Article-46 [ PTCL aur PTET ki hut dhermi...SC k hukem per Umar na kurna]











نوٹ :- میرے اس آڑٹیکل -46 سے مستفید ھونے کے لئے آپ سبکا اس کو مکمل ، بڑے غور اور تسلی سے پڑھنا بیحد ضروری ھے. شکریہ


                      


                                 -:Article-46:-


[پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی کی ھٹ. دھرمی . عدالتی احکامات پر عمل نا کرنا اور سخت توھین عدالت کا مرتکب ھونا . . آیندہ کے لئے ھم سبکا لائیح عمل؟؟؟؟؟]




27 اکتوبر 2017 کو راجہ ریاض کی توھین عدالت کے کیس میں سپریم کوڑٹ نےپی ٹی ای ٹی کو دوھفتے کے اندر اندر اسکو گورنمنٹ کے تحت AGPR کی calculations کے مطابق ، تنخواہ اور پنشن دینے کا حکم دیا تھا جسکے بعد  پی ٹی سی ایل کے بوڑڈ آف ڈائریکٹر  راجہ ریاض کو گورنمنٹ کے مطابق یکم جولائی 2005 سے جب تک وہ ریٹائر ھوا تنخواہ  میں گورنمنٹ والا انکریز اور اور پی ٹی ای ٹی ٹرسٹی بوڑڈ کی یہ قانونی زمہ داری تھی کے وہ نہ صرف راجہ ریاض کی سپریم کوڑٹ کے حکم کے مطابق اسکی approval دیتے بلکے اور ایسے تمام پی ٹی سی ایل ملازمین اور پنشنرز کے لئے بھی ، جنکا مسءلہ عین راجہ ریاض جیسا تھا انکو بھی دینے کے لئے سپریم کوڑٹ کے حکم  کی روشنی میں ،  جو اس نے حمید اختر نیازی  بنام سیکٹری اسٹیبلیشمنٹ گورنمنٹ آف پاکستان کیس یعنی 1996SCMR1185 میں دیا تھا وہ اب ایک سپریم کوڑٹ کی رولنگ بن چکی ھے،  اسپر عمل کرتے ھوئے اور ایسے سب کے کو گورنمنٹ والا انکریز تنخواہ اور پنشن میں  دینے کی approval دیتے اور پھر اسکا باقاعدہ دینے کا نوٹیفیکیشن نکالتے. کل 13 نومبر 2017, پورے  دوھفتے  سے زیادہ ھونے کے باجود، نہ تو راجہ ریاض کو اسکی پیمنٹ ھوئی اور نہ ایسے اوروں کو بھی. پیمنٹ دینا تو درکنار انھوں نے تو اسکا نوٹیفیکیشن تک ھی نھیں نکالا . افسوس تو اس بات کا بھی ھے کے کے  گورنمنٹ آف پاکستان منسٹری آف ٹیلیکام اینڈ ٹیکنالوجی  جس کے انڈر یہ پی ٹی سی ال کام کرتی ھے، نے بھی ایسا کوئی نوٹیفیکیشن سپریم کوڑٹ کی حکم کی پیروی کرتے ھوئے نھیں نکالا جو نکالنا حکومت کا لازمن فرض ھوتا ھے کے عدالت عظمی کے ایسے کسی سرکاری ملازم حق میں آئے ھوئے فیصلے میں جو اس نے قانونی چارہ جوئی سے حاصل کیا ھو ، ان ایسے تمام ھزاروں سرکاری ملازموں کو بھی ھو جنھوں نے قانونی چارہ جوئی تو نہیں کی مگر انکا مسعلہ اسے سرکاری ملازم جیسا ھوجس کے حق عدالت عظمی نے فیصلہ دیا ھو . اس سلسلے میں آپ کو آپکو اسی طرح کے سپریم کوڑٹ کے فیصلے کی بابت بتاتا ھوں اور درخواست کرتا ھوں کے اس کو بڑے غور سے پڑھئے گا تاکے آپ لوگوں کو اور تسلی ھوجائے اور آپ لوگ کسی مزید شش اور پنج کا شکار نا ھوں کے ھم پر یہ فیصلہ کس طرح لاگوھوگا.


 جب کبھی ایسا حکم FST یا سپریم کوڑٹ آف پاکستان کا کسی ایک یا اس سے زیادہ سرکاری ملازم یا ملازمین جنھوں نے کیس کرکے یہ فیصلہ حاصل کیا ھو ، کے حق میں آتا ھے تو حکومت ھمیشہ ایسے اور تمام ملازمین کو فائدہ پہنچانے کے لئے نوٹیفیکیشن نکالتی ھے .  جیسے کے حکومت نے Restoration of commuted potion of pension    کا  نوٹیفیکیشن 21 جنوری 2013 کو نکالا تھا جس میں بتایا گیا تھا جن سرکاری ملازمین نے FST میں کیس کیا تھا اور جس کو سپریم کوڑٹ نے upheld کیا تھا اور جو اس میں FST نے حکم دیا تھا،  اسکا اطلاق تمام سول ملازمین پر ھوگا مگر ایک شرط کے ساتھ کے اس فیصلے کے خلاف حکومت نے رویو پٹیشن داخل کررکھی ھے اور اگر اس رویو پٹیشن کا فیصلہ حکومت کے حق میں آتا ھے تو یہ restoration  کی رقم واپس کرنی ھوگی اور اسکے لئے ھر ایسے کو ایک سٹامپ پر رقم لینے سے پہلے لكھ کر دینا ھوگی. [ یہ بات آپ لوگوں کے جاننے کے لیئے بیحد ضروری ھے کے یعنی اب جب بھی کسی بزرگ سرکاری پنشنر کی کمیوٹڈ پنشن جو اسکے ریٹائرمنٹ کے کمیوٹ کرکے اسکو ایک lump sum رقم دی گئی تھی اب وھی کمیوٹڈ پنشن تمام پچھلے پندرہ سال میں گورنمٹ کے اس پنشن پر جو کمیوٹ نھیں ھوئی تھی اور ماہانہ مل رھی تھی، اس پر لگائے ھوئے سال بہ سال پنشن انکریز کو اسکی کمیوٹڈ ھونی والی پنشنمیں لگا کر اسکو 75 کی عمر میں دینی ھوگی پھر وہ بحال ھونے والی کمیوٹڈ پنشن ماہانہ ملنے والی پنشن میں جمع ھوجائیگی اور پھر اس پر سال بہ سال جو بھی پنشن انکریز گورنمنٹ دے گی وہ ملتا رھے گا . یہ صرف اس پنشنر کو ملے گا جو اپنی 75 سال کی عمر کو پہنچ جائے اور کسی کو نہیں بعد میں  تھے . یاد رھے commuted pension  کو restore کرنےکا ، شوکت عزیز کی حکومت نے ختم کردیا تھا اس نوٹیفیکیشن کے زریعے جو حکومت نے ستمبر 2001 میں 1994 کے گورنمنٹ کی تنخواھوں کے اسکیل کو یکم دسمبر 2001 سے Revise basic scales 2001  کے بارے می جاری کیا تھا  جسکوسپریم کوڑٹ نے ۲۰۱۳ میں بحال کیا      


