Article-57[ About order sheet of dated 10th May 2018]

           
نوٹ:- یہ اہم آڑٹیکل 57 جو میں نے ۱۲ مئی ۱۸ کو لکھنا شروع کیا تھا وہ ۱۳ جون کو تکمیل کیا. سحری کے وقت کے قریب. میرا خیال تھا کے میں  دن میں اسکو اپلوڈ کردوں گا مگر بعد یہ بات میرےذھین سے نکل گئی . اب جب میرے علم میں یہ بات آئی کے کے کیس اب تین نئے ججوں کے پاس ایک نئے بینچ میں لگے گا تو مجھے اس آڑٹیکل کا خیال آیا جو اب اپلوڈ کررھاھوں . یہ زیادہ طویل نہیں ضرور پڑھئے گا خاصکر اسکا آخری پیرا. شکریہ
طارق
24-06-2018

‏     [Article-57[12-05-2018
‏Order Sheet of dated of 10th May 2018

ھم اگر عرض کریں گے تو شکایت ھوگی. . . کسی وکیل کریں اور کس سے منصفی چاھیں؟؟؟؟؟؟؟

عزیز پی ٹی سی ایل پنشنرس ساتھیو!!!!
اسلام وعلیکم 
 اس سے سے پہلے میں آپ لوگوں اپنا مدعا بیان کروں ،آپ پہلے یہ میرے واٹس ایپس نمبر پر بھیجا يہ اردو نوٹ ضرور پڑھیں . جسے لکھنے والے نے اپنا نام نہیں لکھا اور میرے واٹس ایپ بحیثیت Unknown number نمودار ھوا اور پھر اس دن کی یعنی 10مئی کی کاروائی کی یہ آڈڑ شیٹ کی فوٹو کاپی بھی ضرور پڑھيں اور دیکھیں کے عدالت عظمی ھم پی ٹی سی ایل پنشنروں کے مسائیل حل کرنے میں کتنی سنجیدہ ھے؟؟ اور خود ھمارے وکیل بھی کتنے سنجیدہ ھیں کے جن کو کچھ پتہ ھی نہیں . بڑے ھی عجیب تپڑ کے وکیل کئے ھیں. پتہ نہیں ان  میں کیا سرخاب کے پر لگے تھے جو ان جیسے وکیلوں کو انگیج کیا  جنھوں نے اس کو کبھی بھی سنجیدگی سے ہی نہيں لیا . اور میں یہ بات بڑے وثوق سے کہہ سکتا ھوں کے جہاں ان کیسس کو prolong کرنے کی زمہ داری دوسری طرف کی یعنی پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے وکیلوں کو جاتی ھے وھاں ھمارے وکیل بھی اسکے برابر کے زمہ دار ھیں جو ایک ٹکٹ میں دو دو مزے کررھے تھے . پنشنروں کو یہ لارا لپا لگا یا ھوا تھا " جی کچھ بات نہیں بس زرا کیسس لگنے دیں پھر دیکھیں ھم لوگ کیا کرتے ھیں . یہ یاد رکھیں گے ". اور دوسری طرف دوسری پاڑٹی سے " جی آپ فکر ھی نہ کریں جس دن کیس لگے آپ نہ ھی آیا کریں ھم بھی نا  کیسس جہاں تک ھوا Adjourned کراتے ھی رہا کریں گے . اگر میں ان باتوں پر بمعہ ثبوت کے ساتھ detail  میں چلا گیا ، تو یہ آڑٹیکل بہت ھی طویل ھوجائے گا اور مجھے پتہ آپ لوگ کم ھی میرے طویل آڑٹیکلز پڑھتے ھیں. اسلئے کیا فائدہ . چلئے پہلے آپ لوگ یہ بھیجا ھوا اردو نوٹ پڑھیں پھر میں اسکےبعد ھی  کوئی بات کروں گا.

