Article-51[SCP recent decision of dated 21 December 2017 regarding extending of benefits to all non petitioners while dismissing the appeal of Chairman WAPDA


                        Article-51( 27-3-2018)

عنوان: -  [حمید اختر نیازی کیس 1196SCMR1185 میں عدالت عظمی نےیہ قانون اصول بڑی اچھی طرح واضح کردیا ھے کے " کسی سرکاری ملازم  کے حق میں   ، اسکی مقدمہ بازی کی وجہ سے  سروس ٹریونل یا سپریم کوڑٹ کا دیا گیا فیصلہ  جو سرکاری ملازمین  کے  ٹرمز آف سروس سے تعلق رکھتاھو، اسکا فائدہ نہ صرف اس سرکاری ملازم کو ھوگا جس نے مقدمہ بازی کی بلکے ایسے اور تمام سرکاری ملازمین کو بھی ھوگا جو اس مقدمہ بازی کا حصہ نہ بھی ھوں. کیونکے انصاف اور قانون کا اور اچھی گورنینس کا تقاضہ تو یہ ھی ھے کے ایسے قانونی فیصلے کا فائدہ  ان سرکاری ملازمین تک بھی بڑھایا جائے جو اس مقدمہ بازی میں پاڑٹی نہ بھی ھوں  ، بجائے ان کو اس بات پر مجبور  کیا جائے کے وہ سروس ٹریونل یا اور کسی قانونی ادرے سے رجوع کریں . . . . . . . .تو اسی حمید اختر نیازی کیس میں عدالت عظمی کے اس وضح کردہ اصول اور قانون کے کے ریفرنس سے،  ابھی حال ھی میں سپریم کوڑٹ نے 21 دسمبر 2017 ایک فیصلہ سنایا ھے اور چئرمین واپڈہ کی وہ اپیل ڈسمس کردی جو انھوں نے سروس ٹریونل کے اس فیصلے کے خلاف کی تھی جو سروس ٹریونل نے ان نان پٹیشنرس واپڈہ کے سرکاری ملازمین کے حق میں دی تھی ، جو اسی سروس ٹریونل نے 2008 میں ان واپڈہ کے چند  سرکاری ملازمین کے حق میں دی تھی جنھوں نے واپڈہ چيئرمین کے خلاف ، انکو قانون کے مطابق  پروموشن نہ دینے پر  کیس کیا تھا]

میں نے بڑی تفصیل سے آپلوگوں کو سپریم کوڑٹ کےاس وضح کردہ اصول اورقانون جو اس نے حمید نیازی بنام سیکٹری اسٹیبلشمنٹ گورنمنٹ آف پاکستان [ 1996SCMR1185] میں دیا تھا جو اوپر بیان کیا  ھے، جو سپریم کوڑٹ کے دو قابل احترام چیف جسٹسس محترم جناب سعید الزمان صدیقی (مرحوم ) اور محترم جناب اجمل میاں ( مرحوم ) نے دیا تھا . یہ اصول وضح کرنا عدالت عظمی کے لئے اسلئے بھی ضروری تھا کے اسطرح اگر وہ یہ اصول وضح نہ کرتی تو عدالت عظمی اگر کسی سرکاری ملازم پٹیشنر کو قانون کی کسوٹی پر پورا اترنے پر اس کو کوئی فائدہ پہنچاتی تو اور دوسرے ایسے ھی سرکاری ملازمین جو ایسے کیس کا حصہ نہیں ھوتے ، یقینن عدالت عظمی سے رجوع کرتے  ھمیں  بھی یہ ھی فائدہ دیا جائے کیونکے ھم بھی اسی قانون کی کسوٹی پر پورے اترتے ھیں تو یقینن عدالت عظمی کو اپنے ایسے فیصلے کےمطابق سب کے لئے الگ الگ آڈر کرنا پڑتے اسلئے عدالت عظمی پرکتنا بوجھ پڑتا اورپٹیشنرس کا رش بڑھتا . اپنی ھی مثال لے لیں اگر یہ تمام چالیس ھزار پی ٹی سی ایل پنشنرس الگ الگ پٹیشنس کرنے لگتے کے ھمیں بھی 12جون 2015 میں دئیے گئے ھوئے فیصلے کا فائدہ دیا جائے کیونکے ھم بھی  ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئے اور پھر کارپوریشن