  "In the judgment of the Honourable Supreme Court of Pakistan reported as Secretary, Government of Punjab, Finance Department and 269 others versus M. Ismail Tayer and 269 others (2014 SCMR 1336)."  ]


جب حکومت پاکستان کی وہ رویو پٹیشن بھی خارج ھوگئی تو پھر حکومت نیں ایک اور نوٹیفیکیشن 7 جولائی 2015 کا نکالا اور اس بات کو کنفرم کردیا کے وہ تمام سرکاری ملازم جو 30 جون 2001 کے بعد ریٹائر ھونگے انکی 15 سال کے بعد یعنی جب انکی عمر 75 سال ھوجائیگی  ، انکی وہ پنشن کی رقم جو انھوں نے surrender کی تھی commutation کا فل پیمنٹ لینے کے لئے جب وہ ریٹائر ھوۓ تھے انکو دوبارہ دے دی جائگی ( میں ان  تمام نوٹیفیکشنس کی فوٹو کاپیاں آپ لوگوں کی آگاھی کے لئے پیسٹ کررھا ھوں.  ) اس پر بعد میں پنجاب گورنمنٹ    نے کچھایسے سرکاری پینشنروں  کی جنکی عمر 75 سال ھوگئی تھی ان کی نہ صرف  کمیوٹڈ پنشن کو بحال   کردیا بلکے ان پندرہ سالوں میں جو انکی ماہانہ پنشن میں انکریز دئے تھے وھی انکریزز  اس   کمیوٹڈ پنشن میں لگا کردے دئے مگر اسکے فورن بعد یہ تمام انکریز واپس لے کر انکی deduction شروع کردی جس پر کچھ   بزرگ پنشنرس نے پنجاب سروس ٹریوینل میں، پنجاب حکومت کے خلاف کیس کردیا اور کچھ نے ڈائریکٹ لاھور ھائی کوڑٹ میں  . اور دونوں جگہ سے ، پنجاب حکومت کے اس اقدام کو غلط قرار دیا گیا اور انکو وہ تمام پنشن انکریزز والی رقم دینے کا حکم دیا گیا جس پر پنجاب حکومت نے سپریم  کوڑٹ میں اپیل کردی  تو وھا ں سے بھی انکی اپیل 2014-03-14  کو خارج ھوگئی . اب چونکے ایسا فیصلہ سپریم کوڑٹ کی طرف سے بھی آگیا تو ھر سرکاری ملازم پنشنر چاھے اسکا تعلق صوبائی حکومت کے سرکاری ملازم پنشنرس  سے ھو  یا فیڈرل  گورنمنٹ کے ان سب پر عمل در آمد کرنا لازمن ھوگیا.


سپریم کوڑٹ کے اس فیصلے پر  فیڈرل گورنمنٹ نے اور کے پی کے ، سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں نے تو اپنے اپنے ایسے سرکاری پینشروں پر عمل کرادیا مگر پنجاب حکومت نے نہیں کیا اور پی ٹی ای ٹی نے بھی نہیں کیا( اسکی بابت میں آگے چل کر تفصیل سے بتاؤں گا). پھر کوئی ایسے پنجاب گورنمنٹ کے 270 بزرگ پنشنروں نے لاھور ھائی کوڑٹ میں پنجاب گورنمنٹ کے خلاف سپریم کوڑٹ کے ان اجکامات کی خلاف ورزی پر توھین عدالت کا کیس کردیا عدالت نے پنجاب حکومت کو نوٹس جاری کردیا اور پھر  ھوئے فورن ان سب 270  پٹیشنرز کی کمیوٹڈ پنشن restore  کرنے کا حکم دیا  اور اسکے ساتھ کمیوٹڈ پنشن کی رقم اس میں ۱۵ سالوں  جو گورنمنٹ نے اضافہ کیا تھا وقتن فوقتن یہ   یہ کمیوٹڈ پینشن اضاف سمیت دینے دینے کا حکم دیا . پنجاب حکومت نے پھر چالاکی دکھانے کی کوشش کی اور یہ نوٹیفیکیشن نکالا کے لاھور ھائی کوڑٹ کے اس فیصلے کا اطلاق صرف ان "پنشنرز پٹیشنرز " پرھوگا ، جنھوں نے کیس کیا ھے  اور انپر نہیں ھوگا  جنھوں نے کیس نھیں کیا انھوں نے ایسے پنشنرز کا  جنھوں نے کیس کیا تھا ، انکے لئے terms  استعمال کیا گیا " Petitioner Pensioners"  اور جنھوں نے کیس نہیں کیا تھا انکو "Non Petitioner pensioners" .  ایسانوٹیفیکیشن قانونن اور آئینی طور پر بلکل غلط تھا. اس پر کچھ ایسے Non Petitioner Pensioners  نے قانونی مشاورت شروع کردی کے اب کیس کیسے کئے جائیں  . انھوں نے ایک بہت قابل بیرسٹر سے جب جناب امیر آغا صاحب سے مشورہ کیا کے اب انکو کیا کرنا چاھئیے تو انھوں نے ان سب کو بہت ھی اچھا مشورہ دیا اور اسکے آخر میں یہ مشورہ دیا کے پنجاب حکومت کے اس نوٹیفیکیشن کے خلاف سپریم کوڑٹ میں انکے خلاف توھین عدالت کا کیس کیا جائے یا محتسب عالی کو اسکی شکایت کی جائے [ یادرھے کے پی ٹی سی ایل کے آیسے ملازمین یاپنشنرس وفاقی محتسب عالی میں ایسی کوئی بھی پی ٹی سی ایل کے خلاف شکایت کر نہیں  سکتے کیونکے وفاقی محتسب عالی پی ٹی سی ایل کے ملازممین یا پنشنرس کی شکایات سننے کے قانونن مجاز نھیں . یہ فیصلہ وہ خود پی ٹی سی ایل کی شکایت پروفاقی محتسب عالی دے چکے ھیں کیونکے پی ٹی سی ایل تو ایک کمپنی ھی ھے یہ الگ بات ھے اس میں ٹی اینڈ ٹی ، پی ٹی سی سے ٹرانسفر ھونے والے ملازمین کا سٹیٹس گورنمنٹ والے سرکاری ملازمین کا ھے . اسلئے یہ ملازمین صرف ھائی کوڑٹ اور اسکے بعد سپریم کوڑٹ سے رجوع کرسکتے ھیں] جو انھوں نے نیں net   پر بھی جاری کردیا . جسکی فوٹو کاپیاں، ۳ ٹکڑوں میں ھیں، آپ لوگوں کے لئے نیچے paste کررھا ھوں . یہ آپ سب لوگ  بڑے غور سے پڑھئے گا کیونکے جو ھمارا کیس ھے وہ اس کیس سے بہت resemblance  رکھتا ھے اس نوٹ کا جو انھوں نے عنوان دیا وہ خود ھی اپنے اپ میں ایک بہت بڑی دلیل ھے کے "پٹیشنر اور نان پٹیشنر (جنکا مسعلہ ایک جیسا ھو  یعنی جن کی پوزیشنیں ایک جیسی ، برابر ھوں)  ان میں امتیازی سلوک ( discrimination) کرنا غیر آئنینی/ غیر قانونی ھوتا ھے" یعنی


"Unconstitutional discrimination between (otherwise equally placed/ positioned) petitioner  


and non-petitioner pensioners."


