Article-123[ Regarding sacking of Board of Trustees of PTET]
آڑٹیکل ۔۱۲۳
پی ٹی سی ایل م پنشنروں کا اب صرف یہ ھی مطالبہ . . . کے اس متعصب پی ٹی ای ٹی کے بوڑڈ آف ٹرسٹیز کو فوری طور پر تحلیل کیا جائیے اور ان پنشنروں اے جی پی آر یا کسی آزادانہ گورنمنٹ کنڑول ادارہ قائیم کرکے پنشن تقسیم کرنے کا عمل شروع کیا جائیے
عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو
اسلام وعلیکم
اس خاکسار نے ، اپنی 28 جون 202, کو ایم ڈی پی ٹی ای ٹی کو دی ھوئی ای میل کی ھاڑڈ کاپیاں ، اپنے دستخط سے متعلقہ اشخاص کو ۳۰ جون کو بزریعہ ٹی سی ایس سے ارسال کردیں ھیں ، اس کی ایک کاپی فیڈرل سیکریٹری ( ایم او آئی ٹی ٹی ) کے علاوہ ، محترمہ سینیٹر روبینہ خالد صاحبہ چئیر پرسن انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلیکام کو بھی اس عرض کے ساتھ بھیجی ھے ، جو اپنے اس مزکورہ لیٹر کے آخری پیرے میں تحریر ھے ھے ، اس پر عمل کرکے اس بوڑڈ آف ٹرسٹیز کے سخت تادیبی کاروائی کریں ۔ کیونکے اس بوڑڈ آف ٹرسٹیز نے سینیٹ کی 28 جنوری 2020 , کو پی ٹی سی ایل پنشنروں کے حق میں منظور ھونے قرار داد کی خلاف ورزی کی ھے ، جسکا اسکو تمام پی زیادہ سے زیادہ دو مہینے کے اندر عمل کرنا تھا یعنی تمام پی ٹی سی ایل پنشنروں کو گورمنٹ پنشن انکریزز کے تمام بقایا جات, دینے ، اس پر سینیٹ کے رولز بزنس 2012 کی شق (3)196 کے تحت عمل کرنا ضروری تھا ۔ اور اگر اسپر عمل کرنے میں کوئی بھی قباحت تو اسکے ٹھوس وجوھات بھی دو مہینے کے اندر اندر ھی سینیٹ کو بھجوانے چاھئیے تھے اور پھر یہ سینیٹ کی صوابدیدی ھوتی کے وہ ان وجوھات کو قبول کرے یا نہیں . اور نہ قبول کرنے کی صورت میں اور دو مہینے گزرنے کے بعد اس پر عمل کرنا پی ٹی ای ٹی کو لازمی تھا ،
16 جنوری 2020 کو ، جناب ڈپٹی سیکریٹری ( ایڈمن) منسٹری آف آئی و ٹی ٹی، کا ایم ڈی پی ٹی ای ٹی ، کو لکھا ھو خط اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا جس میں انکو متنبہ کیا گیا تھا کے انکو سینیٹ کی 28 جنوری 2020 اور اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے 3 مارچ 2020 کے فیصلوں پر عمل کرنا لازمی ھے ، اس پہلے کوئی ناپسندیدہ حالات پیدا ھوجائیں ۔ لیکن ان موصوف حامد فاروق ایم ڈی نے اس پر عمل کرانے کی یقین دھانی کرانیکے بجائیے عجیب سی بونگیاں مارنی شروع کردیں اور اس پر عمل کرانے سے انکار کردیا ۔ ان کو یہ معلوم ھونا چاھئیے تھا کے دو مھینے کا عرصہ کب کا گزر چکا ھے ، اب سینیٹ کی اس قرا داد پر عمل کرنا ان کا لازمی امر ھے ، اور عمل تو لازمن کرنا پڑے گا by hook or by crook, [بقول ، محترم سینیٹر رحمان ملک صاحب no hanky panky, اس پر تو عمل کرنا ھی پڑے گا [ورنہ انکا کیس یعنی ان بوڑڈ آف ٹرسٹیز جو گھپلے اور فراڈ کئیے ھیں کسطرح پنشن فنڈ اپنے زاتی کاموں اور فضول انویسٹمنٹ میں لگائیے کرکے گھپلے کئیے ایف آئی اے اور نیب کو دے دیا جائیگا ] ورنہ معزز سینیٹ کی طرف سے ، اس بوڑڈ آف ٹرسٹیز کو سخت
