Article-48 [ PTET ki hut dhermi. . . HSCP k a hukem man ne se inkari]
Article-48
عنوان :-پی ٹی ای ٹی کے بوڑڈ آف ٹرسٹیز کی ھٹ دھرمی اور عدالت عظمی کے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے برعکس ، خلاف گورنمنٹ پنشن انکریز نہ دے کر عدالت عظمی کی سخت توھین کرنا. . . . .اب یہ عدالت عظمی کی عزت نفس کا سوال ھے، کے انکے خلاف کیا ایکشن لیتی ھے ؟؟؟
عزیز پی ٹی سی سی ایل پنشنرس ساتھیو ۲۲ دسمبر کی رات ایم ایچ اسلم صاحب سیکٹری TPA کی جانب میرے سماڑٹ فون پر ایس ایم ایس ملا کے آج یعنی 22 دسمبر 2017 میں پی ٹی ای ٹی کے بوڑڈ نے پی ٹی سی ایل کے نارمل پنشن ریٹائری کو پنشن میں 7.5% اور وی ایس ریٹائری کو 6% پنشن انکریز یکم جولائی 2017 سے دئیے جانے کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا ھے . دوسرے دن اسکے Notification کی کاپی بھی مجھے واٹس ایپس پر موصول ھوئی . 81 ویں بوڑڈ آف ٹرسٹی کے اجلاس میں کیا گیا ھوا فیصلے کا نوٹیفیکیشن 20 دسمبر 2017 کو جاری کیا گیا. میں یہ نوٹیفیکیشن دیکھ کر بڑے ھی اچنبھے میں پڑگیا کے پی ٹی ای ٹی کے بوڑڈ آف ٹرسٹیز کے ممبران نے ایسا فیصلہ کیوں کیا جو سپریم کوڑٹ کے اس حکم نامے کی سراسر سخت توھین ھے ، جو اسنے 12 جون 2015 کو انکی تمام اپیلیں خارج کرتے ھوئے دیا تھا کے "PTET پر لازم ھے کے وہ ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھونے والے اپیلنٹس جو پی ٹی سی یعنی کارپوریشن میں ٹرانسفر ھو کر ریٹائیر ھوئے اور پھر پی ٹی سی ایل یعنی کمپنی میں ٹرانسفر ھوکر ریٹا ئیر ھوئے انکو حکومت کی اعلان کردہ پنشن انکریز کے مطابق پنشن انکریز دے." اور انکی رویو پٹیشن بھی 2017-05-17 کو خارج ھوچکی ھے اور یہ فیصلہ اب فائنل بھی ھو چکا ھے اور لا بک میں 2015SCMR1472 میں درج ھے. آخر کیا وجہ ھوئی جو اس ٹرسٹ کے بوڑڈ آف ٹرسٹیز کے نے اتنا غیر زمہ دارانہ اور غیر قانونی قدم اٹھایا . کس کے کہنے پر اٹھایا کس نے انکو یہ ہمت دی کے یہ کرجاؤ کوئی ڈرنے کی بات نہیں کچھ نہ ھوگا . یہ عدالت عظمی تمہارا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی . ابھی ایک یا ڈیڑھ مہینے پہلے ھی انکے وکیل شاھد باجواہ نے محمد ریاض( راجہ ریاض) کے توھین عدالت کیس میں سپرکم کوڑٹ کو یہ assurance دی تھی کے پی ٹی سی ایل او ر پی ٹی ای ٹی راجہ ریاض کو وھی گورنمنٹ والی تنخواہ، پنشن اور بی ٹی سی ایل والی incentive pay دینے کو تیار ھے . جسکی بنا پر 27-11-17 کو سپریم کوڑٹ اسی assurance کی جہ سے راجہ ریاض کو وھی گورنمنٹ والی تنخواہ ، پنشن اور پی ٹی سی ایل والی incentive pay دینے کا حکم دے کر راجہ ریاض کی توھین عدالت کا کیس disposed کردیا تھا . راجہ ریاض بھی اسی طرح ا سرکاری ملازم اور پنشنر تھا جس طرح کے پنشنرس کے لئے 12 جون 2015 کو سپریم کوڑٹ نے حکم دیا تھا جو اوپر بیان کیا جا چکا ھے . راجہ ریاض بھی ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوا اور ۲۰۱۵ میں ریٹائر ھوا تو اسکی حیثیت بھی ایسی ہیسرکاری ملازم جیسی تھی جسکا حکم مسعود بھٹی کیس یعنی 2012SCMR152 میں دیا تھا. تو اس ٹرسٹ کے بوڑڈ آف ٹرسٹی نے ایسا فیصلہ کرکے عدالت عظمی کے ۱۲جون ۲۰۱۵ کے احکا مات کی دھجیاں بکھیر دیں . اب اس پر عدالت عظمی کو ئی سخت ایکشن الکے خلاف نہیں لیتی تو یہ ھم سب کی بڑی بدقسمتی ھوگی اورعدالت عظمی کی بے پناہ ھی بےعزتی.چند بیحد اھم باتیں میں نے اس نوٹیفیکیشن کے بارے میں میں نے نوٹ کیں .جس سے میرے اس شبہ کو تقویت پہنچ رھی ھے کے یہ فیصلہ دباؤ کے زریعے کیا گیا یا کروایا گیا .مثلن جس بوڑڈ کی میٹنگ یعنی 81 ویں کی جو 4 دسمبر 2017 کو ھوئی اسکے فیصلے کا نوٹیفیکیشن 20 دسمبر 2017 کو کیوں نکالا گیا. عمومن ایسا نوٹیفیکیشن یا تو اسی دن نکال دیا جاتا تھا یہ چار یا پانچ دن کےاندر. میں نے اس بات کا موازنہ کرنے کے لئے پچھلے دو سالوں کے نکالے گئے نوٹیفیکیشنس اور اس سال زیر تبصرہ نوٹیفیکیشن کی کاپیاں نیچیں پیسٹ کی ھیں آپ لوگ بوڑڈ کی میٹنگ کی تاریخ اور نوٹیفیکیشن نکالنے کی تاریخوں سے موازنہ کرلیں آپ کو خود ھی پتہ چل جائگا کے اس سا ل کا نوٹیفیکیشن 16 دن کے بعد نکالا گیا جبکے پچھلے دو نوٹیفیکیشنس یا تو اسی تاریخ کو نکالے گئے یا پانچ دن کے بعد] . اس سال کے نکالے ھوئے نوٹیفیکیشن کو ڈائریکٹر پنشن پی ٹی ای ٹی لاھور نے اپنے دستختوں سے نہیں نکالا جیسا وہ ھمیشہ خود نکالتے ھیں بلکے اس سال کا نوٹیفیکیشن ڈپٹی ڈائریکٹر پنشن پی ٹی ای ٹی لاھور نے نکالا . تو اس بات سے اس شبہ کو تقویت پہنچتی ھے کے " ڈائریکٹر پنشن پی ٹی ای ٹی لاھور" جان بوجھ کر خود اپنے دستختوں سے نہیں نکالا کے کہیں اس پر توھین عدالت کا چارج نہ لگ جائے اور وہ نوکری سے بھی جائے . میں سمجھتا ھوں کے جناب انوار صاحب ڈائریکٹر پنشن پی ٹی ای ٹی لاھور نے بڑی ھی عقلمندی کا مظاہرہ کیا اور اپنا بچاؤ کرلیا . مگریہ ڈپٹی ڈائریکٹر پنشن ۱۰۰% پھنس جائیگا ، جب بھی توھین عدالت کا کیس چلے گا . عمومن یہ ھی ھوتا ھے کے جب بھی بوڑڈ آف ٹرسٹی کی ایسی میٹنگ ھوتی ھے تو جو بھی اسکا آؤٹ کم ھوتا ھے ، وہ یا تو اسی دن پتہ چل جاتا ھے یا زیادہ سے زیادہ دوسرے دن. پر یہ کیسی4 دسمبر 2017 کی میٹنگ تھی جسکے فیصلے کی پہلے کانوں کان تک خبر نہ ھوئی . یہ کہا جارہا تھا ، کے بوڑڈ کی میٹننگ 23 دسمبر17 پروز ہفتہ ھوگی . مجھے انھیں ایم ایچ صاحب کا ایسا SMS پہلے آیا تھا کے بوڑڈ آف ٹرسٹیز کی میٹنگ 23 دسمبر 2017 کو ھوگی . یعنی اسکا کسی کو بھی معلوم نھیں تھا کے یہ میٹنگ پہلے ھی 4 دسمبر 2017 کو ھوچکی ھے . میں یہ سمجھ چکا تھا اور پریشان تھا کے یہ سب ایسا اور کیوں ھوگیا. اتنی دیدہ دلیری اور عدالت عظمی سے پنگاں لینے والی حرکت ان ٹرسٹ کے بوڑڈ کے ٹرسٹیز کے ممبران نے کس کے کہنے بے کی کیوں کی وغیرہ وغیرہ . کس نے انکو ھمت دلائی اور یہ کیونکر ایسا کرنے پر مجبور ھوئے .کیا مجبوری تھی جس نے انکو عدالت عظمی کے احکامات کو رد کرنے کا حوصلہ ملا . میں اس پریشانی اور سوچ میں تھا کے مجھے اسکے کے بارے بارے میں کچھ اھم خفیہ ہنٹس مل ھی گئے پھر میں نے اپنےتجربے اور موجودہ حالات کی روشنی میں اسکا مطلب اپنے تجزئیے سے نکال ھی لیا جو میں سمجھتا ھوں کے 80 سے 90 % صحیح ھی ھونگے بلکے شائید 100% تک بھی شائید صحیح ھوں . اسکے بارے میں تفصیلن اس مضمون کے آخری پیراز میں تحریر کیا ھے.