ویسے تو انھوں نے بہت زبردست دلائیل لکھے ھیں . مگر ایک دلائل میں انھوں نے مختلف عدالتوں کے فیصلوں کے ریفرنسس دے کر جو لکھا ھے وہ میری اس بات کی عکاسی کرتا ھے کے سپریم کوڑٹ نے جو حمید اختر نیازی کیس یعنی 1996SCMR1185  جو رولنگ دی ھے  وہ کتنی اھم ھے انھوں نے لکھا ھے اپنے پیرا -۱ میں کے


 


1.Honorable Supreme Court of Pakistan has held in cases of Hameed Akhtar Niazi (1996  SCMR 1185),Tara Chand (PLJ 2005 SC 826) and Rashid Iqbal (CPLA 525 of 2007 decided on 19th July 2009) , in repeatedly rulings/directions "that if Service Tribunal or Supreme Court decides a point of law relating to the terms and condition of a civil servant who litigated, and there were other civil servants who may not have taken any legal proceedings, the dictates of justice and rule of good governance demands that the benefits of the said decision be extended to other civil servants also who may not be parties to that litigation, instead of compelling them to them to approach the Tribunal or any other legal forum." In recent such type cases in 2009, the Honorable Supreme Court held that also ," that those persons who litigated and those who did not, are to be treated alike, if simlerly placed and positioned."




ترجمعہ:- معزز سپریم کوڑٹ آف پاکستان نے   مختلف کیسس میں بار بار یہ رولنگس دیں/ ھدایات دیں  جیسے حمید اخترنیازی( 1996SCMR1185)، تاراچاند(PLJ2005SC826) اور راشد اقبال ( CPLA525 of 2007 جسکا فیصلہ 19  جولائی  2009  میں آیا ) کے اگر سروس ٹریونل یا سپریم کوڑٹ کسی سول سرونٹ کی قانونی چارہ جوئی کی وجہ کسی قانونی نقطے کا فیصلہ کرتی ھے جسکا تعلق اس سول سرونٹ کی سروس کے ٹرمز اور کنڈیشنس کے متعلق ھوتا ھے ، اور ایسے بھی سول سرونٹ ھونگے جنکا یہ ھی قانونی نقطہ ھوگا مگر انھوں نے قانونی چارہ جوئی نہ کی ھوگی یا وہ اسکا حصہ نہ ھونگےتو اچھی حکمرانی کے لئے قانون اور انصاف کا یہ تقاضہ یھی ھے کے ایسے فیصلے کا فائدہ ان سول سرونٹس کو جانا چاھئيے  جو  اس قانونی چارہ جوئی کا حصہ نہیں ھونگے ( یعنی جو ایک سول سرونٹ نے کی ھوگی ) بجائے انکو یہ مجبور کیا جائے کے وہ ٹریونل یا کسی اور قانونی ادرے( عدالت وغیرہ) سے رجوع کریں ".2009 میں 


 اسی طرح کے کیسس میں  معزز سپریم کوڑٹ نے یہ قرار دیا " کے جن اشخاض نے قانونی چارہ جوئی کی اور جنھوں نے قانونی چارہ جوئی نہیں کی ان کو ایک جیسا ھی تصور کیا جائے جنکی پوزیشن اور مسعلہ ایک جیسا ھو"( یعنی اس سول سرونٹ جیسا جس نے litigation کی یعنی قانونی چارہ جوئی کی اور فیصلہ اسکے حق میں آیا).