تا دیبی کاروائی کا سامنا لازمن کرناپڑ سکتا ھے. اس قرارداد پر عمل نہ کرنے پر معزز سیینیٹرز کا استحقاق سخت مجروح ھوا ھے اور میں سمجھتا ھوں کے انکے خلاف سینیٹ کو سخت ایکشن لینا چاھئیے ورنہ اسکی بہت توقیر ھوگی اور یہ تاثر جائیگا جو بوڑڈ آف اعلی عدلیہ ، عدالت عظمی کے احکامات پر عمل نہیں کرتے انھوں نے سینیٹ کو بھی لال جھنڈی دکھادی اور سینیٹ بھی انکے آگے بے بس ھے ان پنشنروں کا اعلی عدالتوں سے تو اعتماد اور بھروسہ تو ختم ھی ھو چکا ھے جو اپنے ھی احکامات پر ان سے عمل نہ کراسکے. اور وہ سمجھتے ھیں جتنا برا انصاف کا نظام ان عدالتوں کی طرف سے اس ملک میں ھے وھیں ایوان بالا بھی اسی صف میں شامل ھو گیا ھے . میں نے ایم ڈی پی ٹی ای ٹی کے اس جواز کو غلط بیانی قرار دیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کے ان بوڑڈ آف ٹرسٹیز کو پی ٹی ایکٹ 1996 کی شق (a)(2)46 اور پی ٹی ایکٹ 2012 میں دئیے گئیے اختیارات کے طرف ، پی ٹی سی ایل پنشنروں کی سالانہ پنشن انکریز متعین کرنے کا کلی اختیار ھے ۔ وہ اس شق یعنی
(a)(2)46 سے نہیں ھے اور نہ پی ٹی ای ٹی رولز 2012 سے، جسکو عدالت ختم کرچکی ھے [ آپ اسکے بارے میں میرے جواب کے پیرا” 2 “ اور “3” میں دی گئی وضاحت کو ضرور پڑھیں ] ۔
سپریم کوڑٹ نے اپنے 12 جون 2015 ، انکی یہ انٹرپٹیشن مسترد کردی تھی اور اسکے لئے (d)(1)46 صحیح قرار دی اور ان پی ٹی رولز 2012 کو پشاور ھائی کوڑٹ اسکو کلعدم قرار دے دیا تھا جو سابقہ جنرل منیجر مرحوم یوسف آفریدی نے پشاور ھائی کوڑٹ
WP/2657/2012میں میں داخل کی تھی ( تفصیل میرے اسی لیٹر میں موجود ھے ) اور اسکے خلاف رویو پٹیشن بھی خارج کردی تھی ۔ یہ رویو پٹیشن فیڈرل سیکریٹری منسٹری آئی ٹی اینڈ ٹی نے بزریعہ
CRP -567/2015
داخل کی تھی
اسکے متعلق بہت اھم بات آپکو بتا چاھتا ھوں کے انھوں اپی نی اس رویو پٹیشن کے پیرا 2 میں لکھا تھا کے عدالت عظمی نے پی ٹی ایکٹ 1996 کی شق (a)(2)46 کے مطابق فیصلہ نہ کرکے ، اور (d)(1)46 کے تحت فیصلہ کرکے غلطی کی ھے ۔ اسکو اسکا شق (a)(2)46 کے تحت کرنا چاھئیے تھا جو بوڑڈ آف ٹرسٹیز کو پنشن کا تعین کرنا کلی اختیار دیتی ھے [ تفصیل میں نے اپنے اس لیٹر کے پیرے 2 میں لکھ دی ھے ] ۔ مگر عدالت نے انکی یہ رویو بھی 17 مئی 2017 کو مسترد کردی تھی ، لیکن یہ بونگا ایم ڈی وھی اب راگ ابتک الاپ رھا ھے کے بوڑڈ آف ٹرسٹی کو کلی اختیار ھے .
اسنے اپنے لیٹر کے آخر میں فرمایا ھے یہاں وہ بوڑڈ کو کلی اختیار ھے اور اور اب وہ ھی فیصلہ کریں گے کے کیا سینیٹ مقرر کردہ قرار داد اور ھائی کوٹ کے فیصلوں کے مطابق کیا پنشن دینا چاھئیے یا نہیں ۔ اسکے لئیے ان بوڑڈ آف ٹرسٹیز کے ممبران سے ویڈیو لنک کے زریعے میٹنگ بلانے کی کوشش کر ررھے ھیں ۔ مطلب یہ ھو ایم ڈی صاحب کی نظروں میں نہ تو کوئی سینیٹ قرار داد کی کوئی حیثیت ھے اور نہ ھی عدالت کی . جو یہ بوڑڈ آف ٹرسٹیز کے ممبر فیصلہ کریں گے وھی دی جائیں گی [ یاد رھے اس بوڑڈ آف ٹرسٹیز کے تین ممبر گورنمنٹ منسٹری آئی ٹی اینڈ ٹی کے ھیں اور تین پی ٹی سی ایل کے ھیں . اس بوڑڈ آف ٹرسٹیز کا چئیرمین پی ٹی سی ایل کا ایس ای وی پی مظہر حسین ھے جو دس سال سے چئیرمین براجمان ھے ، جبکے چئیرمین کا ٹینیور تین سال کا ھوتا ھے . ان میں منسٹری آئی ٹی اینڈ ٹی کے موصوف جناب تیمور خان جائینٹ سیکریٹری ( ایڈمن ) بھی شامل ھیں ، جنھوں نے یہ , 16 جون 2020 کو یہ