سات سال پھلے ھم جیسے سینئرز پنشنروں نے جب ھی تو انکے خلاف کیس کیاتھا کے اسکی وجہ تو یہ ھی تھی کے انھوں نے اچانک یکم جولائی 2010 سے پنشن انکریز میں گورنمنٹ کا دیا ھوا اضافہ 15% کی بجائے 8% کیا اور پھر یکم جولائی 2011 سے بھی یہ ھی روا رکھا اور اسکے بعد یہ ھی ھی رکھا باوجود اسلام آباد عدالتی حکم 21 دسمبر 2011 کے جسکے خلاف سپرکم کوڑٹ نے انکی اپیل ۱۲ جون ۲۰۱۵ میں خارج کردی اور عدالت عظمی نے اپنے حکم میں لکھا " کے ٹرسٹ کا بوڑڈ آف ٹرسٹی اس بات کا سختی سے پابند ھے کے وہ ان پنشنروں کو جو ٹی اینڈ ٹی کے ملازم تھے جو بعد کارپوریشن اور کمپنی میں ٹرانسفر ھوکر ریٹائیڑڈ ھوؤے ھیں انکو گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز دینے کا پابند ھے ". . اس میں کہاں لکھا کے نارمل ریٹائیری کو اتنا اور وی ایس ایس ریٹائیری کو اتنا . یہ تمام پنشنرس اسی مقام پر پہنچ گئے جہاں یہ 2010 میں تھے بلکے اس سے بھی کم . یہ بوڑڈ آف ٹرسٹیی کے ممبرز بیحد ھٹ دھرم ، بیغیرت ، مغرور اور خود سر لوگ ھیں پنشن ٹرسٹ فنڈ کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھتے ھیں اور اس میں سے پنشنرس کو انکے حق کے مطابق اس پنشن ٹرسٹ فنڈ سے دینا معیوب سجھتے ھیں . اس بوڑڈ آف ٹرسٹیز کے گورنمنٹ کے نامزد تن ممبرز جنکا تعلق منسٹری آف آئی ٹی اور ٹیلیکام سے ھے ، یہ تو بڑے ھی بغیرت اور بیشرم لوگ ھیں جو اس بوڑڈ آف ٹرسٹیز کے چئیرمین پی ٹی سی ایل کے ایس ای وی پی (ایچ آر ایم ) سید مظہر حسین یزید کے تلوے ھی چاٹتے رھتے ھیں جو انکو بہت ھی کھلا پلا رھا ھے تاکے یہ لوگ کوئی ایسا فیصلے کے حق میں ووٹ نہ دیں جن سے ایتصلات کمپنی کو ذرا سا بھی نقصان پہنچے . ان سے بڑا غدار تو کوئی ھو ھی نہیں سکتا . انکو یزید مظہر حسین بیحد کھلا، پلا رھا ھے اور یہ کتے کی طرح اسکے وفادار بنے ھوؤے ھیں اور جیسا وہ کہتا ھے یہ ویسا کردیتے ھیں کیوں کے بحیثیت چئرمین آف بوڑد آف ٹرسٹی اسکا ووٹ فیصلے میں کاؤنٹ نھیں ھوتا اور جیسا وہ کہتا ھے یہ ویسا ھی اسکے یس باس کیطرح کرتے ھیں . مجھے یہ خبر پڑھکر بیحد دکھ ھوا اور پھلی دفعہ یہ ایک احساس ھوا اور سوچ آئی ھوا کے ھم لوگ ایسے ملک کے باسی ھیں جہاں انصاف ، اصول ، قانون اور انسانی اقدار کی کوئی قدر نھیں . عدالتی احکام پر عمل نہ کرنا ایک شیوہ بنتا جارھا ھے. اگر آپکے پاس دولت ھے تو سب کچھ ھے. بھاڑ میں جائے انصاف بھاڑ میں جائے اصول و انصاف اور بھاڑ میں جائے عدالتی احکامات . بس پیسہ ھے تو سب کچھ ورنہ کچھ نہیں . ھم کو اوروں کی برائیاں نظر تو آتی ھیں اپنی نھیں . ارے اگر ھمارے یہ جاھل حکمران جو ٹی اینڈ ڈیپاڑٹمنٹ کا ایسا خاتمہ کرکے اسکو کارپوریشن اور پھر کمپنی نہ بناتے تودیکھتے یہ ٹی اینڈ ٹی اب انکو کسقدر ریوینیو دے رھا ھوتا جو اسکا عشرے عشیر تک نہ ھوتا جو آج اس کمپنی پی ٹی سی ایل دےرھا ھے. جسکے پاس اپنے ان ملازمین کو حکومت والی تنخواہ دینے والے پیسے ھی نہیں . جاکے دیکھیں انڈیا میں جہاں یہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ [ جو ابھی تک پوسٹ اینڈ ٹیلیگراف انڈیا کا حصہ ھے جسطرج یہ ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ ، پاکستان پوسٹ اینڈ ٹیلیگراف ڈیپاڑٹمنٹ کا حصہ تھاپاڑٹیشن کے وقت ] ابھی اسی طرح کھڑا ھے نہ اسکو ختم کیا گیا ، نہ اس کو پہلے کارپوریشن بنایا گیا اور نہ پھر کمپنی اورنہ کسی بھی سرکاری ملازم کو اس میں سے نکالا گیا کے نئی ٹیکنالوجی آگئی ھے. اور وہ کیا profit دے رہا ھے آپ اسکی ویب سائیٹ پر خود جا کر دیکھ سکتے ہیں. یہاں پرانے ملازم سرپلس ھوگئے جسطرح ان ٹرانسفںڑڈ پی ٹی سی ایل ملازمین کے ساتھ سلوک کیا گیا پہلے ان سب کو ناکارہ قرار دے کر ایک پول کا حصہ بنایا گیا پھر زبردستی وی ایس ایس دے کر ھزاروں کو بغییر پنشن کے نکال دیا گیا ور انکی اب ضرورت نھیں .