 تو پھر پنجاب کے اور ایسے بزرگ پنشنروں نے اس پنجاب کے اس Discriminated نوٹیفیکیشن کے خلاف لاھور ھائی کوڑٹ میں کیس کردیا پھر ھائی کوڑٹ نے پہلے پنجاب حکومت سےجواب مانگا اور پھر سب ایسے Non Petitioner Pensioner کو بلا تفریق  کمیوٹڈ پنشن بمعہ اضافے جات جسطرح سپریم کوڑٹ نے حکم دیا تھا، فورن دینے کا حکم دیا مگر پنجاب کی حکومت پھر بھی ٹال مٹول میں لگی رھی جسطرح یہ پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی لگی ھوئی ھے , ھمارے کیسس میں . پھر پنجاب گورنمنٹ نے ایک اور قدم اٹھایا جس سے بظاھر صرف یہ لگتا تھا کہ وہ ان پنجاب گونمنٹ کے بزرگ پنشنروں کو کمیوٹڈ پنشن بمعہ اضافے جات، نھیں دینا چاھتے .انھوں نے ایک سیل کرنے قائم کرنے کا نوٹیفیکیشن نکال دیا اور اعلان کردیا جو ایسے پنشنرز اپنی کمیوٹڈ پنشن بمعہ اضافہ جات بحال کرانا چاھتے ھیں وہ درخواست بمعہ اپنے ریکاڑڈ کے کب انکی پنشن کمیوٹ ھوئی ، کتنی ھوئی اور ھرسال پنشن ملنے کا مکمل ریکاڑڈ ، اس سیل میں لا کر جمع کرائیں تاکے انکو چیک کرکے process کیا جائے اور پھر وہ ادا کیا جائے . اسطرح پنجاب حکومت کا مقصد صرف یہ تھا کے اسکو جتنا بھی delay کیا جائے بہتر ھے اور دوسرے کوئی ایسی انکے خلاف مشکلات پیدا کی جائیں کے انکی یہ کمیوٹڈ پنشن بمعہ اضافہ جات نہ دی جا سکیں اور عدالت کے حکم کی تعمیل بھی ھوسکے اور یہ عدالت کو بتا سکیں کے ھم تو دینے پر تیار ھیں مگر یہ لوگ تو درخواست ھی نہیں دے رھے یعنی وہ بحالی  نھیں چاھتے ھیں وغیرہ وغیرہ . سوچنے کی بات ھے یہ بوڑھے بزرگ پنشنرس جو پنجاب کے دود دراز علاقوں میں شھروں اور گاؤں میں رھتے ھونگے کہا ں غریب اس قابل ھوتے ھونگے کے وہ لاھور آکر در خواست دیں اور اسکے ساتھ اپنی پنشن کا پرانا ریکاڑڈ لگائیں جو کسی کے پاس ھوگا اور کسی کے پاس نھیں . تو کچھ ایسے ھی پنجاب کےبزرگ  پیشنرس نےپھر جاکر لاھور ھائی کوڑٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اس سیل کے بننے کے نوٹیفیکیشن کے خلاف .جس پر عدالت کافی برھم ھوئی اور سختی سے حکم دیا کے انکی فورن کمیوٹڈ پنشن بمعہ اضافے ، جیسا کے عدالت حکم دے چکی ھے فورن انکو بغیر کسی انسے درخواست لئے ھوئے ادا کی جائے اور ساتھ پنجاب حکومت کا وہ سیل بنانے کا نوٹیفیکیشن بھی منسوخ کردیا . مگر پنجاب حکومت ٹال مٹول کرتی رھی اور انکی کمیوٹڈ پنشن بمعہ اضافے بحال نہیں کیا . مگر یہ بزرگ پنشنرز بھی نر کے پکے نکلے ، انھوں نے بھی ھمت نہیں ھاری اور عدالت میں بار بار انکے خلاف توھین عدالت کا کیس کرتے رھے . مجبورن  عدالت نے پنجاب حکومت کو شوکاز نوٹس دیا اور چیف سیکٹری پنجاب کو پرسنل طور پر عدالت میں طلب کرکے انکے خلاف توھین عدالت کیس کی کاروائی شروع کرنے کا عندیہ دیا . پھر پنجاب حکومت  مجبور ھوئی چیف سیکٹری پنجاب پر جب پڑی لگنے توھین عدالت کی کاروائی تو تب  عدالت کو بتایا وہ یہ دینے پر تیارےھیں مگرقسطوں میں کیونکے انکے پاس فل وقت اتنا یک مشت ادا کرنے کے لئے پیسہ نھیں ھے. عدالت نے ےاانسے پورا پلان مانگ لیا اور اس پلان کے مطابق انکو پنشن ملنا شروع ھوگئی [ یہ سب کچھ جو میں نے تحریر کیا ھے ایک تو یہ سب کچھ کیسس بہت پہلے سے ھی اخبارکے زرئیے فالو کررھا تھا اور یسب  Net پر بھی موجود ھے . آپ لوگ Google کے زریعے تلاش کریں تو مل جائے گا . میں نے یہ سب کچھ اسی سے لیکر جو انگلش  اور جو مجھے کچھ پہلے سے ھی اخبار سے معلوم تھا ، آپ لوگوں کو مطلع کررھا ھوں ]. اور سپریم کوڑ ٹ نے یہ آڈر 2013 کے اوائیل میں ان  بزرگ پنشنروں  کےحق میں دیا جنکی عمر 75 سال ھوگئی تھی اور جنھوں نے کیس کیا تھا . اس کا فائدہ ایسے اوروں کو بھی ھوا جنھوں نے کیسس نھیں کئے تھے لیکن انکا مسعلہ وھی تھا جنھوں نے کیس کئے تھے.غالبن جنوری ۲۰۱۵  سے ایسے سب بزرگ پنشنروں کو یہ کمیوٹڈ پنشن بمعہ اضافے ، کے ساتھ ملنا قسط وار ملنا شروع ھوگئیں . اس دوران جو اور بزرگ پنشنرس جو اپنی 75 برس کی عمر کو پہنچ گئے تھے وہ بھی شامل ھوگئے .بحر حال ان  چند بزرگ پنشنروں کی جدو جہد کام آئی جنھوں نے ھمت نہیں ھاری . عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے رھے اور  اور نہ صرف اپنے لئے  حق لے کر رھے  بلکے اس کا فائدہ اور ایسے اوروں سبکو خود بخود پہنچ گیا . اسی طرح ہمیں بھی ایک دن ضرور پہنچے گا ھم میں سے چند لوگ بھی اوللعزم ھوکر ڈٹے رھیں، جسطرح مزکورہ چند سو پنجاب کے بزرگ پنشنرس ڈٹے رھے اور حق لے کر رھے.


جناب امیر آغا صاحب نے یہ فیصلہ آنے کے بعد اور اس پر عمل درآمد شروع ھونے ایک آڑٹیکل اردو میں  ۲۱ جنوری ۲۰۱۵ میں ان پنجاب کے ان بزرگ پنشنروں کو سمجھانے کے لئے لکھا [جو  net پر موجود ھے .] کے انکو کمیوٹڈ پنشن کسطرح دوبارہ ملے گی اور   اس پر انکریزز کیسے دئیے جائںیں گے . یہ آڑٹیکل مجھے بیحد پسند آیا کیونکے انھوں نے جو باتیں اس میں لکھیں ھیں وہ میرے نظریعے سے ھم آھنگ ھیں  اور وہ ان باتوں کا نچوڑ ھیں جو میں نے اوپر تفصیلن پنجاب کے بزرگ پنشنروں جن کی عمر 75 سال ھوگئی ھے ان کی بابت لکھی ، صرف آپ لوگوں کو یہ باور کرانے کے لئے ھمارا کیس بھی ایسا ھی ھے بس ھم کو بھی اسی طرح ثابت قدم رھنے اور اپنے حق کے لئے جدو جہد کرنے کی ضرورت ھے . اپنے اس آڑٹیکل کے آخری صفحے پر آغا صاحب لکھتے ھیں [ اس صفحے کی فوٹو کاپی بھی میں نے نیچے پیسٹ کردی ھے. اسے ضرور پڑھئے گا.]  




     "فیصلوں پر عمل در آمد:-  حکومت نے کافی کوشش کی کے جو اضافے ۲۰۰۱ میں کمیوٹ پنشن پر نہ دئے تھے وہ بحالی پر بھی نہ دئے جائيں . سپریم کوڑٹ میں درخواستییں اور اپیلیں بھی دائر کی گئیں- یہ بھی کہا گیا عدالتوں کے فیصلوں پر عمل در آمد صرف ان اصحاب کی پنشن پرھوگا جو عدالتوں میں فریق بنے تھے- لیکن آخرکار ان فیصلوں کا فائدہ تمام پنشنروں کو دینا پڑا جن کے معاملات ایک جیسے تھے . سپریم کوڑٹ نے بار بار  یہ ھدایت دی ھیں کہ اگر کس معاملہ میں بہت سے ملازمین کے حالات یکساں ھیں اور ان میں سے چند  ایک ھی نے مقدمہ کے زريعے عدالتوں سے اپنے حق میں فیصلہ لے لیا ھےتو باقی تمام یکساں صورت حامل ملازمین پر بھی لاگو کیا جائے بجائے اسکے باقی ملازمین کوبھی مقدمہ بازی پر مجبور کریں .ایسا نہ کرنا آئین کے خلاف ھوگا جس کے تحت کسی قسم کا امتیازی سلوک روا رکھا نھیں جا سکتا".