ایم ڈی پی ٹی ای ٹی کو خط لکھا ھے ]
نوٹ:
آخر میں آپکو ایک بہت ھی اھم بات بتانا چاھتا ھوں یہ مجھے ناممکن نظر آرھا ھے کے حکومت اس بوڑڈ آف ٹرسٹیز کو تحلیل کرکے ھماری خواہش کے مطابق اے جی پی آر یا کسی اور ادارے کو قائیم کرکے یہ پنشن تقسیم کروائیے ، ابھی تک ھم جو ھمارا حق نھیں ملا اس میں پی ٹی ای ٹی بوڑڈ سے زیادہ حکومت کا ھاتھ مجھے نظر آتا ھے . حکومت اگر چاھتی تو کب کی یہ پنشن کی پیمنٹ ھم کو ھو چکی ھوتی بلکے یکم جولائی ۲۰۱۰ سے پنشن میں کمی بھی نہیں ھوتی . آپ کو معلوم اس ٹرسٹ کو چلانے ک زمہ دار اسکا بوڑڈ آف ٹرسٹیز ھے نا گورنمنٹ نا پی ٹی سی ایل . اس بوڑڈ کے چھ ممبر ھوتے ھیں تین گورنمنٹ کے اور تین پی ٹی سی ایل کے ۔ کسی بھی فیصلے کا اور اس پر عمل کرنے کا دارومدار میجاڑٹی ووٹ کی کاسٹنگ سے ھوتا ھے ۔ اسکا جو چئیرمین ھوتا ھے اسکا ووٹ شمار ھی نھیں ھوتا جبکے اسکا اجلاس بلانے اختیار صرف چئیرمین کے کو ھی ھے ۔ مارچ یا اپریل 2010 اسکا چئیرمین پی ٹی سی ایل کا مظہر حسین ایس ای وی پی ھے ، تو اگر گورنمنٹ کی منشا نہ ھوتی تو کبھی بھی یکم جولائی ۲۰۱۰ سے یہ پنشن میں کٹوتی نہ ھوتی ۔ یہ پی ٹی سی ایل کی خواہش تھی کے اسکو کم سے کم پنشن فنڈ میں سالانہ کنٹری بیوشن دینی پڑے جب ھی اسنے گورمنٹ کے ممبران سے ملُکر یہ پنشن کٹوتی کروائی اور اسطرح جب سپریم کوڑٹ نے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کو یہ گورمنٹ پنشن انکریز دینے کا حکم دیا جو بوڑڈ آف ٹرسٹیز نے منظور نھیں کیا اگر حکومت چاھتی تو میجاڑٹی ووٹ ھونے کے سبب اس پر عمل کرا دیتی ، حکومت نے صرف یہ ھی نہیں کیا بلکے عدالت کے اس فیصلے کے خلاف ھر سال کم سے کم بوڑڈ کی منظور کردہ پنشن دینے کو منظور کیا اگر حکومت چاھتی تو ایسا کبھی نہیں ھوسکتا تھا ، یاد رھے اسکا
چئیر مین پی ٹی سی ایل کے تین ممبروں میں سے مظہر حسین ھے جو اسوقت بھی تھا اور اب بھیی ھے اور یہ سب اسی کی ایما پر گورنمنٹ یہ سب کچھ کررھی ھے کیونکے وہ ایتصلات کمپنی کا نقصان نھیں چاھتی تھی جسکو پنشن فنڈ میں کنٹریبیوشن کے مد میں بہت رقم ادا کرنی پڑتی ھوتی اور اس ۱۲ جون ۲۰۲۵ کے عدالت عظمی کے حکم پر بہت زیادہ رقم دینی پڑتی ، جو پچھلے تمام سالوں یکم جولائی سے کم سے کم دے چکے تھے . حکومت نے انھیں کی ایما پر پی ٹی ای رولز 2012 بنانے کی منظوری دی جو ، حکومت پی ٹی ایکٹ 1996 کی کلاز 57 کے تحت ایسے قوانین بنانے کی بلکل بھی مجاز نہیں تھی ، وہ صرف وہی قوانین بنا سکتی تھی جسکا حکم اس کلاز (2)57 کی سب کلازز a سے c تک دیا گیا ھے . بحرحال ان پی ٹی ای ٹی پنشن رولز 2012 کو تو معزز پشاور ہائیکورٹ نے 3 جولائی 2014 کے اپنے ، سابق جنرل منیجر مرحوم یوسف آفریدی صاحب اور دیگر کے ذریعہ دائر پٹیشن نمبر
WP -2657/2012
کے فیصلے میں ختم کردیا تھا ، اور یہ حکم دیا تھا کہ اس طرح کے پی ٹی ای ٹی پنشن قواعد 2012 صرف ان کمپنی ملازمین پر لاگو ہوں گے ، جنھوں نے یکم جنوری 1996 کے بعد کمپنی میں شمولیت اختیار کی ھے ۔ پی ٹی ای ٹی نے ای ٹی نے اس فیصلے کے خلاف