"دس مئی 2018 کو سپریم کورٹ میں توہین عدالت کارروائی کی مختصر روداد:
پیٹیشنرز جناب صادق علی،جناب نسیم احمد وہرہ اور جناب محمد عارف کے  وکلاء مقدمے کی سماعت کے آغاز پر کمرہء عدالت میں موجود تھے۔
عدالت نے جناب نسیم احمد وہرہ کے وکلاء پر آج پھر برہمی کا اظہار کیا کہ آپ اصل مقدمے میں پیٹیشنر نہیں رہے تو توہین عدالت مقدمہ میں عدالت کا وقت ضائع کرنے ہر بار کیوں آجاتے ہیں۔(جناب ایم۔ایچ۔اسلم کے میسیج سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے)
عدالت کا رویہ تلخ ہو جانے کے باوجود جناب صادق علی کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ستی صاحب آپ شروع کریں۔جناب ابراہیم ستی ایڈووکیٹ نے عدالت کی توجہ یکم نومبر 2017 کے حکم کی جانب مبذول کراتے ہوئے بات شروع کی جس میں 1173-بقایا پیٹیشنرز( نارمل ریٹائر بشمول وی۔ایس۔ایس پنشنرز) کی حکومت پاکستان کے اعلان کردہ نوٹیفکیشنز کے مطابق  پنشن اضافہ جات عدالت عظمی'  میں جمع کروانے کا حکم جاری کیا۔(بعد ازاں پی۔ٹی۔ای۔ٹی نے اس حکم کے تحت رقم عدالت میں جمع بھی کروائی)
ستی صاحب نے 14-فروری 2018 کے حکمنامے کا حوالہ بھی دیا جس میں یکم نومبر 2017 کے حکمنامے پر (1173-پیٹیشنرز بشمول وی۔ایس۔ایس پنشنرز کو ادائیگی ) عملدرآمد نہ کرنے پر صدر پی۔ٹی۔سی۔ایل جناب ڈینیئل رٹز،چئرمین پی۔ٹی۔ای۔ٹی بورڈ سید مظہر حسین و دیگر مدعا علیہان کو 15-فروری 2018 کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔
پندرہ فروری 2018 کو سپریم کورٹ نے کیس پیٹیشنرز اور انکے وکلا کی موجودگی میں  ڈسپوز آف کر دیئے۔ ستی صاحب نے عدالت کے روبرو موقف پیش کیا کہ عدالت نے تمام پیٹیشنرز کو ادائیگی کا حکم دیا تھا لیکن پی۔ٹی۔سی۔ایل/پی۔ٹی۔ای۔ٹی نے  عملدرآمد رپورٹ میں صرف نارمل ریٹائر پیٹیشنرز کو ادائیگی کی ہے۔جو عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے۔عدالت نے ستی صاحب کے موقف سے اختلاف کیا اور وی۔ایس۔ایس کا مسئلہ عیدالفطر کے بعد سننے کا عندیہ دیا۔
جناب محمد عارف کے وکیل جناب خلیل الرحمان عباسی کی بھی سرزنش کی کہ آپ کون ہیں۔جس پر خلیل الرحمان عباسی صاحب نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وہ توہین عدالت مقدمہ میں جناب محمد عارف کے وکیل ہیں۔۔انہوں نے اپنا مطالبہ بھی عدالت میں بیان کیا کہ میرے موکل کو فلاں فلاں الاونس نہیں ملا۔عدالت نے سخت لہجے میں انہیں باور کرایا کہ جو کچھ ملا بس یہی کافی ہے۔
جو لوگ عدالت میں موجود تھے،تفصیلات یا جزئیات میں پڑے بغیر اسکے گواہ ہیں۔اس بارے میں تین چار طرح کے میسیجز مختلف فرقوں کی جانب سے جاری کئے گئے آپ کے ملاحظہ کے لئے پوسٹ کئے جا رہے ہیں۔آپ خود فیصلہ کریں کہ بحیثیت  پنشنرز ہم عمومی طور پر کیا بیان کر رہے ہیں.