جب مجھکو یہ ایس ایم ایس ملا , تو یہ سوچکر کے میرے پی ٹی سی ایل پنشنرس ساتھیو گو بہت صدمہ پہنچے گا ، میں نے اسی وقت فیس بک اور واٹس ایپ پر میسیج دیا کے ھم کو بلکل بھی بددول نہ ھونا چاھئے اور اللہ کی زات پر جو بھروسہ کیا ھے اور ھم نے امید لگائی ھے کے صرف اسکی زات ھی ھمیں اس مشکل سے نکال سکتی ھے اور وھی ھم کو ھمارا حق دلواسکتی ھے اسکے ہاں دیر ھے پر اندھیر نہیں وہ ھماری داد رسی انشاللہ ایک دن ضرور کرے گا اور جو جابر او ظالم گھمنڈ اور مغرور لوگ ھمارے ساتھ نا انصافی کررھے ھیں اور ھم او ھمارا جائیز حق نہیں دے رھے عدالتی احکمات کو نہیں ماننے دیدہ دلیری کے ساتھ انکی آخرت تو خراب ھو ھی گئی، انشاللہ اب اپنے حقیقی بھیانک انجام سے اس دنیا میں ضرور پہنچیں گے جسطرح شمر ، یزید اور فرعون اپنے انجام کو پہنچے تھے . دیر تو ضرور ھے اللہ کے ہاں ، مگر اسکی پکڑ تو بہت سخت ھے . اور خاصکر پی ٹی ای ٹی اورپی ٹی سی ایل کے لئے تو اللہ کی پکڑ بہت ھی سخت ھوگی انشاللہ. انلوگوں کے لئے کے توبھت سخت، جنھوں نے پنشن کے حقدار ھونے والے لوگوں کو بھی پنشن نھیں دی . . [ پی ٹی سی ایل کے ملازمین کو جنکی 19 ، 19 سال کی نوکری تھی بغیر پنشن کے ريٹآئر کردیا گیا اور بہت سے ایسے لوگوں او جنکو پہلے کہا گیا کے آپک سروس پنشن لنے کے مطابق ھے اور آپ آگر وی ایس ایس لیں گے تو پنشن ملے گی اور جب انھوں نے وی ایس ایس لینا قبول کرلیا توانکوپنشن دینے سے انکار کردیا کے "جی غلطی ھوگئی آپکی تو سروس کم تھی" ، یہ غلطی نھیں تھی یہ جان بوجھ کر کیا گیا جسکے لئے یہ باقاعدہ ایک ٹیم بنائی گئی تھی جوجونئرز آفیسران طاھر مشتاق ڈائیریکٹڑ ، اسلم بلوچ ڈی ای اور کچھ اور ایسے ھی لوگ ( جنکے نام میرے اسوقت زھین میں نھيں آرھے . لیکن آپ میں سے بیشتر کو جانتے ھوں ) پر مشتمل تھی. جسکو کو عیاش ولید ارشاد President PTCL کے حکم پر VSS-2008 میں اسوقت کے SEVP عربی عیاش اسماعیل طہہ نے یہ ٹاسک مظہر حسین بزید کی سربراہی میں دیا، جو اسوقت EVP تھا ، کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو VSS کے زریعے فارغ کرایا جائے اور جب ھی انکی کار کردگی کی بنیاد پر ولید ارشاد نے ایک جونیرموسٹ گریڈ 19 کے ڈایریکٹرطاھر مشتاق کو EVP (جوگریڈ 21 کی پوسٹ ھوتی ھے) بنادیا( اب یہ ھی میر صادق شخض منسٹری آئی ٹی اینڈٹیلیکام میں ممبر ایچ آر لگا ھوا ھے اور وھاں سے بھی ان پی ٹی سی ایل پنشنرس اور ملازمین کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ھے اور اپنے پرانے باس مظہر حسین یزید کے ساتھ ملا ھوا ھے اور یہ بہت ممکن ھے کے اس نے ان تمام بوڑڈ آف ٹرسٹیز کے تین حکومتی ممبرز جو منسٹری آئی ٹی اینڈٹیلیکام میں گورنمنٹ کے سرکاری ملازم ھیں ، انکو یہ بھی شئے کہیں نہ دی ھو کے وہ عدالتی احکامات کے مطابق پی ٹی سی ایل پنشنرس کی پنشن انکریزکے حق میں ووٹ نہ دیں ) اور دوسرا میر جعفراسلم بلوچ کو جو ڈی ای تھا ، اسکو جنرل منیجر اور تیسرا غدار ابن غدار ادریس بھٹی جسکو گریڈ 19 سے آوٹ آف ٹرن گریڈ 20 پروموشن دے کر جی ایم بنایا گیا تھا اسکو پھرریٹائرمنٹ دے کر تین لاکھ ماہانہ تنخواہ پر جی ایم ایچ آر بنا کر ، اسوقت اسکو یہ ٹاسک دیا گیا کے جن لوگوں کو وی ایس ایس پنشن کے ساتھ دیا گیا تو انکو کوشش کرکے کسی نہ کسی طرح پنشن نہ دیجائے تو اس خبیث آدمی نے بہانوں سے ھزاروں ایسے پی ٹی سی ایل ملازمین کی سروس بیس سال سے کم کر کر کے کسی نہ کسی بہانے انکو پنشن سے محروم کردیا . ایسے کافی سارےلوگوں نے کوڑٹ کیس کردیا اور کچھ کے کیسس ابھی ھائی کوڑٹوں میں چل رھے ھیں اور کچھ نے رلیف لے بھی لیا جسے پشاور ھائی کوڑٹ نےاظہر علی بابر اور اسکے ایسے دوستوں نے لیا. میرا خیال ھے کے جتنی بددعائیں اس خبیس کو پڑی ھونگی شائید کسی اور کو اتنی نہ پڑی ھوں جس نے حقداروں کو خواہ مخواہ اپنی غرض کی خاطر اور غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودی لینے کے لئے یہ ظالمانہ کام کیا اور اپنی عاقبت خراب کرلی . جب اسوقت