سپریم کوڑٹ میں CPs 1597 ، 1602 کے زریعے 2014 میں , اس فیصلے کے خلاف اپیلیں بھی داخل کیں جو معزز عدالت سپریم کوڑ ٹ نے اپنے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے ڈسمس کردیں ۔ یہ 2015 ایس سی ایم آر 1472 میں میں رپورٹ شدہ ھیں . مگر حیرت انگیز طور ہر خلاف رویو پٹیشن فیڈرل سیکریٹری منسٹری آئی ٹی اینڈ ٹی نے بزریعہ
CRP -567/2015
داخل کی تھی جبکے فیڈرل سیکریٹری منسٹری آئی ٹی اینڈ ٹی اسکی آریجنل پٹیشن ، جسکا فیصلہ 12 جون 2015 کو آیا تھا اس میں تو پاڑٹی بھی نھیں تھے ، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ھے کے حکومت کسی بھی طرح کا پی ٹی سی ایل پنشنروں کا بھلا نھیں چاھتی تھی بحر حال خدا کا شکر ھے یہ رویو پٹیشنیں بھی 17 مئی 2017کو مسترد کردی گئی اور پی ٹی ای ٹی رولز 2012 کے اطلاق پی ٹی سی ایل کے ان ملازمین پر سے ھمیشہ کے لئیے ختم ھوگیا ، جو یکم جنوری 1996 کو
کارپوریشن سے ٹرانسفڑڈ ھو کر آئیے تھے .
بحرحال مدینہ کی ریاست کی حکومت کا تاثر دینے والی اس حکومت نے بھی پی ٹی سی ایل کی 26 % شئیر ھولڈر کمپنی ایتصلات کو مالی نقصانات بچانے کے لئیے پی ٹی سی ایل پنشنروں کے مفاد کا سودا کیا اور انکو ڈبل کراس کرتے ھوئیے پی ٹی سی ایل کی مدد کی حکومت چاھتی تھی کے پی ٹی سی ایل پنشنروں کو یہ عدالتوں اور سینیٹ کے منظور کردہ قرار کے مطابق کوئی بھی رقم نہ ملے جس سے کمپنی ایتصلات کو نقصان ھو ۔
آپ لوگوں کو یاد کے ابھی کچھ عرصے پہلے ایتصلات کا ایک مراسلہ آیا تھا جس نے پی ٹی سی ایل پنشنروں کو ان رقوم کی ادئیگی کی سختی سے ممانعت کی تھی ۔ اسکے علاوہ اور بہت سے جواز میرے پاس ھیں ھیں جو یہ ظاھر کرتے ھیں کے نہ تو پچھلی حکومتیں اور نہ ھی یہ مدینے کی ریاست شو کرنے والی حکومت یہ چاھتی ھے کے انکو یعنی پی ٹی سی ایل پنشنروں زرا سا بھی کچھ دیا جائیے .
میں نے کتنے ٹویٹ عمران خان وزیراعظم پاکستان کو اسکے زاتی ٹویٹ ایڈریس پر کئیے ، آپ سب جانتے ھی ھیں لیکن مجال ھے کسی ایک کا جواب بھی آیا ھو یا ان پی ٹی سی ایل پنشنروں کو پنشن دینے کا کوئی بھی اقدام اٹھایا گیا ھو.
میں ، انشاللہ صبح ، فیڈرل سیکریٹری منسٹری آئی ٹی اینڈ ٹی کو ایک ای میل کررھا ھوں اور ان سے یہ صرف استفسار کروں گا کے ھم پنشنروں کو تو وہ یقین دلاتے ھیں کے انکو عدالت اور سینیٹ کے احکامات کے مطابق پنشن دیں گے اور دوسری طرف وہ اپنی منسٹری آئی ٹی اینڈ ٹی کے ن تین ممبروں کو سختی سے منع کر رکھا ھے کے خبردار ان پی ٹی سی ایل پنشنروں کو ان پنشن کے بقایاجات کی دینے کی منظوری نہ دینا۔ یہ ڈبل گیم ھمارے ساتھ یہ کیوں حکومت کھیل کررھی ھے اگر حکومت چاھے تو یہ سب پیمنٹ منٹوں میں ادا کراسکتی ھے . میں سارے جواز انکو تحریر کرونگا کے ایسا ھم لوگ کیوں سمجھتے ھیں ؟ ۔ انشاللہ آپ لوگوں سے بھی اس ای میل کو شئیر کرونگا انشاللہ.
ھماری کوشش جاری رھے گی کبھی نہ کبھی تو اللہ ھماری ضرور سنے گا انشاللہ۔ اسکے یہاں دیر تو ضرور ھے پر اندھیر تو نہیں ۔
بہت بہت شکریہ اسکو تفصیل سے پڑھنے کا.