ہمیں سنجیدگی سے اس بات کا تعین کرنا ہو گا کہ ہمارے درمیان ہماری ہی شکل و شباہت کے ایسے کونسے لوگ ہیں جو ہمارے درمیان نفاق پیدا کرکے دراصل ہمارے دشمن کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں بلکہ کئی لوگ تو ہمارے دشمن کے ایجنڈے کی تکمیل کا مشن مکمل کر رہے ہیں۔تقریبا" چالیس ہزار پنشنرز میں سے تقریبا" تیرہ ہزار پنشنرز اس پیج کو وزٹ کرتے ہیں جو گذشتہ آٹھ برس سے آپکو ہر طرح کی آگاہی مہیا کر رہا ہے۔جب احتجاج کے لیے نکلنے کی بات ہو تو ایسے ہی عناصر مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔اگر کوئی ڈھنگ کا وکیل کرنے کیلئے چندہ بحق پیٹیشنرز جمع کرنا ہو تو مخالفت کے ذریعے اپنی اپنی دوکان چمکانے بیٹھ جاتے ہیں۔انہی کے کارندے پیسے بٹور کر اپنا دھندا چلاتے ہیں۔کئی معززین ابھی بھی لاکھوں روپے پر قابض ہیں۔  لیکن ان کے بھاشن سن کر دیکھیں تو گمان ہوتا ہے کہ سب کارکردگی انہی کی ہے عدالتوں میں آٹھ سال سے دھکے  کھانے والے تو بس جھک مار رہے ہیں۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ایسے عناصر سے محتاط رہیں اور انکا احتساب کیا جائے۔
اللہ ہم سب پر اپنا کرم فرمائے اور ایسے راستے سے ہماری مدد فرمائے کہ ہم پر روا ظلم کا خاتمہ ہو جائے۔حقیقت یہ ہے کہ اس جبر کے دور میں ہمارا ساتھ دینے والے بہت کم نکلے ہیں بلکہ ہماری صفوں میں ہی ہمارے دشمن موجود ہیں۔اللہ ان تمام ساتھیوں کو استقامت عطا فرمائے اور ان کی مدد فرمائے آمین !"

تو آپ لوگوں نے پڑھا کے  کیا صحیح بات اس لکھنے والے نے لکھی ھے . یہ وہی بات ھے جسکی پیشن گوئی میں نے اپنے ۱۹ اپریل کے نوٹ میں کردی تھی . اس دن تو کاروآئی پٹیشنرس کے وکیلوں کی طرف سےبہ ہنگمی کی وجہ سے جلدی adjourned کردی گئی تھی ورنہ اسی دن یہ ھی حشر ھونا تھا ان وکیلوں کا جو اب ۱۰ مئی کو ھوا . مجھے میرے دوست سرفراز محمود بہت  نے کہا کے طارق صاحب آپ آج پھر ضرور چلیں . میں نے صاف صاف انکار کردیا اور کہا کے "سرفراز ، کچھ فائیدہ نہیں. ایک تو ایک جج موصوف تو بلکل بھی پی ٹی سی ایل پنشنروں کو کسی طرح کا فائدہ دینے کے حق میں نظر نہیں آتے . انکا رویہ اس بات کی عمازی کرتا ھے کے انکی ھمدردی respondents کے وکیل کے ساتھ ھیں اور دوسرے جس پائے کے وکیل پنشنروں کی طرف سے گئے کئے ھیں اورطنزیہ کہا انکو تو صرف داد دینے کو جی چاہتا ھے ؟؟؟؟؟؟. انمیں نہ وہ تپڑھے نہ وہ سلیقہ اور نا وہ دبنگ جو ایک عدالت عظمی کے وکیلوں میں ھونا چاھئے انھوں نے تو سپریم کوڑٹ کو بھی ایک عام سول کوڑٹ سمجھ  رکھا ھے . تو کیوں جاؤں انکی صرف شکلیں دیکھنے کے لئے. مجھے پتہ ھے کے آج کیا