یعنی 2008-2007 میں اسوقت کا SEVP عربی عیاش اسماعیل طہہ ایک دن آفس ٹائمنگ میں اپنے آفس کے کمرے میں ایک لڑکی کے ساتھ رنگرلیآں بناتے ھوئے پکڑا گیا ( اس بات کو کو اسوقت سارا پی ٹی سی ایل ھيڈ کوارٹر جانتا ھے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں) تو ولی ارشاد نے اسکو فورن چلتا کردیا دوبئی کو. اور اس مظہر حسین یزید کو SEVP بنا دیا گیا . جو اس سے بھی زیادہ خبیث ثابت ھوا . جس نے آتے ھی ان تمام پرانے پی ٹی سی ایل کے ملازموں کا استحصال کرناشروع کردیا. (یہ آدمی اپریل 1996 میں پی ٹی ٹی سی ایل میں اکاؤنٹٹ بھرتی ھوا اور پی ٹی سی ایل ھیڈ کوارٹر کے ایک چھوٹے سے کمرے بٹھا رھتا تھا اور کبھی سٹور کے فنڈ ریلیز کرتا اور کبھی ڈویژنوں کو ماہانہ سیلنگ . کراچی میں اسوقت کے ڈی ایز اچھی طرح جانتے ھیں کے یہ بغیر کمیشن لئے ھوؤے سیلنگ نھیں ریلیز کرتا تھا ) اسنے ولید ارشاد کی ایما پر ایسے پرانے ملازمین ک victimisation شروع کردی . ولید ارشاد ، یہ جتنے پرانے پی ٹی سی ایل کے ملازمین ھیں ان سے سخت نفرت کرتا تھا اسکی خواہش تھی کے انکو کسی نہ کسی طرح پی ٹی سی ایل سے نکال دیا جائے اورنئے لوگوں کو لایا جائے اور اسی کی شئہ پر اس مظہر حسین یزید نے اسکا پورا پورا ساتھ دیا اور جسطرح یہ ایسے پی ٹی سی ایل ملازمین اور پنشنرس کے ساتھ جو سلوک کررھا ھے وہ آپ سب کے سامنے ھے اسلئے جبھی تو ابتک یہ براجمان بیٹھا ھے. جو آدمی اکاؤٹنٹ بھرتی ھوا جسکو ايچ آر کی الف ب کا پتہ نہیں نہ اسکی اسميں کوئی کوالیفیکیشن ھے اس کو ایس ای وی پی ایچ آر لگا دیا گیا ، وہ تو ایسی ھی جاہلانہ حرکتیں کرے گا نہیں تو کیا کرے گا ؟؟؟؟،]
یہ جو ابھی ۲۰ دسمبر کی تاریخ میں پی ٹی ای ٹی نے جو یہ نوٹیفیکیشن جاری کیا ھے ، اس سے ایسا لگتا ھے کے پی ٹی ای ٹی کے بوڑڈ آف ٹرسٹیز نے ، عدالت عظمی کو یہ باور کرایا کے اوئے تم ھم کو یہ آڈر دے رھے ھو کے انکو گورنمنٹ والی پنشن انکریز دیں. . . . لو جی اب تو ھم تو اس سے بھی کم دیں گے جو ھم انکو دیتے آرھے تھے . . . کرنا ھے جو ، کرلو . یہ ۱۲جون ۲۰۱۵ کا فیصلہ اب عدالت عظمی کی بقا کا سوال بن گیا ھےاگر اسوقت عدالت عظمی نے انکے خلاف سویو موٹو ایکشن نہیں لیا یا ھم نے یا ھم میں سے کسی نے ان بوڑڈ آف ٹرسٹیز کے خلاف فورن توھین عدالت کا کیس نہ کیا ، تو اس سے عدالت عظمی کی عزت اور وقار خطرے میں پڑ جائے گی اور لوگ عدالت عظمی سے مایوس ھوجائیں . . . کے اب کون ھے جو انسے اس پر عمل کرائیگا . ھم پنشنرس اسی مقام پر آکر کھڑے ھوگئے جہاں آج سے سات سال پہلے تھے . اس وقت جب ایسا ھی صرف ۸% پنشن انکریز دینے کا نوٹیفیکیشن نکالا تھا جو محمد عارف سابقہ ڈ ی جی پی ٹی سی ایل نے ایسے ۳۳ پنشنرس پٹیشنرس کے ھمراہ اپنی رٹ پٹیشن نمبر WP-148/2011 کے زریعے اسلام آباد ائی کوڑ ٹ میں چیلنج کردیا ا ور اسپر عدالت کا فیصلہ ان پنشنرس کے حق میں ۲۱ دسمبر ۲۰۱۱ کو آیا او بالا آخرا اسکے خلاف پی ٹی ای ٹی کی اپیل ۲ جون ۲۰۱۵ اور رویو پٹیشن 17 مئی 2017 خارج ھونے کے بعد، یہ اطمینان ھو چلا تھا کے ھم پنشنرس کو عدالت عظمی کے حکم کے مطابق پنشن انکریز ملے گا تو ان ذلیلوں نے عدالت عظمی کے حکم کی دھجیاں بکھیر دیں اور نہ صرف عدالت عظمی کے حکم کے برخلاف نوٹیفیکیشن نکالا بلکے اس نو ٹیفیکییشن میں پہلی مرتبہ لکھا کے وی ایس ایس والے پنشنرس کو 6% پنشن انکریز ملے گا اور نارمل کو 7.5 % . . . . پہلے یہ ھمیشہ ۲.۱۰-۲.۱۱ سے یہ لکھا جاتا تھا کے 1996سے پہلے ریٹائر ھونے والوں کو اتنا ملے گا اور1996 کے بعد والوں کواتنا یعنی 8% . اور اب اس سال سے یہ سب نہیں لکھا گیا . اس میں ذکر وی ایس ایس لے کر ریٹائڑڈ ھونے والوں کی الگ پنشن انکریز کا اور نارمل کی الگ کا ھے .اتنی دیدہ دلیری عدالت عظمی کے احکامات کو نظر انداز کرنے کی ، پی ای ٹی کے بوڑڈ آف ٹرسٹیز کی طرف سے اس بات بین ثبوت ھے کے انکو زبردست قسم کی آشیر باد ملی ھے کے تم یہ کر جاؤ اور عدالت سے نہ ڈرو وہ تو ھماری مٹھی میں ھے. . . لو کرلو گل؟؟؟؟ .
