Article-59[ About defective/controversial recent order of dated 8th June 2018of single bench Judge of LHC

‏                 [Article-59[ 15-06-2018]

ھوئے تم دوست جنکے. . .دشمن  انکا آسماں کیوں ھو؟؟؟؟؟

تجزیہ لاھور ھائی کوڑٹ کے سنگل  بینچ کے جج کا ۸ جون ۲۰۱۸  کےdefective/ Conterversial   کیس کے فیصلے کا
[Muhammad Qammeruddin & others Vs Federation in WP -28224 of 2016]

عزیز پی ٹی سی ایل کے ساتھیو
اسلا م وعلیکم

واٹس ایپس اور ٹویٹر پر جناب توقیر صاحب اکی طرف سے 
اوپر دئیے گئے فیصلے کی کاپی ملی وہ میں نے تو اسی وقت ڈاؤن لوڈ کرلی تھی اور اپنی ڈرائیو میں محفوظ کرلی تھی لیکن اسے پڑھ نہ سکا تھا آج کچھ فارغ ھوا تو اک دم اسکے پڑھنے کا خیال آگیا فورن میں نے ڈرآئیو کھولی اسکو پڑھا تو بیحد افسوس اور دکھ ھوا .   44 صفحات کا فیصلہ ھے جو لاھور ھائیکوڑٹ نے دیا  جسکی کاروآئی تو ۲۳ اپریل ۲۰۱۸ لیکن اس فیصلے کا اعلان ۸ جون ۲۰۱۸ کو کیا گیا .یہ فیصلہ صرف ان پٹیشنرس کے حق میں ھے جو ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوۓ اور ایسے ھی پٹیشنرس پینشنرس کے حق میں ھے جو صرف نارمل طریقے سے ریٹائڑڈ ھوئے  اسکے اخزی پیراز ۳۳ [ جو اسکے آخری صفحات ھیں اور  فوٹو کاپیاں بھی میں نے اس مضمون کے آخر میں پیسٹ کررکھی ھیں .  ] کے سب پیراز ،,۱،۲،۳ میں جو کچھ موصوف  معزز جج صاحب تحریر کیا اسکا فیصلے کا خلاصہ یہ ھےکے 
  "میں اس نتیجے پر پہنچاھوں صرف وہ پٹیشنرس جو ٹی اینڈ ٹی  میں ملازم ھویئے تھےوھی اس فیڈرل گورنمنٹ کے perks&privileges کے حقدار ھیں  جنکا اطلاق فیڈرل    گورنمنٹ کےملازمین پر  ھوتا ھے ریسپونڈنٹس کو چاھئے وہ انکو فیڈرل گورنمنٹ والے واجبات ادا کریں اور جنھوں نے  کارپوریشن یکم جنوری ۱۹۹۱ کے بعد  جائین کیا اور یہ رٹ پٹیشنیں فائیل کیں  ھیں وہ maintainable  ھی نہیں  اور انکے اگر کوئیی grievances ھیں تو اسکے حل کے لئے کوئی appropriate proceedings اختیار کریں اور جو پٹیشنرس وی ایس ایس لے کر ریٹائڑڈ ھوئے وہ اس pensionary benefits  کے حقدار نہیں جو ایک عام ریٹائڑی کو حاصل ھوتے ھیں" .
مجھے میرے کچھ دوستوں نے جو میرے ھی بیچ فیلوز ھیں اور پی ٹی سی ایل سے بھی نارمل  طریقے سے ریٹائڑڈ ھوئے مجھے " Good News" لکھ کر مبارکباد بھی دی جسکا مجھے اور بھت افسوس ھوا انکا خیال تھا کے جو کچھ میں نے ان گزشتہ چھ سالوں میں کیا اور جو آڑٹیکلس اور مضمون وغیرہ لکھے وہ صرف اس لئے تھے کے مجھ جیسے پنشنروں کا صرف فائیدہ ھو جو ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئے اور نارمل طریقے سے ریٹائڑڈ ھوئے . مجھے یہ بیحد محسوس ھوا میری ھمیشہ یہ کوشش رھی کے سبکا فائدہ ھو خاصکر ان بیچارے وی ایس ایس لینے والوں کا جو ۱۹ ، ۱۹ سال سروس کرنے کے باوجود  بغیر پنشن کے زبردستی وی ایس ایس ۲۰۰۸ دیا گیا جو ٹی اینڈ ٹی میں ھی بھرتی ھوئے تھے . اسکے علاوہ سب وی ایس لینے والوں کو چاھے وہ ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئے یا پی ٹی سی ، گورنمنٹ کے pensionary benefits  سے محروم کردیا گیا.
جو یہ فیصلہ دیا گیا اس میں بے انتھائی خامیاں ھیں ایک تو Respondants کے وکلاء نے بہت سے حقائیق  عدالت کو بتانے سے گریز کیا اور دوسرے محترم جج صاحب نے بھی ان حقائق کو جانچنے کے لئے جو ان وکلاء نے بیان کئے  انکی سچائی ڈھونڈنے کے لئے کوئی بھی  استفستار نہیں کیا اور خود جو کچھ عدالت عظمی کے کیسوں کا ریفرنس دے کر یہ فیصلہ دیا ، مجھے بڑے ادب کے ساتھ کہنا پڑرھاھے کے موصوف محترم جج صاحب نے یا تو وہ فیصلہ پورا پڑھا نہیں یا پڑھ کر اسکو جان بوجھ کر ignore کیا . ان سب کا جواب میں نے اپنے مندرجہ زیل طویل مضمون میں دیا ھے یہ مضمون اس فیصلے کے خلاف انٹرا گوڑٹ اپیل کرنے میں بہت کام آئیگا اگر کوئی چاھے . تو آپ سب لوگوں سے درخواست ھے کے اسکو بہت غور سے پڑھیں اور اسکی طوالت دیکھتے ھوئے اسکو نظر انداز نہ کریں اور دوسری گزارش ھے کے اسکو پورا بغیر پڑھے like یا unlike نہ کریں بلکے اپنے ریمارکس ضرور دیں اور اگر کوئی چیز انکو سمجھ میں نہیں آتی مجھ سے ریمارکس ھی میں اسکا جواب طلب کریں . میں اسکا فورن جواب پڑھتے ھی دوں گا . بیشک وہ لوگ یہ طویل آڑٹیکل نہ پڑھیں جنکو اس کیس کے فیصلے سے فائیدہ ھورہا ھے . اس میں کوئی غلطیاں یا duplication یا اور کوئی typing mistake ھوگئی ھو اسکو خود ٹھیک کرلیں . آپ لوگوں کو معلوم نہیں کے اسکو لکھنے میں مجھے کتنی محنت کرنی پڑتی ھے . پہلے اپنے Apple IPad میں اردو والی Apps  میں جاکر تھوڑا تھوڑا type کرنا پڑتا ھے اور جب مضمون آدھے صفحے کا ھوجاتا ھے اسکو وہاں سے کٹ کر کے اپنے اسی iPad کے نوٹ بک میں paste کرنا پڑھتا ھے . پھر دوبارہ اسی اردو والی Apps کو کھولنا پڑتا ھے پھر اس آگے والا مضمون اردو میں type کرنا پڑتا ھے اور اوپر والا عمل دھرانا پڑتا ھے پھر کہیں تین یا چار دن میں یا اس سے بھی زیادہ ایک اردو آڑٹیکل مکمل ھوتا ھے جسکو فیس بک اور اپنی بلاگ سائیٹ پر اپلوڈ کرتا ھوں

اس فیصلے سے یہ بات صاف ظاھر ھوتی ھے کے پی ٹی سی ایل کی انتظامیہ یہ  چاھتی ھے  کے ان پی ٹی سی ایل پنشنروں کو فیڈرل گورنمنٹ والے واجبات ادا کرنا  لازمی ھیں تو انکو صرف انکودیئے جائیں جو صرف   پاکستان ٹیلی گراف اینڈ ٹیلی فون ڈیپاڑٹمنٹ میں بھرتی ھوئے تھے اور ان میں صرف انکو پنشن کے گورنمنٹ والے واجبات دئے جائں جو نارمل طریقے سے ریٹائڑڈ ھوئےتھے . ظاھر ایسے لوگوں کی تعداد کافی کم ھےجو اس طرح کے حقدار ھیں اسلئے پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل پر کم خرچ کا بوجھ پڑے گا. اس عدالتی فیصلے سے ظاھر ھوتا ھے کے اس میں کافی پٹیشنرس ھیں . ایک وہ ھیں جو کارپوریشن یعنی پی ٹی سی میں بھرتی ھوئے اور ابھی تک کام کررھے ھیں کے انکی تنخواہ ، الاؤنسس وغیرہ فیڈرل گورنمنٹ کے ملازمین کے مطابق  نہیں اور دوسرے وہ جو پی ٹی سی یعنی  کارپوریشن میں بھرتی ھونے والے اور ۲۰۰۸  میں انھوں نے وی ایس ایس لےکر ریٹائڑد اور اکرچہ انکی سروس ۱۰ سال س زیادہ تھی مگر بیس سال سے کم اسلئے انکو پنشن نہیں دی گئی جبکے گورنمنٹ کے پنشن قوانین کے مطابق ، ۱۰ سال کی کوالیفائیڈ سروس ایک گورنمنٹ کا ریٹائڑڈ ملازم پنشن کا حقدار بن جاتا ھے. 
