An important note. . . Must read
نوٹ:- اسے ضرور غور سے پڑھیں
عنوان :- کسی ایک سرکاری ملازم کے حق میں آئےھوئے سپریم کوڑٹ کے فیصلے کا فائدہ ایسے تمام سرکاری ملازمین پر بھی ھوگا جنکا مسئلہ انکے سروس ٹرمز اینڈ کنڈیشن کی رو سے اس سرکاری ملازم جیسا ھو جس کے حق میں یہ فیصلہ, اس سرکاری ملازم کے انفرادی طور پر ، سپریم کوڑٹ میں اپیل کرنے کرنے کی وجہ سے آیا ھو ، بیشک ایسے اور سرکاری ملازمین اس کیس کا حصہ ھوں یا نہ ھوں. . . . سپریم کوڑٹ کی رولنگ حمید اختر بنام اسٹیبلیشمنٹ ڈویژن گورنمنٹ آف پاکستان [ 1996SCMR1185]
میرے پاس میرے دوست پی ٹی سی ایل ملازمین او پنشنرس کے بہت سے ایسے میسج اور ای میل آرھے ھیں جس میں انکا سوال یہ ھوتاھے کے کیا جو فیصلہ سپریم کوڑٹ نے راجہ ریاض میں کیا ھے اور جو فیصلہ سپرکم کوڑٹ نے آج ان 1173پی ٹی سی ایل پنشنرس کے حق میں کیا ، اور انکو چار ھفتوں میں یہ تمام واجبات دینے کو کہا . تو کیا اسکا فائدہ انکو بھی ھوگا یا نہیں جنھوں نے کیس نہیں کیا . میں اگرچہ اپنے پچھلے مضامین یہ تمام باتوں پر تفصیلن قانون کے مطابق روشنی ڈال چکا ھوں مگر میرے یہ بھائی ابھی تک سمجھ نہیں پارھے ھیں اور کنفیوژن کا شکار ھورھے ھيں . وہ پتہ نہيں کیوں سمجھ نہيں پارھے میں حیران ھوں . ابھی ابھی مجھے ملتان سے ایک پرانے ریٹآئڑڈ معزز ڈویژنل انجینئر صاحب کا فون آیا اور وہ کہہ رھے تھے کے ٹی وی میں خبر آئی ھے کے سپریم کوڑٹ نے آج 1173پی ٹی سی ایل پنشنرس کو گورنمنٹ کی طرح کی پنشن چارھفتوں میں دینے کو کہا ھے. اب وہ پریشان تھے ھمیں توملے گا نہيں کیونکےےھم نے تو کیس ھی کیا نہیں . میں نے انکو بتایا کے آپ سب ایسے لوگوں کو بھی اب قانونن , پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی سی ایل دینے کی پابند ھے . میں نے سپریم کوڑٹ کی رولنگ [ جو میں نے اوپر عنوان میں لکھی ھے ] ، حوالہ دے کر ان کو سمجھانے بہت کی کوشش کی مگر وہ تو یہ ھی کہتے رھے کے پی ٹی سی ایل تو یہ مان ھی نہیں رھی وہ تو کہتی ھے ھم صرف راجہ ریاض کو پنشن دینے کے پابند ھیں . وہ تو نھیں دے گی اور ھم ایسے ھی خوار رھیں گے . میں نے انسے کہا کے محترم پی ٹی سی ایل کے تو اچھے بھی دیں گے ورنہ انکو توھین عدالت کے جرم میں جیل جانا پڑے گا . میں نے ان محترم کو يہ مثال دی ، "کے مسعود بھٹی کیس میں جو سپریم کوڑٹ کا تاریخی فیصلہ کس کے حق میں آیا تھا ، ان اپیلنٹس کے حق میں جنھوں نے کیس کیا تھا ، یعنی مسعود بھٹی، نصیرالدین غوری اور دلآویز . اس کیس میں سپریم کوڑٹ نے صرف ان ھی اپیلنٹس کا نام لکھا ھے اور ان کے لئے کہا کے چونکے یہ اپیلنٹس جو ٹی اینڈ ٹی میں بھرتی ھوئے تھے پہلے وہ ٹرانسفر ھوکر پی ٹی سی یعنی کارپوریشن میں آئۓ اور کارپوریشن میں ان پر گورنمنٹ کے statutory rules استعمال ھورھے تھے پھر یہ لوگ یکم جنوری 1996 کو پی ٹی سی ایل میں آئے اور حکومت نے یکم جنوری 1996 سے کارپوریشن سے ٹرا نسفر ھوکر پی ٹی سی ایل میں آنے والے ملازمین ضم ھونے کا نوٹیفیکیشن نکالا اس لئے یہ ان اپیلنٹس پر پی ٹی سی ایل میں صرف سرکاری قوانین statutory rules ھی استعمال ھونگے.