آپ سبکو یاد ھوگا کے انسب لوگوں نے جنھوں نے VSS-2008 کو آپٹ کیا تھا وہ یکم جولائی 2008 سے پہلے تقریبن سب ھی ریٹائر کردئے گئے تھے. جن لوگوں کی پنشن لگی تھی ان کی گراس پنشن کی کیلکولیشن نہ صرف گورنمنٹ کے گراس پنشن کیلکولیشن رولز کے فارمولے کے تحت ھوئی بلکے انکی net pension کی کیلکولیشن کے بعد pension to be drawn میں بھی گورنمنٹ کے پنشن قوانین کے مطابق فارمولے سے ھی ھوئی اور پجھلے جو انکريز گورنمنٹ والے لگنے تھے وہ بھی لگے . اور پھر جب 2009-2008 میں جو 20% حکومت نے صرف رننگ پنشنرس کے لئے لگایا تھا، وھی ایس وی ایس ایس لے کر ریٹائڑڈ ھونے والے پنشنروں پر بھی لگا تھا، کیونکے یہ اس وقت رننگ پنشنرس ھوچکے تھے یکم جولائی 2008 سے.یعنی انسب پنشنروں کے لئے تھا جو اسوقت تھے اور انکے کے لئے نہیں جو یکم جولائی 2008 کے بعد ریٹائر ھوئے ھونگے . اور نوٹیفیکیشن صرف لفظ "پنشنرس " ھی استعمال ھوا تھا یہ نھیں کے وی ایس ایس کے لئے اتنا اور نارمل کے لئے اتنا وغیرہ وغیرہ . اسی طرح پی ٹی ای ٹی نے 2010-2009 گورنمنٹ کے انکریز کے مطابق اپنا نوٹیفیکیشن نمبر No Pen/PTET/LHR/MISC/5085 dated 21-07-2009 گورنمنٹ کے نوٹیفیکیشن بتاریخ 13 جولائی 2009 کے مطابق نکالا اور گورنمنٹ کے مطابق ھر ایک کی پنشن میں جو 1996 کے بعد ریٹائر ھوا ، اس کی پنشن 15% کا اضافہ یکم جولائی 2009 سے دیا گیا . مگر جب یکم جولائی 2010 سے حکومت اپنے 5 جولائی 2010 کے نوٹیفیکیشن کے زریعے گورنمنٹ پنشنرس کی پنشن میں نہ صرف :::: اضافہ کیا بلکے میڈیکل الاؤنس بھی دیا , تو ان پی ای ٹی نے پہلے اپنے لیٹر بتاریخ "8 اگست 2010 " تمام پاکستان کے پوسٹ ماسٹرس کو ایم ڈی پی ٹی ای ٹی نے ، ٹرسٹ کے بوڑڈ آف ٹرسٹیز کی طرف سے یہ لکھ کر بھیج دیا کے کسی کے کسی بھی پی ٹی سی ایل پنشنر گورنمنٹ والی پنشن انکریز اور میڈیکل الاؤنس جو حکومت نے یکم جولائی 2010 سے دیا ھے ،نہ دیا جائۓ [ یاد رھے اس زمانے میں ماہانہ پنشن صرف GPOs اور Post offices سے ھی ملا کرتی تھی] ، جبتک کی اسکی اپروول ، پی ٹی ای ٹی کا بوڑڈ آف ٹرسٹی نہ دے.اور اسی لیٹر بتاریخ 8 اگست 2010 کو محمد عارف صاحب اور دوسرے ایس پی ٹی سی ایل پنشنروں نے اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں اپنی رٹ پٹیشن 148/2011 کے زریعے جنوری 2011 میں چیلنج کردیا اور پھر جب پی ٹی ای ٹی نے اسی کے بارے ے صرف 8% پنشن انکریز ا نوٹیفیکیشن نمبر No. Pen/PTET/LHR/1110 dated 27-1-2011 جس میں ایک تو پنشن گورنمنٹ کے ::::: 8% کا نکالا اور میڈیکل الاؤنس بھی غآئب کردیا تو رٹ پٹیشن 148/2011 کو اسکے مطابق amend کرنے کی درخواست داخل کردی گئ جو عدالت نے 2011-2-4 کو عدالت نے منظور کی اور فیصلہ دسمبر 2011 کو دیا ، جو اوپر اسی پیرے میں بتاچکا ھوں . تو اب یہ 22 دسمبر 2017 کا یہ نوٹیفیکیشن اسکی بالکل نفی ھے . جسکے لئے یہ بہت ضروری امر ھے کے ان کمبختوں کے خلاف سپریم کوڑٹ میں فورن ایک زبردست قسم کی Contempt of Court کی درخواست فورن سے پیشتر عدالت عظمی میں داخل کردیجائۓ. اس سے پہلے یہ اور سر پر چڑھیں اور عدالت کی مزید توھین کریں اور اگلے سال اس سے بڑھکر زیادتی اور توھین عدالت کریں ، اگر انکو روکا نہ گیا.
تو پہلے اب محمد عارف اور صادق علی کو یہ چاھئے کے وہ اس نوٹیفیکیشن کی کاپی لگا کر عدالت میں فورن ایک درخواست (CMA) لگا اپیل کریں ، جہاں انکے توھین عدالت کے کیسز چل رھے ھیں اور عدالت کی توجہ اسطرف مبزول کرائیں کے وہ تو انکے عدالت توھین انکے خلاف تو توھین عدالت کا کیس سن رھی ھے اور یہ لوگ پھر بھی ڈھٹائی دیدہ دلیری اور بڑی بےشرمی سے عدالت کے احکامات کو نظر انداز کررھے ھیں جو اسنےان ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھونے ملازمین کے حق میں دئیے تھے ، جو ٹی اینڈ سے ٹرانسفر ھوکر پہلے کارپوریشن میں آئے اور ریٹائیر ھوئےاور پھر یکم جنوری1996کو ٹرانسفر ھوکر پی ٹی سی ایل میں آئے اور جن کو گورنمنٹ والی پنشن دینے کا حکم عدالت عظمی نے اپنے ۱۲جون ۲۰۱۵ کے فیصلے میں کہا . بجائے اسکے کے وہ عدالت عظمی کے ان احکامات کی تعمیل کریں ، مگر یہ تو ڈھٹائی پر اترے ھوئے ھیں اور عدالت کے حکم کو خاطر میں نہیں لارھے. یہ لوگ [ پی ٹی ای ٹی کے بوڑڈ آف ٹرسٹیز کے ممبرز ) ایسی اپروول دے کر جسکا یہ ۲۲ دسمبر ۱۷ کا یہ نوٹیفیکیشن نکالا گیا ، اس سے عدالت عظمی کو یہ باور کرانا چاھتے ھیں کے ھم جو بھی کریں گے اپنی مرضی سے کریں گے تمہارے حکم کی ایسی کی تیسی . . . جو کرنا ھے کرلو ھم تمھارا یہ حکم قبول کرنے سےانکار کرتے ھیں اور ان ریٹائڑڈ ملازمین پنشنرس کو گورنمنٹ جیسا پنشن انکریز نھیں دے سکتے . وھی دںیں گے جو ھماری مرضی پہلے 8% دے رھے تھے اب 7.5% اور 6% دے رھے ھیں . " محمد عارف صاحب کے وکیل عپاسی صاحب کو تو معزز جج جو یہ توھین عدالت کا کیس سن رھے ھیں انسے یہ ضرور پوچھنا چاھئے " کے جناب آپ تو ایم ڈی پی ٹی ای ٹی سخت باز پرس کررھے تھے کے انھوں نے اسی عدالت کے ۲۱دسمبر ۲۰۱۱ پر عمل کیوں نہیں کیا اسکا حلف نامہ لکھ کر دیں کے کیوں عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے انکے خلاف تادیبی کاروائی کیوں نہ شروع کی جائے. آپ تو یہ حکم دے رھے تھے اپنے 27 ستمبر 2017 کے آڈر