جو یہ لاھور کا عدالتی فیصلہ آیا اس میں یا تو جان بوجھ کر حقائیق کو پٹیشنروں کے وکلاء نے بتایا نہیں اور پی ٹی سی ایل کی favor کی یا ریسپونڈنٹس کے وکلاء نے بہت سے حقائیق بھی عدالت سے جان بو جھ کر چھپائے جسکی بنا پر یہ ایسا controversial  فیصلہ  لاھور سنگل بینچ کے جج نے دیا . محترم جج صاحب نے اس بابت جو عدالت عظمی کے فیصلے آۓ ھیں  ، میرے خیال میں زیادہ غور سے نہں پڑھے.   محترم جج صاحب کا یہ اپنے پیرا ۳۳ کے سب پیرا ۲ میں یہ لکھنا کے وہ پٹیشنرس جو 1991-01-01 کے بعد کارپوریشن میں بھرتی ھوئے انکی پٹیشنیں maintainable  نہیں ، کیونکے انکے خیال میں یہ لوگ 1991-01-01  کارپوریشن بننے کے بعد بھرتی ھوئے اسلئے انپر فيڈرل گورنمنٹ کے قوانین کا اطلاق نہیں ھوتاھے . ایسا معلوم ھوتاھے کے موصوف معزز جج صاحب نے یہ بات ، ریسپونڈنٹس  کے وکیل شاھد انور باجواہ , جو سندھ ہائی کوڑٹ کے ریٹائڑڈ جج رہ چکے ھیں اور جنھوں نے ان پی ٹی سی سے ٹرانسفڑڈ ھونے  والے ملازمین کی آئنی پٹیشنیں پر انکے خلاف فیصلہ لکھا تھا جو تقریبن 84 ایسے پٹیشنرس کے خلا ف تھاجو  [جسکے نمبر 1  پر نصیرالین غوری کی پٹیشن CP No D-827/2007  تھی اس میں میری 15 نمبر پربھی آئینی پٹیشن شامل تھی یعنی Muhammad Tariq Azhar  vs Federation of Pakistan  C P No [D-1663/2006 جو سب کی سب مسترد کردی گئیں . جن کو دو سندھ ھائی کوڑٹ ممبرز بینچ نے یہ مسترد کیں اسکے دوسرے معزز جج  گلزار صاحب تھے جو آجکل سپریم کوڑٹ کے معزز جج ھیں . یہ آئینی پٹیشنیں  سندھ ھائی کوڑٹ نے ۳ جون ۲۰۱۰ کو مسترد کردی گئيں جسکا اعلان 6 جون 2010 کو کیا گیا جب اسکے خلاف مسعود بھٹی ، نصیرآلدین غوری نے عدالت عظمی میں اپیلیں کیں [  میں بوجہ کنیڈا میں قیام  کے اسوقت یہ نہ  کر سکا  پہلے بھی یہ بتا چکا ھوں] جو عدالت عظمی نے قبول کرلیں اور اسکے تین رکنی بینچ نے  یہ محترم سابق جج سندھ ھائی کوڑٹ  شاھد باجواہ کا لکھا ھوا فیصلہ ۸ کتوبر ۲۰۱۱ کو مسترد کر دیا اور یہ " قرار دیا کے کے یکم جنوری 1996 کو کارپوریشن ( PTC) سے  کمپنی (PTCL )  ٹرانسفر ھونے والے  تمام ملازمین پر گورنمنٹ کے ھی قانونStatuory Rules ھی استعمال ھونگے اور انکے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشنس کو انکے نقصان کے لئے کوئی بھی ایسی تبدیلی PTCL نہیں کرسکتی جس سے انکو نقصان ھو حتی کے حکومت پاکستان بھی یہ نہیں کرسکتی وہ اس بات کی گارنٹر ھے جس میں pensionary benefits بھی شامل ھیں . تاھم PTCL انکے لئے beneficial rules بناسکتی ھے یعنی جس سے انکو فائیدہ ھو".[یہ کیس مسعود بھٹی کیس کے نام سے مشھور ھے جو 2012SCMR152 میں درج ھے اسکے خلاف عدالت عظمی کے پانچ رکنی بینچ نے 19 فروری کو انکی رویو پٹیشن بھی خارج کردی جو 2016SCMR1362 میں درج ھے]. تو محترم جناب سابق جج سندھ ھائی کوڑٹ اور موجودہ وکیل PTCL شاھد انور باجوہ نے اس LHC کے کیس میں جو اپنے arguments دئے ھیں اور معزز عدالت سے  حقائق  چھپائے گئے ھیں اور  انھوں نے یہ حقائق جان بوجھ کر  عدالت سے چھپائے تاکے وہ یہ فیصلہ اپنے حق میں کراسکیں اور پھر اس فیصلہ کا عدالت عظمی میں چلنے والے صاردق علی اور نسیم وہرہ والے توھین عدالت کے کیسوں میں صرف ان پٹیشنروں کو گورنمنٹ والے pensionary benefits دلائے جاسکیں جو ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئے اور صرف نارمل طریقے سے پی ٹی سی ایل سے ریٹائیڑڈ ھوئے تھے. اور یقینن انکا یہ استدلال عدالت عظمی ضرور مان لے گی جسطرح ۱۵ فروری ۲۰۱۸ کے فیصلے میں  مانی گئ تھی اور دو رکنی معزز ججز نے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے تین رکنی بینچ فیصلے کو modify کرتے ھوئے میں صرف ان پٹیشنرس پنشنرس کو فیڈرل  گورنمنٹ کے pensionary benefits دینے کو کہا تھا جوٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئے اور نارمل طریقے سے ریٹائڑڈ ھوئے یہ ھی بات اس عدالت نے اپنے فیصلے میں کہی اور وی ایس ایس لے کر ریٹائڑڈ ھونے والوں چاھے وہ ٹی اینڈ ٹی میں ھی کیوں نہ بھرتی ھوئے ھوں کو فیڈرل گورنمنٹ کے pensionary benefits سے بلکل محروم کردیا اور جو پی ٹی سی میں بھرتی ھوئے تھے انکی تو درخواستیں ھی ناقابل سماعت قرار دے دیں . یہ سب صحیح  نہیں  اور غیر قانونی ھیں یہ مسعود بھٹی کیس کی بلکل نفی ھیں . میں چاھتا ھوں کے پلیز آپ لوگ پہلے یہ پیرا پڑھیں یعنی پیرا نمبر ۸ اور پھر اسکے بعد وہ غلطیاں پڑھیں جو میرے خیال میں  ھیں جس پر تبصرہ بمعہ ثبوت تحریر کرررھاھوں . اگرچہ میں نہ کبھی وکیل رھا اور نہ جج لیکن تقریبن ۲۲ سال یا اس کچھ زیادہ میں نے ایڈمن اور ایچ آر کی پوسٹوں پر میں نے بہت کام کیا اور پھر قانونی پیچداریوں کو پڑھنا اور انکو حل کرنے کے عدالتی فیصلے  پڑھنے کا شوق بہت ھے چاھے کیسے بھی ھوں ، اسی  کی وجہ  جو کچھ میں نے غلطیاں اس فیصلے میں  ، میں نے  محسوس کیں کے  جو  Respondent کے وکیل شاھد انور باجواہ نے بیان کیں اور عدالت عالیہ نے مزکورا کیس کی مورخہ 23-4-2018 کی نوٹ شیٹ کے پیرا 8 میں تحریر کیں ھیں جسکا کچھ حصہ میں یہاں reproduce کررہا ھوں اور پھر اس میں کیا حقائق چھپائے گئے ھیں وہ اسکے بعد تحریر کررہا ہوں.