اور کمپنی میں ٹرانسفر ھوکر کرریٹائڑڈ ھو ئے اسلئے ھمارا بھی عدالت عظمی کے اس 12جون 2015 کے فیصلے کے مطابق حق بنتا ھے , تو آپ خود اندازہ لگالیں کے عدالت عظمی پر کتنا بوجھ پڑتا اور ھر individual petition  پر یہ ھی فیصلہ کرنے پر کتنا عرصہ لگ جاتا. جب ھی تو سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے جسکے سربراہ سابق چیف جسٹس محترم جناب ایس اے خواجہ تھے انھوں نے انیتا تراب علی کیس[ The case  of "Syed Mahmood Akhtar Naqvi and others. Vs. Federation of Pakistan and others" commonly known as 
‏Ms. Anita Turab case PLD 2013 S.C ] میں یہ بالکل واضح کردیا  ھمیشہ کے لئے کے سپریم کوڑٹ نے حمید نیازی کیس [ 1996SCMR1185] میں ایک اصول سیٹ کردیا ھے "کے کسی سرکاری ملازم کے حق میں آنے والا فیصلہ  اسکے سروس کے ٹرمز اینڈ کنڈیشنس قانونی نکات کی بنیاد پر  دیا ھو ایسے تمام سرکاری ملازمین پر بھی استعمال ھوگا جو ایسے litigation  کا حصہ ھوں یا نہ ھوں اور کوئی سرکاری آفیسر ، بیورو کریٹ اس پر عمل نھیں کرے گا تو یہ عدالت اسکے خلاف آئین پاکستان کی کلاز 204 کی شق 2  اے تحت توھین عدالت کی کاروائی کا جق رکھتی ھے . "   جسطرح سابق چیف جسٹس محترم جناب ایس اے خواجہ نے انیتا تراب کیس میں پیرا ۲۰ اور ۲۱ اردو اور انگلش دونوں میں لکھا ھے میں وہ اختصا ر کے ساتھ آپ لوگوں کی معلومات کے لئے لکھ دیتا ھوں اس سے آپ لوگ خود اندازہ لگا لیں کے یہ حکومت، پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کتنی بڑی توھین عدالت کررھے ھیں
"ایک ( PLD 1997 84)-سرکاری ملازمین سے متعلقہ ایک مقدمے حمید اختر نیازی بنام سیکریٹری اسٹیبلیشمنٹ ڈویژن (1996SCMR1185) میں یہ واضح کیا جا چکا ھےکے جب یہ عدالت کوئی اصول یا قاعدہ واضح کردے  تو پھراسکا اطلاق ھر خاص وعام پر ھوگا.اور اگر کسی تشریح کا فائیدہ ایسے شخض کوھورھا ھے جو اس مقدمے میں فریق نہیں تھا ،تب بھی اسکو ضرور فائدہ پہنچنا چاھئیےاور اسکی جانب سے مقدمہ بازی کا انتظار نہیں کرنا
چاھئے. اگر کوئی ریاستی ادارہ جان بوجھ کر اور ڈھٹائی کے ساتھ عدالت کی جانب سے ان احکامات کی رو گردانی کرتا ھے تو ظاھر ھے اسے اس حرکت سے باز آنا چاھئے. ورنہ یاد رھے کے آئین کا آڑٹیکل کی کلاز 204 کی سب کلازز (2) کی (a) , اس عدالت کو یہ اختیار دیتی ھیں کےوہ کسی ایسے شخص کو توھین عدالت کی سزادے جو " اس عدالت کے احکامات کی حکم عدولی کا مرتکب ھو" تو کیا پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کے احباب  یہ چاہتے ھیں کے پی ٹی سی ایل کا ھر ایسا  ھر نان پٹیشنر  پنشنر اور ھر نان پٹیشنر ملازم  بھی اپنے  اس حق کے لئے انسے مقدمہ بازی کرے کے جو  یہ عدالت عظمی نے ۵ جولائی ۲۰۱۵ کو  راجہ ریاض کے حق میں فیصلہ  دیا  کے اسکو گورنمنٹ والی تنخواہ اور پنشن دی جائۓ اور جو ۱۲جون ۲۰۱۵ کو یہ فیصلہ دیا کے جو ریسپونڈنٹس ( پٹیشنرس پینشنرز) ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئے اور پھر کارپوریشن اور کمپنی میں ٹرانسفر ھوکر ریٹائیڑڈ ، انکو گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز دیجائے ، تو مقدمہ بازی کے بعد ھی  وہ انکو یہ کچھ دیں گے . پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کے ان احبابوں کا فرض ھے کے وہ عدالت عظمی کے اس دئیے ھوئے حکم کی پاسداری کرتے ھوئے ان تمام "نان پٹیشنرس پینشنرس " اور نان پٹیشنرس پی ٹی سی ایل ملازمین کو عدالت عظمی کے اس حکم کے مطابق بے چوں چراں  گورنمنٹ والی پنشن اور تنخواہ کی ادائیگی  کریں اور توھین عدالت کی مرتکب نہ ھوں . جسطرح عدالت عظمی انیتا تراب علی کیس میں یہ اچھی طرح واضح کرچکی ھے. ورنہ اگر صرف چند ایسے نان پٹیشنرس نے ھی   انکے خلاف توھین عدالت کا کیس کردیا تو یہ سمجھ لیں کے عدالت انسے اپنے حکم پر عمل کرانا کیسے جانتی ھے انکے تو اچھوں کو یہ  عدالتی احکامات کی وضح کردہ تنخواہ اور پنشن کی ادائیگی کرنی پڑے گی چاھے کتنا آسمان ان پرنہ ٹوٹ پڑے اور یہ دیوالیہ یا برباد  بھی کیوں نہ  ھوجائیں . اگر  یہ دینے سے قاصر ھوں گے تو عدالت عظمی انکو دیوالیہ قرار دے کر حکومت پاکستان کو یہ تمام ادئیگیاں کرنے حکم دے سکتی ھے کیونکے حکومت پاکستان ان تمام پی ٹی سی ایل میں ٹرانسرفڑ ڈ ملازمین اور پنشنرس کی گارنٹر ھے . اور اسے متعلق سپریم کوڑٹ نے مسعود بھٹی کیس میں یعنی 2012SCMR152  میں بالکل اچھی طرح واضح کردیا ھے.
 میں، اس حالیہ سپریم کوڑٹ کے  فیصلے کو جو 21 دسمبر 2017  کو سپریم کوڑٹ  کے تین رکنی بینچ نے جناب  عزت ما آب چیف جناب جسٹس ثاقب نثار صاحب کی سربراہی  میں چئرمین واپڈہ کی  پٹیشن خارج کرکےےدیا , آپ لوگوں کی معلومات کے لئیے یہ بتانا  چاھتاھوں تاکے آپ لوگوں کو خود اندازہ ھوجائے کے عدالت عظمی نے جو ایک قانون اور اصول حمید اختر نیازی کیس میں سیٹ کردیا ھے کے نان پٹیشنرس کو بھی وھی فائدہ  ملنا چاھیئے  جو پٹیشنرس کو ملتا ھے ، بجائے وہ یہ کے ان میں سے ھر ایک وہ مقدمہ بازی کرے اس پٹیشنر کی طرح جس نے مقدمہ بازی کے  زریعے یہ فائدہ حاصل کیا ھو، یہ حالیہ  فیصلہ اب  سپریم کوڑٹ کے ماہانہ رویو رپوڑٹ   2018SCMR380 میں درج ھے [ اس فیصلے کی چار صفحات کی کاپیز میں نے آپلوگوں کی اطلاع کے لئے نیچے پیسٹ کررکھی ھیں .  اسکو ضرور پڑھئے گا اور یہ چیک کرئیے گا کے اس فیصلے کی وجہ جسکا ریفرنسس دےرکھے ھیں  یہ ھی سپریم کوڑٹ کے اس فیصلے کے وضح کردہ   کردہ قانون اور اصول ھیں  جو اوپر عنوان میں بیان کرچکا ھوں  جو عدالت عظمی نے حمید اختر نیازی بنام سیکریٹری اسٹبلشمنٹ ڈویژن 1996SCMR 1185میں دے رکھا ھے جس پر  عمل عدالت عظمی نے   عبدل حمید ناصر بنام نیشنل بنک آف پاکستان  2003SCMR1030  میں بھی کیا تھا اور اب ان دونوں کیسوں کے ریفرنسس کے زریعے سپریم کوڑٹ نے یہ واپڈا کا یہ کیس 2018SCMR380  میں درج   ، 21 دسمبر 2017 کو  نمٹایا ھے  ].