ھونا ھے . یہ پی ٹی سی ایل کے پنشنرس خوامخواہ امید لکھا کر بیٹھیں ھیں انسے . ". اور وھی ھوا  جسکا مجھے ڈر تھا . وہ اب آپکو  اوپر والا اردو نوٹ پڑھکر سب معلوم ھوکیا ھوگا. جب تک یہ انکے ھمدرد ججز تبدیل نہیں ھونگے اور کوئی دبنگ قسم کے وکیل یہ لوگ نہیں لگائیں گے. سوال ھی پیدا نہیں ھوتا کے کے عدالت عظمی ۱۲ جون ۲۰۱۵  کے فیصلے پر عمل درآمد ھو. آپ سب پینشنرس یہ بات یاد رکھیں اب کوئی مقدمہ disputed matters پر نہیں ھے کیونکے  یہ توان پر سب کے فیصلے ھوچکے ھیں اور وہ بھیی پنشنرس کے حق میں ، اب صرف matter جو ھے وہ اس پر عمل درآمد کرانے کا اور کچھ نہيں جو یہ پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل والے بلکل نہیں کرنا چاھتے اور اس کو  اتنا prolong کرنا چاھتے ھیں کے یہ سارے پنشنرس مر جائیں کیونکے یہ پنشنرس  انکے لئے درد سر بنے ھوئۓ ھیں. اب یہ ھی راستہ انکے لیئے رہ گیا کے وہ جتنا کھینچ سکتے ھیں ، کھینچیں گے .
قسمت کی دیوی ان بیچارے پنشنروں پر بالکل ھی مہربان نظر آتی . چاھے وہ ھائی کوڑٹ ھو یا سپریم کوڑٹ ان کا رجحان ان مظلوم پنشنروں کو انصاف دیتا بالکل نظر نہیں آتا. محترم جج گلزار صاحب ۱۲جون ۲۰۱۵ کے فیصلے میں لکھتے ھیں "کےجو ملازمین ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئے اور پھر  کارپوریشن اور کمپنی میں ٹرانسفر ھوکر ریٹآئیڑڈ ھوئے ھوں ، PTET انکو گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز دینے کی پابند ھے" اس سلسلے میں فورن منسٹری آف آئی ٹی اینڈ  ٹیلیکام  عدالت عظمی کے اس فیصلے کے مطابق عمل کرنے لئیےایم ڈی پی ٹی ای ٹی کو 17 جون 2015 کو لیٹرزبھی لکھے[ کاپیاں نیچے منسلک]  اور یہ لکھا کے اگرچہ ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے  کے خلاف رویو اپیل داخل کردی گئی ھے لیکن ایم ڈی پی ٹی ای ٹی اور پریزیڈنٹ پی ٹی سی ایل کے عدالت عظمی کے اس فیصلے پر عمل کریں. مگر انھوں نے اس پر تو جب بھی اسکی اس دوران جب انکی رویو پٹیشن داخل تھی اسوقت بھی عمل   نہیں کیا اور بھی نہیں کیا جب انکی رویو اپیل بھی17 مئی 2017 کو تین رکنی بینچ نے جسٹس محترم گلزار  کی سربراہی میں متفقعہ طور پر ڈسمس کردی یعنی ڈسپوزڈ کردی .  مگر حیرت انگیز طور پر انھوں بغیر کسی اعتراز کے، پی ٹی ای ٹی کے وکیل جناب خالد انور صاحب کی اس دلیل سے اتفاق کیا کے جو لوگ وی ایس ایس قبول کرکے ایک huge amount لے کرریٹائيڑڈ ھوگئے ھیں انکے سروس کے ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کمپنی کے ملازم کے ھوگئے ھیں اسلئے وہ اس بات کےبلکل بھی مجاز نہیں تھے کے وہ اپنےgrievences کے