   .Para 8. Mr. Shahid Anwar Bajwa, Advocate representing PTCL in some of the cases argues that as a matter of fact the employees who were in service prior to 01.01.1991 were governed under statutory service rules but the said rules are not applicable to the employees who were inducted in service by the Corporation after 01.01.1991; that in none of the  judgments, referred by the counsel for the petitioners, it has been held that the employees who joined the Corporation after 1991 were governed under statutory rules; that section 9 of the Act 1991 empowered the Corporation to frame rules without the intervention of the government, thus, the rules framed under the said Act were non-statutory in nature; that as per section 59(2) of the Act 1996 only existing terms & conditions of service of transferred employees which were applicable at the time of their transfer to the PTCL were protected but the said fact cannot be used to declare the Service Regulations framed by the Corporation as statutory, thus, the writ petitions filed on behalf of the transferred employees, who joined the Corporation after 01.01.1991, are not maintainable; that the Apex Court of the country has already decided in Pakistan Telecommunication Co. Ltd. through Chairman v. Iqbal Nasir and others (PLD 2011 SC 132) that the employees who severed their relation with the department under VSS were not entitled to pensionary benefits admissible to the ordinary retirees; that the latest judgment on the subject passed by a Five Member Bench has been reported as P.T.C.L. and others v. Masood Ahmed judgments, referred by the counsel for the petitioners, it has been held that the employees who joined the Corporation after 1991 were governed under statutory rules; that section 9 of the Act 1991 empowered the Corporation to frame rules without the intervention of the government, thus, the rules framed under the said Act were non-statutory in nature; that as per section 59(2) of the Act 1996 only existing terms & conditions of service of transferred employees which were applicable at the time of their transfer to the PTCL were protected but the said fact cannot be used to declare the Service Regulations framed by the Corporation as statutory, thus, the writ petitions filed on behalf of the transferred employees, who joined the Corporation after 01.01.1991, are not maintainable; that the Apex Court of the country has already decided in Pakistan Telecommunication Co. Ltd. through Chairman v. Iqbal Nasir and others (PLD 2011 SC 132) that the employees who severed their relation with the department under VSS were not entitled to pensionary benefits admissible to the ordinary retirees; that the latest judgment on the subject passed by a Five Member Bench has been reported as P.T.C.L. and others v. Masood Ahmed 
Bhatti and others (2016 SCMR 1362) whereby the earlier judgments passed in the cases of Muhammad Shahid and Muhammad Riaz (Supra) have been revisited by the Apex Court of the country, thus, they cannot be quoted as precedent; that all the employees of T&T department were not civil servants as according to section 2(b)(iii) of the Civil Servants Act, 1973 the workmen have been ousted from the definition of civil servant which fact has further been affirmed under clause 9 of Second Schedule to Workmen Compensation Act, 1923 according to which the persons related with establishment of telephone industry etc. are workmen, thus, these petitions are not maintainable; that according to the plain language of Act 1991 and the Act 1996 the employees were entitled to pay protection which was admissible at the time of their transfer but the said fact cannot be used to compel the PTCL to pay salaries to the transferred employees according to the rates revised by the 
Federal Government from time to time . . . .
۱) پی ٹی سی ایل کے وکیل محترم جناب شاھد انور باجواہ صاحب ریٹآئڑڈ جج سندھ ھائی کوڑٹ کا یہ کہنا کے جو ملازمین یکم جنوری ۱۹۹۱ سے پہلے  ٹی اینڈ ٹی کی سروس میں تھے وہ حکومت پاکستان کے سرکاری قوانین یعنی Statutory Rules کے تحت ھی کام کررھے تھے ، یہ بات تو صحیج تھی لیکن انکا یہ کہنا کے کے جو ملازمین یکم جنوری ۱۹۹۱ کے بعد کارپوریشن  میں شامل کئے گئے ان پر یہ  سرکاری قوانین  استعمال نہيں ھوسکتے تو یہ بات بالکل غلط ھے کیونکے جب پی ٹی سی ایکٹ ۱۹۹۱ جو 25 نومبر 1991 کو پارلیمنٹ سے منظورھوا اور 27 نومبر سے نافظ ھوا یعنی اسکا گزٹ نوٹیفکیشن ھی اس تاریخ کو نکلا تو یکم جنوری ۱۹۹۱ کے بعد سے لے کر 24 نومبر 1991  تو کارپوریشن کا وجود ھی نہیں تھا تو اس دوران جو نئے ملازمین inducted یعنی شامل  ھوئے وہ گورنمنٹ پاکستان کے ٹیلی گراف اور ٹیلی فون ڈیپاڑٹمنٹ  میں ھی inducted ھوئے تھے نہ کے کسی کارپوریشن میں . پھر انکا یہ کہنا کے کے پی ٹی سی ایکٹ ۱۹۹۱کی سیکشن ۹ اس بات کا اختیار کارپوریشن