کچھ لوگ اب پھی مجھ سے بار بار یہ سوال کرتےرھتے ھيں کے راجہ ریاض کے کیس میں ھم تو پاڑٹی نھیں تھے تو ھمیں کسطرح اسکا فائدہ ھوگا یہ تو بتائیں طارق صاحب پلیز؟؟؟؟؟   تو جو کچھ میں نے اوپر پنجاب بزرگ پنشنروں کی بابت لکھا ھے اگر وہ اسکو غور سے سمجھ کر پڑھ لیں تو انشااللہ ضرور سمجھ جائیں گے اور اگر پھر بھی نہ سمجھ سکییں تو انسے میری مؤدبانہ  درخواست ھے پہلے جاکر سپریم کوڑٹ میں پاڑٹی بننے کا کیس کریں کے انکو پاڑٹی بنایا جائے  [ وہ تو سپریم کوڑٹ فورن ڈسمس کردے گی جسطرح 714  پی ٹی سی ایل کی ڈسمس ھوئی تھی لطیف کھوسہ کی عجیب منتق کی وجہ سے کے انکو راجہ ریاض کیس میں پاڑٹی بنایا جائے جبکے راجہ ریاض نے اپنا کیس حل ھونے کے بعد اس پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے یہ contempt of court کا کیس کر رکھا تھا اسکے actual کیس کا تو فیصلہ پہلے ھی آچکا تھا تو اس میں یہ لوگ کیسے پاڑٹی بنتے . کھوسہ صاحب کو چاھئے تھا کے بھی ان 714 حاظر پی ٹی سی اکل کے ملازمین کی طرف سے بھی  صرف contempt of court ھی کیس کرتے جسطرح ان بزرگ پنجاب کے پنشروں نے کیا تھا جو اس کیس کا حصہ نہیں تھے جن کےحق میں سپریم کوڑٹ نے فیصلہ دیا تھا  ریا. وہ تو شکر ھے سپریم کوڑٹ نے اپنے اس آڈر میں لکھ دیا کے اسکو adverse نھیں treat کیا جائے . ورنہ یہ 714 پی ٹ سی ایل کے ملازمین بہت بری طرح مارے جاتے اور انکو کبھی بھی صرف اس بنا پر گورنمنٹ والے واجبات نھیں ملتے کے انکی اپیل سپریم کوڑٹ نے خارج کردی ] . تو جب سپریم کوڑٹ انکی یہ اپیل خارج کردے تو جسطرح راجہ ریاض نے اسلام آباد ھائی کوڑٹ سے اپنی اپیل دائر کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا تو وہ بھی ویسا ھی کریں او پھر آٹھ یا دس سال یا اس سے بھی زیادہ کیسس بھگتاتے رھیں . 


کچھ لوگ ابتک راجہ ریاض کے کیس کو سمجھ نہیں پائے تو یہ کیسے سمجھیں گے کے راجہ ریاض کے کیس کا فائدہ انکو بھی کیسے پہنچ سکتا ھے .ایسے لوگوں کے لئے پھر میں یہ بات لکھ دیتا ھوں کے راجہ محمد ریاض کے حق میں ، اسکی اپیل پر 5 جولائی 2015 کو اسکے حق میں آنے والا  سپریم کوڑٹ کے دو رکنی  بینچ کا فیصلہ  کے اسکو وھی تنخواہ اور پنشن میں انکریز دیا جائے جو حکومت پاکستان اپنے سول ملازمین کو دیتی ھے اور اس فیصلے کی بنیاد سپریم کوڑٹ کے تین رکنی بینچ کا مسعود بھٹی کیس میں 7 اکتوبر 2011  کا وہ فیصلہ تھا ، جس میں یہ قرار دیا گیا تھا کے  پی ٹی سی ( یعنی کارپوریشن) سے یکم جنوری 1996کو پی ٹی سی ایل (یعنی کمپنی ) میں ٹرانسفر ھونے والے ملازمین جو پی ٹی سی ایل کا حصہ بن گئے تھے , انپرپی ٹی سی ایل میں حکومت پاکستان کے سرکاری قوانین یعنی statutory rules ھی استعمال ھونگے اور پی ٹی سی ایل یا حکومت پاکستان کو اس  کا زرا سا بھی اختیار نھيں کے وہ وہ انکے سروس ٹرمز اور کنڈیشنس ( یعنی وہ سروس ٹرمز اور کنڈیشنس جو سول سرونٹ ایکٹ 1973  میں سیکشن 3 سے سیکشن 22 تک شامل ھیںں )  کسی بھی ایسی منفی (adverse) تبدیلی نہیں کرسکتے جن سے ان پی ٹی سی ایل میں آئے ھوئے ملازمین کو جو اب پی ٹی سی ایل کا حصہ بن چکے ھیں کوئی بھی نقصان پہنچے [ ایسے ان تمام پی ٹی سی ایل ملازمین کو یہ کے وہ آئین پاکستان کی شق 199 کے تحت ھائی کوڑٹوں میں پی ٹی سی ایل کی انتظامیہ کے  خلاف کیس کرنے کا اختیار حاصل ھے (یعنی وہ انکے آئینی پٹیشن داخل کرسکتے ھیں ) کے  اگر یہ انتظامیہ اس سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی ان شقوں  (یعنی ٹرمز اینڈ کنڈیشنس یعنی جو سیکشن 3 سے سیکشن 22 تک دی گئیں ھيں)  کسی ایک کی بھی  خلاف ورزی (violation ) کریں . یہ بات سپریم کوڑٹ کے پانچ رکنی بینچ نیں اپنے اس  تفصیلی فیصلےمیں یعنی  2016SCMR1362  میں لکھیں ھیں یعنی  اس فیصلے میں جو16 مارچ 2016 کو جاری ھوا جسکا شاڑٹ آڈر انھوں نے پی ٹی سی ایل کی مسعود بھٹی کیس کے خلاف ڈالی ھوئی رویو پٹیشن کو خارج کرتے ھوئے 19 فروری 2016 کو دیا تھا  (اسکے لئے پڑھیں اس فیصلے کا پیرا 6 ، اختتام سے زرا پہلے). دکھ اور افسوس اس بات کا ھے کے پی ٹی ای ٹی نے اسی کی شق 19 کی خلاف ورزی کی اور ھزاروں پی ٹی سی ایل کے ایسے ملازمین کو وی ایس ایس ایس 2008 میں پنشن دینے سے محروم کردیا جنکی سروس  انیس انیس سال تک کی بھی تھی جبکے اس   شق 19 کے مطابق " جو بھی سرکاری ملازم ریٹائر ھوگا وہ پنشن یا گریجویٹی کا حقدار ھوگا . جبکے گورنمنٹ کے سول سروس رولز کی شق 474(AA)  کے تحت پنشن کا حقدارھونے کی  کوالیفائینگ سروس کم از کم دس سال ھونی چاھئے . اگر کسی ایسے دس سال کی سروس ھونے پر ریٹآئر کردیا جاتا ھے کسی بھی طریقے سے جبری یا وی ایس ایس کے زریعے یا میڈیکل گراؤنڈ یا وی ایس ایس دینے کی صورت میں یا ایسے کسی ملازم کی موت ھو جاتی ھے ، ھرصورت میں اسکو یہ پنشن دی جائیگی یا مرنے کے صورت میں اس فیملی پنشن دی جاتی ھے . [مگر پی ٹی ای ٹی نے اپنے ھی قانون میں دئیے گئے اپنے اختیارات کی خلاف ورذی کرتے ھوئے اور پھر اس  شق 19 کی خلاف ورزی کرتے ھوئے ، پی ٹی سی ایل اتظامیہ کی ایما پر ،  وی ایس ایس ۲۰۰۸ لے کر ریٹائیر ھونے والےان ایسے پی ٹی سی ایل کے ملازمین تک کو بھی پنشن بلکل نھیں دی جنکی سروس انیس سال سے تو زیادہ تھی مگر بیس سال سے کم تھی. اور بیچارے ایسے پی ٹی سی ایل کے وی ایس ایس ۲۰۰۸ ریٹائر ھونے والے ملازمین , اس قانون سے  کم علمی کے باعث عدالت سے بھی نہ رجوع کرسکے . ان پی ٹی ای ٹی نے ان ایسے ملازمین کو جو وی ایس ایس 1998 لے کر ریٹائر ھونے والے نہ صرف دس دس سال کی کولیفائنگ سروس رکھنے والوں کو ھی صرف  پنشن نہیں دی بلکے انتک کو دی جن کی کولیفائنگ سروس 9 سال 6 ماہ تھی یا اس سے زیادہ مگر دس سال سے کم ، کیونکے گورنمنٹ سروس رولز کی شق    423(1) کے تحت  9 سال 6 ماہ  یا اس سے زیادہ مگر دس سال سے  کم کولیفائنگ سروس  صورت میں ، پنشن دینے ، کے لئے یہ کمی خود بخود condone  یعنی معاف ھوجاتی ھے   ].




