Article-50[HSCP verdicts of dated 15th Feb 2018 is ultravires
نوٹ:- آپ سب پی ٹی سی ایل کے دوستوں سے التماس ھےمیرے اس مندرجہ ذیل آڑٹیکل۵۰ کو بڑے غور سے اور مکمل پڑھیں . بہت اھم باتیں لکھیں ھیں . یہ زیادہ طویل نہیں ھے. پڑھنے کے بعد اپنی آرا سے ضرور نوازیں. شکریہ
طارق
Article-50( 20-3-2018)
سپریم کوڑٹ کا 15 فروری 2018 کو توھین عدالت کیس میں دیا گیا ھوا متنازعہ اور غیر انصاف فیصلہ؟؟؟؟؟؟
اس بات میں کسی کو زرا سا بھی شک نہيں ھونا چاھئیے کے سپریم کوڑٹ کے دو معزز ججز ممبر بینچ کا 15 فروری 2018 کو ، نسیم وھرہ اور صادق علی کی پی ٹی ای ٹی کی کو توھین عدالت کیسمیں دیا گیا ھوا فیصلہ ultravires ( یہ قانونی اصطلاح ھے) تھا . یعنی ان معزز دو ججوں کے یہ خارج از اختیار ھی نہیں تھا کے وہ کے وہ پچھلے تین معزز ججز کے فیصلے کے خلاف ایسا فیصلہ دیتے اور جو انصاف کے بھی سنہری اصولوں کے خلاف بھی تھا. یہ تو توھین عدالت کا کیس تھا. اس میں عدالت توھین عدالت کے الزام لگنے والے سے صرف یہ باز پرس کرتی ھے کے اس نے عدالتی احکامات پر کیوں عمل نہیں کیا اور کیوں نہ اسکے ساتھ اس پر اس حکم عدولی پر اسکے خلاف توھین عدالت کی کاروائی کی جائے. یہ نہیں کے جو توھین عدالت کررھاھے اسی کی بات کو مان کر عدالتی حکم کا حصہ بناکر پورے کیس کو ھی ختم کردیا جائے جیسے اس کیس میں ھوا . ان دو معزز جج حضرات نے یہ خیال نہیں کیا کے وہ یہ کیا حکم دے رھے ھیں یہ تو اسی عدالت کے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے اس عدالتی حکم کو modify یعنی اس پر نظر ثانی کررھے ھیں جو تین معزز ججز نے دیا تھا ،جسکی نظرثانی کی اپیل تو پہلے ھی خارج ھوچکی ھے . اس فیصلے میں تو یہ کہا گیا تھا جو انکے concluded پیرا 20 میں درج ھے " جو وجوھات اوپر بیان کی گئیں ھیں اس سے ھم اس نتیجےپر پہنچے ھیں کے Respondents جو ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین تھے اور کارپوریشن اور کمپنی میں ٹرانسفر ھوکر ریٹائیڑڈ ھوئے وہ اسی پنشن کے حقدار ھیں جسکا اعلان گورنمنٹ آف پاکستان کرتی ھے اور ٹرسٹ اس کا پابند ھےکے اس پر ایسے ھی عمل کرے جو ایسے ملازمین کے لئے کیا گیا ھے . اس نتیجے پر یہ تمام اپیلیں ڈسمس کی جاتی ھیں" . جبکے ان respondents وہ پی ٹی سی ایل پنشنرس بھی شامل تھے جو وی ایس ایس قبول کرکے ریٹائيڑڈ ھوئے تھے اور وہ بھی جو نارمل طریقے سے بغیر وی ایس ایس قبول کئے ھوئے ریٹائیڑڈ ھوئے تھے . ان میں صادق علی ریٹائڑڈ پنشنر تھے جو وی ایس ایس لے کر ریٹائڑڈ ھوئے تھے جنکے حق میں پشاور ھائی کوڑٹ نے 3 جولائی 2014 کو انکو گورنمنٹ والی پنشن لینے کا حقدار قرار دیا تھا [صادق علی جنکے حق میں پشاور ھائی کوڑٹ نے یہ فیصلہ دیا کے وہ ٹی اينڈ ٹی میں ملازم ھوئے تھے اورپہلے کارپوریشن یعنی پی ٹی سی میں ٹرانسفر ھوئے اور پھر وہاں سے کمپنی میں یعنی پی ٹی سی ایل میں اسلئے ان پر مسعود بھٹی کیس میں سپریم کوڑٹ کے فیصلے کے مطابق گورنمنٹ کے سرکاری قوانیں کااطلاق ھوتاھے اسلئے وہ گورنمنٹ والی پنشن لینے حقدار تھے] . جسکے خلاف پی ٹی ای ٹی نے یہ اپیل داخل کی تھی جسکو سپریم کوڑٹ نے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کا مندرجہ بالا حکم دے کر پی ٹی ای ٹی کی یہ اپیل بھی خارج کردی تھی . تو صادق علی بحیثیت وی ایس ایس لے کر ریٹائیری وہ گورنمنٹ آف پاکستان کی پنشن لینے کے اسلئے حقدار تھے کیونکے وہ ایسے ھی respondent تھے جو ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئے اور پھر جیسا عدالت نے اپنے حکم میں کہا وہ کارپوریشن اور کمپنی میں ٹرانسفر ھوکر 2008 میں وی ایس ایس لے کر ریٹائڑڈ ھوئے اسلئے وہ ۱۲ جون ۲۰۱۵ کو تین رکنی بینچ کے فیصلے کے مطابق گورنمنٹ پنشن لینے کے اسی طرح حقدار تھے جس طرح نارمل طریقے سے ریٹآئیڑڈ ھونے والوں کا ھے. مطلب یہ ھوا کے سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ کے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے میں اس بات کا کوئی حکم نہیں تھا کے جو respondents وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائڑڈ ھوئے تھے وہ گورنمنٹ پنشن لینے کے حقدار نہیں . پھر جب پی ٹی ای ٹی کی رویو پٹیشن بھی اس فیصلے کے خلاف جب سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے 17مئی 2017 خارج کی اس میں ایسی میں بھی اس بات کا حکم نھیں دیا گیا تھا کیونکے اگر حکم ھوتا تو اس طرح انکی رویو پٹیشن Accept ھوجاتی . مگر یہ کیسے modified بھی ھوتی کیونکے پی ٹی ای ٹی نے جو رویو پٹیشن داخل کی تھی وہ انکے وکیل خالد انور نے لکھی تھی اس میں سارا زور اس بات پر تھا کے یہ respondents کمپنی کے ملازمین ھیں اور انکو گورنمنٹ کی پنشن نھیں دی جاسکتی . اسلئے وہ یہ بات کیسے لکھ سکتے تھے کے وی ایس ایس لے کر ریٹآئڑڈ ھونے والوں کو یہ گورنمنٹ والی پنشن نھیں دی جاسکتی اور نارمل کو دی جاسکتی . انھوں نے تو رویو پٹیشن میں پی ٹی ای ٹی کی یہ استدعا لکھی تھی کے انکوپنشن انکریز دینے کے لئے ایک خطیر رقم تقریبن 22 ارب دینے پڑیں گے جو نہیں دئیے جاسکتے اسلئے انکے خلاف کوئی adverse order نہ دیا جائے . تو سوال اب پیدا ھوتا ھے جب یہ بات نہ انھوں نے اپنی رویو پٹیشن میں نا ھی لکھی تھی اور نہ ھی انکی رویو پٹیشن قبول ھوئی تو پھر یہ جو انکے خلاف توھین عدالت میں عدالت نے کیسے یہ انکی ایما پر یہ آڑڈڑ پاس کردیا کے "ماسوائے(beside) وی ایس ایس قبول کرکے ریٹائڑھونے والے پٹیشنرس کے اور پٹیشنیرس کو یہ پنشن بغیر کسی incentive pay کی کٹوتی کے پنشن دے دی جائیے.
جیسا کے میں نے اوپر ذکر کیا کے عدالت نے اپنے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے حکم میں پی ٹی ای ٹی کو ان Respondents کو گورنمنٹ آف پاکستان کے اعلان کردہ پنشن دینے کو کہا تھا. یہ تمام Respondents ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھونے والے ملازمین تھے جو کارپوریشن اور کمپنی میں ٹرانسفر ھوکر ریٹائیر ھوگئے تھے. ان Respondents میں TPA بھی تھی یعنی " ٹیلی کام پنشنرس ایسوسی ایشن" . جو ملک کے تمام پنشنرس کو represent کررھی تھی [ اسکے رجسٹریشن کاپی کی فوٹو کاپی نیچے لگا رکھی ھے . آپلوگوں کی اطلاع کے لئے ]. تو جب ان تمام Respondents کو سپریم کوڑٹ نے اپنے 12 جون 2015 کے حکم نامے میں ، پی ٹی ای ٹی کو گورنمنٹ آف پاکستان کی اعلان کردہ پنشن دینے کا حکم دیا تھا تو یہ حکم ، اس میں ایک Respondent ٹیلی کام پنشنرس ایسوسی ایشن یعنی TPA کے لئے بھی تھا جو وہ تمام پاکستان کے پی ٹی سی ایل پنشنرس کو represent کررھی تھی . چاھے وہ نارمل طریقے سے ریٹائڑڈ ھوئے ھوں یا وی ایس ایس لے کر . ان پنشنروں میں وہ لوگ بھی شامل ھیں جو ٹی اینڈ بھرتی ھوئے اور وھیں ریٹائيڑڈ ھوگئے تھے اور وہ جو ٹی اینڈ ٹی بھرتی ھوئے اور پھر پی ٹی سی اور پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفڑڈ ھوکر ریٹائڑڈ ھوئے ھوں اب چاھے ایسے پی ٹی سی ایل پنشنرس نارمل طریقے سے ریٹائڑڈ ھوئے .
