Article -95[ Regarding Urdu draft of Appel to HCJ]
Article -95 [ Urdu drafted appeal to HCJ to debarr HJ Gulzar Ahmad Sb to hear the different cases of PTCL employees and Pensioners]
عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو
اسلام وعلیکم
جیسا کے میں نے آپ لوگوں سے اپنے 27 جون2019 کو اپنے عدالتی نظام کے بارے میں بتایا تھا جہاں انصاف تو ملتا ہے لیکن وہ بھی بہت دیر سے اور دوسرا یہ کوئی بھی تصور کرسکتا کے اسکو انصاف مل سکے گا بھی نھیں جب مقدمہ کی کاروائی ھورھی ھو ۔ انصاف کا تقاضا ایک تو یہ کے اسکو دینے میں دیر نہ کی جائیے بلا واسطہ اور اور مقدمہ کی کاروائی کے دوران ھی یہ ظاہر ھوجانا شروع ھو جائیے کے عدالت انصاف کرنے جارھا ی ھے لیکن یہ ایسا یہا ں کبھی نہیں ھوتا ۔ یہ ٹھیک ہے عدالت عالہیہ اور عدالت عظمی نے پی ٹی سی ایل پینشنروں کے کیسس بیشتر فیصلے انکے حق میں دئیے لیکن یہ دیکھنا پڑے گا اسکے دینے میں کتنا وقت لگایا ۔ عدالت عظمی نے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کو پی ٹی سی ایل پنشنروں کے حق میں فیصلہ دیا اور پی ٹی ای ٹی ان پی ٹی سی ایل کو یہ باور کی وہ ان پی ٹی سی ایل پنشنروں کو ، جو ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئیے اور پھر کارپوریشن اور کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھوکر ریٹائیڑڈ ھوئیے، انکو گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز دینے کی پابند ہے - اور آج چارسال سے زیادہ ھوگئیے ھیں پی ٹی ای ٹی اس عدالت عظمی کے حکم پر اسکی روح کے مطابق عمل کرنے سے گریزاں ھے اور عدالت عظمی بھی انسے اپنے اس حکم پر عمل درآمد کرنے میں اسکی روح کے مطابق ناکام ھو چکی ھے ۔ پی ٹی سی ایل پنشنرس پٹیشنرس اور نان پٹیشنرس نے اس پر پی ٹی ای ٹی کے عمل نہ کرنے پر توھین عدالت کے کیسس کئیے اس پر عمل کرانے کے کیسس کئے لیکن کچھ بھی فائیدہ نہیں ھوا ۔ عدالت عظمی نے اپنے ہی ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے کے برخلاف جو چھ معزز ججز نے دیا تھا ۔ (تین نے اپیل میں اور تین نے انکی رویو پٹیشن خارج کرنے پر) ، ۱۵ فروری ۲۰۱۸ کو صرف ان پی ٹی سی ایل پٹیشنروں کو یہ پنشن انکریز دینے کا حکم دیا جو نارمل طریقے سے ریٹائیڑڈ ھوئیے تھے ۔ یعنی دو ججز نے چھ ججز کے فیصلے کو ہی تبدیل کر ڈالا ۔ اور ان سب کرنے کے روح رواں ھمارے بہت ھی معزز جج سپریم کوڑٹ جناب گلزار احمد صاحب تھے جنھوں نے اپنے دیرینہ دوست سابقہ جج سندھ ھائی کوڑٹ اور پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے وکیل جناب محترم شاھد انور باجوہ کے کہنے پر کیا ۔ یعنی جیسا انھوں نے کہا انھوں نے ویسا ھی کیا اور شائید وہ یہ بھول گئے کے وہ ایسا کرنے کا اختیار ہی نہیں رکھتے تھے کیونکے چھ ججز نے جو فیصلہ دیا تھا اسے وہ کیسے تبدیل کرسکتے ھیں ۔ یہ ہی نہیں کیا انھوں نے 24 اپریل 2019 تمام impleadents applications کو جو نان پٹیشنرس پی ٹی سی ایل نے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے عدالت عظمی کے احکامات کو انپر بھی سپریم کوڑٹ کے حمید اختر نیازی کیس میں متعین کردہ قانون اور اصول کی بنیاد پر دی تھی کے کسی ایک سرکاری ملازم کے حق میں آنے والے فیصلے کا فائیدہ ، جس نے مقدمہ کیا ھو ایسے تمام سرکاری ملازمین کو بھی ملے گا جنھوں نے مقدمہ کیا ھو یا نہ کیا ھو بجائیے انسے کہا جائیے وہ عدالت یا اور کسی پراپر فورم سے رجوع کریں ۔ مگر بصد احترام محترم جناب جسٹس گلزار صاحب نے ایسی تمام درخواستیں یہ حکم دے کرخارج کردیں کے یہ پراپر فورم سے رجوع کریں ۔ (میں اس 24 اپریل 2019 کی آڑڈڑ شیٹ کی کاپی لگا رھا ھوں اور میں نے وہ پیرا ھائی لائیٹ کردیا ھے جہاں ایسا کہا گیا ھے)۔ یہ ٹھیک ہے کے ھائی کوڑٹیں سپریم کوڑٹ کے احکامات پر عمل کرانے کے لئے کروائی کرسکتی ہیں مگر سپریم کوڑٹ بھی تو اپنے احکامات پر عمل کرانے کے لئیے کاوائی کرسکتی ہے ۔ محترم جناب جسٹس گلزار صاحب کا طرز عمل پی ٹی سی ملازمین اور پنشنرز کے کیسس کے ساتھ ٹھیک نہیں ہے اور یہ سب سمجھتے ھیں کے انکے ھوتے ھوئی انکو انصاف کبھی نہیں مل سکتا کیونکے انکی ھمدرد یاں اپنے دیرینہ دوست پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے وکیل جناب شاھد انور باجواہ صاحب کے ساتھ ھیں جو انکے ساتھ سندھ ھائی کوڑٹ میں جج رہ چکے ھیں اور ایک عرصے تک ایک ھی بینچ میں کام کر چکے ھیں ۔ تو اب وقت یہ ھی تقاضا ھے کے تمام وہ پی ٹی سی ایل ملازمین اور پنشنرس جنھوں کیسس پی ٹی سی ایل اور پی ٹی سی ایل انتظامیہ کے خلاف سپریم کوڑٹ میں کیسس کر رکھے ہیں وہ محترم چیف جسٹس پاکستان کو ، محترم جناب جسٹس گلزار احمد صاحب کو پی ٹی سی ایل ملازمین اور پنشنرس جو بھی سپریم کوڑٹ میں کیسس چل رھے ھیں انکو سننے سے فیل فور ھٹایا جائیے اور جو بھی ایسے کیسسس مستقبل قریب میں دائیر کئیے جائیں گے ، انھیں بھی سننے سے ھٹایا جائیے ۔ وہ پی ٹی سی ایل ملازمین اور پنشنرس جنکے کیسس سنے بغیر خارج کردئیے گئی وہ تو ضرور یہ اپیل کریں ۔ میں نے اسکے لئیے یہ ایک ڈرافٹ بنادیا چاھیں تو اس طرح کا یہ لوگ بنائیں یا اور اس سے بہتر سمجھتے ھوں خود بنائیں اور اسکو “عزت ما آب جج محترم جناب جسٹس آصف کھوسہ صاحب چیف جسٹس سپریم کوڑٹ آف پاکستان ، سپریم کوڑٹ اسلام آباد کے پتے پر بزریعہ ٹی سی ایس بھیج دیں ۔ یاد رھے یہ اپیل کوئی انفرادی طور پر نہ کرے مگر گروپ کی صورت میں کرے ۔ میں دستخاط کی جگہ جو لکھا ھے ویسا ھی لکھیں اور اپنی مکمل رپوڑٹ دیں ۔ ڈرنے یا گھبرانے کی ضرورت نہیں اس سے کوئی توھین عدالت نہیں ھوتی ۔ بس جج صاحب کے رتبے اور مرتبے کا احترام بیحد ضروری ھے۔ ایسے ھزاروں کیسس موجود ھیں کے چلتے مقدمے میں وکیل حضرات کو زرا سا بھی شک ھوجائیے جج معزز دوسری پاڑٹی یا اسکے وکیل سے زرا سی بھی ھمدرد ی رکھتے ھیں تو ایسے وکیل صاحبان جج صاحب سے صاف کہہ دیتے ھیں ھمیں آپ پر اعتماد نہیں آپ ھمارا کیس نہیں سنیں ۔ اب یہ جج صاحب منحصر ھوتا ہے وہ کیس سننے سے خود بخود ھٹ جائیں یا نا ھٹیں - اور اگر اس صورت میں جج صاحب اعتراض کرنے والے وکیل کی پاڑٹی کے خلاف فیصلہ دیتے ھیں تو یہ ھی وکیل اپنے اس اعتراض کو ایسے فیصلے کے خلاف اپنے اپیل کا حصہ بنا لیتے ھیں میرے پاس ایسی بہت سی مثالیں موجود ھیں ۔ مضمون اور طویل ھو جاتا اگر میں انکو بھی تحریر کردیتا اور آپ پھر یہ طویل مضمون پڑھنے سے گریزاں ھوتے ۔