اب میں اپنے اوپر دئیے ھوؤے بیان کے مطابق ان پی ٹی سی ایل کے معزز بزرگ سنئیرز پنشنروں کی طرف آتاھوں ھوں جنکی عمر 75 سال کی ھوچکی ھے مگر ابھی تک انکی کمیوٹڈ پنشن بحال نھيں ھوئی ھے پی ٹی ای ٹی کو بھی سپریم  کوڑٹ کے اسی  حکم کے تحت ایسے پی ٹی سی ایل کے بزرگ پنشنروں کوانکی عمر 75 ھونے پر انکی commuted pension کو نہ صرف حکومت کے 7 جولائی 2015 کے فیڈرل گورنمنٹ کے نوٹیفیکیشن کے مطابق نہ صرف restore کرنا چاھئے تھا بلکے اسکے ساتھ بلکے اسکےساتھ اس پر 15سالوں میں لگے تمام سال بہ سال گورنمنٹ پنشن انکریزز  کے بقایا جات بھی.  مگر یہ پی ٹی ای ٹی والے بیحد ھٹ دھرمی دکھارھے ھیں اور ان بزرگ پی ٹی سی ایل پنشنروں کی کمیوٹڈ پنشن کو قانون کے مطابق انکی 75 سال کی عمر ھونے کے باوجود ، انکی commuted pension اسکے ساتھ پچھلے پندرہ سال کے  پنشن انکریزز کے ساتھ نھیں بحال کررھے ھیں اور یہ لوگ ایک غیر قانونی اور غیر آئینی کام کررھے ھیں . اب جب بھی یہ بحال کریں گے تو انکو اسپر 5% مارک بطور جرمانہ بھی  دینا پڑے گا ، اس دن سے جس دن سے ایسوں کی کمیوٹڈ پنشن ریسٹور ھونا تھی مگر نھیں ھوئی  ،  یہ ھی عدالت عظمی نے حکم  بھی دیا ھے. اس پی ٹی ای ٹی کا تو مگر اب یہ حال ھے ،جب کوئی بھی اب ایسے بزرگ پی ٹی سی ایل پنشنر 75 عمر پر پہنچنے پر یہ درخواست ڈائریکٹر پنشن پی ٹی ای ٹی لاھور کو بھیجتے ھیں (  اس طریقے کار اے مطابق جو پی ٹی ای ٹی نے اپنی ویب سائٹ پر دے رکھا ھے کے کمیوٹڈ پنشن کو restore کرانے ے لئے انکو کیا کیا کرنا پڑے گا) تو سب کو ایک ھی طرح کا سائیکلوسٹائلک جواب آتا ھے ڈائریکٹر پنشن لاھور کی طرف سے . . . "  کے چونکے ابھی ھمیں پی ٹی ای ٹی ھیڈ کوارٹر سے حکومت کا وہ نوٹیفیکیشن endorse ھوکر نہیں آیا   (یعنی جس میں کمیوٹڈ پنشن کو restore کرنے کا کہا گیا ھے ) اس لئے ھم آپ کی کمیوٹڈ پنشن restore نہیں کرسکتے ."


 یہ بات مجھے جب معلوم ھوئی جب مجھے میرے بہت ھی معزز دوست  اور سنیر پی ٹی سی ایل ریٹائڑڈ آفیسر سید مختار حسین صاحب سابقہ چیف انجینئر  ، جو آجکل مستقل ھوسٹن امریکہ میں رھتے ھیں ، نیں بتایا  ، جب وہ پچھلے سال پاکستان آۓ اور انھوں نے مجھ سے مشورہ کرکے  ڈائریکٹر پنشن پی ٹی ای ٹی لاھور   کو یہ درخواست بھجوائی  دسمبر 2016 میں [ جس طرح سے پی ٹی ای ٹی  نے اپنی ویب سائٹ پر دے رکھی ھے ] بھجوائی کے انکی کمیوٹڈ پنشن کو  یکم جنوری 2017 سے restore کیا جائے جب انکی عمر 75 سال ھوجائیگی کیونکے وہ یکم جنوری 2002 کو ریٹائر ھوئے تھے اور جواب میں انکو  انوار صاحب  ڈائیریکٹر پنشن  پی ٹی ای ٹی لاھور کے آفس سے یہ سائیکلوسٹائلک لیٹر جسکا نمبر