کو نھیں دیتی کے وہ ۱۹۹۱ کے بعد بھرتی ھونے والے ملازمین بغیر حکومت کی منشاء یعنی intervention  کے سرکاری قوانین بنائےاور جو سرکاری قوانین یعنی Statutory rules  کارپوریشن نے frame کئے ھیں وہ   non  statutory  ھیں . بھئی کونسے statutory rules  جو کارپوریشن نے 1991 کے بعد ان نئے کارپوریشن میں inducted ملازمین کے لئے بنا لئے تھے جو بعد میں بقول شاھد انور باجوہ کے  non statutory rules ھیں . انھوں نے کہا کے that as per section 59(2) of the Act 1996 only "existing terms & conditions of service of transferred employees which were applicable at the time of their transfer to the PTCL were protected but the said fact cannot be used to declare the Service Regulations framed by the Corporation as statutory, thus, the writ petitions filed on behalf of the transferred employees, who joined the Corporation after 01.01.1991, are not maintainable; . میری سمجھ میں یہ بات نہں آرھی کے کارپوریشن نے non statutory  اور کیسے بنائے اور  section 59(2) of the Act 1996 میں یہ بات کہاں لکھی ھے . یہ بات یاد رکھنی چاھئے کے  PTC Act 1991 کی کلاز  20 جسکا عنوان ھے Power to make regulations اس میں یہ لکھا ھوا ھے کے کے PTC Board  کو یہ اختیار ھے کے فیڈرل گورنمنٹ کی منظوری سے وہ  ایسے قوانین  regulations بناسکتا ھے جو وہ سمجھتا ھو کے یہ ضروری ھیں . پی ٹی سی کا حقیقی قیام فیڈرل گورنمنٹ نے پی ٹی سی ایکٹ ۱۹۹۱ کے سیکشن ۳ کے تحت دسمبر ۱۹۹۱[ صحیح تاریخ میں مجھے یاد نہیں شآئید 23 دسمبر یا 24 دسمبر] . اس دن حقیقی طور پر ٹی اینڈ ٹی کا خاتمہ ھوگیا تھا اور اسی دن سے ٹی اینڈ ٹی میں کام کرنے والے تمام ريگولر اور کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ملازمین کارپوریشن یعنی پی ٹی سی کا حصہ بن گئے یعنی شامل ھوگئے اور ریگولر ملازمین  پر اس ایکٹ کے سیکشن (1)9 کے تحت وھی فیڈرل گورنمنٹ کے قوانین لاگو ھوگئے جو انکی پی ٹی سی یعنی کارپوریشن میں شامل ھونے سے فورن پہلے یعنی ٹی اینڈ ٹی  میں تھے] PTC Board   نے اپنے دوسرے ھی اجلاس میں جو فروری 1992  میں منعقد ھوا  اس یہ بات کا فیصلہ  کیا کے سابقہ ٹی اینڈ ٹی کے انھی قوانین اور طریقہ کار کو پی ٹی سی میں   adopt کیا جائے جبتک کاپوریشن اپنے قوانین نہیں بنالیتی اسکا نوٹیفیکیشن  ۹ فروری ۱۹۹۲ کو جاری کیا گیا اور اسکا عنوان تھا
‏Adoption of the existing rules and procedures  of the erstwhile T &T Department"
اس نوٹیفیکیشن کی کاپی ایک بار پھر آپلوگوں کو سمجھانے کے لئے میں نے اس مضمون کے آخر میں پیسٹ کررکھی ھے یہ بات بھی واضح کردیتا ھےکے جس وقت ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ کا خاتمہ ھوا اور کارپوریشن کی اسکی جگہ تشکیل ھوئی اس وقت کارپوریشن میں ٹی اینڈ ٹی والے ھی سرکاری قوانین  اور اسکے طریقہ کار کا اطلاق فورن ھی شروع ھوجکا تھا . اس  کی وجہ یہ ھے کے تمام سرکاری ملازمین جو ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ سول سرونٹ کہلاتے تھے  وہ کارپوریشن کے میں میں ٹرانسفر ھوکر  کارپوریشن کے ملازمین بن گئے اور انکا سول سرونٹ والا سٹیٹس تو ختم ھوگیا لیکن انکو پی ٹی سی ایکٹ ۱۹۹۱ کی سیکشن (۲)۹ کے تحت ایک پروٹیکشن مل گئی اور  کاپوریشن کے ملازمین ھونے کے باوجود  ان پر انھی سرکاری قوانین اور طریقہ کار کا اطلاق ھونے لگا جو انکا پی ٹی سی میں ٹرانسفر ھونے سے پہلے تھا اور اسی کو کارپویشن نے Adopt کرلیا جب تک کے کارپوریشن کے اپنے قوانین نھیں بن جاتےجیسا کے اس ۹ فروری ۱۹۹۲ کے کے اس نوٹیفیکیشن سے ظاھر ھے . اور اسی اصول کو عدالت عظمی کے پانچ رکنی بینچ نے جس نے پی ٹی سی ایل کی رویو پٹیشن مسعود بھٹی کیس [2012SCMR152] کے خلاف خارج کرتے ھوئے اپنے 16 مارچ 2016 کے تفصیلی فیصلے[2016SCMR1362] میں کہی تھی کے جب یہ لوگ ٹرانسفر ھوکر کارپوریشن کے ملازم پی ٹی سی ایکٹ ۱۹۹۱ کی سیکشن ۹ تحت بن گئے اور پھر کمپنی میں پی ٹی [ ری آگنائزیشن ] ایکٹ 1996 کی سیکشن 35 کے تحت تو انکو سول سرونٹ سٹیٹس کہنے کے الفاظ سپوڑٹ نھیں کرتے . اور دوسرے اسی تفصیلی فیصلے کے پیرا نمبر 6 میں عدالت عظمی کے ان پانچ معزز ججز نے یہ بات بھی واضح کردی کے یہ لوگ سول سرونٹس تو نہیں رھے لیکن انکے سروس کے ٹرمز اینڈ کنڈیشنس وھی رھیں گے جو سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی سیکشن 3 سے سیکشن 22 میں دئیے گئے ھیں جنکو ایکٹ آف 1991کی سیکشن (2)9  اور ایکٹ آف 1996 کی سیکشن ( 2) 35 اور 36 کے سیکشن a اور b  کے تحت پروٹیکشن حاصل ھے اور جو Statutory  ھیں اور اسکی کسی بھی ٹرمز کی  خلاف ورزی کو سننا ھائی کوڑٹ کی آئینی زمہ داری ھے [ میں اس سلسلے میں انھی ٹرمز کے بارے میں ایک مثال دینا چاھتاھوں کے  سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے سیکشن (1)19 میں یہ لکھا ھوا ھے کے جو سول سرونٹ ریٹآئڑ ڈ ھوگا اسکو پنشن یا گریجوٹی دی جائے گی . مگر ان پی ٹی ای ٹی والوں نے 2008 ان وی ایس ایس لے کر ریٹائڑڈ ھونے والے ہزاروں ایسے پی ٹی سی ایل کے ملازمین کو پنشن سرے سے دی ھی نہیں جنکی کوالیفائیڈ سروس  بیس سال سے کم تھی . جبکے گورنمنٹ کے سول سروس ریگولیشن 474AA کے تحت دس سالہ کوالیفائیڈ سروس کرنے والا سرکاری ملازم پنشن کا حقدار بن جاتا ھے اور اگر دس سال سے کم ھو تو اسو گریجویٹی ملتی ھے. تو پی ٹی ای ٹی نے کتنی بڑی ایک طرح کی  وی ایس ایس 2008 ایسے ھزاروں ریٹائڑڈ ملازمین کو انکی جائیز پنشن نہ دے کر آئینی خلاف ورزی کی اور اب ایسے لوگ ھائی کوڑٹ میں جب کیس کریں گے آئین ے آڑٹیکل 199 کے تحت ، تو ھائی کوڑٹ اسکو سننے کی مجاز ھے اور اس پر فیصلہ دینے کی . ].جب PTC دسمبر 1991 میں وجود میں آگئی اور اس میں تمام ٹی اینڈ ٹی کے ملازمن جو سول سرونٹ ٹرانسفر ھوگئے انھی ٹرمز اینڈ کنڈیشنس پر جو انکے ٹی اینڈ ٹی میں تھے اور کارپوریشن نے وھی ٹی اینڈ ٹی والے سرکاری قوانین اور طریقہ کار اپنا لئے تھے تو اب اگر کوئ نئے ملازمین کارپوریشن  appoint  کرتی ھے ریگولر خالی پوسٹوں پر تو وہ لازمن انھیں سرکاری ٹی اینڈ ٹی والے قوانین کے تحت ھی کرے گی جو اسنے adopted کررکھے تھے کیونکے اسکے اپنے تو کوئی بھی قوانین نہيں تھے . 1995-1994  میں جو فیڈرل گورنمنٹ نے اپنے سرکاری ملازمین کے تنخواھوں کے اسکیلز کو revised کیا گیا تو کارپوریشن میں کام کرنے والے تمام ریگولر ملازمین کے بھی تنخواھوں کے اسکیل revised کئے گئے تھے کیونکے کارپوریشن کے تمام ریگولر ملازمین کے تنخواھوں کے اسکیلس وھی تھے جو فیڈرل کورنمنٹ کے سرکاری ملازمین کے تھے . اب وہ ملازمین چاھے ٹی اینڈ ٹی سے ٹرانسفرھوکر PTC میں آئیں ھوں یا وھیں یعنی کارپوریشن میں ۱۹۹۱ کے بعد ملازم ھوئے ھوں سب کےrevised ھوگئے، کیونکے اب  سارے ھی ایک ھی کشتی کے سوار بن چکے تھے جب سپریم کوڑٹ اپنے مسعود بھٹی کیس میں یہ کہتی ھے کے " Those who stood transferred from Corporation". جب فیڈرل گورنمنٹ پی ٹی سی ایل کی تشکیل کے لئے پی ٹی ( ری آرگنائزیشن )آڑڈیننس  1995 [ یاد رھے کے یہ آڑڈیننس  17 اکتوبر 1996 میں پی ٹی ( ری آرگنائزیشن )ایکٹ 1996 میں تبدیل ھوگیا تو اسکی کلاز (1)59 کے تحت یہReappeal گیا  ] کی کلاز 35  کے تحت اختیار کے تحت ایک آرڈڑ یعنی SRO نکالتی ھے بتاریخ 7 فروری 1996 کو ، اور اسکے کے پیرا 2 میں یہ لکھتی ھے کے All employees of Pakistan Telecommunication Corporation  تو اسکا مطلب یہ نہیں ھوتا کے صرف وہ ملازمین جو ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئے تھےاور پھر 
کارپو ریشن میں ٹرانسفر ھوگئے اسکا مطلب ان کارپوریشن میں کام کرنیوالے  تمام ریگولرز ملازمین کا ھی ھوتا ھے چاھے وہ T&T کے ٹرانسفڑڈ ملازمین ھوں یا کار پوریشن میں یعنی پی ٹی سی میں بھرتی ھوئے ھوں . تو جناب محترم شاھد باجواہ نے ان تمام حقائق سے الگ بات بتاکر کے جو پٹیشنرس   کارپوریشن  میں یکم جنوری ۱۹۹۱ کے بعد بھرتی ھوئے ان کی درخواستیں اس عدالت میں maintainable ھی  نھیں ، بلکل غلط ھے .  جیسا اوپر بتا چکا ھوں انھی معزز وکیل شاھد انور باجواہ نے جب یہ سندھ ھائی کوڑٹ کے جج تھے ایسے تمام پی ٹی سی ایل کےٹرانسفڑڈ ملازمین  کے خلاف فیصلہ لکھا جس کی تائید اس بینچ کے دوسرےمعزز جج  گلزار صاحب نے بھی کی تھی . اور یہ فیصلہ عدالت عظمی  کے تین معزز جج حضرات نے اپنے ۸ اکتوبر ۲۰۱۱ میں مسعود بھٹی اور دیگر کے کیس میں مسترد کردیا اور اپنے فیصلے کے پیرا ۲ کے آخر میں لکھا " For the reasons considered below and with great respect to the learned Judges, it has not been possible for us to agree with their conclusions. تو پی ٹی سی ایل کے وکیل شاھد انور باجواہ کا رویہ شروع سے ھی ان پی ٹی سی ایل میں کارپوریشن سے پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفڑڈ ھونے والے ملازمین کے خلاف لگتا ھے تو وہ ایسے ھی arguments  دیں گے .
(۲ وکیل محترم fی بینچ کے سامنے دیا تھا جس کے جواب میں عدالت نے اپنے اس فیصلے (2016SCMR1362 ) جو اسکے پیرے 7 میں درج ھے کے " اس عدالت کے تین ممبر ججز نے اس پی ٹی سی ایل وز اقبال ناصر کیس میں کہا تھا کے جو ملازمین پی ٹی سی ایل میں ماسٹر اور سرونٹ کے قانون اور اصول کے تحت کام کررھے تھے وہ ھائی کوڑٹ میں آئین کے آڑٹیکل 199 کے تحت رجوع نہیں کرسکتے اور دوسرے برابر کے تین رکنی بینچ نے [ یعنی مسعود بھٹی کیس والا بینچ ] نے اس بات سے انکار نہیں کیا . تو یہ انکی misconception ھے [ یعنی وکیل صاحب کی ]  دراصل انکا [ مسعود بھٹی کیس میں] یہ آڈر ان ٹرانسفڑڈ ملازمین کے لئے تھا جو پہلے کارپوریشن اور پھر کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھوکر آئے تھے جنکو پی ٹی سی ایکٹ 1991 کی سیکشن 9 اور پی ٹی ( ری آرگنائیزیشن) ایکٹ 1996 کی کلاز 35 کی سب کلاز 2 اور 36  کی سب کلاز 1 کے تحت پروٹیکشن حاصل تھی . لیکن جو ملازم کنٹریکٹ یا ورک چارج پر کام کرھے تھے انکو یہ چونکے پروٹیکشن حاصل نہیں تھی [اسلئے وہ کمپنی میں ماسٹر اینڈ سرونٹ کے قوانین اور اصول کے تحت ھی کام کررھے تھے] اسلئے ھم اس دلائیل کو قبول کرنے سے قاصر ھیں ".  [آپ لوگوں کو یاد ھوگا کے ٹی اینڈ ٹی اور پھر بی ٹی سی میں بہت سے وہ کنٹریکٹ کے ملازمین تھے جنکو ٹیلیکام فاؤنڈیشن  تین تین ماہ کے لئے کنٹریکٹ پر appoint کرتی تھی اور کام کرنے ٹی اینڈ ٹی  میں بھیج دیتی اور جب ٹی اینڈ ٹی ختم ھوگئی اور اسکے سارے ملازمین کارپوریشن میں آگئے تو یہ ھی سلسلہ چلتا رھا اور پھر یہ لو گ یکم جنوری 1996 کو کارپوریشن ختم ھونے بعد کمپنی میں آگئے اور وھیں  بھی ایسے ھی سلسلہ چلتا رھا لیکن جب پی ٹی سی ایل کی نجکاری ھوگئی تو نئی انتظامیہ نے ان تمام کنٹریکٹ اور ورک چارج ملازمین کو نکال دیا ان میں سے اکثر وہ تھے وہ ٹی اینڈ ٹی کے زمانے سے کنٹریکٹ اور ورک چارج پر کام کررھے تھے ] . تو جو دلائیل وکیل شاھد انور باجواہ صاحب نے دئۓ اور محترم جج صاحب نے قبول بھی کر لئے ،جنکو پانچ رکنی عدالت عظمی کےبینچ نے مسترد کردئيے تھے اور انکی رویو پٹیشن بھی خارج کردی تھی [19 فروری 2016 کو ایک شاڑٹ آڈر کے زر یعے جسکا تفصیلی فیصلہ 16 مارچ 2016 کو آیا اور جس کا یہ پیرا میں نے اوپر بیان کیا  ھے] .