 . مختصرن اسی واپڈا کے  کیس کی بات کرلیں   ھوا یوں کے واپڈہ کے کچھ گریڈ 17 کے ملازمین نے 2008 میں واپڈہ کے قانون  (61C(1 کے تحت ، گریڈ 17 میں دس سال مسلسل سروس کرنے پر  قانون ے (61C(1 مطابق گریڈ 18 مانگا،  جو واپڈہ کے چئیرمین نے کچھ بہانہ بنا کر دینے سے انکار کردیا تو ان چند ملازمین نے 2008 میں سروس ٹریونل سے رجوع کیا جسنے انکےحق میں 29 جولائی 2008 کو  انکو گریڈ 18 میں پروموشن کرنے کا فیصلہ دے دیا . جو  واپڈہ کے چئیرمین نے سپریم کوڑٹ میں چیلنج کردیا  . سپریم کوڑٹ نے 29 نومبر 2008 کو  یہ ڈسمس کردیا اور سروس ٹریونل کا فیصلہ بحال رکھا.بعد ازیں اس اسکے خلاف انکی رویو پٹیشن بھی 30 اپریل 2010 کو خارج کردی. تو واپڈہ نے صرف ان ملازمین کو جنھوں نے کیس کیا تھا ، یہ گریڈ 18  جب سے یہ due  تھا پچھلے بقایا جات یعنی with back benefits  کے ساتھ دے دیا اور ایسے کسی اورں کو نہیں دیا صرف انکو دیا جنھوں نے کیس کیا تھا .  دوسرےکچھ نان پٹیشرس گریڈ 17 کے ملازمین کو ، جو اس واپڈہ کے قانون یعنی(61C(1 پر پورے اترتےتھے، سروس ٹریونل کے اس فیصلے کا انکو ایک کافی عرصے کے بعد معلوم ھوا تو انھوں نے  departmental representation کردی کے انکو بھی اسی تاریخ سے گریڈ 18 میں پروموشن دی جائے جس طرح سروس ٹریونل نے پٹیشرس کو 2008 میں دی تھی. اور جب انکی اس departmental representation  پر انکو نہ تو کوئی جب جواب دیا گیا اور نہ کوئی پروموشن  تو انھوں نے ھائی کوڑٹ میں اسکے خلاف اپیل کردی کے انکی اس  departmental representation پر پر ڈیپاڑٹمنٹ کوجلداز جلد فیصلہ کرنے کا کہا جائے .تو ڈیپاڑٹمنٹ نے ھائی کوڑٹ کے حکم پر جلد فیصلہ تو کردیا مگر انکی وہ departmental representation  یعنی ساری اپیلیں 14 اپریل 2015 اور 14  جنوری 2016  کو خارج کردیں مجبورن ان کو [ جو اس زیر زکر کیس  میں respondents ھیں] بھی سروس ٹریونل میں یہ اپیلیں داخل کرنی پڑیں کے وہ بھی اسطرح کے حقدار ھیں جس طرح کا فیصلہ سروس ٹریونل 29 جولائی 2008 کو ان جیسے ملازمین پٹیشنرس کے حق میں دیا.  تو سروس ٹریونل نے انکی بھی اپیلیں منظور کرلیں اور ویسا ھی آڈر پاس کیا جسطرح کو 29 جولائی 2008 کو پاس کیا تھا .  چئرمین واپڈہ نے اسکے خلاف بھی سپریم کوڑٹ میں یہ زیر زکراپیل کردی جو 2017-12-21 کو خارج کردی گئی . سپریم کوڑٹ نے انکا یہ اعتراض بھی بلکل نہیں قبول کیا کے respondents نے جو ڈیپاڑٹمنٹ کو  representation  کی تھیں اور سروس ٹریونل کو اپیلیں کی تھیں وہ سب کی سب time barred تھیں. تو یہ سپریم کوڑٹ کا یہ latest فیصلہ اس بات کی عمازی کرتا ھے کے جو اصول قانون عدالت عظمی نے حمید اختر نیازی کیس میں وضح کردئے ھیں ، اسکی خلاف ورزی پر توھین عدالت کی کاروآئی ھونا لازمی ھے اسلئے پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کو ھوش کے ناخون لینے چاھئیں . عدالت