Director Accounts(Pension) PTET Lahore No Pen/PTET/LHR/H Dated -06-2016 .آیا جس پر وھی لکھا تھا  کے چونکے ابھی ھمیں پی ٹی ای ٹی ھیڈ کوارٹر سے حکومت کا وہ نوٹیفیکیشن endorse ھوکر نہیں آیا۔ اس لئے ھم آپ کی کمیوٹڈ پنشن restore نہیں کرسکتے ."  محترم مختار صاحب نے ڈائیریکٹر پنشن  پی ٹی ای ٹی لاھور کو یہ درخواست دسمبر 2016 میں بھیجی تھی وہاں سے جو یہ  جوابی لیٹر آیا وہ جولائی 2016 کا تھا اور اسپر مختار صاحب کی درخواست کے ریفرنس سے یہ لکھا تھا جو اوپر بیان کرچکا ھوں  . ماشاللہ کتنے efficient لوگ ھیں ڈایریکٹر پنشن لاھور کے آفس والے ھیں مجھے تو یہ لوگ سکھ لگتے ھیں . انکو تو داد دینی چاھئے انھوں نے تو محترم مختار صاحب کے جواب کا لیٹر تو پانچ ماہ پہلے ھی تیار کرلیا تھا ؟؟؟؟؟؟؟ .  یہ تو انکی بدحوا سی کا عالم ھے . اس طرح اور ایسوں کو بھی اسی قسم کے لیٹرز آئے . میں نے معزز مختار صاحب کو مشورہ دیا کے پہلے آپ سب ایسے لوگ اس ڈائیریکٹر پنشن  پی ٹی ای ٹی لاھور کے اس لیٹر کے ریفرنس سے ایم ڈی پی ٹی ای ٹی اسلام آباد کو اپیل کریں اور نوٹس دیں اور پھر اگر نوٹس پیريڈ میں کوئی جواب نہیں آتا یا منفی آتا ھے  تو آپ سب لوگ سندھ ھائی کوڑٹ میں ( کیونکے سب کا تعلق کراچی سے تھا )  انکے خلاف کیس کردیں . انھوں نے ایسا ھی کیا اور کیس کردیا . کل جب میری انسے بات امریکہ سے میسنجر پر ھوئی، تو انھوں نے بتایا کے کے انکا کیس چھ ماہ بعد عدالت میں لگا تھا مگر hearing  کے بغیر ھی adjourned ھوگیا . اب دیکھیں کب لگتا ھے .  


میں سمجھتا ھوں کے ایسے تمام  پی ٹی سی ایل  کے بزرگ پنشنرس جنکی عمر 75 سال کی ھوگئی ھے اور انھوں  نے اپنی کمیوٹڈ پنشن کو restore کرنے کی درخواست ڈائیریکٹر پنشن لاھور کو دیں لیکن انکو وھی  سائیکلوسٹائلک  جواب آتا ھے ، تو وہ پہلے اس جواب کے خلاف ایم ڈی پی ٹی ای ٹی  اسلام آباد کو اپیل کریں اور انکو لکھیں کے انکی پنشن سپریم کوڑٹ کے مزکورہ حکم یعنی 2014SCMR1336 کے مطابق اور گورنمنٹ آف پاکستان کے نوٹفیکیشن بتاریخ 7 جولائی 2015 [ اس نوٹیفیکیشن  کی فوٹو کاپی نیچے پیسٹ ھے ] کے مطابق فیلفور  بمعہ اس میں پنشن کے گورنمنٹ آضافہ جات restore  کیئے  جائیں پندرہ دن کے اندر اندر ادا کئے جائیں اور اگر ایسا نہ کیا گیا وہ انکے خلاف سپریم کوڑٹ کے احکامات کی خلاف ورزی پر  جو اسنے  میں دئے ھیں ، انکے اور ڈائیریکٹر پنشن لاھور کے خلاف توھین عدالت کا کیس کریں گے .اس اپیل کی کاپی ڈائریکٹر پنشن لاھور انوارصاحب کو ضروردیں ، انکے اس لیٹر کا ریفرنس quote کرکے جس میں انھوں نے یہ دینے سے انکار کیا . اور پھر کوئی جواب مقرر مدت میں نہیں آئے یا منفی آئے تو سب مل کر ھائی کوڑٹوں میں انکے خلاف توھین عدالت کے کیسسز کریں جسطرح ان پنجاب کے ایسے بزرگ پنشنروں نے بار بار کئے تھے اور اپنا حق لے کر رھے .


آخر میں ، میں یہ بات کہنا چاھتاھوں مجھے ایسے کوئی بھی آثار نظرنہیں آتے کے یہ پی ٹی ای ٹی اور پی ٹی ٹی سی ایل والے سپریم کوڑٹ ے ان احکامات پرعمل کریں گے اور ھم کو ھمارا حق دیں گے. وہ کسی نہ کسی جیلے بہانے سے ایسے اقدام کرنے کی کوشش کریں گے کے عدالتوں کے ان احکامات پر عمل بھی نہ ھو اور انکے خلاف کوئیی بھی کاروائی نہ ھو ، توھین عدالت کی . وہ تو چاھیں گے یہ سارے جلدی مر کھپ جائیں تاکے ان کو یہ کہنے کو مل سکے کے ھم کس پر عمل کریں.  لیکن ھم سب کو انکو ایسا کرنے کا موقع نہیں دینا چاھئیے ، انکے خلاف ڈٹ جانا چاھئے جسطرح پنجاب جکومت کے خلاف وہ  بزرگ پنشنرس ڈٹ گئے تھے اور اپنا حق لے کر رھے . بیشک اس میں کچھ تاخیر تو ھوئی لیکن وہ سب کامیاب تو ھوگئے . تو ھم میں سے کسی کو مایوس نہیں ھونا چاھئے اور نہ واویلا کرنا چاھئے اور نہ خدا سےگلہ . یاد رکھیں کے خدا کے ہاں دیر تو ضرور ھے مگر اندھیر نھیں . ھمیں اپنی تمام کوششیں قانون کے دائرے میں رھتے ھوئی کرنی چاھئیں اور ساتھ مسلسل قانونی پر امن اجتجاج کو بھی جاری رکھنا چاھئے .اپن صفوں میں مکمل اتحاد رکھنا جاھئے . عدالت کے علاوہ ھر اس فورم کے پاس جانا چاھئے جن سے ھم کو زرا سی بھی امید ھو کے انکے پاس جانے سے ھمارا مسعلہ حل ھوسکتا ھے . گورنمنٹ، پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی یہ سب ھمارا حق نہ دے کر سخت ترین توھین عدالت کے مرتکب ھورھے ھيں . پی ٹی سی ایل تو چلو ایک پرائویٹ کمپنی ھے اور اس کے کرتا دھرتا چاھیں گے ھمارا مسعلہ ھر گز حل نہ ھو ،، کیونکے جو پنشن کے بقایا جات دینے ھیں انکے کے لئے انکو بھی لازمن contribute کرنا پڑے گا اور ایک خطیر رقم پی ٹی ای ٹی کے ٹرسٹ پنشن فنڈ میں جمع کرانی پڑے گی ، ٹرسٹ کے قانون کے مطابق اور پھر اسکے علاوہ جو  گورنمنٹ  والے تنخواھوں کے بقایا جات ھیں سارے انکو اپنے اکاؤنٹ سے ھی دینے پڑیں گے وغیرہ وغیرہ . اسکے لئے انکی جان نکلی جارھی ھے اور سید مظہر حسین پریشان ھے. 