مزید یہ کے شاھد انور باجواہ صاحب نے عدالت کو اسی طرح اور کیس متعلق نہیں بتایا جسکی رویو پٹیشن بھی خارج کردی ھوگئی تھی . اسی کیس کے متعلق یہ پانچ ممبرز رکنی بینچ پیرا 9 میں تحریر کئے ھیں کہ
9.The same view was held in case Pakistan Telecommunication Company Limited through General Manager and others vs Muhammad Zahir and 29 others ( 2010 SCMR 253) which attend finally as review there against was also dismissed.We therefore, hold that the view taken in the impugned judgement is not a departure much less outright from the dicta laid down in cases of - - - etc
اسکے بعد عدالت عظمی نے کئی سیریز آف ریفرنسس تحریر کئے اور اسی بنا پر آخری پیرے 10 میں یہ لکھ کر کے وہ نہیں سمجھتے کے یہ کیس رویو کے قابل ھے جسکی ججمنٹ 2011-10-7 کو دی گئی [ یعنی مسعود بھٹی کیس کی]. اسلئے انکی  یعنی پی ٹی سی ایل کی رویو پٹیشن اور سول پٹیشن   نمبر 423/2011 کو dismiss کیا جاتا ھے. تو میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ھوں کے یہ سب عدالت عظمی کے کلئیر کٹ احکامات ان پی ٹی سی ایل میں تمام ریگولر ٹرانسفرڑ ملازمین کے حق میں ، جو یکم جنوری 1996 کو  کارپوریشن یعنی پی ٹی سی سے آئے تھے  اسکو عدالت میں بیان کرنے سے کیوں چھپایا گیا اگرچہ کچھ پٹیشنرس کے وکیلوں نے یہ باتیں واضح کیں لیکن انھوں نے اس پر کوئی اعتراز نہیں کیا جو کچھ شاھد انور باجواہ صاحب نے بتایا اس کی تصحیح نہیں کی اور عدالت نے بھی اس پر کوئی انسےاستفسار کیوں نہیں کیا. T
محترم جج نے اس کیس میں پیرا نمبر 14 یہ plea لی ھے کے چونکے مسعود بھٹی کیس (2012SCMR152) میں appellants سول سرونٹس تھے کیونکے وہ ٹی اینڈ ٹی میں  appoint ھوئے تھے کارپوریشن بننے سے پہلے اسلئے ان ھی پر گورنمنٹ کے statutory rules کا اطلاق ھوگا. لیکن محترم جج صاحب اسی فیصلے  یعنی مسعود بھٹی کیس کا پیرا نمبر۹  پڑھنا شائید بھول گئے کیونکے اس پیرے میں تین رکنی ممبر ججز نے یہ لکھا ھے کے ھم کسی دشواری کے بغیر اس نتیجے پر پہنچے ھیں  کے جو قوانین ان appellants پر کارپوریشن میں applicable تھے وہ Statutory Rules تھے" . تو اب لازمی بات ھے جب کارپوریشن پر انپر یہ رولزapplicable   تھے تو سب ھی ٹی اینڈ ٹی سے ٹرانسفر ھوکر کارپوریشن میں آنے والے ایسے تمام سول سرونٹس پر بھی ھوں گے . اور یہ میں اوپر بتا چکا ھوں کے کارپوریشن نے وہ تمام ٹی اینڈ ٹی میں ان سول سرونٹس پر جلنے والے قوانین adopt کرلئے تھے [جسکا باقاعدہ نوٹیفیکیشن بھی ۹ فروری ۱۹۹۲  کو نکال دیا گیاتھا]  تا وقتیکے کارپوریشن کے اپنے قوانین نہیں بن جاتے. جب کارپوریشن میں ٹی اینڈ ٹی والے ھی سرکاری قوانین نافظ تھے تو جو نئے لوگوں کو کارپوریشن مختلف خالی ریگولر پوسٹوں پر appoint کررھی تھی تو وہ انھی سرکاری قوانین کے تحت ھی کررھی تھی اور انپر کارپوریشن کی ملازمت کے دوران بھی یہ ھی قوانین نافظ تھے. انکے بھی وھی گورنمنٹ کے تنخواھوں کے سکیل تھے جو ٹرانسفڑڈ ھوکر آنے والے ٹی اینڈ ٹی کے ملازمین کے تھے . تو یہ کہنا کے جو کارپوریشن میں ملازم ھوئے تھے انپر statutory rules نافظ نہیں تھے بلکل غلط ھے . مجھے افسوس سے کہنا پڑھتا ھے کے نا کارپوریشن کے نئے قوانین نہیں  بن سکے اور وھی  سرکاری قوانین جو کارپوریشن میں نافظ تھے وھی کمپنی میں نافظ رھے .اور اسی وجہ سے پی ٹی سی ایل میں The Removal From Service [Special Powers Ordinance], 2000 بھی  ۲۲جنوری  ۲۰۰۵ میں سول سرونٹ ( ای اینڈ ڈی) رولز 1973کی جگہ نافظ کردیا گیا جو ایک سال بعد دوبارہ نافظ کردیا گیا اور آڑڈیننس 2000 ختم کردیا گیا . کارپوریشن میں نئے قوانین ڈرافٹ کرنے کا عمل تو شروع ھوگیا تھا اور اس میں تقریبن وھی قوانین تھے جو ٹی اینڈ ٹی میں تھے ماسوائے چند تبدیلیوں کے کے جس میں سول سرونٹ ( ای اینڈ ڈی) رولز 1973 میں درج کئے گئے Authority اور Authorised officer  کے Designation بحساب کارپوریشن کے تبدیل کردئے گئے تھے ان تمام قوانین کے ڈرافٹ تو تیار کرلئے گئے تھے جنکی approval قانون کے مطابق حکومت پاکستان سے لینی تھی اسی دوران کارپوريشن کو ۳۱ دسمبر ۱۹۹۵ کو ختم کردیا گیا  اور اسکے پانچ حصے یکم جنوری  1996 سے کردئے گئے       کے تحت  جسکا ایک حصہ  کمپنی پی ٹی سی ایل بنی اور کارپوریشن کے ملازمین اور حصوں میں ٹرانسفر ھوگئے . بڑی تعداد جو ٹرانسفر ھوکر آئی وہ کمپنی یعنی پی ٹی سی ایل میں آئی . کارپوریشن میں تیارکردہ ڈرافٹڈ قوانین رف پیپرس پر پرنٹ کرکے تین والیم بنا لئے گئے اسکے ھر والیم کے کور پیج پر PTCL Regulation 1996 لکھا گیا اور اندر کے صفحات پر جہاں جہاں  لفظ PTC لکھا تھا اسکو کاٹ کر PTCL  لکھ دیا گیا اور اس رف ڈرافٹڈ 3 والیمز جنکے نیلے رنگ کے کورز ھیں کو ھر ریجن ميں بھیج دیا گیا تاکے اس میں جو کچھ غلطیاں ھوئی ھوں انکو نہ صرف نکالا جائے اور بعد میں اسکو صحیح کرکے اور اسکی approval حکومت پاکستان سے لے کر اسکو پی ٹی سی ایل میں نا فظ کیا جاسکے . مگر ھمارے بڑے آفیسران نے اس پر خاص توجہ نہ کارپوریشن اور کمپنی میں اسکے کرتا دھرتا تھے کچھ نہیں کیا نہ  کارپوریشن میں اور نہ کمپنی میں جبتک اسکی نجکاری نہیں ھوئی تھی اس کو صحیح معنوں میں حکومت سے approval لے کر اسکو باقاعدہ کمپنی میں نافظ نہ کرسکے . میرے ریٹائڑڈ  ھونے تک جنوری ۲۰۱۲ میں ، اس وقت کام ویسے ھی چل رھا تھا میں نہیں کہہ سکتا کیا بعد مکں اسکی approval حکومت سے لی گئی یانہیں مگر یہ بات بالکل امر ھے کے پی ٹی سی ایل کی نجکاری تک پی ٹی سی ایل میں سرکاری ھی قوانین چل رھے تھے جو ٹی اینڈ ٹی اور پی ٹی سی میں بھی تھے . تو یہ کہنا کے ان ٹرانسفڑڈ ملازمین پر کمپنی میں ٹرانسفرڑ ھونے کے کے بعد ھی یہ statutory rules نافظ ھوئے ، یہ غلط ھے . ہاں یہ ضرور ھوا کے سپریم کوڑٹ نے مسعود بھٹی کیس میں ایک حد ضرور لگادی کے یہ قوانین صرف انپر لاگو ھونگے جو یکم جنوری 1996 کو کارپوریشن سے کمپنی یعنی پی ٹی سی ایل میں ٹرانسفر ھوکر اسکے ملازم بن گئے ھونگے اور جو یکم جنوری 1996 کو کمپنی جائین کرینگے ان پر کمپنی کے رولز چلیں گے جو ماسٹر اینڈ سرونٹ رولز کہلاتے ھیں .