واسلام
طارق
شب ۱۲:۵۰
بمطابق ۲ جولائی ۲۰۲۰
پی ٹی سی ایل م پنشنروں کا اب صرف یہ ھی مطالبہ . . . کے اس متعصب پی ٹی ای ٹی کے بوڑڈ آف ٹرسٹیز کو فوری طور پر تحلیل کیا جائیے اور ان پنشنروں اے جی پی آر یا کسی آزادانہ گورنمنٹ کنڑول ادارہ قائیم کرکے پنشن تقسیم کرنے کا عمل شروع کیا جائیے
عزیز پی ٹی سی ایل ساتھیو
اسلام وعلیکم
اس خاکسار نے ، اپنی 28 جون 202, کو ایم ڈی پی ٹی ای ٹی کو دی ھوئی ای میل کی ھاڑڈ کاپیاں ، اپنے دستخط سے متعلقہ اشخاص کو ۳۰ جون کو بزریعہ ٹی سی ایس سے ارسال کردیں ھیں ، اس کی ایک کاپی فیڈرل سیکریٹری ( ایم او آئی ٹی ٹی ) کے علاوہ ، محترمہ سینیٹر روبینہ خالد صاحبہ چئیر پرسن انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلیکام کو بھی اس عرض کے ساتھ بھیجی ھے ، جو اپنے اس مزکورہ لیٹر کے آخری پیرے میں تحریر ھے ھے ، اس پر عمل کرکے اس بوڑڈ آف ٹرسٹیز کے سخت تادیبی کاروائی کریں ۔ کیونکے اس بوڑڈ آف ٹرسٹیز نے سینیٹ کی 28 جنوری 2020 , کو پی ٹی سی ایل پنشنروں کے حق میں منظور ھونے قرار داد کی خلاف ورزی کی ھے ، جسکا اسکو تمام پی زیادہ سے زیادہ دو مہینے کے اندر عمل کرنا تھا یعنی تمام پی ٹی سی ایل پنشنروں کو گورمنٹ پنشن انکریزز کے تمام بقایا جات, دینے ، اس پر سینیٹ کے رولز بزنس 2012 کی شق (3)196 کے تحت عمل کرنا ضروری تھا ۔ اور اگر اسپر عمل کرنے میں کوئی بھی قباحت تو اسکے ٹھوس وجوھات بھی دو مہینے کے اندر اندر ھی سینیٹ کو بھجوانے چاھئیے تھے اور پھر یہ سینیٹ کی صوابدیدی ھوتی کے وہ ان وجوھات کو قبول کرے یا نہیں . اور نہ قبول کرنے کی صورت میں اور دو مہینے گزرنے کے بعد اس پر عمل کرنا پی ٹی ای ٹی کو لازمی تھا ،
16 جنوری 2020 کو ، جناب ڈپٹی سیکریٹری ( ایڈمن) منسٹری آف آئی و ٹی ٹی، کا ایم ڈی پی ٹی ای ٹی ، کو لکھا ھو خط اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا جس میں انکو متنبہ کیا گیا تھا کے انکو سینیٹ کی 28 جنوری 2020 اور اسلام آباد ھائی کوڑٹ کے 3 مارچ 2020 کے فیصلوں پر عمل کرنا لازمی ھے ، اس پہلے کوئی ناپسندیدہ حالات پیدا ھوجائیں ۔ لیکن ان موصوف حامد فاروق ایم ڈی نے اس پر عمل کرانے کی یقین دھانی کرانیکے بجائیے عجیب سی بونگیاں مارنی شروع کردیں اور اس پر عمل کرانے سے انکار کردیا ۔ ان کو یہ معلوم ھونا چاھئیے تھا کے دو مھینے کا عرصہ کب کا گزر چکا ھے ، اب سینیٹ کی اس قرا داد پر عمل کرنا ان کا لازمی امر ھے ، اور عمل تو لازمن کرنا پڑے گا by hook or by crook, [بقول ، محترم سینیٹر رحمان ملک صاحب no hanky panky, اس پر تو عمل کرنا ھی پڑے گا [ورنہ انکا کیس یعنی ان بوڑڈ آف ٹرسٹیز جو گھپلے اور فراڈ کئیے ھیں کسطرح پنشن فنڈ اپنے زاتی کاموں اور فضول انویسٹمنٹ میں لگائیے کرکے گھپلے کئیے ایف آئی اے اور نیب کو دے دیا جائیگا ] ورنہ معزز سینیٹ کی طرف سے ، اس بوڑڈ آف ٹرسٹیز کو سخت