سپریم کوڑٹ کو یہ توھین عدالت کا کیس جو پی ٹی سی ایل کے سابقہ پریزیڈنٹ ولید ارشاد اور حمید فاروق ایم ڈی پی ٹی ای ٹی جو نسیم وہرہ نے TPA کی طرف سے اور صادق علی نے ، ۱۲ جون کے سپریم کوڑٹ کے حکم پر عمل درآمد نہ کرنے پر کیا تھا، اسکو سپریم کوڑٹ کو اسی طرح ڈیل کرنا چاھئے تھا جسطرح سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سر براھی میں نصیر الدین غوری کی داخل کی ھوئی توھین عدالت کیس [Crl.Org Petetion No 02 of 2012 in CA No 241/2011 ] میں 10 اگست 2012 کو ڈیل کیا تھا . یہ توھین عدالت کا کیس نصیر الدین غوری نے سپریم کوڑٹ کے مسعود بھٹی کیس میں ، 7 اکتوبر 2011 میں دئیے اس حکم کی خلاف ورزی پر انکے خلاف کیا تھا جو عدالت نے پی ٹی سی ایل کو نصیر الدین غوری کو ایک ماہ میں اسکے تمام واجبات ادا کرنےاور پرموشن کرنے کو کہا تھا . اس دن یعنی جب 10 اگست 2012 جب یہ توھین عدالت کا کیس لگا تو جناب سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کیس جمعہ کی نماز کے بعد سننے کو کہا تھا اور ساتھ پی ٹی سی ایل کو حکم دیا تھا کے اسوقت تک اسکے یعنی نصیرالدین غوری کو عدالتی حکم ، 7 اکتوبر 2011 کے مطابق واجبات اور پرموشن دینے والے احکامات پر عمل کردیا جائے . پھر پی ٹی سی ایل والے مرتے کیا نہ کرتے ،جمعہ کی نماز کے بعد کیس شروع ھونے سے پہلے ھی عدالت میں اسکے واجبات کا چیک انکے وکیل محمد منیر پراچہ نے نصیرالدین غوری کو دیا اور اسکی ایک ماہ میں ڈی پی سی کے زریعے پروموشن کرنے کا وعدہ کیا اور ساتھ معافی بھی مانگی . عدالت نے اپنے حکم میں انکی معافی قبول کرتے ھوئے لکھا تھا کے انھوں نے یعنی پی ٹی سی ایل نے سخت توھین عدالت کی تھی تاھم انکی اس یقین دہانی پر کے نصیرادین غوری کو آج اسکی تنخواہ کے تمام واجبا ت ادا کردئیے جائیں گے ور پرومشن دی جائے یہ توھین عدالت کی درخواستdisposed off کی جاتی ھے [ آپ لوگوں کی آگاھی کے لئے میں نے اسی کیس کی آڈر کاپی نیچے پیسٹ رکھی ھے اور اس توھین عدالت کیس کی کاپی بھی جو زیر بحث ھے یعنی ۱۵ فروری ۲۰۱۸ کا فیصلہ . آپ خود ھی دونوں کا موازنہ کرلیں ]. تو اسی طرح کے حکم کی توقع سپریم کوڑٹ اس ۱۵ فروری ۲۰۱۸ میں توھین عدالت کیس میں دئیے گئے میں بھی تھی . یہ تو توھین عدالت کا کیس تھا کوئی ایسا کیس نہیں تھا کے دونوں فریقوں طرف سے بحث اور مباحثہ کیا جانا تھا اور پھر عدالت نے اپنا فیصلہ سنانا تھا . یہاں تو فیصلہ پی ٹی سی ایل کے ان تمام پی ٹی سی ایل پنشنر کے حق میں ایک طرح کا سنادیا گیا تھا جو ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوکر کارپوریشن اور کمپنی میں ٹرانسفر ھو ریٹائیڑڈ ھو چکے تھے اور۱۲ جون ۲۰۱۵ میں اور اسکے خلاف انکی رویو پٹیشن بھی 17 مئی 2018 بھی خارج ھوچکی تھی ، اسلئے کے ایک ملازم کے حق میں آیا ھوا فیصلہ ایسے سارے ملازمین پر لاگو ھوتاھے جنھوں نے کیس کیاھو یا ناھو عدالت عظمی کے اپنے اس حکم کے مطابق جو اسنے حمید نیازی کیس جو میں یعنی 1996SCMR1185 میں دیا تھا. مگر ایسا اس توھین عدالت کیس میں نہیں ھوا جو بڑے دکھ اور افسوس کی بات ھے اور ایک سوالیہ نشان کھڑا کردیا ھےکے کیا ھماری عدلتیں کسی کے زیر اثر ھوکر تو کام نہیں کرتیں جو انصاف پر مبنی فیصلے کر نہیں پارھی ھیں خاصکر عدالت عظمی . جب یہ توھین عدالت کا کیس پہلے 14 فروری 2018کو لگا ، تو عدالت نے استفسار کیا کے کیا payments کردی گئی ، جواب ملا ، نہیں کی گئی اس بات پر عدالت بڑی برھم ھوئی اور انھوں نے اسی وقت تمام توھین عدالت کے مرتکب ھونےوالوں اگلے دن یعنی 15 فروری کو عدالت میں <span
Sent from Rawalpindi Pakistan via iPad
Comments