اس ڈرافٹ کو کسی اچھے اردو خوشنویس یا کمپیوٹر پر اردو میں ٹائیپ کراکر بھجوائیں اور دستخاط سب کے کرنا نہ بھولیں ۔ مجھے اللہ کی زات بیحد امید ھے کے اسکا خا طر خواہ نتیجہ ضرور نکلے گا انشاللہ ۔
واسلام
طارق
۳۰جون ۲۰۱۹
(اپیل ڈرافٹ)
عنوان۔ محترم جناب جج جسٹس گلزار احمد صاحب پر
پی ٹی سی ایل ملازمین اور پینشنرز پٹیشنروں کا عدم اعتماد ۔ انکو انکے کیسس سننے سے ھٹانے کی پرزور اپیل ۔
جناب عالی عزت ما آب اور بیحد قابل احترام جج محترم جناب جسٹس آصف کھوسہ صاحب چیف جسٹس آف پاکستان سپریم کوڑٹ اسلام آباد
اسلام وعلیکم
جناب عالی
مودبانہ اور نہایت ہی ادب سے پہلے تو یہ عرض کیا جاتا ہے کے اس میں کسی بھی شک اور شبے کی بلکل گنجائش نہیں کے قابل احترام جج سپریم کوڑٹ جسٹس جناب گلزار صاحب ایک نہایت ایماندار اور دبنگ فیصلے کرنے والے سپریم کوڑٹ کے حاظر جج ھیں لیکن جو انھوں طرز عمل اور ناانصافی اور سرد مہری پی ٹی سی ایل ملازمین اور پنشنرز پٹیشنرز کے کیسس سے اختیار کررکھی ھے وہ عدالت عظمی کے اتنے قابل احترام اور معزز جج کو زیب نہیں دیتی ھے۔ انکو تو غریب پی ٹی سی ایل پنشنروں اور بیواؤں کے پنشن کیسس کے ساتھ انصاف کرنا چاھئیے تھا مگر انھوں نے پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کے وکیل محترم شاھد انور باجواہ سابقہ جج سندھ ھائی کوڑٹ کی دوستی میں ، یہ متعصبانہ رویہ انسے اختیار کر رکھا ہے وہ نہایت ھی قابل افسوس ہے اور ایک ایسے قابل احترام معزز جج کے شان شادیاں بلکل نہیں ھے۔اس وجہ سے ھم سب پی ٹی سی ایل ملازمین اور پنشنرز پٹیشنرز بیحد پریشان ھیں ایک تو انکی عدالت میں ھمارے کیسس بہت سست روی کا شکار ھیں اور دوسرے فیصلے دینے میں ھمارے ساتھ انصاف سے بلکل کام نہیں لے رھے بلکے انکے فیصلوں کا جھکاؤ پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کی طرف ہی زیادہ نظر آتا ہے اور انکے وکیل جناب شاھد انور باجوہ جو کہتے ھیں وہ ان ھی کی بات پر عمل کرتے ھیں - ظاھر بات ہے شاھد انور باجواہ صاحب اپنے کلائینٹ کے ھی فائیدے کے لئیے بات کرتے ھیں ۔ھم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کے محترم جج جسٹس گلزار احمد کی عدالت سے ھم کو کبھی بھی انصاف نہیں مل سکتا۔ انصاف کا مطلب یہ نہیں کے ھو بلکے ھوتا ھوا بھی نظر آنا چاھئیے اسلئیے ھم ان پر مکمل عدم اعتماد کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کے یہ ھمارا قانونی حق ہے اور انصاف کا بھی یہ ہی تقاضہ ھے کے انکو ھمارے یعنی پی ٹی سی ایل ملازمین اور پنشنر کیسس سننے سے روکا جائیے اس وقت کافی تعداد میں کیسس اور خاص کر impleamendent applications شنوائی کے لئی pending پڑے ھوئیے ھیں ،جو ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے سپریم کوڑٹ کے فیصلے کا اطلاق ان نان پٹیشنرس پی ٹی سی ایل پنشنروں پر بھی عمل کرنے کے لئیے ھیں ، سپریم کوڑٹ اس متعین کردہ اصول اور قانون کے مطابق کے کسی سرکاری ملازم کے حق آنے والے فیصلے کا فائیدہ ایسے تمام سرکاری ملازمین کو بھی دیا جائیے گا جنھوں نے مقدمہ کیا ھو یا نا ھو بجائیے ان سے کہا جائیے وہ اس فائیدے کے لئیے عدالت یا کسی اور پراپر فورم سے رجوع کریں ۔ ھمیں افسوس سے کہنا پڑتا ھے کے محترم جج جسٹس گلزار احمد نے 24 اپریل 2019 کو پی ٹی سی ایل ملازمین اور پنشنرس کی پٹیشنوں کے کیسس میں ایسی بیشتر درخواستیں یہ لکھ کر خارج کردیں کے یہ پراپر فورم سے رجوع کریں - اسلئیے ھم کو ان سے انصاف کی کچھ اچھی توقعات مستقبل قریب میں بھی نہیں ھیں ۔