میں , جو آڑڈر شیٹ پر لکھا ھوا ھے . اور یہ لوگ یہ جرکتیں کررھیں باوجود اس کے کے اسی عدالت کے، ۲۱دسمبر ۲۰۱۱ والے اس عدالت کے احکامات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے انپر توھین عدالت کا کیس چل رھا ھے . یہ تو ھے انکی ڈھٹائی کا حال . کیا رہ گئی اس عدالت کی توقیر؟؟؟؟؟؟؟". یہ موصوف جج ، چونکے کبھی پی ٹی سی ایل کے وکیل رہ چکے ھیں ، تو ان سے یہ امید رکھنا کے وہ پی ٹی سی ایل کے خلاف فیصلہ دیں گے، سورج کو چراغ دکھلانے کے موافق ھے. یہ محمد عارف صاحب کی بڑی ھی بدقسمتی نہیں ھے تو ھے اور کیا کر سکتے ھیں. ادھر صادق علی کے توھین عدالت کے کیس میں ، سپریم کوڑٹ کے یکم نومبر 2017 کے حکم کے مطابق پی ٹی ای ٹی نے جو پنشن انکریزز کی رقم ، 1133 پٹیشنر پینشنرس کی جس میں وی ایس ایس اور نارمل ریٹائری شامل ھيں ، لسٹوں کے ساتھ سپریم کوڑٹ میں جمع کرائی گئی ھے وہ بالکل 180 ڈگری آؤٹ آف فیز ھے ، عدالت عظمی کے ۱۲جون ۲۰۱۵ کے احکامات کے مقابل سے . بلکے یوں کہنا زیادہ مناسب ھوگا یہ تو اسی طرح کی ھے کے جسطرح کا یہ ۲۲ دسمبر ۱۷ کا نوٹیفیکیشن نکالا گیا ھے .یہ تو ھے پی ٹی ای ٹی کی ڈھٹائی کا عالم. اب صادق علی کے وکیل نے اپنے دلائیل سے اسکو پھر, سراسر عدالت عظمی کے ۱۲جون ۲۰۱۵ کے احکامات کی سراسر سخت توھین ثابت کرنا ھے .اور اس بات پر زور دینا ھے کے جو اس عدالت عظمی نے ۱۲جون ۲۰۱۵ کو احکامات جاری کئے تھے اسی کے مطابق پنشن دوبارا بنائی جائے اور ایسا کچھ نہ کہا جائے کے وی ایس ایس والوں کو اتنا اور نون وی ایس ایس کو اتنا وغیرہ وغیرہ، کیونکہ ۱۲جون ۲۰۱۵ کے عدالت عظمی کے فیصلے میں ایسی کوئی بھی بات نھیں لکھی تھی صرف یہ لکھا تھا کے پی ٹی ای ٹی ان ٹرانسفڑڈ ملازمین کو پی ٹی سی ایل میں ریٹائر ھونے کے کے بعد وھی پنشن انکریز دینے کی پابند ھے جسکا اعلان گورنمنٹ آف پاکستان کرتی ھے .اور کبھی بھی گورنمنٹ آف پاکستان نے یہ اعلان نھیں کیا کے وی ایس ایس لینے والے پنشنروں کو اتنا دینا ھے اور وی ایس نہ لینے والے پنشنروں کو اتنا دینا ھے .یہ تو ان زلیل پی ٹی ای ٹی کے بوڑڈ آف ٹرسٹیز کی اپنی منطق ھے ، جس کا چئیرمین وھی یزید پی ٹی سی ایل کا سید مظہر حسین ھے جو کبھی بھی ان ریٹائڑڈ ملازموں کا بھلا نھیں چاھتا جو ٹی اینڈ ٹی یا پی ٹی سی میں بھرتی ھوئے تھے . اسلئے اسی نے ان ٹرسٹیز کے گورنمنٹ کے تین مممبروں کو کسی نہ کسی طرح پٹاکر انکو رشوت اور مراعات دے کر انکے ووٹ حاصل کرکے یہ فیصلہ کرایا ھو کیونکے 6 ممبروں کے بوڑڈ آف ٹرسٹیز میں تین ممبرز تو پی ٹی سی ایل کے ھوتے ھیں اور تین ممبرز گورنمنٹ کے. تو یہ تین ممبرز جنکا تعلق منسٹری آف انفارمیشن ٹیکنولیجی اینڈ ٹیلیکام سے ھے ، انکے نام ھیں ۱) سید خالد گردیزی جوائنٹ سیکرٹیری ایڈمن، ۲) مسٹر یاسین قادر ڈائیریکٹر ٹیلیکام اور ۳) مسٹر ناصر ایاز ڈائیریکٹر لیگل اور جو ممبرز پی ٹی سی ایل کی جانب سے ھیں انمیں ، ۱) سید مظہر حسین ایس ای وی پی ( سی ایچ آر او ) جو اس بوڑڈ آف ٹرسٹیز کا چئیر مین بھی ھے، ۲) مسمات زاہدہ اعوان ای وی پی(لیگل) [ آپ لوگوں کو یہ بات بھی اپنے مد نظر رکھنی چاھئے کے کے یہ موصوف زاہدہ اعوان صاحبہ وھی ھیں جو پی ٹی سی کی طرف سے ھمیشہ ھر کیسس میں وکیل بھی ھوتی ھیں . اور وہ لوگ انکو اچھی طرح جانتے ھیں کے وہ ھمیشہ کوڑٹ روم سے نکل کر عدلتی کاروائی ختم ھونے کے بعد کیا دھمکی دیتی تھیں کے میں دیکھتی ھیں کے کیسے انکو گورنمنٹ والی مراعات ملیں گی] اور ۳) مسٹر جمال اختر ای وی پی ( اکاؤنٹس) [نوٹ ، یہ تمام نام جو میں نے یہاں تحریر کئے ھیں یہ سب پی ٹی ای ٹی کے ویب سائٹ پر اب بھی موجود ھیں]. . پی ٹی ( ری آرگنائیزیشن ) ایکٹ 1996 کلاز (1)47 کے تحت بوڑڈ آف ٹریسٹیز کے فیصلے کا دارومدار میجاڑٹی ووٹ سے ھوتاھے اور اس میں دونوں طرف کے ممبروں یعنی حکومت اور پی ٹی سی ایل کے ایک ایک ممبرکا ایک ووٹ ضرور شامل ھونا چاھئے . اسکا مطلب يہ ھے کے اگر حکومت یا پی ٹی سی ایل کے تمام تینوں ممبرز کسی فیصلے پر ووٹ دینے سے انکار کر دیں تو وہ فیصلہ نہیں ھوسکتا اور اسی ایکٹ کی کلاز(2)47 کے تحت چئرمین پی ٹی ای ٹی کے بوڑڈ آف ٹرسٹیز کا کاسٹنگ ووٹ نہیں ھوتا . بوڑڈ آف ٹرسٹیز کا اجلاس بلانے کی زمہ داری صرف اسکے چئرمین کی ھوتی ھے . جبھی تو یزید مظہر حسین کبھی اجلاس بلاتا ھی نہیں تھا تا وقتیکے وہ ان حکومتی ممبرز کوئی بارگیننگ کرکے اس بات پر مکمل کامیابی حاصل نہ کرلے کے جو فیصلہ ھوگا اسکی مرضی کے مطابق ھی کیا جائیگا یقینن وہ ایتصلات کے مفادات اور فائیدےکے مطابق ھی ھوگا نہ کے پی ٹی سی ایل پنشنرس کے فائدے کے ؟؟؟؟