تو ان معزز ریٹائڑڈ ڈی ای صاحب سے میں نے سوال کیا کے پی ٹی سی ایل کو تو صرف ان اپیلنٹس کو ھی سرکاری ملازم ماننا چاھئے تھا اور ایسے ھزاروں کو نہیں جنھوں نے کیس ھی نہیں کیا تھا اور تو پھر سپریم کوڑٹ کو بھی راجہ ریاض کو سرکاری ملازم نہيں تسلیم کرنا چاھئے تھا کیونکے وہ تو مسعود بھٹی کیس میں تھے ھی نہیں . میری یہ باتیں سن کر شکر خدا کے انکی سمجھ میں بات آگئی . پھر وہ بولے کے ھمیں اب کیا کرنا چاھئے تو انکو میں نے یہ ھی مشورہ ھم سب ایسوں کو ، اگر یہ لوگ راجہ ریاض کے ساتھ وھی پیمنٹ دو ھفتوں میں نہیں کرتے تو ھم سب کو انکو اپیل کرنے پڑے گی کے ھم کو بھی وھی مراعات دو جو راجہ ریاض کو سپریم کوڑٹ کے حکم پر دی گئیں اور [ اور اس میں سپریم کوڑٹ کا مندرجہ بالہ قانون ریفر کرنا پڑے گا] ، اور اگر دوھفتوں کے اندر اندر ادائیگی نہ کی تو ھم اپنے حق کے لئے، عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ھونگے . " . . . شکر محترم کو میری یہ بات سمجھ میں آگئی اور انھوں نے میرا شکریہ ادا کرتے ھوئے فون بند کردیا . تو مجھے امید ایسے لوگ جو یہ میری تحریر پڑھ رھے ھونگے انکی بھی یہ کنفیوژن دور ھوگئی ھوگی .
مزید آپلوگوں کے علم میں لانے کے لئے یہ بتانا چاھتا ھوں کہ اسی سپریم کوڑٹ کے حکم بارے میں،جو میں نے اوپر عنوانمیں تحریرکیا ھے کے سابق چیف جسٹس پاکستان محترم جناب جسٹس ایس خواجہ [یاد رھے یہ وھی جج ھیں جنھوں نے مسعود بھٹی کیس یعنی 2012SCMR152 میں دیا گیا ھوا فیصلہ لکھا تھا] نے مسز انیتا تراب علی ، جو ایک سول سرونٹ تھیں ، انکی آئنی پٹیشن نمبر23/2012 , جو Protection of Civil Servants کے بارے میں تھی ، ایک بیحد مشھور فیصلہ , Ms Anita Turab Ali case PLD 2013 S.C. 195, انگلش اور اردو میں لکھا تھا . یہ فیصلہ تین ممبرز ججز کے بینچ نے دیا تھا جسکے سربراہ سابق چیف جسٹس محترم افتخار محمد چوھدری اور تیسرے ممبر جج تھے محترم جناب جسٹس خلجی عارف تھے . اس فیصلے میں پیرا نمبر 20 اور 21 میں محترم جسٹس ایس خواجہ کے لکھے ھوئے مندرجہ زیل قانونی نکات پڑھیں جو ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ھيں جنکا تعلق سپریم کوڑٹ کے حکم کی من وعن تعمیل کرنا اور نہ کرنے کی صورت میں توھین عدالت کی کاروائی آئین میں دئے گئے قانون کے مطابق بھگتنا ھے
اس فیصلے کے اردوترجمعے صفحہ 12 اور پیراہ نمبر 20 میں محترم جناب جسٹس ایس خواجہ صاحب لکھتے ھیں :-
" ایک ( PLD 1997 84)-سرکاری ملازمین سے متعلقہ ایک مقدمے حمید اختر نیازی بنام سیکریٹری اسٹیبلیشمنٹ ڈویژن (1996SCMR1185) میں یہ واضح کیا جا چکا ھےکے جب یہ عدالت کوئی اصول یا قاعدہ واضح کردے تو پھراسکا اطلاق ھر خاص وعام پر ھوگا.اور اگر کسی تشریح کا فائیدہ ایسے شخض کوھورھا ھے جو اس مقدمے میں فریق نہیں تھا ،تب بھی اسکو ضرور فائدہ پہنچنا چاھئیےاور اسکی جانب سے مقدمہ بازی کا انتظار نہیں کرنا چاھئیے- ھم سمجھ سکتے ھیں کہ کچھ معاملات میں تو نظائر میں طے شدہ قانونی اصول بغیر کسی تامل اور ابہام کے من وعن لاگو ھوں گے, مگر کچھ معاملات ایسے بھی ھونگے جہاں یہ طے کرنے پے مشکل پیش آسکتی ھے. بحرحال قاعدہ یہ ھے کے آئین کے آڑٹیکل 189 اور190 تحت سرکاری ملازمین کو یہ حق حاصل ھے کہ وہ عدالت کی جانب سے طے کردہ ان قانونی اصولوں کے نفاز کے لئے محکمانہ اعتراض دائیر کریں یا مجاز عدالت سے قانونی چارہ جوئیی کریں.