ھماری اس تشویش کا باعث ایک یہ بھی ھے ماضی میں انکے پی ٹی سی ایل پیشنرز پٹیشرز کی اپیلوں اور پٹیشنوں پر دئیے گئیے controversial فیصلے جس سے پچھلے پٹیشنرز کو بیحد نقصان ھوا ہے ، ھم سمجھتے ہیں کے ایسے تمام منفی فیصلے انصاف کے مروجہ اصولوں کے بلکل خلاف ھیں ۔ انکی
ان ناانصافی والے فیصلوں کی سب سے بڑی وجہ ھم یہ سمجھتے ھیں ان کی وہ پرانی دوستی ھے جو جو انکی سابقہ دیرینہ دوست سابق جج سندھ ھائی کوڑٹ محترم جناب شاھد انور باجوا صاحب سے ھے جنکو پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی نے ھمارے دائیر کیسوں کی پیروی کے لئیے وکیل بنایا ہے ۔ اس کی بابت اوپر بھی زکر کیا جا کا ھے۔ پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کا سابق جج سندھ ھائی کوڑٹ محترم جناب شاھد انور باجوا صاحب کو بھاری بھرکم فیس پر رکھنے کا صرف مقصد ھمیں بادئی انظر میں یہ ھی نظر آتا ھے جسکا یہ لوگ برملاء اظہار بھی کرتے رھتے ھیں ، کے وہ ھے ریٹائیڑڈ جج سندھ ھائی کوڑٹ محترم جناب شاھد انور باجوا صاحب کا اپنا اثر رسوخ جسکی وجہ اپنے خلاف فیصلوں سے بچ رھے ھیں .محترم جناب جج جسٹس گلزار احمد صاحب اور محترم جج سپریم کوڑٹ آف پاکستان اور محترم شاھد انور باجواہ صاحب سابق جج سندھ ھائی کوڑٹ ، دونوں کئی عرصے تک ایک ساتھ سندھ ھائی کوڑٹ میں ایک ھی بینچ میں کام کرچکے ھیں.اور ان دونوں کے بینچ نےھی ۳ جون ۲۰۱۰ کو 84 پی ٹی سی ایل ملازمین پٹیشنرس آئینی رٹ پٹیشنیں ، جو 2006 سے سندھ ھائی کوڑٹ میں زیر سماعت تھیں ،انھوں صرف اس ٹیکنیکل بنیاد پر خارج کردیں کے ان 84 پی ٹی سی ایل ملازمین پٹیشنرس کی پی ٹی سی ایل میں کوئی بھی سٹیچری پرویژن نہیں ھے کیونکے پی ٹی سی ایل ایک نان سٹیچری ادارہ ھے اسلئیے ان پی ٹی سی ایل ملازمین پٹیشنرس کو یہ اختیار ھی نھیں تھا کے وہ اپنے grievances کے حل کے لئے ھائی کوڑٹوں سے رجوع کریں۔ یہ فیصلہ اسوقت محترم جج جسٹس شاھد انور باجوہ صاجب نے تحریر کیا تھا جسکی تائید محترم جناب جج جسٹس گلزار صاحب نے کی تھی۔ اس فیصلے کو سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے 7 اکتوبر 2011 کو , پی ٹی سی ایل ملازمین اپیلننٹس مسعود بھٹی ، سید محمد دل آویز اور نصیر الدین غوری کی اپیلوں[ CIVIL APPEALS NOs. 239 TO 241 OF 2011
(Against the consolidated judgment of the High Court of Sindh, Karachi dated 3.6.2010 passed in C.Ps. Nos.D- 520/2009, D-2414/2007 & D-827/2007 respectively)] پر یہ فیصلہ دیتے ھوئیے کلعدم قرار دے دیا کے کارپوریشن کے وہ ملازمین جو یکم جنوری 1996 کو کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھوکر پی ٹی سی ایل کے ملازمین ھوگئیے تھے وہ پی ٹی سی ایل میں ملازمت میں گورنمنٹ کے Statuory rules کے تحت کام کریں گے تو وہ grievances دور کرنے کے لئیے ھائی کوڑٹوں سے رجوع کرسکتے ھیں، اس سلسلے میں ھائی کوڑٹوں کو آئین کی شق ۱۹۹ کے تحت انکی آئینی رٹ پٹیشنیں سننے کا اختیار حاصل ھے۔ تو اپیلنٹ یہ تصور کریں کیں انکی آئینی پٹیشنیں سندھ ھائی کوڑٹ میں pending پڑی ھوئی ھیں اور اس پر ھائی کوڑٹ نے سن کر ابھی فیصلہ کرنا ھے۔ یہ سپریم کوڑٹ کا تین رکنی بینچ سابق چیف جسٹس پاکستان محترم جج جسٹس جواد ایس خواجہ، محترم جج جسٹس میاں شاکر اللہ جان اور محترم جج جسٹس سرمد جلال عثمانی پر مشتمل تھا۔اسی فیصلے کی بنیاد پر سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ نے جو محترم جج جسٹس ناصرالملک سابق چیف جسٹس پاکستان، محترم جج جسٹس گلزار احمد اور محترم جج جسٹس مشیر عالم پر مشتمل تھا ، اسنے پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کی اپیلیں جو اسلام آباد ھائی کوڑٹ میں انکی انٹرا کوڑٹ 17 مارچ 2014 کو خارج ھونے والے فیصلے کے خلاف تھیں اور دیگر اسی طرح کی اور متفرق اپیلیں 12 جون 2015 کو خارج کردیں اور یہ حکم دیا کے “ پی ٹی ای ٹی ان پی ٹی سی ایل پٹیشنرس پینشنرز( جو اس کیس میں ریسپونڈنٹ تھے) کو گورنمنٹ کی اعلان کردہ پنشن انکریز دینے کی پابند ھے ،جو ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئیے اور پھر کارپوریشن اور کمپنی میں ٹرانسفڑڈ ھو کر ریٹائیڑڈ ھوئیے”- یہ فیصلہ محترم جج جسٹس گلزار احمد نے تحریر کیا تھا۔ یہ فیصلہ 2 دسمبر 2014 سے محفوظ کیا گیا تھا۔ اس فیصلے کے جلد نہ اعلان ھونے کی وجہ سے تمام پی ٹی سی ایل پنشنرس بیحد پریشان تھے ، اور اسوقت یہ تائثر قائیم کیا جارھا تھا کے پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کے وکیل شاھد انور باجواہ صاحب یہ چاہتے ھیں کے یہ فیصلہ جلد نہ آئیے کیونکے انکو یہ معلوم تھا یہ انکے حق میں نہیں آسکتا، اسلئیے صرف ایک ھی طریقہ ھو سکتا ھے کے یہ فیصلہ آئیے ہی نہیں اور اسکے آنے میں اتنی دیر ھوجائیے کے 17 اگست 2015 کی تاریخ گزر جائیے ،جو سابق چیف جسٹس محترم جج جسٹس ناصرالملک ریٹائیڑمنٹ کی تاریخ ھے ۔ اور وہ یہ سب اپنے دوست محترم جج جسٹس گلزار احمد کے وساطت سے کررھے تھے جیسا کے اسوقت یہ سنا جارہا تھا۔ کیونکے اسکا فیصلہ 17 اگست 2015 آنے کے بعد ناممکن تھا وہ اسلئیے کے سابق چیف جسٹس محترم جج جسٹس ناصرالملک کی ریٹائیڑمنٹ کے بعد یہ بینچ ٹوٹ جاتا۔ جب مئی 2015 تک بھی اسکا فیصلہ نہ آیا تو اسی اندیشے کے تحت پی ٹی سی ایل پنشنرز ایکشن کمیٹی کے ممبران نے جناب سابق چیف جسٹس محترم جج جسٹس ناصرالملک سے استدعا کی کے وہ 2 دسمبر 2014 سے اس محفوظ کئیے ھوئیے فیصلے کا جلد از جلد اپنی ریٹائیڑمنٹ سے پہلے اعلان کرادیں ۔ جس پر انھوں نہ یہ وعدہ کیا اور یوں یہ اس کیس کا فیصلہ 12جون 2015 کو جاری ھوا جسکو تحریر تو محترمجناب جسٹس گلزار صاحب نے کیا اور دوسرے دو بنچ کے ممبران محترم ججز حضرات نے اس کی تائید کی۔اس 12 جون 2015 سپریم کوڑٹ کا تین رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف رویو پیٹیشن 17 مئی 2017 کو جس تین رکنی بینچ نے ڈسپوزڈ آف کی ، اس بینچ کے سربراہ بھی محترم جج جسٹس گلزار احمد ھی تھے انھوں نے ۱۲ جون ۲۰۱۵ آریجنل اپیل کے فیصلے میں کسی قسم کی ترمیم یا اس کو تبدیل تو نہیں کی۔