محترم جج صاحب نے پی ٹی سی ایل کی رویو پٹیشن  [ PTCL Vs Masood Bhattie& others 2016SCMR1362]جو 19 فروری 2016 کو خارج کردی گئی تھی اسکے پیرا 8 کا ریفرنس دیا ھے جو  پی ٹی سی ایل کے شاھد انور باجواہ نے اپنے arguments میں بتایا تھا . دراصل اس پیرا میں اس تین رکنی ممبرز بینچ کے فیصلے کا پیراز نمبر 22,23,24 کو reproduced کیا گیا تھا جو Pakistan Telecommunication Co. Ltd. through Chairman v. Iqbal Nasir and others (PLD 2011 SC 132)  میں دیا گیا تھا جسکے متعلق سپریم کوڑٹ پانچ رکنی بینچ نے پی ٹی سی ایل کی  مزکورہ رویو پٹیشن کے پیرا نمبر 7  واضح طور پر بیان کردیا تھا کے PTCL vs Iqbal Nasir جو فیصلہ میں تین رکنی بینچ نے PTCL کے حق میں دیا تھا وہ ان کنٹریکٹ اور ورک چارج ملازمین کے لئے تھا جو کارپوریشن سے ٹرانسفر ھوکر پی ٹی سی ایل میں آگئے تھے اور انپر کمپنی کے ماسٹر اینڈ سرونٹ رولز ھی استعمال ھوسکتے تھے نہ کے گورنمنٹ کے Statutory rules. اور پھر انھوں نے اس فیصلے کا پیرانمبر 26 کو reproduced کرکے بتایا تھا کے وہ ملازمین کنٹریکٹ پر کیسے آئے تھے جس میں انھوں نے ایک کنٹریکٹ ملازم مسٹر ادریس خان ولد حاجی چمنی خان کی مثال دی تھی  کے اسکو Telecom Foundation نے کسطرح کنٹریکٹ پر appoint کیا اور پھر اسی کے بارے میں اس سے پہلے فیصلے کے پیرا نمبرز 22,23,24 جو لکھا گیا اور جو بحث کی گئی اسکو  اس پی ٹی سی ایل کی رویو پٹیشن کیس کے پیرا 8 میں درج ھیں جو اوپر بھی بیان کرچکا ھوں . تو انور شاھد باجواہ صاحب یہ چاھتے تھے کے ان سب ٹرانسفڑڈ ریگولر ملازمین کو بھی کنٹریکٹ یا ورک چارج کی کٹیگریيز میں ڈال کر عدالت کو یہ بتایا جائے کے سپریم کا تین رکنی بینچ PTCL vs Iqbal Nasir کیس میں یہ ڈکلئیڑڈ کرچکا ھے کے ان تمام ملازمین کے پی ٹی سی ایل میں رولز Non Statutory ھیں اس لئے وہ کسی گورنمنٹ والی مراعات کے جقدار نہیں . اور اسی بات کو معززجج صاحب بتانا چاہ رھے تھے . انھوں نے اسکی تفصیل میں جانے کی کوشش ھی نہيں کی. 
ایک اور اھم نقطہ کے گورنمنٹ آف پاکستان نے یکم جنوری 1996 سے جو پنشن ٹرسٹ بنایا تھا یعنی PTET ، جس کا مقصد ٹرانسفڑڈ ھوکر آنے والے  پی ٹی سی ایل میں ریگولر ملازمین  جو بعد میں کمپنی میں ریٹائڑڈ ھونگے ، اور وہ ملازمین جو ٹی اینڈ ٹی اور کارپوریشن میں  ریٹائڑ ڈ ھوچکے تھے اور کارپوریشن سے گورنمنٹ والی پنشن لے رھے تھے انسبکو پنشن کی باقاعدہ ادائیگی کرنا اور اس ٹرسٹ کا تعلق پی ٹی سی سے بالکل نہیں تھا اسکا اپنا   بوڑڈ آف ٹرسٹی ھے جسکی زمہ داری ھے کے ایسے تمام ریٹاڑڈ ملازمین کو حکومتی پنشن دینا اور صرف انکو جو Telecommunication employees ھیں  اور یہ کون ھیں اسکو Pakistan Telecommunications [Re-Organization]Act 1996 کی سیکشن 2 کی سب کلاز (t)  میں define کردیا گیا ھے اور اس میں کہا گیا ھے" ما سوا ان کارپوریشن کے ان ملازمین  جو کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھوکر آئے جن پر اس ایکٹ کی کلاز 36 کی سب کلاز (3) لاگو ھوتی ھے [ مطلب جو ملازمین دوسرے اداروں میں ٹرانسفر ھوگئے تھے یعنی NTC, PTA, FB etc میں انکے سوا] وہ Telecomunication  employees کہلائیں گے ان میں وہ اشخاض بھی شامل ھیں جو کارپوریشن اور سابقہ  فیڈرل گورنمنٹ کے ٹی اینڈ ٹی ڈیپاڑٹمنٹ  میں شامل تھے اور وہ جو  کارپوریشن سے پنشنری بینفٹس  لے رھے تھے یا اسکے حقدار تھے. اسلئے اسی ایکٹ 1996 کی کلاز 46 یعنی Function and Power of the Trust کی سب کلاز (d) کے تحت PTET کا بوڑڈ آف ٹرسٹی کی یہ زمہ داری ھے کے وہ صرف   Telecommunication employees کو انکی entitlement  اے مطابق پنشن ادا کرے .  پنشن صرف ریٹائڑمنٹ پر یا وہ ملازم فوت ھو جائے تو اسکے spouse کو دی جاتی ھے . پی ٹی ای ٹی کا اس سے کوئی تعلق نہیں ے ریٹائڑمنٹ کیسے ھوئی ، جبری ھوئی ، ساٹھ سال کی عمر میں ھوئی  ھو یا 25 سال سروس کے بعد pre mature ریٹائڑمنٹ ھوئی یا وی ایس ایس لینے سے ھوئی  وغیرہ وغیرہ . تو پھر جج صاحب کا یہ کہنا کے صرف pensionary benefits انکو ملیں گے جو نارمل ریٹائڑڈ ھونگے اس ایکٹ کی خلاف ورزی ھے جو قانونی طور پر ممکن ھی نہیں . جو لوگ 1998-1997 میں وی ایس ایس لے کر ریٹائڑڈ وہ تو شروع ھی سے بہت زیادہ pensionary benefits  لے رھے تھے اسوقت وی ایس ایس لینے کی شرائیط کے تحت . تو کیا انکو بھی یہ دیا جانا بند کردیا جائیکا ؟؟؟؟؟؟ سوال ھی پیدا نہیں ھوتا. تو جو آڈر کئے گئے ھیں وہ سارے کے سارے ھی defectives  یا controversial ھیں انکا کا خاتمہ نا گزیر ھے .