لئے  ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرتے اسلئے کے وہ ی ایس ایس قبول کرنے کے بعد اپنے statutory rules کی حیثیت کھو چکے تھے اور انپر وی اس لینے اے بعد گورنمنٹ کے رولز یعنی statutory rules  کا اطلاق ختم ھوچکا تھا اور وہ اسلئے انکا ھائی کوڑٹوں میں آئین کے آڑٹیکل199 کے تحت رجوع کرنے کا اختیار  ختم ھوچکا تھا اسلئے انھوں نے یہ فراڈ کیا ھائی کوڑٹوں سے رجوع کیا اور یہ بات چھپائی . کتنی غلط بات کہی تھی ان محترم خالد انور صاحب نے اور نہ تو رویو پٹیشن سننے والا تین بینچ انکی اس دلیل پر کوئی اعترازکرسکا جبکے ۸ معزز سپریم کوڑٹ کے قابل احترام ججز[تین نے 8 اکتوبر 2011  مسعود بھٹی کیس میں یہ فیصلہ دیا اور پانچ نے انکی رویو پٹیشن 19 فروری 2016 اس فیصلے کے خلاف ڈسمس کرکے اس مسعود بھٹی کیس میں ٹرانسفڑڈ پی ٹی سی ایل ملازمین کے حق میں آئے ھوئے فیصلے کو دوام بخشا]  صاف طور پر بڑے واضح انداز میں لکھا " کے پی ٹی سی ایل کو اس بات کا کوئی اختیار یا پاور نہیں کے وہ ان ٹرنسفڑڈ پی ٹی سی ایل کے ملازمین یعنی وہ جو کارپوریشن سے یعنی پی ٹی سی سے یکم جنوری 1996 کو کمپنی یعنی پی ٹی سی ایل میں میں ٹرانسفر ھوکر اسکا حصہ بن چکے ھیں اور ان پر حکومت پاکستان کے سرکاری ملازمین کے قوانین ھی یعنی statutory rules  استعمال ھی ھونگے , انکے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس میں کوئی ایسی تبدیلی کریں جس سے انکو نقصان ھو. اور حکومت پاکستان بھی یہ نہیں کرسکتی جو انکی گارنٹر ھے خاصکر پنشن کے معاملے میں " تو کسطرح خالد انور صاحب یہ فرمارھے تھے کے چونکے انھوں نے وی ایس ایس لے لیا تو انکےگورنمنٹ کے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس تبدیل ھوگئے اور یہ کمپنی کے ملازم بن گئے اس لئے وہ ھائی کوڑٹوں سے رجوع نہیں کرسکتے ہور جس نے ایسا کیا اس نے فرآڈ کیا. اورنہ ھی پی ٹی سی ایل پنشنرس کے  کسی وکیل کو بھی اس پر اعتراز کرنے کا موقع دیا گیا بلکے جب اس بارے کھڑے ھوکر کچھ کہنا چاہا تو انکو بٹھا دیا گا. اور یہ بات ریکاڑڈ پر ھے. 17 مئی 2017 کو اس عدالتی کاروائیئ کی تفصیل میں اپنے   اردو آڑٹیکل 41  میں تفصیل سے لکھ چکاھوں اور اردو آڑٹیکل 42 بہت ھی تفصیل سے لکھی ھیں . یہ بات سمجھ مسے بالا تر ھے پھر کیوں ان معزز محترم گلزار صاحب نے پی ٹی ای ٹی کے وکیل انور خالد صاحب کو کہا کے ایسی بات ھے تو انکے خلاف سی پی سی کے سیکشن (۲) ۱۲ انھیں عدالتوں سے رجوع کیا جانا چاھئے . لیکن اسوقت بھی انھوں نے اس بات کا بالکل اشارہ تک بھی نہیں دیا کے ان وی ایس ایس لے کر ریٹائڑڈ ھونے والوں کو گورنمنٹ کی پنشن انکریز نہ دی جائے . پھر یکم نومبر 2017 کو توھین عدالت کے کیس میں انھوں نےصاف طور پر لکھا کے کے وی ایس ایس والوں کے بارے پنشن  انکریز نہیں دینے کا کوئی حکم بھی عدالت نے نہیں دیا بالکے انھوں نے تو ۱۱۳۲ پٹیشنروں جس میں وی ایس ایس والے بھی شامل تھے انکی پنشن کے واجبات رجسٹرار جوڈیشنری کو جمع کرانے کا کہا. اور پھر جب ۱۵ فروری ۲۰۱۸ کیس لگا تو کیوں پی ٹی ای ٹی کے شاھد باجواہ  کی بات مانتے ھوئے ، ما سوائے [ جسکےلئے انھوں نے نے انگلش وڑڈ "beside " کو استعمال کیا اور بعد اس کی وضاحت بھی اپنے ۱۰ مئی ۲۰۱۸ کے فیصلے کی واضاحت کی کے اسکا مطلب تھا "except"  انکے سوا یعنی VSS والوں کے سوا] وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھونے والے پٹیشنرس  کے اور سب پٹیشنرس کو دینے کے لئیے لکھا. یہ فیصلہ اتنا عجیب او غریب تھا کے کے عقل حیران ھے دو معزز ججز چھ معزز ججوں کے فیصلے کو modify کرتے ھیں اس ۱۲ جون ۲۰۱۵ کو تین رکنی  بینچ کے معزز ججوں نے دیا جن میں سے ایک معزز جج جناب محترم گلزار صاحب نے خود لکھا جس کی تائید  دو  معزز ججوں نے کی  اس میں اسوقت کے سابقہ محترم چیف جسٹس ناصرالملک [ موجودہ نگران وزیراعظم] نے توثیق کی . پھر 17 مئی 2017 کو جس تین رکنی بینچ کے معزز ججوں نے نے انکی رویو پٹیشن خارج کی وہ بھی محترم جناب جسٹس گلزار صاحب نے کی جسکی توثیق باقی کے دو معزز ججوں نے کی . اب یہ بات سمجھ میں نھیں آتی کے کس آئنیی اور قانون کے تحت صرف دو ججوں نے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے کو modify کردیا جسکا تعلق 6 ججوں کی approval سے تھا اور کہا کے ما سوائے [ beside] وی ایس ایس آپٹ کرنے والے پٹیشنس پینشنرس کے اور پٹیشنرس پینشنرس کو یہ پیمنٹ کردی جائے. یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کے کیوں modified  کیا گیا اور کس قانون کے تحت . 
اب یہ کیس تو اب  عید  کے بعد ھی لگے گا اور اگر ان دو معزز ججوں کے پاس ھی لگا تو انصاف کا حصول مشکل نظر آتا ھے. دعا کرتا ھوں کے یہ کیس عید کے بعد اور کسی نئے ججوں کے پاس لگے تو شائید ان غریب پنشنروں سبکو  انصاف مل جائے. دوسری بات ان ابراھیم سیٹھی اور اس جیسے اور وکیلوں کو ہٹانا بیحد لازمی ھے . اور وہ آپ سب لوگ جانتے ھیں کیوں؟ کیونکے یہ لوگ کچھ بھی نہیں بولیں گے اور جو بولیں گے وہ کیس کی حقیقت سے کافی دور ھوگا. یہ دوست نماں دشمن ھیں اور انسے ملے ھوئے ھیں.
واسلام
محمد طارق اظہر
ریٹائڑڈ جنرل منیجر( آپس) پی ٹی سی ایل
بتآریخ ۱۳ جون ۲۰۱۸
شب 
۲ بجکر بیس منٹ
 

Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]