اور پھر پیراہ نمبر 21 میں محترم جناب جسٹس ایس خواجہ صاحب ، ان ریاستی عہداداروں کے خلاف کاروائی کے بارے میں لکھتےھیں جو ان عدالتی احکامات سے ردگردانی کرتے ھیں۔ [ جیسا کےھمارے کیسس میں یہ سیکٹری آئی ٹی فیڈرل گورنمنٹ ، پریزیڈنٹ پی ٹی سی ایل اور ایم ڈی پی ٹی ای ٹی ، راجہ ریاض کے حق میں آنے والے سپریم کوڑٹ کے فیصلے کا اطلاق اور ایسے ان تمام پی ٹی سی ایل کے ملازمین اور پنشنرس پر نھیں کررھے جو اسی کٹیگری میں آتے ھیں، جس کٹیگری میں راجہ ریاض پی ٹی سی ایل میں تھے اور جنکا مسعلہ یعنی issue بھی وھی ھے جو راجہ ریاض کا تھا اور جنکا قانونی پہلو بھی وھی ھے جو راجہ ریاض کا تھا. یہ ، اوپر بیان کئے ھوئے ، تمام لوگ سخت ھٹ دھرمی کا مظاھرہ کرتے ھوئے سپریم کوڑٹ کے 1996SCMR118میں دئیے گئے رولنگ کی دھجیاں بکھیر رھے ھیں اور راجہ ریاض کے حق میں آۓ ھوئے سپریم کوڑٹ کے فیصلے کے ثمرات اور ایسے تمام پی ٹی سی ایل کے ملازمین اور پنشنرس دینے سے گریزاں ھیں]
پیراہ نمبر 21- اگر کوئی ریاستی ادارہ جان بوجھ کر اور ڈھٹائی کے ساتھ عدالت کی جانب سے ان احکامات کی رو گردانی کرتا ھے تو ظاھر ھے اسے اس حرکت سے باز آنا چاھئے. ورنہ یاد رھے کے آئین کا آڑٹیکل کی کلاز 204 کی سب کلازز (2) کی (a) , اس عدالت کو یہ اختیار دیتی ھیں کےوہ کسی ایسے شخص کو توھین عدالت کی سزادے جو " اس عدالت کے احکامات کی حکم عدولی کا مرتکب ھو". اپنے ایک حالیہ فیصلے میں عدالت نے توھین عدالت کے قانون کی اھمیت واضح کی ھے. عدالت نے طے کیا ھے" عدالت بزات خود جو احکامات جاری کرتی ھے اورچاھتی ھے کے اسکے احکامات پر عملدرآمد کیا جائے . عملدرآمد کی زمہ داری ریاست کے دوسرے ستونوں کے لئے لازم ھے .خاص طور پر انتظا میہ کیلئے. بد قسمتی سے اگر انتظامی اہلکار قانون کے مطابق اپنے فرائیض سر انجام دینے سے روگردانی کرتےھیں تو عدالت کے پاس آختیار ھے کے انکو سزا دے. بات یہ ھےکے قانون کی حکمرانی کا خواب پے اختیار عدلیہ ، نا فرمان اور غیر محتاط سرکاری اہلکاروں کی موجودگی میں شرمندہ تعبیر نہیں ھوسکتا". باز محمد کاکڑ بنام وفاق پاکستان ( Constitution Petition No 77/2012) .
اگر ابھی بھی کوئی ابہام ھے تو ھم یہ وضاحت کردیں کے وہ انتظامی عہدیدران جو آئین اور قانون کی صریح احکامات نظر انداز کرتے آئیۓ ھیں، وہ نتائیج کے خود زمہ دار ھونگے
میں یہ امید رکھتا ھوں کے آگر آپ نے یہ اوپر دئیے گئے دو پیرے محترم سابق چیف جسٹس ایس خواجہ صاحب کے لکھے ھوئے غور سے پڑھ لئے ھونگے، تو یقینن آپ لوگوں کو تسلی او تشفی ھوگئی ھوگی. شکریہ
واسلام
محمد طارق اظہر
ریٹائڑڈ جنرل منیجر( آپس) پی ٹی سی ایل
رھائیش راولپنڈی
01-11-2017
Comments