About VSS non Pensioners case WP 2114/2016 in IHC.

             
Attention VSS Non Pensioners.For their information.

نوٹ : میں نے وکیل آصف صاحب کو جو یہ مندرجہ ذیل خط لکھا انھوں نے  مجھے یہ جواب دیا تو میں نے انکا شکریہ ادا کیا

[6/10, 6:55 PM] Adv Asif IB: وعلیکم السلام سر. یہ آپشن آپ کا حق ہے آپ شوق سے استعمال کر سکتے ہیں
[6/10, 7:11 PM] M Tariq Azhar 3: شکریہ

محترم جناب  ایڈوکیٹ آصف محمود صاحب
اسلام وعلیکم
 جیسا کے آپ جانتے ہیں کے وی ایس اس یس نان پینشنرس   غلام سرود ابڑو اور دیگران کےکیس رٹ پٹیشن نمبر 2114/2016 جو 
31 مئی 2016 کو اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں دائیر کیا گیا - جس پر کاروائی شایئد جنوری 2017 کو شروع ھوئی اور مکمل  17 اپریل 2017 کو ھوگئی جب آپنے اسکا rebuttal جمع کرایا ۔ اس کیس کے جج موصوف نے  25 جون 2017 کو  اس کیس کا فیصلہ سنانے کے بجائیے یہ کہا  کے انھوں نے  یہ فیصلہ ابھی تک تحریر نہیں کیا اور وہ اسکا فیصلہ اب 27 ستمبر 2017 کو سنائیں گے  ھائی کوڑٹ کی چھٹیوں کے بعد لیکن جب 27 ستمبر 2017 میں اس کیس کی  کاروائی شروع ھوئی اس کیس کے جج موصوف نے بجائیے فیصلہ سنانے کے پی ٹی سی ایل کے وکیل کی درخواست  پر اسکو دوبارا Arguments  دینے دینے کا حکم دیا آپ نے اس پر اجتجاج بھی کیا لیکن آپ کی نہ سنی گئی۔ ان جج معزز کا یہ طرز عمل  ناقابل فہم تھا اور عدالتی روایات اور اسکے ethics  کے خلاف تھا ۔ ایک جج کو یہ زیب نہیں دیتا کے جو اس نے وعدہ کیا اور فیصلہ سنانے کا کہا وہ اسکے برخلاف کام کرے ۔ جج معزز موصوف نے اس دن یعنی 27 ستمبر 2017  پی ٹی سی ایل کے وکیل کو ایک ھفتہ کا ٹائم دے کر کیس adjourned کردیا . جب ایک ھفتہ بعد یہ کیس لگا تو پی ٹی سی ایل کے وکیل نے پھر ٹائم مانگ لیا کے اس کی تیاری نہیں کی ۔ انھی جج معزز موصوف نے پھر انکو دو ھفتے کا ٹائم دے دیا گیا۔ جج معزز موصوف  پی ٹی سی ایل کے وکیل پر بہت ھی مہربان نظر آئے ۔ مجھے تاریخ یاد  نہیں رھی ، شایئد  اکتوبر 2017 کا آخری ھفتہ تھا، کے مجھے  اس کیس کے پٹیشنر ملک اعجاز صاحب نے مجھے فون پر بتایا کے جج موصوف فرما رھیں ھیں کے سرکاری ملازمین کو بیس سال کی کوالیفائینگ سروس پر پنشن دی جاتی ھے نہ کے دس سال۔ وکیل صاحب اس سلسلے میں کوئی ثبوت مانگ رھے ھیں کے سرکاری کے پنشن لینے کی مدت کم ازکم دس سال کی کاولیفائیڈ سروس ھے نہ کے بیس سال ۔ پھر میں نے  ملک اعجاز صاحب اور دیگر چند پٹیشنروں کے ساتھ آپکی خدمت میں حاظر ھوا ۔ اس دن شایئد اتوار تھا اور ھم لوگ صبح دس بجے کے قریب آپکی بتائی ھوئی جگہ  آپ سے ملنے راول گارڈن پہنچے تھے ۔ وھاں میں نے آپکو پنشن کیلکولیشن کا پہلے ایک چاڑٹ پیش کیا جو گورنمنٹ کے پنشن رولز میں دیا گیا ھے۔ جس میں یہ بتایا گیا گوالیفائڈ سروس کے حساب سے پنشن کیسے کیلکولیٹ کی جاتی ھے۔ اس چاڑٹ کا آغاز دس سال کی کوالیفائیڈ سروس سے ھوتا ھے اور 34 سال کی کوالیفائیڈ  سروس  پر اختتام ھوتا ھے ۔ اور جنکی ریٹائیرمنٹ پر کوالیفائیڈ سروس 34 سال سے زیادہ ھوتی ھے اسکی پنشن بھی 34 سال کوالیفائیڈ سروس  کی بنیاد پر ھی کیلکولیٹ ھوتی ھے۔ بیس سال کی کوالیفائیڈ سروس  پر پنشن  ڈائیریکشن ہر دی جاتی ھے یعنی اگر کوئی سرکاری ملازم چاھے تو وہ اس بیس سال کی کوالیفائیڈ سروس ھونے پر ریٹائیرمنٹ لے جسے premature retirement کہتے ہیں، پر فل پنشن بینیفٹس کے ساتھ ریٹائیرمنٹ لے سکتا ھے اور ڈیپاڑٹمنٹ بھی اسکوریٹائیرمنٹ بھیج سکتا ھے چاھے اسنے اسکے لیئے درخواست دی ھو یہ نہیں۔  میں نے آپکو پٹیشنر کے سروس بک کی کاپی بھی دکھائی تھی جس پر دس سالہ کوالیفائیڈ سروس کی  verification stamp  لگی ھوئی تھی اور یہ بتایا تھا ک دس اور ۲۵ سال کیکوالیفائیڈ سروس کی  verification stamp لگنا سروس بک  لگنا لازمی پہلے ۲۵ سال کی سروس پر premature retirement دی جاتی تھی اس لئیے یہ 25 سال کی verification stamp   لگتی تھی   ۔ ریٹائیرمنٹ کی عمر  ساٹھ سال میں بھی ریٹائیڑڈ  ھونے والے ملازمین کو پنشن نہیں مل سکتی جب تک یہ دونوں کوالیفائیڈ سروسز verified   نہ ھوجآئیں .
میں نے تو آصف صاحب آپ سے اسی ہی دن کہا تھا کے ان جج موصوف کو تبدیل کرنے کی درخواست دے دیں  یہ مجھے اندرونی خانہ دوسری پاڑٹی سے ملے نظر  آتے ھیں لیکن آپنے کہا یہ جج بہت ایماندار ھیں مجھے ایسا نہیں لگتا اور ميں خاموش ھوگیا. لیکن بعد میں کیا ھوا وہ آپکے سامنے ھے ۔  
خدا خدا کرکے یہ دوبارہ بھی ہئیرنگ  ۲۸ فروری ۲۰۱۸ کو مکمل ھوئی  اور  فیصلہ ان جج صاحب نے محفوظ کرلیا جو اب تک محفوظ ہی ھے.  جج معزز موصوف فیصلہ لکھنے کا نام ھی نہیں لے رھے۔ کچھ عرصے پہلے میں نے آپ سے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کے جج معزز موصوف کیا وہ فیصلہ اب لکھ پائیں گے،  کیونکے بقول آپ وہ دوران کیس ھئیرنگ میں کسی قسم کا نوٹ وغیرہ نہیں لیتے تھے۔ جس پر آپ نے کہا تھا کے ایسی بات نہیں ۔  14 مارچ کو جو active کیسس پی  ٹی سی ایل پنشنرس  اور ملازمین کے انکے پاس ھئیرنگ کے لئیے لگے انھوں نے اپنا یہ 28 فروری 2018 کا محفوظ کیا ھوا فیصلہ بھی اسی کے ساتھ کلب کردیا ۔ اب حال یہ ھے کے وہ اور  active کیسوں کی ھئیرنگ تو کرتے ھیں لیکن اس کیس کے فیصلے کو سنانے کے لئے کچھ بھی نہیں کرتے جسکی وہ ھئیرنگ  ڈیڑھ سال پہلے مکمل کر چکے تھے۔ابھی انھوں نے اس کلب کیئے ھویئے کیسس میں پہلے کیسس کی ھی ھئیرنگ مکمل نہیں کی جسکے وکیل خلیل عباسی صاحب ھیں اور ھر ھر دفعہ ایک مہینے کا ٹائیم دے دیتے ھیں ۔ پہلے یہ کیسس 14 مارچ  2019 کو لگے ، پھر 15 اپریل کو شایئد ، پھر 14 مئی کو شایئد اور اب  13 جون  2019 کو کیسس لگے ھیں  لیکن اب بھی یہ ھی ھو گا وہ ایک ھی کیس کی ھئیرنگ کرینگے اور پھر ان کیسس کی سنے کی تاریخ عدالت کے چھٹیوں کی بعد کی دے دیں گے۔ اور وی ایس ایس نان پنشنرز کا کیس یوں ھی محفوظ رھے گا۔ مجھے نہیں لگتا کے یہ ھمارے معزز جج موصوف اس کیس کے فیصلے کو سنانے کے لئیے سنجیدہ ھیں ۔مجھے ایسا محسوس ھوتا ھے وہ اس کیس کو اسی طرح pending رکھنا چاھتے ھیں۔ انکو کچھ تو خدا کا خوف  ھونا چاھئیے۔ بیچارے   وی ایس ایس نان  پی ٹی سی ایل پنشنرس  کس کسمپرسی میں اپنے دن گزار رھے ھیں ۔ ظالم پی ٹی سی ایل انتظامیہ نے باجود  پنشن کا حقدار ھونے پر انیس انیس سال کی کوالیفائیڈ سروس ھونے کے باوجود انکو انکی جائز حق پنشن سے محروم کر رکھا ھے جب کے یہ لوگ اپنی دس سالہ کوالیفائیڈ سروس پر ھی گورنمنٹ کے مجوزہ پنشن قوانین کے کے تحت پنشن کے حقدار ھوجاتے ھیں  چاھے  ریٹائیرمنٹ کسی بھی طریقے سے ھوئی ھو ۔ ایک سزا یافتہ جبری ریٹائیرمنٹ والے سرکاری ملازم کو تو پنشن مل جاتی ھے اگر اسکی کوالیفائیڈ سروس دس سال یا اس سے زیادہ ھو مگر ایک انیس سال کی کوالیفائیڈ سروس کے حامل پی ٹی سی ایل ملازم کو پنشن نہیں مل سکتی جسکو پی ٹی سی ایل کی جابر انتظامیہ نے اپنے من مانے قانون بناکر، جسکے وہ مجاز ھی نہ تھے، بیس سال کی کوالیفائیڈ سروس  کردی اور یہ نہ ھونے کی بنا پر زبردستی انکو وی ایس ایس دے کر پنشن سے محروم کر دیتے ھیں ۔ یہ ظلم کی انتہا ہے اور پھر عدالت بھی انکو انصاف دینے میں اتنی دیر لگائیے جسطرح  معزز جج موصوف کر رھے ھیں تو یہ بیچارے اب کس کے پاس جاکر فریاد کریں۔ سپریم کوڑٹ نے بینکنگ ملازمین پنشنر کیس میں یہ حکم دے رکھا ھے [CRP No 70 78/2018]کے جو 5416 بنک ملازمین یو بی ایل بنک انتظامیہ  نے 1997  میں نکالے تھے اگر انکی سروس دس سال یا اس سے زیادہ تھے انکو پنشن دی جائیے، تو معزز جج کیوں اس کیس کے فیصلے کو طویل دے رھے ہیں۔ بات سمجھ میں نہیں آرھی ۔ ھائی کوڑٹ کا دیا گیا ھوا کوئی فیصلہ فائنل نہیں ھوتا تاوقتیکے اسکے خلاف یا حق میں اپیل نہ کی جائیے ۔ 
ھائی کوڑٹوں میں دئیے گئیے فیصلے سپریم کوڑٹ میں ھی فائنل ھوتے ہیں۔ اگر یہ جج معزز موصوف کوئی خلاف ھی فیصلہ دے دیتے، فیصلے کے محفوظ کرنے سے ایک ایک ماہ کے اندر تو انکے اس فیصلے کے خلاف اپیل کے مراحل انٹرا کوڑٹ اپیل سے تو گزر ھی چکا ھوتا بلکے سپریم کوڑٹ کے مراحل سے بھی اور شائید یہ پٹیشنرس بلکے اور تمام ایسے نان پٹیشنرس پی ٹی سی ایل پنشنرس  بھی ریلیف پاچکےھوتے . مگر یہ نہ ھوسکا کیونکے ھمارے ان محترم  معزز جج  نے 
نا فیصلہ سنا نا تھا اور نہ اب تک سنایا اور ان سے اس بات کی بلکل بھي امید نہیں کے یہ شائید اب سنادیں گے.
میرا ، آصف محمود صاحب آپکویہ سب کچھ تفصیلن  لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کے آ پ یہ کسي  نہ کسی طرح  ان محترم جج صاحب کو یہ باور کراديں کے اگر انھوں نے اب بھی ۱۳ جون ۲۰۱۳ کو اسکا فیصلہ نہ سنایا تو اس کیس کے مین پٹیشنر جناب غلام سرور ، جو خود بھی ایک وکیل ہیں اور بلوچستان ہائی کوڑٹ میں وکالت کررھے ھیں ،وہ ان جج محترم کے خلاف جوڈیشنل کونسل ميں درخواست دائیر کریں گے اور انکے خلاف اسلامی  جمھوریہ پاکستان کے 
آڑٹیکل (a)(5)209 کے تحت انکا یہ سارا کچا چٹھا بیان کرکے انکے خلاف تادیبی کاروائی کرنے کی اپیل کریں گے. 
میں سمجھتا ھوں آپ اس بات کی ضرور کوشش کریں گے کے یہ نوبت نہ آئیے  اور اپنی پوری کوشش کریں کے  جج محترم اپنا یہ 28 فروری 2018  میں کیا گیا ھوا فیصلہ 13 جون کو لازمن سنادیں جو بھی ھو۔ شکریہ
نیاز مند
طارق
۱۰ مئی ۲۰۱۹

نوٹ: یہ اس کیس کا سٹیٹس اوپرلگا رھا ھوں۔ اب اسکی ھئیرنگ ۱۳ جون ۲۰۱۹  ہے۔
--
Sent from Rawalpindi Pakistan via iPad

Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]