پی ٹی ای ٹی جو ایک ٹرسٹ ھے جسکو گورنمنٹ نے صرف اسلئے بنایا تھا  اور اس میں ٹرسٹ پنشن فنڈ قائم کیا تھا جسکا فرض اور اختیارات  صرف یہ تھا کے جسطرح  پی ٹی ( ری آرگنائزیشن ) ایکٹ 1996  کی کلاز 46 میں دئے گئے ھیں کے وہ سرکاری ملازمین پی ٹی سی ایل پنشنرس کو پنشن دے گورنمنٹ کے پنشن کے قوانین کے مطابق . یعنی انھوں نے ایسے تمام پی ٹی سی ایل کے ان ملازمین کو جن پرگورنمنٹ کے statutory rules استعمال ھوتے ھیں انکو گورنمنٹ کے pension rules کے انکی entitlement  کے مطابق ، انکی ریٹائرمنٹ کے بعد انکو پنشن دینا تھی اور انکو بھی جو پہلے سے ھی ٹی اینڈ ٹی یا پی ٹی سی میں ریٹائر ھوکر پنشن،  مجوزہ گورنمنٹ کے مطابق بہلے ھی سے پنشن لے رھے تھے. پی ٹی ای ٹی تو پرائویٹ نھیں ھوئی تھی اور اسکو پنشن تو اپنے پلے سے نھیں دینی تھی بلکے پی ٹی سے لینی تھی  اسی ایکٹ کے کلاز کی شق (b) کے مطابق اور کتنی لینی تھی ھرسال اسکا تعین تو بوڑڈ آف ٹرسٹی کو اسی ایکٹ  1996 کے کی کلاز 45 کی شق 3 کی سب سیکشن (b) میں پنشن فنڈ کے لئے اسی کلاز 45 کی سیکشن (2) کے تحت ھر سال determined  کرکے یکم جولائی سے ھمیشہ لینی تھی . جسکو پی ٹی سی ایل کمپنی کی establishment پر اسی ایکٹ 1996 کی کلاز 35 میں پہلے ھی واضح کردیا گیا تھا. تو پھر یہ بات سمجھ میں نھیں آتی کے جب پی ٹی ای ٹی کو اپنے پلے سے کچھ نہیں دینا پڑرھا ھے , تو یہ کیوں یے نھیں دے پارھے . اسکا صاف مطلب کے یہ بوڑڈ آف ٹرسٹی کے وہ ممبرز  جن کو گورنمنٹ نامزد کرتی ھے ، جوتین ھوتے ھیں , وہ بری طرح پی ٹی سی ایل کے ساتھ ملے ھوئے ھیں کیونکے دیگر تین ممبرز پی ٹی سی ایل کے ھیں   [ کل چھ ممبر ھوتے ھیں انکا ایک چئیرمین بھی ھوتاھے جن کو یہ تمام نامزد کرتے ھیں . جبکے چئیرمین کا کسی بوڑڈ آف ٹرسٹی کے فیصلوں میں ووٹ کاسٹنگ کا اختیار نھیں ھوتا اسی ایکٹ 1996 کی کلاز 47 کی شق (2) کے تحت. آجکل اسکے چئرمین سید مظہر حسین ھیں اور انکو تین سال سے زیادہ ھوچکے ھیں . تو ظاھر ھے اپنے پی ٹی سی ایل کے حق میں فیصلے کرانے کے لئیے اس نے گورنمنٹ کے ممبرز کو زبردست feedings کی ھوگی اسلئے جبھی تو آجتک یہ پوڑڈ آف ٹرسٹی گورنمنٹ والی پنشن ، عدالت کے حکم کے مطابق  دینے کی approval نہیں دے  پا رھا ھے]. اسلئیے یہ ٹرسٹ عدالتی حکم کی روہ گردانی پر تلا ھواھے . ان سب بوڑڈ آف ٹرسٹی کے ممبران کے خلاف توھین عدالت کا کیس کرنا چاھئیے . اب ھم سب کا لائح عمل یہ ھونا چاھئے کے پھلے ھم سب ایک ، ایک پی ٹی سی ایل کا ایسا ملازم ، پنشنرس اور جو بیوائیں ھیں پھلے قانون کے مطابق ان کو اپیل کریں کے پندرہ دن کے اندر اندر ھمارے یہ تمام واجبات تنخواہ، پنشن والے اور ایسے دسرے واجبات جو گورنمنٹ آف پاکستان نے وقتن فوقتن دئے ھیں جسکو پی ٹی سی ایل اور پی ٹی ای ٹی نے بالکل نھیں دئے وہ سب , راجہ ریاض کیس میں AGPR کی کیلکولیشن کے مطبق تیار کئے گئے ھوں ، ۱۵ دن کے اندر اندر دئیۓ جائیں  ورنہ نہ دینے کی صورت میں ھم عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاننے پر مجبور ھونگے اور آپ سب کے خلاف توھین عدالت کا کیس دائر کرنے میں حق بجانب ھونگے . 


آپ سب لوگ بے فکر رھیں میں ایسی ھی اپیل کا انگلش میں  pattern draft   بنا رھا ھوں جو 75%  تک مکمل ھوچکا ھے . انشاللہ آئندہ  زندگی رھی تو دو یا تین دن میں مکمل کرکے گائیڈ لائین کے ساتھ اپنے آئندہ آڑٹیکل-47 کے زریعے اپنے فیس بک اور بلاگ سائیٹ پر اپلوڈ کردوں گا اور جن سینکڑوں ایسے پی ٹی سی ایل کے دوستوں کے میرے پاس ای میل ایڈرسس پہلے سے ھی موجود ھیں ، ان سب کو ای میل بھی کردوں گا . اب یہ آپ لوگوں کی مرضی اسی کو فالو کرتے ھیں یا نہیں یا اسکا آئیڈیا دیکھ کر خود ھی اپیل تیار کرتے ھيں.


واسلام


محمد طارق اظہر 


ریٹائڑڈ جنرل منیجر( آپس) پی ٹی سی ایل


راولپنڈی


15 نومبر 2016 




Comments

Popular posts from this blog

.....آہ ماں۔

Article-173 Part-2 [Draft for non VSS-2008 optees PTCL retired employees]

‏Article-99[Regarding clerification about the registration of the Ex-PTC employees of any capacity with EOBI by PTCL]