عظمی کے ان بنائے ھوئے قانون اور اصول کا پاس کریں اور جو عدالت عظمی نے محمد ریاض کیس یعنی محمد ریاض بنام فیڈریشن آف پاکستان اور پی ٹی سی ایل [ 2015SCMR1783]  میں 6 جولائی 2015 کو جو یہ فیصلہ دیا ھے کے محمد ریاض کو گورنمنٹ والی تنخواہ اور پنشن دیجائے[ جو اسکو بحیثیت پی ٹی سی ایل میں بحیثیت ٹرانسفڑڈ ایمپلائی ھونے پر جس پر مسعود بھٹی کیس [2012SCMR152]  میں عدالت عظمی کے فیصلے کے تحت سرکاری قوانین [ statutory rules of Govt Pakistan] ھی استعمال ھورھے تھے، کی وجہ سے عدالت عظمی نے یہ حکم دیا]، تو ایسے تمام پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفڑڈ ملازمین اور ایسے ریٹائڑڈ ملازمین پی ٹی سی ایل پینشنرس جو محمد ریاض کے مقدمہ کا حصہ نھیں تھے ، ان سبکو کو بھی گورنمنٹ والی تنخواہ اور پنشن بلا چوں چراں یہ ادئیگی  کی جائے اور یہ بھول جائیں کے انھوں 27 اکتوبر 2o17 کو  راجہ ریاض کے توھین عدالت کیس میں انکے وکیل شاھد باجوہ نے یہ یقین دہانی دلاکر کے راجہ ریاض کو وھی پیمنٹ کی جائگی جسکا حکم عدالت عظمی نے دیا ھے مگر اسکو کسی اور کیس کے لئے مثال نہ بنایا جائے  ، عدالت کے تین رکنی بینچ سے اپنی خشنودی کے لئے یہ آڈر کرالیا . مگر یہ انکے معزز وکیل  شاھد باجواہ صاحب یہ بھول گئے اسطرح کا یہ تین رکنی بینچ کا آڈر ، حمید اختر نیازی کیس میں اس دو رکنی بینچ  کےوضح کردہ  اصول قانون  جسکو انیتا تراب علی کیس میں تین رکنی  بینچ نے  authenticate بھی کیا ھے، کوئی اثر نہیں ڈال سکتا اور جبکے یہ حالیہ زیرے تزکرہ سپریم کوڑٹ کا آڈر جو واپڈہ چئرمین کی اپیل مسترد کرکے 21 دسمبر 2017 کودیا یہ تین رکنی بنچ کا حکم اس بات کی تصدیق کررھا ھے . اب اگر کوئی بھی پی ٹی سی ایل کا کوئی بھی ایسا ٹرانسفڑڈ سپریم کوڑٹ یا ھائی کوڑٹ میں انکے خلاف یہ توھین عدالت کا کیس کردے کے یہ مجھے وھی تنخواہ اور پنشن نہیں دے رھے جسطرج کا حکم سپریم کوڑٹ نے راجہ ریاض کے لئے دیا ھے اور یہ نہ دے کر یہ سپریم کوڑٹ کے اس حکم کی خلاف ورزی کررھے ھیں جو اسنے حمید اختر نیازی کیس 1996SCMR1185 میں دیا ھے تو یقینن عدالت عظمی انکے خلاف ضرور ایکشن لے گی کیونکے اسی حمید اختر نیازی کیس 1996SCMR1185 کیس میں فیصلے کے تحت بہت سے نان پٹیشنر سرکاری ملازمین کو ریلیف دے چکی ھے [جسکی تازہ مثال یہ سپریم کوڑٹ کی 21 دسمبر 2017 کو واپڈہ چئیرمیں کی اپیل مسترد کرنے کا یہ فیصلہ ھے جو میں اوپر تفصیل سے بیان کرچکا ھوں ]. اور اسی طرح جو حکم سپریم کوڑٹ کا تین رکنی بینچ 12 جون 2015  دے چکا ھے جو اب 2015SCMR1472 میں درج ھے ، تمام نان پٹیشنرس پینشنرس چاھے وہ نارمل ریٹآيڑد ھوئےھوں یا وی ایس ایس لے کر ، ان سب کو پی ٹی ای ٹی بلا کسی تفریق کے گورنمنٹ والی پنشن انکریز دینے کی پابند ھے ، اس دن سے جب سے اسنے یہ غیر قانونی طور پر منقطع کردی تھی یعنی یکم جولائی 2010 سے. 