 تو آپ لوگوں کو مندرجہ بالا حقائق جو میں نے بیان کئے ھیں کے کس طرح پی ٹی سی ایل وکیل شاھد انور باجواہ نے غلط بیانی سے کام لیا اور محترم جج صاحب نے بھی اس پر کوئی توجہ نہں دی اور خود جو انھوں نے ریفرینسس کو quote کیا وہ اس کیس کی حقیقت سے مطابقت نہں رکھتے . محترم جج صاحب بار بار شاھد انور باجوہ کے ھی دلائیل quote کر رھے تھے اور شاھد انور باجوہ صاحب کو یہ تک نہیں معلوم لگتا تھا کے کار پوریشن کب وجود میں آئی وہ بار بار یہ ھی کہتے رھے جو لوگ یکم جنوری 1991 کو کارپوریشن کے وجود میں آنے کے بعد کارپوریشن میں ملازم ھوئے ان کے رولز non statutory ھیں جب کارپوریشن یعنی پی ٹی سی کی تشکیل کا گزٹ نوٹیفیکیشن ھی یعنی پی ٹی سی ایکٹ 1991 کا 27 نومبر 1991 کو نکلا ھو  جسکی approval پارلیمنٹ نے 25 نومبر 1991 کو دی تھی تو کارپوریشن یکم جنوری 1991 کو کیسے وجود میں آسکتی  ھے  کارپوریشن تو حقیقتن ۲۰ دسمبر ۱۹۹۱ کے بعد دسمبر ۱۹۹۱ میں وجود میں آئی تھی جسکی تفصیل اوپر بیان کرچکا ھوں . شاھد انور باجواہ صاحب کو یہ بات تک بھی نہیں معلوم تھی کے کارپوریشن میں سابقہ ٹی اینڈ ٹی کے ھی قوانین اور طریقہ کار ھی نافظ تھے جسکی منظوری پی ٹی سی کے بوڑڈ کے دوسرے ھی اجلاس میں دی گئی تھی جسکا نوٹیفیکیشن ۹ فروری ۱۹۹۲ جسکی تفصیل بھی اوپر بیان کرچکا ھوں . اب ان سارے پٹیشنروں کو چاھئے کے کوئی بہت اچھا وکیل کریں اور فورن اسکے خلاف انٹرا کوڑث اپیل کریں . میں نے کافی سارے اس فیصلے دئے گئے نقائص نکال کر اوپر بیان کر دئیے ھیں اور  وکیل صاحب چاھیں تو اس کو بھی اپیل میں لے سکتے ھیں . بحرحال یہ بہت ضروری ھے کے اس فیصلے کو فورن معطل کرایا جائے تاکے پی ٹی سی ایل والے سپریم کوڑٹ میں انکے خلاف جو توھین عدالت کے کیسس لگے ھیں ، اس فیصلے کا فائیدہ نہ اٹھا سکیں . مجھے معلوم ھوا ھے کے صادق علی اور نسیم وہرہ کے توھین عدالت کے کیسسز 26 جون 2018 کو لگنے والے ھیں جو 10 مئی 2018 کو عید کے بعد تک کے لئےadjourned کر دئیے گئے تھے . اگر وھی دو رکنی بینچ ھوا تو پی ٹی سی ایل کے وکیل شاھد نور باجواہ صاحب اس plea پر کیس کو linger on  کریں گے اس لاھور ھائی کوڑٹ  8 جون 2018 کے فیصلے کی بنا پر. اور شائید وہ عدالت سے یہ درخواست کریں کے صرف ان پی ٹی سی ایل پنشنرس پٹیشنرس  کی پنشن میں گورنمنٹ والا اضافہ کیا جائے جو ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئے اور نارمل طریقے سے ریٹائڑڈ ھوئے باقی کا فیصلہ بعد میں کیا جائے کیونکے انکا matter اب sub judice  ھوگیا ھے .  ابراھیم ستی، اور ان جیسے اور وکیل ھوئے تو ھوسکتا ھے عدالت انکی یعنی شاھد انور باجواہ صاحب  یہ بات مان لے جسطرح ۱۵ فروری ۲۰۱۸ کے فیصلے میں مانی  گئی تھی لیکن اگر انھوں نے یعنی صادق علی اور نسیم وہرہ نے کوئی اچھے ایماندار اور دبنگ قسم کے وکلاء کرلئے  وہ ایسا کبھی نہیں ھونے دیں گے بلکے وہ یہ کہیں گے کے"  می لاڑدز آپ ایک ھائی کوڑٹ کے جج کی بات مان کر ان چھ ججوں کے احکامات کو modify  کررھے یہ نا قابل عمل  ھے یعنی اپنے 12 جون 2015 کے فیصلے کی جسکی انکی رویو پٹیشن بھی خارج ھوچکی ھے اب اس کسی قسم کی modification  غیر قانونی ھوگی اور آپ دو معز جج اسکو کیسے modify کرسکتے ھیں جبکے یہ  12 جون 2015 والا فیصلہ اب ایک طرح سے چھ معزز ججوں کا ھے . یہ تو توھین عدالت کے کیسس ھیں آپنے تو صرف respondents  یہ پوچھنا ھے کے انھوں نے 12 جون 2015 کے فیصلے پر عمل کیوں نہیں کیا کیوں نہ انکے خلاف توھین عدالت کی کاروآئی شروع ناکے یہ انکے وکیل کے کہنے پر چھ معزز ججز کے آڈر کو ھی modify کردینا." مجھے امید جب ایسے وکیل کرینگے تو رزلٹ بھی حوصلہ افزا ھی آئے گا ورنہ اپنے ان کئے ھوئے وکیلوں کا حال دیکھ چکے ھیں جو اندر سے دوسری پاڑٹی سے ملے ھوئے ھیں . کچھ انکو بولناھی نہیں آتا . 

یہ سب باتیں آپ لوگوں کو میں نےگوش گزار کردیں ھیں اب آپ لوگ اس پر کیسے عمل کرتے ھيں یہ آپ جانیں.اگر یہ سب کچھ آپ لوگوں کو نا بتاتا تو اپنے ضمیر پر ایک بہت بوجھ محسوس کرتا. آج سات دن کے بعد میں نے یہ اپنا اردو میں طویل آڑٹیکل 59 مکمل کیا. خدا کا شکر ادا کرتا ھوں اور دعا کرتا ھوں کے میری ایک اس ادنی سی کاوش کا نتیجہ اچھا نکلے آمین!
واسلام
محمد طارق اظہر
ریٹائڑڈ جنرل منیجر( آپس) پی ٹی سی ایل
بتآریخ ۲۲ جون ۲۰۱۸
شب دو بجکر تیس منٹ
 

 

Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]