تا دیبی کاروائی کا سامنا لازمن کرناپڑ سکتا ھے. اس قرارداد پر عمل نہ کرنے پر معزز سیینیٹرز کا استحقاق سخت مجروح ھوا ھے اور میں سمجھتا ھوں کے انکے خلاف سینیٹ کو سخت ایکشن لینا چاھئیے ورنہ اسکی بہت توقیر ھوگی اور یہ تاثر جائیگا جو بوڑڈ آف اعلی عدلیہ ، عدالت عظمی کے احکامات پر عمل نہیں کرتے انھوں نے سینیٹ کو بھی لال جھنڈی دکھادی اور سینیٹ بھی انکے آگے بے بس ھے ان پنشنروں کا اعلی عدالتوں سے تو اعتماد اور بھروسہ تو ختم ھی ھو چکا ھے جو اپنے ھی احکامات پر ان سے عمل نہ کراسکے. اور وہ سمجھتے ھیں جتنا برا انصاف کا نظام ان عدالتوں کی طرف سے اس ملک میں ھے وھیں ایوان بالا بھی اسی صف میں شامل ھو گیا ھے . میں نے ایم ڈی پی ٹی ای ٹی کے اس جواز کو غلط بیانی قرار دیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کے ان بوڑڈ آف ٹرسٹیز کو پی ٹی ایکٹ 1996 کی شق (a)(2)46 اور پی ٹی ایکٹ 2012 میں دئیے گئیے اختیارات کے طرف ، پی ٹی سی ایل پنشنروں کی سالانہ پنشن انکریز متعین کرنے کا کلی اختیار ھے ۔ وہ اس شق یعنی
(a)(2)46 سے نہیں ھے اور نہ پی ٹی ای ٹی رولز 2012 سے، جسکو عدالت ختم کرچکی ھے [ آپ اسکے بارے میں میرے جواب کے پیرا” 2 “ اور “3” میں دی گئی وضاحت کو ضرور پڑھیں ] ۔
سپریم کوڑٹ نے اپنے 12 جون 2015 ، انکی یہ انٹرپٹیشن مسترد کردی تھی اور اسکے لئے (d)(1)46 صحیح قرار دی اور ان پی ٹی رولز 2012 کو پشاور ھائی کوڑٹ اسکو کلعدم قرار دے دیا تھا جو سابقہ جنرل منیجر مرحوم یوسف آفریدی نے پشاور ھائی کوڑٹ
WP/2657/2012میں میں داخل کی تھی ( تفصیل میرے اسی لیٹر میں موجود ھے ) اور اسکے خلاف رویو پٹیشن بھی خارج کردی تھی ۔ یہ رویو پٹیشن فیڈرل سیکریٹری منسٹری آئی ٹی اینڈ ٹی نے بزریعہ
CRP -567/2015
داخل کی تھی
اسکے متعلق بہت اھم بات آپکو بتا چاھتا ھوں کے انھوں اپی نی اس رویو پٹیشن کے پیرا 2 میں لکھا تھا کے عدالت عظمی نے پی ٹی ایکٹ 1996 کی شق (a)(2)46 کے مطابق فیصلہ نہ کرکے ، اور (d)(1)46 کے تحت فیصلہ کرکے غلطی کی ھے ۔ اسکو اسکا شق (a)(2)46 کے تحت کرنا چاھئیے تھا جو بوڑڈ آف ٹرسٹیز کو پنشن کا تعین کرنا کلی اختیار دیتی ھے [ تفصیل میں نے اپنے اس لیٹر کے پیرے 2 میں لکھ دی ھے ] ۔ مگر عدالت نے انکی یہ رویو بھی 17 مئی 2017 کو مسترد کردی تھی ، لیکن یہ بونگا ایم ڈی وھی اب راگ ابتک الاپ رھا ھے کے بوڑڈ آف ٹرسٹی کو کلی اختیار ھے .
اسنے اپنے لیٹر کے آخر میں فرمایا ھے یہاں وہ بوڑڈ کو کلی اختیار ھے اور اور اب وہ ھی فیصلہ کریں گے کے کیا سینیٹ مقرر کردہ قرار داد اور ھائی کوٹ کے فیصلوں کے مطابق کیا پنشن دینا چاھئیے یا نہیں ۔ اسکے لئیے ان بوڑڈ آف ٹرسٹیز کے ممبران سے ویڈیو لنک کے زریعے میٹنگ بلانے کی کوشش کر ررھے ھیں ۔ مطلب یہ ھو ایم ڈی صاحب کی نظروں میں نہ تو کوئی سینیٹ قرار داد کی کوئی حیثیت ھے اور نہ ھی عدالت کی . جو یہ بوڑڈ آف ٹرسٹیز کے ممبر فیصلہ کریں گے وھی دی جائیں گی [ یاد رھے اس بوڑڈ آف ٹرسٹیز کے تین ممبر گورنمنٹ منسٹری آئی ٹی اینڈ ٹی کے ھیں اور تین پی ٹی سی ایل کے ھیں . اس بوڑڈ آف ٹرسٹیز کا چئیرمین پی ٹی سی ایل کا ایس ای وی پی مظہر حسین ھے جو دس سال سے چئیرمین براجمان ھے ، جبکے چئیرمین کا ٹینیور تین سال کا ھوتا ھے . ان میں منسٹری آئی ٹی اینڈ ٹی کے موصوف جناب تیمور خان جائینٹ سیکریٹری ( ایڈمن ) بھی شامل ھیں ، جنھوں نے یہ , 16 جون 2020 کو یہ