اس سے پہلے 12 جون 2015 کے اس فیصلے پر عمل در آمد نہ ھونے کی وجہ سے اس کیس کے ریسپونڈنٹس صادق علی ، نسیم وھرہ نے توھین عدالت کے کیسسس کردئیے جنکے نمبر بترتیب یہ ھیں
Criminal Origanal Petition No 53 & 54 of 2015.جولائی 2015 میں دائیر کردئیے . ادھر جب پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی نے اس
12 جون 2015 رویو پٹیشنیں تو انکے نئیے مشہور وکیل جناب ایڈوکیٹ خالد انور کے کہنے پر یہ توھین عدالت کے کیسسس اور اسطرح کے اور تمام دائیر کردہ توھین عدالت کے کیسس پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کی دائیر کردہ رویو پٹیشن کے فیصلے سے مشروط کردیا گیا جبکے سپریم کوڑٹ کے قانون کے مطابق اگر اگر رویو پٹیشن میں حکم امتنائی نہ دیا جائیے تو آریجنل فیصلہ اسوقت تک فیلڈ میں رہتا ہے تا وقتیکے رویو پٹیشن کو عدالت منظور کرکے اس کو یا توبلکل ختم نہ کردے، تبدیل کردے یا اس میں کسی بھی قسم کی modification نہ کردے ۔ یہ توھین عدالت کا کیس pending رھا ۔ عدالت عظمی کو چاھئیے تھا کے ان توھین عدالت کے کیسس کو رویو پٹیشنس کے کیسس کے ساتھ مشروط نہ کرتی بلکے انکو 12 جون 2015 کے فیصلے کی روح کے مطابق عمل کرنے کا حکم دیتی اور نہ عمل کرنے کی صورت میں انکے خلاف توھین عدالت کیسس کی کاروائی شروع کرتی ۔ایک اور بات قابل زکر کے پی ٹی سی ایل کی ایما پر اسوقت رویو پٹیشن سننے کے بینچ کے سربراہ اسوقت کے جج سپریم کوٹ محترم جسٹس ثاقب نثار نے مشہور ایڈوکیٹ جناب خالد انور ایڈوکیٹ سابق وزیر قانون کو پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کی طرف سے وکیل بننے کے منظوری دی ۔ جبکے جناب خالد انور صاحب اسکے آریجنل اپیل کس میں وکیل ھی نہیں تھے اور سپریم کوڑٹ کا یہ قانون ہے کے رویو پٹیشن میں وہی وکیل پیش ھوتا ہے جس نے آریجنل اپیل میں کیس کی پیروی کی ھو اور صرف اس صورت میں کوئی نیا وکیل کیا جاتا ہے اگر سابقہ وکیل کسی وجہ سے بلکل ھی میسر نہ ھو۔
جب 17 مئی 2017 کورویو پٹیشن کا فیصلہ آیا اور یہ خارج کردی گئی اور 12 جون 2019 کا فیصلہ امر بن گیا تو پھراس فیصلے کے پانچ ماہ اور سولہ دن کے بعد یہ توھین عدالت کے کیسس یکم نومبر 2017 کو لگے اور انکی ھئیرنگ ھوئی جودو رکنی بینچ نے کی جسکے سربراہ محترم جج جسٹس گلزار احمد صاحب اور محترم جج جسٹس سجاد علی شاہ تھے ۔ اس یکم نومبر 2017 کی آڈڑشیٹ پر محترم جج جسٹس گلزار احمد صاحب پی ٹی سی ایل کے وکیل محترم شاھد انور باجواہ کے اس استفصار پر ، کے جو پی ٹی سی ایل پنشنرس وی ایس ایس لے کر ریٹائیڑڈ ھوئیے ھیں وہ یہ گورنمنٹ کی پنشن انکریز کا حق نھیں رکھتے انھوں نے یہ تحریر کیا
The question as to whether Vss opties are entitled to be paid pension or not , the same is not the question before this court nor any finding on it is given by this court in its judgment dated 12-5-2015.Therefore the question of VSS optees being entitled to pension or not can not be made reason for not complying with the said Judgement of this court”
مگر پھر حیرت انگیز طور پر جج محترم جسٹس گلزار صاحب نے پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل کے وکیل محترم سابق جج سندھ ھائی کوڑٹ جناب شاھد انور باجوہ کی ھی سٹیٹمنٹ کو بنیاد بناتے ھوئیے کے صرف ان پٹیشنروں کو پنشن دی جائیگی جو وی ایس ایس آپٹ کرکے ریٹائیڑ نہیں ھوئیے ، یہ تمام توھین عدالت کے کیسسس 15 فروری 2018 کو خارج کردئیے ۔ یہ فیصلہ سمجھ سے بالا تر ہے ۔ توھین عدالت کے کیسس 12 جون 2015 ے فیصلے پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے کئیے گئیے تھے اور اس میں تو کوئی ایسی بات نہیں تھی کے وی ایس ایس آپٹ کرنے والے اس پنشن کے حقدار نہیں تھے اور خود محترم گلزار صاجب بی یکم نومبر 2017 کو اپنے حکم میں یہ بات کرچکے تھے جو اپر بیان کی گئی ھے تو پھر کیوں انھوں نے ایسا حکم 15 فروری 2018 میں شاھد انور باجواہ صاحب کے کہنے پر دیا اور توھین عدالت کے سب کیسس خارج کردئیے . بجائیے عدالت ان سے یہ پوچھتی کے وہ وجوھات بتائی جائیں کے پی ٹی ای ٹی عدالت عظمی کی ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے پر کیوں عمل نہیں کررھی اور تمام ریٹائیڑڈ پی ٹی سی پینشنروں کو حکم کے مطابق گورنمنٹ پنشن انکریز کیوں نہیں دے رہی ، انکے وکیل کی درخواست پر صرف ان پٹیشنرس کو یہ دینے کا حکم دے رہی ھے جو نارمل طریقے سے ریٹائیڑڈ ھوئیے جبکے ایسی بات ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے حکم میں نہیں تھی
ھم یہ سمجھتے ھیں اس سپریم کوڑٹ کے دو رکنی بینچ نے جسکے دوسرے ممبر جج محترم جسٹس قاضی عیسی فائیز صاحب تھے ، انکا یہ ایک بہت ھی contraventiol اور ultra vires فیصلہ تھا ۔ یہ فیصلہ جج محترم جسٹس گلزار صاحب نے تحریر کیا تھا ۔ اور یہ ۱۵ فروری ۲۰۱۸ فیصلہ بھی جج محترم جسٹس گلزار صاحب نے ھی تحریر کیا تھا جسکی تائید جج محترم جسٹس قاضی عیسی فائیز کی تھی ۔ اب سوچنے کی بات یہ کے ان دو محترم جج صاحبان کا فیصلہ چھ معزز جج صاحبان کے فیصلے پر کیسے فوقیت لے سکتا ہے ، قانون کی نظر میں میں تو یہ ناقابل عمل (ultra viries) ہے. اب صورت حال یہ ھی کے پی ٹی سی ایل اس ناقابل عمل (ultra viries) 15 فروری 2018 کے فیصلے پر عمل کرتے ھوئیے صرف نارمل ریٹائیڑڈ ایسے پی ٹی سی ایل پنشنرس پٹیشنرز کو ہی اس پنشن انکریز کی ادائیگی کردی ہے اور کسی کو نہیں کی جو نان پٹیشنرس پنشنرس بھی تھے ، سپریم کوڑٹ کے جمید اختر نیازی کیس 1996SCMR1185 سپریم کوڑٹ کے متعین کردہ اصول اور قانون کو کو نظر انداز کردیا گیا۔
جیسا کے ھم نے اوپر بیان کیا ھے اس وقت پی ٹی سی ایل ملازمین اور پی ٹی سی ایل پنشنرز اور کے کافی کیسس سپریم کوڑٹ میں دائیر ھیں جس میں سے بیشتر توھین عدالت کے کیسسس ہیں جو سپریم کوڑٹ کے ۱۲ جون 2015 کے فیصلے پر اسکی روح کے مطابق عمل نہ کرنے پر پٹیشنرس اور نان پٹیشنرس پی ٹی سی پنشنرز نے داخل کئیے ھیں ۔یہ تمام کیسس سب کے سب جج محترم جسٹس گلزار احمد صاحب کی عدالت میں بھیج دئیے گئیے ہیں ۔ انکی ھئیرنگ 24 اپریل 2019 کو ھوئی تھی ان میں impleadments کے کیسس اسی دن خارج کردئیے گئیے تھے اور باقی کیسس کی ھئیرنگ کی تاریخ رمضان کے بعد رکھنے کا حکم دیا گیا تھا اور بعد اسکی تاریخ ۱۳ جون ۲۰۱۹ مقرر کی گئی لیکن ۱۳ جون کو اسکی ھئیرنگ ھوئی ھی نہیں ۔