اب میں اس اہم بات کی طرف آتا ھوں جسکا زکر میں نے اوپر پہلے پیرے میں کہا تھا . اس مجوزہ نوٹیفیکیشن بتاریخ 20 دسمبر 2017 کے ایشو ھونے کے تین یا چار درن بعد مجھے میرے واٹس ایپس نمبر پر ایک unknown نمبر کی کال , کوئی رات ۱۱ بجے کے قریب آتی ھے جب میں سونے کی تیاری کررھا ھوتا ھوں . کال کرنے والا مجھے بتاتا وہ پی ٹی سی ایل میں ایک اھم آفیسر کا پی اے ھے اور اس نے مجھے کال ، ایک اھم اندر کی بات بتانے کے لئے صرف اسلئے کی ھے ، کے چونکے میں فیس بک اور اپنے بلاگ پر پی ٹی سی ایل پنشنر کی معلومات اور انکا حوصلہ بڑھانے کے لئے ادرو آڑٹیکلز لکھتا رھتاھوں جس کو یہ پنشنرس بڑے شوق اور غور سے پڑھتے ھیں، اسلئے اسنے یہ مناسب سمجھا کے یہ اندر کی بات مجھے بتائی جائے تاکے میں اسکو آپلوگوں تک پہنچا سکوں . اس نے مجھے یہ بات حلفن بتائی کے 4 دسمبر2017 کو بوڑڈ آف ٹرسٹیز کی میٹنگ سید مظہر حسین کی چئیر مین شپ میں شروع ھوئی تو سید مظہر حسین اور زاہدہ اعوان نے یہ کہا کے ھم بوڑڈ آف ٹرسٹیز کو پی ٹی سی ایل کے پنشنرس کو پنشن میں انکریز گورنمنٹ والا نہیں دینا چاھئیے اس کی وجہ سے پی ٹی سی ایل پر بڑا بوجھ پڑے گا کیونکے انکے بقایا جات کے لئے بھی ایک بڑی رقم چاھئیے ھوگی اور اگر ھم اپنی مرضی سے کم سے کم پنشن انکریز دیں گے تو نہ ھمیں بقایا جات دینے پڑيں گے اور کم زیادہ رقم پنشن انکریز کی دینی پڑے گی . اور جہاں تک عدالتوں کے فیصلوں کا تعلق ھے، وہ کسی نہ کسی طرح مختلف disputes میں ڈال کر انکو linger on کرتے رھیں گے جیسا کے اب کر رھے ھیں. مگر یہ بات گورنمنٹ کے تینوں ممبران نے ماننے سے انکار کردی اور کہا کے وہ سپریم کوڑٹ کے احکامات کے خلاف نہیں جاسکتے .اس پر کافی بحث اور لےدے اور تکرار ھوئی . پی ٹی سی ایل کے ممبران کسی طرح سے بھی راضی نہیں تھے کے ان پنشنرس کو گورنمنٹ والا انکریز نہ ملے . چئیر مین نے اس پر ووٹنگ نہیں کرائی کیونکے اسکو خدشہ تھا کے پی ٹی سی ایل کے صرف دو ممبرانز کا ھی ووٹ کاؤنٹ ھوگا اور وہاں تین ووٹ حکومتی ممبران کے پنشنرس کو گورنمنٹ کی طرح پنشن انکریز دینے کے حق میں آگئے ، تو پی ٹی سی ایل اور ایتصلات کو بہت ھ نقصان ھوگا . اسلئے اس دن وہ میٹنگ بغیر کسی فیصلے کے ختم ھوگئی [ نوٹ یاد رھےیہ خبر لیک ھوئی تھی کے بوڑڈ کی میٹنگ بے نتیجہ رھی. اور ختم ھوگئی ] . بعد میں پتہ نہیں کسطرح یہ 20 دسمبر 2017 کا یہ مجوزہ نوٹیفیکیشن ایشو کردیا گیا ، کے یہ فیصلہ 4 دسمبر 2017 میں بوڑڈ کی 81 ویں میٹنگ میں ھوا . حیرانی کی بات تو یہ ھے نہ کوئی اس دن ووٹنگ ھوئی بلکے صرف بحث اور بحائث میں وقت ضائع ھوگیا تھا تو یہ فیصلہ کب ھوا اور اس پر ووٹنگ کب ھوئی . اس پی اے نے مجھ کو اپنا نام تک بتادیا اور کچھ اور راز بھی افشاء کئے جو میں آپ سے مناسب موقع پر پھر شئیر کروں گا. چونکے اسنے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کو کہا ھے. اسلئے میں اسکو کسی پر بھی کبھی افشاں نہیں کروں گا. میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کے اس کی ان باتوں میں کہاں تک صداقت ھے اور نہ اس بات کو کنفرم کرسکتا ھوں کے یہ بلکل سچ ھیں، ہاں مگر یہ ضرور کہہ سکتاھوں حالات اور پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کا موجودہ طرز عمل اور عدالتی احکامات کو نہ ماننے پر ترجیح دینا ، بلکے اس کے خلاف جانا اور خاص کرکے ، بوڑڈ آف ٹرٹیز آف ٹرسٹیز اس کے اسکے چئیر مین یزید سید مظہرحسین کا عدالتوں کے خلاف منفی طرز عمل ،پی ٹی سی ایل کے ملازمین کے حق میں آئے ھوئے فیصلوں پر ، وہ کتنی بار اپنی تقریروں میں کہہ چکاھے کے پی ٹی سی ایل ایک کمپنی ھے اور اس ادارے کے تمام ملازمین پرائویٹ ملازم ھیں اور انپرےعدلت کے ایسے احکامات لاگو نہیں ھوسکتے ، اس بات کی طرف صریحن اشارہ کررھے ھیں کے آیا دال میں کچھ کالا ھے یا پھر پوری دال ھی کالی ھے؟؟؟؟؟؟؟. مجھے یہ بات بہت pinch کررھی ھے کے اگر4 دسمبر 2017 کو پوڑڈ آف ٹرٹیز کا اجلاس ھواتھا اور یہ فیصلہ ھوگیا تھا تو اس فیصلے کا نوٹیفیکیشن سولہ دن کی تاخیر سے کیوں نکالا گیا ؟؟؟؟. اور دوسرے اسے ڈایریکٹر پنشن نے کیوں نہیں نکالا جیسا وہ ھمیشہ نکالتے آئے ھیں . اور اگر یہ فیصلہ 4 دسمبر 2017 کو نہیں ھوا تو کب ھوا؟ اور کب اس پراور کیا ووٹنگ بھی ھوئی یانہیں . اور اگر کسی اور دن 4 دسمبر 2017 کے بعد ھی ھوئی اور گورنمنٹ کے ممبران نے کسی کے دھمکی میں آکر یا کسی چمک کی وجہ سے اپنا ضمیر بیچ دیا تو کب یہ بیچا ؟؟؟؟؟ اور ایسا drastic فیصلہ کیسے کیا گیا جو عدالت عظمی کے 12 جون 2015 کے احکامات کی سراسر خلاف ورزی اور سخت توھین ھے. یہ سب سوچنے کی بات یا باتیں ھیں ؟؟؟؟؟؟
آپلوگوں کے لئے ایک اور اھم بات بھی نوٹس میں لانا چاھتا ھوں کے اس مجوزہ 20 دسمبر 2017 کے تحت 7.5% پنشن انکریز دیا گیا ھے نون وی ایس ایس پنشنرس کو . مگر پی ٹی ای ٹی نے ان پٹیشنر پنشنرس جو محمد عارف صاحب کیطرف سے اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں ڈاالیگئی اپیل یعنی W.P148/2011 کا حصہ تھے انکی پنشن پہلے انھوں نے انکی incentive کاٹ کر انکی پنشن بنائی جو کسی کی موجودہ پنشن سے کم بنی اورکسی کی کچھ ھی زیادہ . اس پنشن میں انھوں نے 10% یکم جولائی 2017 اضافہ کرکے انکو اسکا اسکا arrears یکم جولائی 2017 سے 30 نومبر2017 تک کا دیا اور دسمبر 2017 کی کی نئی پنشن 10% کے ساتھ دی . اور یہ تمام رقم انکے پنشن اکاؤنٹ میں دی . اس بات کا مجھے جب پتہ چلا جب میرے ایک بیچ فیلو جو 2009 میں ریٹائیر ھوئے تھے جنکی ماہانہ پنشن بھی وھی تھی جو میری تھی ، جبکے میں جنوری 2012 میں ریٹائر ھوا تھا. مگریہ میرا بیچ فیلو اس پٹیشن کا بھی حصہ تھا جو محمد عارف صاحب نے کیا تھا اور جسکا فیصلہ 21 دسمبر 2011 کو آیا تھا . اسکے پنشن بنک اکاؤنٹ میں دسمبر 2017 کی پنشن کے ساتھ کل رقم جو جمع کرائی گئی وہ ایک لکھ بیس ہزار سے زیادہ تھی . جبکے میرے بنک پینشن اکاؤنٹ میں صرف 7.5%کے حساب سے پنشن جمع ھوئی . میں نے جب اس بات کی انکوائری کی تو مجھے معلوم ھوا کے اسلام آباد عدالت کے جج اطہر من اللہ کے حکم پر ایک کمیٹی بنائی گئی ھے جن میں سے ایک ممبر پی ٹی ای ٹی کی طرف سے تھا اور دوسرا ان پنشن پٹیشنرس کی صرف سے جو اس رٹ پٹیشن W.P148/2011 کا حصہ تھے . پی ٹی ای ٹی کی طرف سے محمد فاروق جی ایم پی ٹی ای ٹی نے ان لوگوں "پٹیشنر پینشنرس" کو باری باری اپنے آفس میں بلایا اوھر ایک کی پنشن میں سے incentive pays کاٹ کر کر انکی نئی پنشن فکس کردی کسی کی کم ھوئی کسی کی زیادہ اور ساتھ یہ بھی کہا کے جو پنشن فکس کی ھے اس پر گورنمنٹ کے مطابق اسکو ھرف یکم جولائی سے صرف ایک دفعہ گورنمنٹ والا انکریز ملے گا اور ساتھ یہ بھی کہا کے اتنی اتنی ریکوری کی جائیگی کسی کی 14 لاکھ کی دکھائی اور کسی کی 44 لاکھ کی یہ سب گریڈ 20 کے افسران تھے . ان لوگوں نے بڑا اجتجاج کیا اور کہا کے یہ آپ کیا کررھے ھیں بجائے ھماری پنشن میں اضافہ گورنمنٹ کا اعلان کردہ جو آپ نے غیر قانونی طور پر یکم جولائی 2010 سے ختم کردیا تھا آپ کو تو وہ دینا جسکا عدالت نے حکم دیا کجا یہ کے آپ ھماری پنشن بڑھانے کے اس میں سے کٹوتی کررھے ھیں اور کم سے کم کررھے ھیں ، اور عدالت کے احکامات کی سخت خلاف ورزی مگر فاروق جی ایم پی ٹی ای ٹی نے انکی ایک بات ان سنی کردی بلکے رہ ہر ایک کو لتاڑتا رھا کے یہ ہی ملے گی اور کٹوتی بھی ھوگی .اسکی رپوڑٹ عدالت کو دے دی جائیگی . اس کی باتوں سے سے یہ ظاہر ھوتا تھا کے عدالت جج پی ٹی ای ٹی کے ساتھ ملے ھوئے ھیں اور وہ وہی فیصلہ کریں گے جو پی ٹی ای ٹی چاھے گی .یہ بات مجھے میرے اس پٹیشنر پنشنر دوست اور میرے بیچ فیلو نے بتائی جسکی پنشن کو کٹوتی وغیرہ کرکے کچھ بڑھا دیا اور اب اسپر 10 % انکریز کرکے زیادہ پنشن ور بقایا جات دئیے ھیں جسکا زکر اوپر کرچکا ھوں . یہ میرا دوست جی ایم پی ٹی ای ٹی کے بلانے کے دن سے ایکدن میرے پاس میرے گھر آیا تھا تو اسکو میں نے اسکے گریڈ یعنی B-19 کی یکم جولائی 2010 سے گورنمنٹ والے انکریز لگاکر اسکی پنشن کیلکولیٹ کی اور یہ بتایا کے اسکی گونمنٹ کی يکم جولایئی 2017 کے 10 % انکریز لگانے کے بعد اسکی ماہانہ پنشن يکم جولایئی 2017 سے تقریبن 79500 روپے ماہانہ ھوجائیگی صرف انیس یا بیس کا فرق ممکن ھے . بقول میرے اس دوست کے کے اس نے جب یہ رپوڑٹ جی ایم پی ٹی ای ٹی کو دکھائی ، تو جی ایم نے وہ رپوڑٹ پرے پھینک دی اور کہا کے یہ غلط ھے اور اسکی پنشن صرف 64600 روپے ماہانہ یکم جولائی 2010 سے بنائی . میں نے تو اپنے دوست سے کہا تھا کے تم اکڑجانہ اور یہ ھی کہنا کے میں وھی لوں گا جو میں نے بنائی تھی . بقول اسکے کے وہ ( یعنی محد فاروق جی ایم پی ٹی ای ٹی) کسی کی بات کو بھی خاطر میں نہیں لارہا تھا بس اپنی بات کئے اور یہ بکواس کئیے جارھا تھا اور بس اس بات پر مصر تھا کے وہ لوگ یعنی وہ پٹیشنر پنشنرس جو اس رٹ پٹیشن کا حصہ تھے ، یعنی جنھوں نے اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں محمد عارف صاحب کے ساتھ مل کر کیس کیا تھا یعنی WP 148/2011 میں شامل تھے ، میرے علم میں یہ بات آئی جو مجھے ان ھی کچھ دوستوں نے بتائی ھے کے پی ٹی ای ٹی نے باوجود اس قسم کا 20 دسمبر والا نوٹیفیکیشن نکالنے کے، ان لوگوں میں سے یعنی ان پٹیشنر پینشنرس کی کسی کی انکریز پنشن یکم جولائی 2017 سے 7.5% بڑھائی کسی کی 10% اور کسی کی بڑھائی تک ھی نھیں . عجیب غیر منطقی اور غیر قانونی اور عدالت عظمی کے حکم کے خلاف یہ پی ٹی ای ٹی والے سکھ لوگ عجیب گیم کھیل رھے ھیں اور ان زلیلوں کو کوئی بھی پوچھنے والا نہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟
آخر میں یہ ایک بات کہنا چاھتا ھوں کے اس صورت حال سے ھمیں برمژدہ یا مایوس نہیں ھونا چاھئے بلکے اور تندھی سے انکے خلاف توھین عدالت کیسس کرنے کا اور ھڑتال یا دھرنا کرنے کا عمل چاھئے . اب اگر ھم صرف اس نا امیدی کے عالم مں ھاتھ پر ھاتھ رکھکر بیٹھ گئے تو اس سے صرف ھماری سات سال کی محنت رائیگاں جائیگی بلکے انکے حوصلے اور بڑھ جائیں گے اور یہ ھم کو اور مزید پریشان کریں گے . میں نے آپلوگوں کو پہلے اپیل کرنے کے لئے جو Sample Drafted Appel/ Notice وغیرہ بھیجے تھے کافی لوگوں نے انکو نوٹسس دے دئے کے پندرہ دن کے اندر پیمنٹ دیں ورنہ توھین عدالت کا کیس کرینگے . کچھ لوگوں نے کیس کردئیے ھیں اور کچھ کرنے کے لئے پر تول رھے ھیں ، مجھ سے مشورہ مانگ رھے ھیں کے کیا اور کیسے کیس کریں .انکے کے لئے میں توھین عدالت کیس کرنے کا ایک ڈرافٹ تیار کررھا ھوں اور انشاللہ دو یا تین روز میں اپنے اگلے آڑٹیکل 49 کے زریعے فیس بک اور اپنی بلاگ سائیٹ پر اپلوڈ کردوں گا . آپ لوگ کو ئی اچھا وکیل کرکے اس ڈرافٹ کی Proper vetting کراکر وکیل سے اچھی سے contempt of court کی application بنواکر، کسی اپنی متعلقہ ھآئی کوڑٹ یا پھر سپریم کوڑٹ میں ان کے خلاف ، جنکو آپنے یہ نوٹسس بھیجے تھے ، ضرور بہ ضرور توھین عدالت کا کیس کریں . ڈرنے کی بات بالکل نہیں ھونی چاھئیے "کیونکے جو ڈر گیا وہ مر گیا".
واسلام
محمد طارق اظہر
ریٹائڑڈ جی ایم ( آپس) پی ٹی سی ایل
راولپنڈی
16 جنوری 2018
شب بارہ بجکر دس منٹ
Comments