ایم ڈی پی ٹی ای ٹی کو خط لکھا ھے ]
نوٹ:
آخر میں آپکو ایک بہت ھی اھم بات بتانا چاھتا ھوں یہ مجھے ناممکن نظر آرھا ھے کے حکومت اس بوڑڈ آف ٹرسٹیز کو تحلیل کرکے ھماری خواہش کے مطابق اے جی پی آر یا کسی اور ادارے کو قائیم کرکے یہ پنشن تقسیم کروائیے ، ابھی تک ھم جو ھمارا حق نھیں ملا اس میں پی ٹی ای ٹی بوڑڈ سے زیادہ حکومت کا ھاتھ مجھے نظر آتا ھے . حکومت اگر چاھتی تو کب کی یہ پنشن کی پیمنٹ ھم کو ھو چکی ھوتی بلکے یکم جولائی ۲۰۱۰ سے پنشن میں کمی بھی نہیں ھوتی . آپ کو معلوم اس ٹرسٹ کو چلانے ک زمہ دار اسکا بوڑڈ آف ٹرسٹیز ھے نا گورنمنٹ نا پی ٹی سی ایل . اس بوڑڈ کے چھ ممبر ھوتے ھیں تین گورنمنٹ کے اور تین پی ٹی سی ایل کے ۔ کسی بھی فیصلے کا اور اس پر عمل کرنے کا دارومدار میجاڑٹی ووٹ کی کاسٹنگ سے ھوتا ھے ۔ اسکا جو چئیرمین ھوتا ھے اسکا ووٹ شمار ھی نھیں ھوتا جبکے اسکا اجلاس بلانے اختیار صرف چئیرمین کے کو ھی ھے ۔ مارچ یا اپریل 2010 اسکا چئیرمین پی ٹی سی ایل کا مظہر حسین ایس ای وی پی ھے ، تو اگر گورنمنٹ کی منشا نہ ھوتی تو کبھی بھی یکم جولائی ۲۰۱۰ سے یہ پنشن میں کٹوتی نہ ھوتی ۔ یہ پی ٹی سی ایل کی خواہش تھی کے اسکو کم سے کم پنشن فنڈ میں سالانہ کنٹری بیوشن دینی پڑے جب ھی اسنے گورمنٹ کے ممبران سے ملُکر یہ پنشن کٹوتی کروائی اور اسطرح جب سپریم کوڑٹ نے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کو یہ گورمنٹ پنشن انکریز دینے کا حکم دیا جو بوڑڈ آف ٹرسٹیز نے منظور نھیں کیا اگر حکومت چاھتی تو میجاڑٹی ووٹ ھونے کے سبب اس پر عمل کرا دیتی ، حکومت نے صرف یہ ھی نہیں کیا بلکے عدالت کے اس فیصلے کے خلاف ھر سال کم سے کم بوڑڈ کی منظور کردہ پنشن دینے کو منظور کیا اگر حکومت چاھتی تو ایسا کبھی نہیں ھوسکتا تھا ، یاد رھے اسکا
چئیر مین پی ٹی سی ایل کے تین ممبروں میں سے مظہر حسین ھے جو اسوقت بھی تھا اور اب بھیی ھے اور یہ سب اسی کی ایما پر گورنمنٹ یہ سب کچھ کررھی ھے کیونکے وہ ایتصلات کمپنی کا نقصان نھیں چاھتی تھی جسکو پنشن فنڈ میں کنٹریبیوشن کے مد میں بہت رقم ادا کرنی پڑتی ھوتی اور اس ۱۲ جون ۲۰۲۵ کے عدالت عظمی کے حکم پر بہت زیادہ رقم دینی پڑتی ، جو پچھلے تمام سالوں یکم جولائی سے کم سے کم دے چکے تھے . حکومت نے انھیں کی ایما پر پی ٹی ای رولز 2012 بنانے کی منظوری دی جو ، حکومت پی ٹی ایکٹ 1996 کی کلاز 57 کے تحت ایسے قوانین بنانے کی بلکل بھی مجاز نہیں تھی ، وہ صرف وہی قوانین بنا سکتی تھی جسکا حکم اس کلاز (2)57 کی سب کلازز a سے c تک دیا گیا ھے . بحرحال ان پی ٹی ای ٹی پنشن رولز 2012 کو تو معزز پشاور ہائیکورٹ نے 3 جولائی 2014 کے اپنے ، سابق جنرل منیجر مرحوم یوسف آفریدی صاحب اور دیگر کے ذریعہ دائر پٹیشن نمبر
WP -2657/2012
کے فیصلے میں ختم کردیا تھا ، اور یہ حکم دیا تھا کہ اس طرح کے پی ٹی ای ٹی پنشن قواعد 2012 صرف ان کمپنی ملازمین پر لاگو ہوں گے ، جنھوں نے یکم جنوری 1996 کے بعد کمپنی میں شمولیت اختیار کی ھے ۔ پی ٹی ای ٹی نے ای ٹی نے اس فیصلے کے خلاف