ھم کو پٹیشنروں کا خیال تھا کے شائید محترم چیف جسٹس پاکستان کے ملک سے باھر ھونے کی وجہ سے جج محترم جسٹس گلزار احمد صاحب نے چونکہ چیف جسٹس کا اضافی چارج سنبھال رکھا ہے اسلئیے اسکی مصروفیات کی وجہ ان کیسس کو سننے سے قاصر تھے لیکن انھوں نے اسی دن متفرق کیسوں کے ساتھ پی سی ایل ریٹائیڑڈ ملازمین CP-806 to 807/2017 کے کیسس سنے اسکو محترم جناب جسٹس گلزار احمد صاحب بغیر اس پر بحث کئیے ھوئیے خارج کردیا ۔ پٹیشنرز کے وکیل نے اس پر بیحد اعتراض کیا اور بیحد گزارش کی کے اسکی کچھ تو گزارش سن لیں لیکن انھوں نے سنی ان سنی کردی ۔ پٹیشنر کے وکیل نے انسے یہاں تک کہاں کے وہ بہت ھی نا انصافی اور زیادتی کررھے ہیں مگر بے سود۔ پی ٹی سی ایل کا وکیل بلکل خاموش رہا اور اسکی وکالت جناب جج محترم جسٹس گلزار احمد صاحب ھی کرتے رہے۔جبکے عدالت یہ اصول واضح کرچکی ہے کے یہ عدالت کی زمہ داری ہے کے وہ وکیل کو بحث کے لئیے مناسب وقت دے اور وکیل کی بحث غور سے سنے جیسا [2012CLC899] اور [ PLD-2013-LAH-461] میں کہا گیا ھے
تو جو وجوہات اور حقائق اوپر بیان کئیے گئیے ہیں اسکی وجہ سے ھم کو جناب محترم جسٹس گلزار احمد صاحب پر بلکل بھی اعتماد نہیں کے وہ پی ٹی سی ایل ملازمین اور پنشنرز کے حق میں کوئی فیصلہ دیں گے ۔ ھم ان پر اپنا عدم اعتماد کرتے ہیں اور قانون اور انصاف کا تقاضا یہ ہی ھی جب کسی جج پر عدم اعتماد کیا جائیے اسے ھٹا دیا جائیے اور وہ بینچ ھی توڑ دیا جائیے جس میں عدم اعتماد والے جج یا ججز شا مل ھوں ۔
ھم آپ سے یہ بیحد امید رکھتے ھی کے آپ ھماری اس گزارش پر ضرور غور کریں گے اور محترم جج جسٹس گلزار صحب جن پر ھم عدم اعتماد کرچکے ہیں انکو پی ٹی سی ایل ملازمین اور پی ٹی سی پنشنرز کے کیسس سننے سے ھٹا دیں گے اور پی ٹی سی ایل ملازمین ملازمین اور پنشرس کے جو بھی کیسس ھیں یا اور ھوں گے وہ یا تو آپ صد احترام معزز چیف جسٹس آف پاکستان خود سنیں گے یا کسی اور نیوٹرل انصاف پسند محترم جج صاحبان کو اسکی شنوائی کے لئیے بھیج دینگے ۔ جسکے لئیے ھم آپ کے بیحد دلی مشکور ھونگے اورآپ کے لئیے ھمیشہ آپکی صحت اور خوشحالی کے لئیے دعا گو رھیں گے۔
آخر میں ایک اھم بات کا زکر آپ جیسے ھمدرد انصاف پسند بیحد صد احترام جج چیف جسٹس آف پاکستان سے گزارش کرنا چاھتے ھیں کے آج چار سال زیادہ ھو چکے ھیں چالیس ھزار ایسے پی ٹی سی ایل پنشنرس بشمول بیوائیں عدالت عظمی کے 12 جون 2015 کے فیصلے کے ثمرات سے مستفید ھونے کے انتظار میں ھیں انکی اس انتظار میں آنکھیں پتھرا چکی ھیں بیشتر کا تو انتقال بھی ھو چکا ھے - مگر عدالت عظمی اپنے ھی فیصلے پر عمل کرانے پر اب تک قاصر ھے یہ صورت حال بہت خراب ھے اور آپکی نظر عنایت کی منتظر ھے کے پی ٹی ای ٹی سے عدالت عظمی کے 12 جون 2015 کے فیصلے پر اسکی روح کے مطابق فیل فور عمل کرایا جائیے اور اگر یہ لوگ نہیں کرتے انکے خلاف سخت تادیبی کاروائی کی جائیے - بہت بہت شکریہ
دستخاط پٹیشنرز
۱۔ دستخط۔ -
نام بمعہ ولد -
شناختی کاڑڈ نمبر-
سپریم کوڑٹ میں کیس نمبر-
ایڈریس -
۰
۰
۲-
۳-
Comments