  میں نے جو کچھ اوپر بیان کیاھے اسکا مقصد آپ لوگوں کوصرف یہ باور کرانا کے سپریم کوڑٹ نے پی ٹی سی ایل کے ملازمین او پنشنرس کے حق میں جو فیصلے دئیے،  جنکا زکر  اوپر کرچکا ھوں ، انکا اطلاق صرف ان پٹیشنر پشنرس پرھی صرف نہ ھوگا جنھوں نے کیس کیا ھے بلکے ان سب پر بھی ھوگا جنھوں نے کیسس نہیں کئے ، سپریم کوڑٹ کے اسی آصول قانون کے تحت  جو اسنے آج سے ۲۲ سال پہلے حمید اختر نیازی کیس میں کیا جسکی ایک زندہ مثال یہ سپریم کوڑٹ کا 21 دسمبر 2017  کا یہ فیصلہ ھے جس میں سپریم کوڑٹ نے ان تمام واپڈہ کے گریڈ 17 کے ملازمین کو وھی benefit دینے کو کہا ھے جو چئرمین نے ان گریڈ 17 کے ملازمین کو سروس ٹریونل کے حکم پر دیا تھا جنھوں نے انکے خلاف کیس کیا تھا . تو جو لوگ یہ کہکر پی ٹی سی ایل پنشنروں کويہ کہہ رھے ھیں کے گورنمنٹ والی پنشن صرف انکو ملے گی کیس کریں گے یعنی انکو جو پنشنرس پٹیشنرز بنیں گے اور کسی نان پٹیشنرس کونہیں . اور یہ لوگ یہ  کیس کرنے کے لئے پیسے بٹور رھے ھیں . یہ بلکل غلط ھے کے صرف کیس کرنے والوں کو ھی یہ فائدہ ملے  گا . اگر صرف چند ھی  صاحب حیثیت ایسے پینشنرس سپریم کوڑٹ میں پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے خلاف یہ سادہ سا تو ھین عدالت کا کیس کردیں  کے یہ پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی  سپریم کوڑٹ کے اس 5 جولائی 2015 فیصلے کا فائدہ جو راجہ ریاض کے حق میں دیا ھے انکو نہیں پہنچارھے جو اس میں پاڑٹی نھیں تھے اور سپریم کوڑٹ کے اس فیصلے کا بھی فائدہ ان نہیں پہنچارھے جو اسنے 12 جون  2015 کو دیا. یہ سب فائدہ نان پٹیشنرس کو نہ دےکر وہ حمید اختر نیازی کیس اور انیتا تراب علی کیس میں سپریم کوڑٹ کے دئے احکامات کی سخت ترین خلاف ورزی کررھے ھیں . کیونکے یہ ایک نا ممکن سی بات ھے کے جب تک 40000 پی ٹی سی ایل پنشنروں میں سے  ھر ایک جب تک کیس نہيں کرے گا یعنی پٹیشنر نہيں بنے گا اسکو نہ گورنمنٹ والی تنخواہ دی جائیگی اور نہ ھی پنشن .  لہازا انکے خلاف سخت توھین عدالت کی کاروائی کی جائے اور انکو حکم دیا جائے کے یہ جو احکامات  گورنمنٹ والی تنخواہ اور پنشن دینے کا ، سپریم کوڑٹ نے اپنے ان دو فیصلوں یعنی5 جولائی 2015 اور 12 جون  2015 کو   دے چکی ھے ،  پہلے انکے سب نان پٹیشنرس کو دینے کا نوٹیفیکیشنس نکالے اور پھر ان سب  نان پٹیشنرس کو یہ رقوم بقایا جات دئیے جائیں . مجھے امید ھے اسی prayers کا عدالت کو لکھیں گے تو عدالت انشاللہ ایسا ھی آڈر کرے گی . اسطرح چند ایسے صاحب حثیت پی ٹی سی ایل کے پنشنرس  کی کاوش کا اسطرح کا سپریم کوڑٹ میں کیس کرنے کا سب پی ٹی سی ایل پنشنرس کو بڑا ھی فائدہ ھوگا اور انکو ایسا نیک کام کرنے پر ثواب بھی بہت ملے گا. 
محمد طارق اظہر
رٹائیڑڈ جنرل منیجر( آپس) پی ٹی سی ایل
راولپنڈی
27 مارچ 2018
شب 2 بجے

Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]