سپریم کوڑٹ میں CPs 1597 ، 1602 کے زریعے 2014 میں , اس فیصلے کے خلاف اپیلیں بھی داخل کیں جو معزز عدالت سپریم کوڑ ٹ نے اپنے ۱۲ جون ۲۰۱۵ کے فیصلے ڈسمس کردیں ۔ یہ 2015 ایس سی ایم آر 1472 میں میں رپورٹ شدہ ھیں . مگر حیرت انگیز طور ہر خلاف رویو پٹیشن فیڈرل سیکریٹری منسٹری آئی ٹی اینڈ ٹی نے بزریعہ
CRP -567/2015
داخل کی تھی جبکے فیڈرل سیکریٹری منسٹری آئی ٹی اینڈ ٹی اسکی آریجنل پٹیشن ، جسکا فیصلہ 12 جون 2015 کو آیا تھا اس میں تو پاڑٹی بھی نھیں تھے ، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ھے کے حکومت کسی بھی طرح کا پی ٹی سی ایل پنشنروں کا بھلا نھیں چاھتی تھی بحر حال خدا کا شکر ھے یہ رویو پٹیشنیں بھی 17 مئی 2017کو مسترد کردی گئی اور پی ٹی ای ٹی رولز 2012 کے اطلاق پی ٹی سی ایل کے ان ملازمین پر سے ھمیشہ کے لئیے ختم ھوگیا ، جو یکم جنوری 1996 کو
کارپوریشن سے ٹرانسفڑڈ ھو کر آئیے تھے .
بحرحال مدینہ کی ریاست کی حکومت کا تاثر دینے والی اس حکومت نے بھی پی ٹی سی ایل کی 26 % شئیر ھولڈر کمپنی ایتصلات کو مالی نقصانات بچانے کے لئیے پی ٹی سی ایل پنشنروں کے مفاد کا سودا کیا اور انکو ڈبل کراس کرتے ھوئیے پی ٹی سی ایل کی مدد کی حکومت چاھتی تھی کے پی ٹی سی ایل پنشنروں کو یہ عدالتوں اور سینیٹ کے منظور کردہ قرار کے مطابق کوئی بھی رقم نہ ملے جس سے کمپنی ایتصلات کو نقصان ھو ۔
آپ لوگوں کو یاد کے ابھی کچھ عرصے پہلے ایتصلات کا ایک مراسلہ آیا تھا جس نے پی ٹی سی ایل پنشنروں کو ان رقوم کی ادئیگی کی سختی سے ممانعت کی تھی ۔ اسکے علاوہ اور بہت سے جواز میرے پاس ھیں ھیں جو یہ ظاھر کرتے ھیں کے نہ تو پچھلی حکومتیں اور نہ ھی یہ مدینے کی ریاست شو کرنے والی حکومت یہ چاھتی ھے کے انکو یعنی پی ٹی سی ایل پنشنروں زرا سا بھی کچھ دیا جائیے .
میں نے کتنے ٹویٹ عمران خان وزیراعظم پاکستان کو اسکے زاتی ٹویٹ ایڈریس پر کئیے ، آپ سب جانتے ھی ھیں لیکن مجال ھے کسی ایک کا جواب بھی آیا ھو یا ان پی ٹی سی ایل پنشنروں کو پنشن دینے کا کوئی بھی اقدام اٹھایا گیا ھو.
میں ، انشاللہ صبح ، فیڈرل سیکریٹری منسٹری آئی ٹی اینڈ ٹی کو ایک ای میل کررھا ھوں اور ان سے یہ صرف استفسار کروں گا کے ھم پنشنروں کو تو وہ یقین دلاتے ھیں کے انکو عدالت اور سینیٹ کے احکامات کے مطابق پنشن دیں گے اور دوسری طرف وہ اپنی منسٹری آئی ٹی اینڈ ٹی کے ن تین ممبروں کو سختی سے منع کر رکھا ھے کے خبردار ان پی ٹی سی ایل پنشنروں کو ان پنشن کے بقایاجات کی دینے کی منظوری نہ دینا۔ یہ ڈبل گیم ھمارے ساتھ یہ کیوں حکومت کھیل کررھی ھے اگر حکومت چاھے تو یہ سب پیمنٹ منٹوں میں ادا کراسکتی ھے . میں سارے جواز انکو تحریر کرونگا کے ایسا ھم لوگ کیوں سمجھتے ھیں ؟ ۔ انشاللہ آپ لوگوں سے بھی اس ای میل کو شئیر کرونگا انشاللہ.
ھماری کوشش جاری رھے گی کبھی نہ کبھی تو اللہ ھماری ضرور سنے گا انشاللہ۔ اسکے یہاں دیر تو ضرور ھے پر اندھیر تو نہیں ۔
بہت بہت شکریہ اسکو تفصیل سے پڑھنے کا.
واسلام
طارق
شب ۱۲:۵۰
بمطابق ۲ جولائی ۲۰۲۰
Comments