہ کیس اب وقت پہ لگے اور عدالت نے جو اپنی اس 27 ستمبر کی آڈرشیٹ کے پیرا نمبر 5 میں لکھا ھے اس پر من وعن عمل کرے آمین!
آخر میں ،میں ایک اھم بات آپ سب لوگوں سےکہنا چاھوں گا کے جو تجزیہ میں نے اوپر تحریرکیا ، وھی لکھا جو اپنے تجربے اور ایسے قانونی باتوں سے اپنے لگاؤ کی بنیاد صحیح سمجھا .اس میں کسی مبالغہ آرائی یا جھوٹ سے کام نھیں لیا پھر بھی اگر کوئی یہ سمجھتا ھے کے یہاں ، یہاں میں نے نے یہ بات صحیح نہیں لکھی اور یہ ایسا ھونا چاھئے تھی ، تو وہ اپنے ثبوت اور دلائل کے ساتھ مجھے ارسال کریں .تاکے میں اس میں تصحیح کروں اور انکا شکریہ بھی ادا کرسکوں.
واسلام
محمد طارق اظہر
ریٹائڑڈ جنرل منیجر( آپس) پی ٹی سی ایل
ای میل: azhar.tariq@gmail.com
سیل: 5211167-0345
واٹس ایپس: 2104574-0332
Date : 07-10-2017

       

‏‎ 

Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]